|تحریر: پارس جان|
دیر تک مخملی بستر پر بے قرار کروٹیں لینے کے بعدوہ ایک گونج دار چینخ کے ساتھ ایک دم اٹھ بیٹھی۔یہ وہی خواب تھا جو کئی ماہ سے اس کی نیندوں میں خلل ڈال رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے کلاک پر پڑی تو وہ ایک دفعہ پھر چلائی اور برق رفتاری سے واش روم کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ مگر اچانک اس کا سر چکرایا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا اور وہ ’اوہ شٹ‘ کہہ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔ اس نے اسی ٹیبل پر پڑا پانی کا جگ ایک ہی سانس میں خالی کر دیا اور کچھ دیر بے حس و حرکت لیٹی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ اٹھی اور ایک رعب دار آواز لگائی۔
کلثوم۔۔۔۔کلثوم۔۔۔کہاں مر جاتی ہے یہ
ایک منٹ بعد لاغر جسم اور ممنون آنکھوں والی ایک عمر رسیدہ خاتون ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔
جی میڈم صاحبہ
کہاں مر گئی تھی تو میں کب سے آوازیں لگا رہی ہوں۔
جی میڈم صاحبہ میں مہمانوں کے واسطے شام کے کھانے کا اہتمام کرنے کے لئے خانساماں کو ضروری سامان کی فہرست سمجھا رہی تھی۔
تجھے درجنوں بار کہا ہے کہ مجھے جگا دیا کر۔۔جگایا کیوں نہیں ۔۔مجھے اتنی دیر ہو گئی۔
جی میڈم صاحبہ میں ضرور جگا دیتی لیکن کمرے میں آنے سے پہلے آپ نے ہی تو مجھے بلا کر تاکید کی تھی کہ کوئی آپ کو ڈسٹرب نہ کرے۔
اچھا! میں نے؟۔۔۔چلو چھوڑو۔۔تم جلدی سے ناشتہ لگواؤ میں تیار ہو کر آتی ہوں۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب پنکی تیار ہو کر ڈائننگ ہال میں پہنچی تو ناشتہ تیار تھا۔اس نے ناشتہ کرنے سے پہلے بالکنی میں جا کر نیچے نظر دوڑائی تو اسے اپنی گاڑی نظر نہ آئی۔۔وہ پھر زور سے چلائی۔۔۔سعید سعید۔۔
کلثوم نے تحمل سے کہا ۔۔میڈم صاحبہ سعید تو ضروری سامان لینے مارکیٹ گیا ہے۔۔
میں نے اسے سمجھایا بھی تھا کہ میری گاڑی کو کبھی ہاتھ بھی نہ لگائے۔۔۔اس کی خیر نہیں۔۔
اتنے میں فربہ جسم والی ایک انتہائی خوش شکل خاتون ،جو اپنی عمر سے بہت چھوٹی دکھائی دے رہی تھی، انتہائی دلجویانہ مسکراہٹ چہرے پر بکھیرے تیز تیز چلتی ہوئی ڈائننگ روم میں نمودار ہوئی۔یہ پنکی کی ماں تھی۔
بیٹا کیوں اتنا غصہ ہو رہی ہوبھلا۔تمہاری گاڑی سعید تھوڑے ہی لے کر گیا ہے۔۔کیا تمہیں سچ مچ کچھ یاد نہیں؟
کیا مطلب؟ پنکی نے نظریں چراتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
ارے بھائی تم اپنی گاڑی سمیر کے ہاں چھوڑ آئی تھی۔۔ رات کو تمہاری حالت ٹھیک نہیں تھی تو وہی تو صبح چھوڑ کر گیا تھا تمہیں ۔۔۔شاید پانچ یا چھ بج رہے ہونگے۔۔۔
تو میں پاپا کی گاڑی لے جاتی ہوں ۔۔مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔سرکل میں پہنچنا ہے۔۔
آج منسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے میٹنگ بلائی ہے تمہارے پاپا ابھی ابھی تو نکلے ہیں۔۔ تم نے دیکھا نہیں انکی گاڑی بھی تو نہیں ہے نیچے ۔
پنکی کے بابا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں سینئر بیورو کریٹ ہیں۔
تو اب میں کیا کروں؟ پنکی نے مایوس کن لہجے میں برجستہ تشویش کا اظہار کیا۔
کوئی بات نہیں بیٹا۔تم میری گاڑی لے جاؤ۔۔سعید تمہیں ڈراپ کر کے واپس آ جائے گا اور مجھے جم چھوڑ کر بعد میں پھر تمہیں پک کر لے گا ،جب تم کہو،اور پھر تمہیں سمیر کے ہاں چھوڑ آئے گا،وہاں سے تم اپنی گاڑی لے آنا۔
او تھینک یو سو مچ ماما۔۔ پنکی نے جلدی جلدی کافی کی آخری گھونٹ اندر انڈیلی اور ماما کے گال پر بوسہ دے کرتیزی سے جانے کے لئے سیڑھیوں کی طرف لپکی۔۔
ماما نے ایک بار پھر ٹوکا۔۔ارے بات تو سنو سعید کو تو آ جانے دو۔
اوہو مجھے دیر ہو رہی ہے۔اس کے بعد دونوں ماں بیٹی آئندہ ہفتے پنکی کے کزن کی شادی کے لئے شاپنگ اور دیگر لوازمات پر گفت و شنید کرنے لگے۔۔کچھ ہی منٹوں میں گاڑی کا ہارن بجا۔
کلثوم خانساماں کو کہو کہ نیچے آ کر سعید سے سامان لے لے مجھے جلدی ہے۔
ماما نے ایک دفعہ پھر پیچھے سے پنکی کو آواز دی ۔۔بیٹا دیر مت کرنا۔۔سائیں کو اچھا نہیں لگے گا۔۔ تمہیں پتہ ہے نا وہ اور تمہارے پاپا دونوں تمہاری وجہ سے آجکل بہت پریشان ہیں۔جلدی آنا بیٹا۔اور ادھر ادھر نہ نکلنا کہیں حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔
اوکے ماما۔۔ڈونٹ وری ۔۔میں آ جاؤنگی ان کے آنے سے پہلے ہی۔۔
سیڑھیاں اترنے سے قبل اس نے انتہائی مدھر آواز میں کسی کو پکارا۔۔۔ڈیانا۔۔ڈیانا۔۔ڈیانا
اتنے میں ایک چمکیلی آنکھوں والی سفید رنگ کی خوبرو کتیا جس کے جسم پر مختلف رنگوں کے چھوٹے چھوٹے گول گول قدرتی نشانات تھے، جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے، دم ہلاتی ہوئی اور آہستہ آہستہ مدھر سی آواز میں کچھ کہتی ہوئی وارد ہوئی اور پنکی نیچے جھکی تو دونوں ایسے گلے ملے جیسے برسوں بعد قریبی دوست ملتے ہیں۔
کیسی ہو میری ڈیانا؟چلیں؟اور پھر وہ دونوں تقریباً دوڑتے ہوئے سیڑھیوں سے اترے۔
سعید خانساماں کو سامان دے کر جانے کے لیئے تیار تھا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولاتو ڈیانا چھلانگ لگا کر پچھلی نشست پر براجمان ہو گئی ۔اور انتہائی شریر مسکراہٹ کے ساتھ پنکی کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ آپ دوسری طرف سے آؤ۔۔
پنکی نے بھی مسکراہٹ کا جواب طمانیت بھری مسکراہٹ سے دیا اور سعید نے بھاگ کر دوسری طرف سے دروزاہ کھولا۔
اندر بیٹھتے ہوئے وہ ایک بار پھر چلائی ۔۔اب یہ ظہور کہاں مر گیا۔۔
ظہورایک ادھیڑ عمر تنومند سانولے رنگ کا بلوچ تھا جو پنکی کا گارڈ تھا۔
ابھی پنکی کے منہ سے اس کا نام نکلا ہی تھا کہ وہ فوراً آ ٹپکا اور ڈرائیور کے ساتھ اگلی نشست پر اپنی بندوق سمیت بیٹھ گیا۔
تم بہت دیر کر دیتے ہو ظہور۔۔غلطی ہو گئی میڈم صاحبہ۔۔
سعید اب چلدی چلو ہمیں دو بجے سے پہلے صدر پارک پہنچنا ہے۔
مگر میڈم صاحبہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کونسے راستے سے چلیں ،آج جگہ جگہ مولویوں نے دھرنے، جلوس اور جلاؤ، گھیراؤ کر رکھا ہے، کہیں کوئی گڑ بڑ ہی نہ ہو جائے۔
او ہاں ایک تو ان جاہلوں نے جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔خیر تم دیکھ لو کونسا رستہ مناسب رہے گا۔ ظہور تم ہی کچھ بتاؤ۔
ظہور نے اپنے مخصوص لہجے میں ہاتھوں کے اشاروں کی مدد سے سعید کو سمجھانا شروع کیا اور وہ معمول کے رستے سے ہٹ کر قدرے طویل مگر محفوظ راستے پر نکل پڑے۔
پنکی نے مزید دیر ہو جانے کی فرسٹریشن نکالنے کے لئے ملاؤں پر مہذب قسم کی لعن طعن شروع کر دی۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ ظہور اور سعید دونوں پھٹ پڑے اور انہوں نے ملاؤں کوآڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا مگر فرق یہ تھا کہ ان کا لہجہ اور الفاظ دونوں قدرے غیر مہذب تھے۔
پنکی چونک گئی کیونکہ وہ اس کے بالکل مختلف ردِ عمل کی توقع کر رہی تھی اور شاید اس نے یہ موضوع اسی لئے شروع کیا تھا کہ ان دونوں کو تکلیف ہو گی۔ نہ جانے کیوں اپنے سے کم رتبہ لوگوں کو ٹیز کر کے اسے لاشعوری تسکین حاصل ہوتی ہے اور جب وہ کم رتبہ مرد ہوں تو اس کو اور بھی زیادہ مزہ آتا ہے۔اس نے ڈیانا کو گود میں لے کر دو دفعہ چوما۔
اس غیر متوقع ردِ عمل کے بعد اس کا تجسس مزید بڑھ گیا اور اس نے حیرت سے کہا تم لوگ بھی ان ملاؤں کو پسند نہیں کرتے؟دونوں بیک وقت بول پڑے۔ توبہ کریں میڈم صاحبہ۔پھر سعید نے اپنی بات کو جاری رکھا۔ یہ سب دو نمبر لوگ ہیں ہم نے تو کئی سال ان کو سانپوں کی طرح دودھ پلایا اور انہوں نے ہمیشہ ہمیں ہی ڈنک مارے۔ سعید کا تعلق شمالی پشتونخواہ کے کسی گاؤں سے تھا۔ ہم تو اب باز آئے انکی۔۔۔پنکی نے اس کی بات کاٹی اور ظہور سے کہا کہ تم بتاؤ تم کیا کہہ رہے تھے، تم اور تمہارے لوگ تو ان کو پسند کرتے ہیں نا۔۔ ابھی حالیہ الیکشنزمیں تم لوگوں نے تو انہی مولویوں کو کامیاب بھی کروایا ہے نا؟ ظہور بے ساختہ ہنس پڑا۔۔اسکی یہ ہنسی پنکی کی انانیت پر آسمانی بجلی کی طرح گری۔ میڈم صاحبہ الیکشنز تو بس ڈرامہ ہی ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ کچھ لوگوں نے تو پہلے سے مسلط جرائم پیشہ افراد سے جان چھڑانے کے لیئے ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا تھا مگر اب وہ بھی پچھتا رہے ہیں۔میری بیوی کو ہی دیکھ لیں ۔اس نے میرے سے لڑ کر ان کو ووٹ دیا تھا اورشاید کچھ سو روپے چندا بھی، مگر کل جب انہوں نے ہمارے محلے کے انتہائی شریف بزرگ مہندر کمار کی دکان جلائی تو وہ رات کو اللہ سے معافی مانگ رہی تھی اور ان مولویوں کو بد دعائیں دے رہی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ عین اسی وقت میرے چھوٹے بیٹے نے بتا یا کہ اس نے کل ایک دوست کے موبائل میں ایک ویڈیو دیکھی جو شاید ملتان کی تھی اور اس میں کچھ مشتعل ملاں ایک بس کو آگ لگا کر لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگا رہے تھے، ان میں مولوی نصیر پیش پیش تھا۔
اب یہ مولوی نصیر کون ہے؟ پنکی نے قدرے تیز لہجے میں پوچھا۔وہ اگرچہ کبھی ان دو ٹکے کے لوگوں کے منہ نہ لگتی تھی مگر آج وہ خود کو روک نہیں پا رہی تھی۔ڈیانا نے بھی ایک بڑی متفکرانہ سی آواز نکالی جیسے وہ بھی یہ جاننے کے لئے بیتاب ہو۔
مولوی نصیر ہماری مسجد کا امام تھا، جس نے کئی بچوں کے ساتھ مسجد میں زیادتی کی ، جب اہلِ علاقہ کو پتہ چلا تو یہ فرار ہو گیا۔ آجکل سنا ہے جنوبی پنجاب کے کسی گاؤں میں امامت کر رہا ہے۔ خدا جانے سدھر ہی گیا ہو۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ میری بیوی نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا اور ایسی ایسی بد دعائیں دیں کہ خدا کی پناہ۔ باقی سارا علاقہ بھی بہت غصے میں ہے۔ اگر حکومت مدد کرے تو لوگ ان سب مولویوں کو علاقہ سے نکال کر ان کی مسجدوں اور مدرسوں کو تالے لگا دیں۔
پنکی بوکھلا گئی ۔اور اس نے بہت سا پانی ایک ہی سانس میں پیا۔ اسے اپنے پاپا سے دو دن پہلے رات کے کھانے سے قبل ہوئی بات چیت یاد آ رہی تھی، جب اس کے پاپا ٹی وی پر ملاؤں کے ممکنہ ردِ عمل کی خبرپر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ختم نبوت بہرحال حساس معاملہ ہے، احتجاج تو ہونا چاہیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ غریب لوگ موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، سڑکوں پر نکل آتے ہیں ، لوٹ مار کرتے ہیں، ان جاہلوں کو اسلام کا پتہ وتہ تو کچھ ہوتا نہیں۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ دو جاہل جو اس کے سامنے بیٹھے فرفر ملاؤں کو کھری کھری سنا رہے ہیں ، ان کی جہالت کو خدا جانے کس کی نظر لگ گئی۔ ظہور مسلسل بولے جا رہا تھا۔ پنکی نے اسے ٹوک کر پھر پوچھا لیکن میں نہیں مانتی یہ سب ۔۔ تمہارے علاقے کے زیادہ تر لوگ تو ان ملاؤں کے حمایتی ہی ہوں گے۔ ظہور پھر تیز تیز بولنے لگا۔ارے نہیں میڈم صاحبہ ایسا نہیں ہے اب تو لوگوں کی اکثریت ان سے نفرت کرتی ہے۔ پتہ نہیں اوپر بیٹھے لوگ کیوں ان مولویوں کو ہمارے اوپر بٹھا کر رکھتے ہیں۔ میڈم صاحبہ میں نے خود کئی دفعہ پولیس اور رینجرز کی بہت سی گاڑیاں اپنے مدرسے رحیمیہ حسینیہ کے دروازے پر دیکھی ہیں ، جن میں بڑے بڑے لوگ آتے ہیں۔ میڈم صاحبہ میں آ پ کو کیسے سمجھاؤں۔۔
پنکی کی برداشت جواب دے گئی اور وہ پھٹ پڑی۔کیا کہا تم نے ۔۔ اب تم مجھے سمجھاؤ گے۔ جاہل کہیں کے، بات کرنے کی تمیز نہیں۔سعید گاڑی روکواور اس بڑے دانشور سے کہو کہ ٹھنڈا پانی اور کچھ جوس وغیرہ لے لے یہاں سے۔
پنکی نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ دو دن پہلے ہونے والی موسلا دھار بارش کے باعث سب کچھ دھلا دھلا سا نظر آ رہا تھا۔ اجلے اجلے مناظر اسے بالکل اچھے نہ لگے۔ اسے اچانک سب دھندلا نظر آنے لگا۔جیسے اس کے جسم کی ساری میل کچیل اس کی آنکھوں میں جمع ہو گئی ہو۔ چند منٹ وہ اسی اعصاب شکن کیفیت میں مبتلا رہی ، جہاں سے اسے سعید نے بریک لگا کر نکالا۔ وہ پہنچ گئے تھے۔ مگر پنکی عجیب ہچکچاہٹ سے گاڑی سے اتری جیسے وہ کسی غلط مقام پر پہنچ گئے ہوں۔
پارک میں طے شدہ جگہ پر آج توقع سے کافی کم لوگ دائرے کی شکل میں موجود تھے۔ ایک انتہائی بے تکلف آواز پنکی کی پتھرائی ہوئی سماعتوں سے ٹکرائی۔ ارے پنکی تم آ گئی۔۔ہم سمجھ رہے تھے شاید حالات کی وجہ سے آج تم نہ آؤ،نہیں سوری یار میں تھوڑ الیٹ ہو گئی۔پنکی نے اپنے آپ کو حسبِ موقع ذہنی کیفیت میں لانے کی کوشش کی اور دائرے میں ایک طرف خود کو سمیٹتے ہوئے بیٹھ گئی۔ ڈیانا بھی اس کے ساتھ ہی تھوڑا سا پیچھے ہو کر بیٹھ گئی۔ظہور ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ساتھ بیٹھی ایک لڑکی نے اسے بھی بیٹھنے کا اشارا کیا تو پنکی یکدم بولی نہیں نہیں اسے کھڑا رہنے دو یہ یہاں بیٹھ کر کیا کرے گا۔۔ ویسے بھی اس کی ڈیوٹی ہی ایسی ہے۔ پنکی کے اس ردِ عمل پر سب چونک گئے۔ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ڈر رہی ہو کہ یہاں بیٹھ کر ظہور ان کے سرکل کا مرکزی کردار ہی نہ بن جائے۔سامنے بیٹھے ایک لڑکے نے کہا پنکی ایسے آکورڈ لگتا ہے۔ یا تو اسے کہو کہ گاڑی میں ویٹ کر لے یا پھر اسے بیٹھنے دو۔ یہ ارم کا گارڈ طارق بھی تو دیکھو یہیں بیٹھا ہے۔ پنکی نے بات ختم کرنے کے ارادے سے کہا، چلو بیٹھ جائے میں تو ویسے ہی کہہ رہی تھی کہ یہ بور نہ ہو جائے، کھڑا رہے گا تو اس کا دھیان ادھر ادھر لگا رہے گا۔ اس نے ظہور کو کہا تھوڑا پیچھے ہو کر بیٹھ جاؤاور ساتھ ہی اس نے ڈیانا کو پکڑ کر آگے کیا، اس کا ایک بوسہ لیا اور اسے اپنے بالکل ساتھ بٹھا لیا۔
اس نشست میں تقریباً انیس بیس لوگ موجود تھے جن میں زیادہ تر پوش علاقوں کے لڑکے لڑکیاں تھے مگر چند ایک متوسط طبقے کے نوجوان لڑکے، جو مختلف سرکاری یونیورسٹیوں کے طالب علم تھے، وہ بھی یہاں موجود تھے، جن کی آنکھوں سے ان کا احساسِ محرومی واضح طور پر ٹپک رہا تھا۔ اور وہ مہنگی ترین خوشبوئیں لگائے اور زرق برق مغربی لباس میں بنے ٹھنے ان خواتین و حضرات کو ایسے ہی رال ٹپکائے دیکھ رہے تھے جیسے وہ اکثر سپر مارکیٹ میں بڑی بڑی دکانوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ڈسپلے پر لگے نیم عریاں جدید فیشن ڈریسز پتلون یا شو پیسوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات کو درست طور پر سمجھنے کی وجہ سے ان پوش علاقوں کے خواتین و حضرات کا احساسِ برتری کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ ان میں سے ایک نے ان نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہا، آپ لوگ ضرور ہمارے سرکل میں آیا کریں ،آپ ہی کے دم سے تو ہمارا سرکل چل رہا ہے۔
ایک لڑکی پنکی سے کہنے لگی، پنکی آج ہم نے ’مغربی جمہوریت اور تحریکِ نسواں‘ پر بات کرنی تھی مگر ہم نے ملکی حالات کے تناظر میں آ ج کا ایجنڈا تبدیل کر دیا ہے اور آج ہم ’مذہبی جنونیت اور سیکولرازم‘ کو زیرِ بحث لائیں گے ۔مگر ہمارا دوسرا ایجنڈا وہی ہو گا یعنی ہم اگلے ماہ گولڈن ہوٹل میں ہونے والی خواتین کے حقوق کی کانفرنس کے انتظامات اور تیاریوں کا جائزہ لیں گے اور ذمہ داریاں تقسیم کریں گے۔
پنکی نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا تو سرمد نے موضوع پر بات کرنا شروع کی۔ سرمد ایک نامور پراپرٹی ڈیلر کا بیٹا ہے جوابھی حال ہی میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹا ہے اور کسی پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ وہ مسلسل بولتا رہا،اس کا مدعا یہی تھا کہ بنیاد پرست ریاست پر قبضہ کر سکتے ہیں ، وہ تاریخی حوالے اور انگریزی اخبارات کی رپورٹس بھی ڈسکس کر رہا تھا ۔ پنکی غور سے اسے سنتی رہی۔ اچانک اس نے مڑ کر ظہور کو دیکھا جو اپنی ہی دھن میں مگن بے وجہ مسکرا رہا تھا۔ پنکی کو نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ وہ سرمد کا تمسخر اڑا رہا ہے اور کہیں نہ کہیں اسے یہ تمسخر حق بجانب بھی محسوس ہوا۔ اسے ایسا لگا کہ ظہور سرمد سے بہتر لیکچر دے سکتا ہے۔ پھر ایک دم وہ بوکھلا سی گئی اور اسے اپنے اس خیال پر گھن آنے لگی۔ اس نے اپنی خجالت ختم کرنے کے لئے زور سے کھانسا اور ظہور کو آواز دی ، وہ پانی کی بوتلیں اور جوس کہاں ہے؟ میڈم وہ تو گاڑی میں ہی ہے۔ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ،وہ اس لئے خریدے تھے کہ گاڑی میں پڑے رہیں ، جاؤ لے کر آؤ۔ اوہو میڈم صاحبہ سعید تو واپس گھر چلا گیا تھا، اسے میڈم کو جم چھوڑنا تھا۔ پنکی اور بھی زیادہ غصے سے بولی، جاؤ تو پھر سامنے والی مارکیٹ سے اور لے کر آؤ ۔۔گدھا کہیں کا۔ ظہور جلدی جلدی باہر کی طرف گیا اور ڈیانا بھی اچانک اٹھی اور ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔
دوسرے ایجنڈے پر سب لوگ بڑھ چڑھ کر بات کر رہے تھے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبہ زیادہ ہی پر عزم تھے جیسے وہ اس ممی ڈیڈی کلاس کو اور بالخصوص خواتین کو یہ یقین دلا دینا چاہتے ہوں کہ ہم بھی آپ ہی میں سے ہیںیا آپ ہی جیسے ہیں۔ ان کی شناخت کا بحران ہی انہیں اس حلقے میں سرگرم رکھے ہوئے تھا۔ پنکی نے اپنی باری پر عجیب و غریب گفتگو کرنا شروع کر دی۔ وہ ایجنڈے سے ہٹ گئی اور آئندہ ماہ ہونے والی تقریب پر بات کرنے کی بجائے خواتین کے عمومی حالات پر بات کرنے لگی۔ وہ آج ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مردوں پر برس رہی تھی۔ سب لوگوں کو کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ اس نے جب کہا کہ ’یہاں خواتین کے تمام مسائل مردوں کی غیر فطری اجارہ داری کی وجہ سے ہی ہیں ، خواتین کو چاہیے کہ وہ مردوں پر اپنا انحصار کم سے کم کر دیں اور ان سے جتنا ہو سکے دور ہی رہیں‘، تو بائیں طرف بیٹھا ایک نوجوان برجستہ ہنس پڑا۔ پنکی نے غصے سے اسے دیکھا مگر اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ اس کی باتوں پر نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہنس رہا تھا۔ اس کی نظر پنکی پر نہیں بلکہ پنکی کے پیچھے ڈیانا پر تھی جو پارک میں گھومنے والے کسی آوارہ کتے کے ساتھ کھلے عام رنگ رلیاں منانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب پنکی نے مڑ کر یہ منظر دیکھا تو برجستہ سب لوگ ہنس پڑے۔ پنکی نے دل ہی دل میں سوچا کاش یہ سب واقعی ڈیانا پر ہی ہنس رہے ہوتے۔ اس کا رنگ ہر لمحے تبدیل ہو رہا تھا۔ سرمد نے کہا کوئی نہیں اگنور کرو ۔۔ ہم لوگ تو ویسے بھی شخصی آزادی کے قائل ہیں۔ پنکی کو یہ ہنسی اور جملہ دونوں تازیانے محسوس ہوئے ۔ اسکے بعد اسکو اندازہ ہوا کہ وہ بالکل غیر متعلقہ گفتگو کر رہی تھی اور آج اس کا خود پر قابو نہیں تھا۔ اس نے بات گھمائی اور تقریب کے انعقاد کے لیئے اپنی ذمہ داریوں پر بات کرنی شروع کر دی۔
بعد ازاں سب لوگوں نے اپنے اپنے ذمے کام لیا اور سرکل اختتام پذیر ہوا۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کو سب سے زیادہ ذمہ داریاں دی گئیں، جس پر وہ اتراتے ہوئے خوش خوش وہاں سے چلے گئے۔
وہاں سے اٹھتے ہوئے ایک لڑکی نے پنکی سے کہا کیا بات ہے آج تم ٹھیک نہیں لگ رہیں۔۔ وہ جلدی سے بولی۔۔ ایسی کوئی بات نہیں اصل میں آج گھر مہمان آنے ہیں سائیں جی بھی آئیں گے تو مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ لڑکی نے جواباًکہا کہ پنکی مجھے حیرت ہوتی ہے تمہارے جیسی ماڈرن لڑکی بھی ان سب چیزوں پر یقین رکھتی ہے۔ پنکی نے جواب دیا۔ یار ایسا نہیں ہے، سائیں جی بالکل مختلف انسان ہیں، وہ باکمال شخصیت ہیں۔ میرے پاپا آج جو بھی ہیں انہیں کی وجہ سے ہیں ، میں بھی ان کی بہت عزت کرتی ہوں ، تمہیں ملواؤں گی کبھی پھر تم بھی یہی کہو گی۔ یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ڈیانا پہلے ہی وہاں موجود تھی۔ پنکی نے غصے سے ڈیانا کو دیکھا، آج پہلی بار اسے وہ زہر لگ رہی تھی، ڈیانا بھی اس کے غصے کو بھانپ گئی اور اس نے پنکی کی رانوں پر سر رکھ دیا جیسے کہہ رہی ہو، بس آج معاف کر دو آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔
پنکی نے سعید سے کہاکہ اب سمیر کی طرف جانے کا وقت نہیں رہا تم گھرہی چلو۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے سارا راستہ وہ دل ہی دل میں کڑھتی رہی۔اسے خود پر اور سرمد دونوں پر عجیب سی کوفت آمیز ہنسی آ رہی تھی اور ظہور کو وہ نہ جانے کیوں دل ہی دل میں برا بھلا کہتی رہی۔ بلکہ ایک دم جب گاڑی گھر کے باہر رکی ، تو اس کے منہ سے نکل ہی گیا۔۔ بڑا آیا دانشور۔۔ ظہور کو سمجھ نہیں آیا۔ اس نے انتہائی مودبانہ انداز سے کہا۔۔آپ نے کچھ کہا میڈم صاحبہ۔
وہ جب گھر پہنچی تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ 6 بج رہے تھے اور سائیں جی ،اس کے پاپا اور دیگر مہمان گھر پر اس سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ ایک باریش ادھیڑ عمر شفیق شخص نے کھڑے ہو کر پنکی کو گلے لگا لیا۔ اس کے ہاتھ میں سنہری دانوں والی تسبیح تھی اور اس نے انتہائی شدید چمکیلے سفید رنگ کا شلوار قمیض پہنا ہوا تھا۔ پنکی کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ سب کو سلام کرنے کے بعدوہ وہیں ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔
آدھے گھنٹے تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد سائیں جی نے پنکی سے پوچھا۔ اچھا اب بتاؤ وہ کونسا خواب ہے جو میری بٹیا کو اتنا تنگ کرتا رہتا ہے، تم دیکھو میں ابھی اس کو کان پکڑواتا ہوں۔ پنکی سائیں جی کے اس مخصوص انداز سے واقف تھی، وہ مسکرائی اور اس نے ہلکے سے توقف کے بعدبتانا شروع کیا۔ سائیں جی کیا بتاؤںآئے روز یا ہر دوسرے دن یہ خواب مجھے ضرور آتا ہے۔ سائیں نے کہا تفصیل اور تحمل سے بتاؤ۔ پنکی کہنے لگی کہ میری شادی کا دن ہے، بارات آئی ہوئی ہے ،مجھے دوستوں نے بہت زیادہ سجایا ہوا ہے۔ گانے بج رہے ہیں، ماما، پاپا اور سب لوگ خوشی سے رقص کر رہے ہیں۔سائیں جی اچانک بیچ میں بول پڑے۔۔ یہ تو بہت زبردست خواب ہے بیٹا ،بلکہ یہ تو ہم سب کا خواب ہے اور ہم بہت جلد اس کی تعبیر کا بندوبست بھی کر لیں گے۔ یہی تو میں نہیں چاہتی۔ مجھے مردوں سے شدید نفرت ہے۔ سچ پوچھو تو مجھے گھن آتی ہے ان سے۔ اتنے میں ایک دس گیارہ سال کی بچی چائے لے کر آئی۔ جب وہ سب کو چائے دینے لگی تو اس کے ہاتھ سے ٹرے گری اور پنکی کے کپڑے چائے سے خراب ہو گئے۔ پنکی نے بغیر دیکھے اور سوچے سمجھے اس بچی کے گال پر ایک زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔ اور اپنی ماما کو آواز لگائی۔کون ہے یہ ایڈیٹ ؟ماما نے انتہائی مشفقانہ تدبر سے جواب دیا ، ارے بیٹا ایسا نہیں کرتے ۔۔یہ کلثوم کی چھوٹی بیٹی ہے۔ آج سہ پہر کو اس کے والد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو کلثوم اس کے ساتھ ہسپتال میں ہے۔اور مہمانوں کی دیکھ بھال کے لئے اسے یہاں چھوڑ گئی ہے۔ کہہ رہی تھی میڈم صاحبہ یہ ایسے ہی تو سیکھے گی۔ آخر اس نے بھی تو آگے چل کر یہی کام کرنا ہے۔
یہ کیا خاک سنبھالے گی۔یہ بھی ماں کی طرح کام چور ہی لگتی ہے بلکہ یہ تو شکل سے ہی چور لگتی ہے۔ دیکھنا کہیں کچھ زیور وغیرہ ہی نہ لے اڑے۔اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے ۔دفعہ ہو جا یہاں سے ۔پنکی بولتی جا رہی تھی اور سائیں جی سمیت سب حیرت اور تشویش سے اسے دیکھ رہے تھے۔اس نے بات جاری رکھی سب مرد ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، لڑکیوں کو استعمال کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔سائیں جی نے ٹوکا۔ بیٹا ایسا نہیں ہے،مجھے تمہارے پاپا نے تمہارے حالیہ بریک اپ کے بارے میں بتایا ہے۔ مگر سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے بیٹا۔اب مجھے اور اپنے پاپا کو ہی دیکھ لیں۔پنکی نے فوراً طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا، مگر میں اب آپ سے یا پاپا سے تو شادی نہیں کر سکتی نا۔ سائیں جی نے اس کے گال پر ہلکی سی چٹکی بھری اور مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔شریرکہیں کی۔اچھا یہ بتاؤ خواب میں آگے کیا ہوتا ہے۔ پنکی بولنے لگی۔ جب میرے دوست مجھے رخصتی کے لیے باہر لانے سے پہلے میرے کمرے میں لگے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے لے کر جاتے ہیں تاکہ میں ایک نظر اپنے آپ کو دیکھ سکوں تو جونہی میری نظر آئینے پر پڑتی ہے توایک زوردار آواز آتی ہے اور آئینہ طلسماتی انداز سے چٹخ کر ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی کچھ کرچیاں میرے چہرے کو زخمی کر دیتی ہیں۔میرا چہرہ لہولہان ہو جاتا ہے اور جب میں بھاگتی ہوں تو میرے پاؤں میں بھی ان گنت کرچیاں چبھ جاتی ہیں۔ تبھی میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں پسینے سے شرابور ہو جاتی ہوں۔ابھی آپ دیکھ لیں خواب بتاتے ہوئے بھی آ گیا نا پسینہ۔ سائیں جی نے دو تین منٹ کے توقف کے بعد اپنی جیب سے ایک تعویز نکال کر اسے دیا جو سبز رنگ کے ململی کپڑے میں لپٹا ہوا تھا اور اسے کہا کہ اس کو اپنے کمرے کے آئینے کے اوپر کسی چیز سے باندھ دو۔ پنکی نے اپنی ماما کو یہ تعویز تھما کر یہ کام انہیں سونپ دیا۔
جب تک اس کی ماما واپس آئی پنکی سب سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آرام کے لئے جانے کے لئے کھڑی ہو چکی تھی۔ اس نے سائیں جی سے انتہائی ادب سے رخصت لی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کی ماما اور پاپا نے سوالیہ نظروں سے سائیں جی کو دیکھا اور پھر وہ سب ڈنر کے لیئے ڈائننگ روم کی طرف چلے گئے۔
کھانے کے بعد سائیں جی پنکی کے پاپا سے مخاطب ہوئے۔ دیکھو نثار ملک میں تمہیں تمہارے لڑکپن سے جانتا ہوں۔ تم بہت محنت اور کامل یقین کی وجہ سے آج اس مقام تک پہنچے ہو۔ جو ہیر پھیر اپنے کام میں تمہیں سوسائٹی میں اپنے رتبے کو برقرار رکھنے کے لئے کرنی پڑتی ہے اس کا ازالہ تم سال میں ایک آدھ عمرایا دو چارسال میں ایک حج کر کے کر لیتے ہو۔ صدقہ، خیرات بھی کرتے رہتے ہو، مگر اب یہ پنکی والا معاملہ مجھے بہت خراب لگ رہا ہے۔ آجکل کے بچوں کو ہم آزادی دینے پر تو مجبور ہیں ہی مگر ہمیں ان کے عقیدے اور یقین پر بھی محنت کرنی چاہئے ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ پنکی بھی واضح طور پر بے راہروی کا شکار نظر آ رہی ہے۔ اس کے خواب میں اس کے لئے تکلیف دہ بات اسکی شادی نہیں بلکہ اس کا ٹوٹ جانا ہے۔ اس کی روح اور جسم ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں نظر آ رہے ہیں۔ پنکی کی ماں اچانک گھبرائی ہوئی آ واز میں بول پڑی۔ یہ تو بڑی خطرناک بات ہوئی نا سائیں جی آپ ہی کچھ حل نکالیں۔ سائیں جی نہایت تدبرانہ لہجے میں گویا ہوئے۔ملک تم فوراً ایسا کرو کہ دس کالے بکرے صدقہ کر دو اور یہ نشتر روڈ ڈیفنس میں جو دھرنا چل رہا ہے ،ان لوگوں کے کھانے کا بھی بندوبست کر دو۔ سب اپنے ہی لوگ ہیں،بلکہ میں نے ابھی واپسی پر پانچ منٹ کے لئے جانا ہے ادھر دعا کے لئے، تم بھی چلو میرے ساتھ میں تمہارا تعارف بھی کروا دیتا ہوں۔ اور پنکی کے لئے میں خصوصی دعا کروں گا۔ انشا ء اللہ یہ تعویز بھی اپنا اثر دکھائے گا اور ہم بہت جلد پنکی کی شادی بھی دھوم دھام سے کر دیں گے۔اسکے بعد وہ دونوں پنکی کی ماما کو خدا حافظ کہہ کر باہر کی طرف چلے گئے۔
پنکی کافی دیر تک اپنے کمرے میں بے سدھ لیٹی اپنے خیالات کو قابو میں لانے کی کوشش کرتی رہی۔کبھی اسے اپنے پاپا کی باتیں یاد آنے لگتیں جب وہ اس تمام تر جہالت اور وحشت کی ذمہ داری غریب لوگوں پر عائد کر رہے تھے اور پھر اچانک اسے ظہور کی آواز کمرے میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی کہ ان اوپر والوں نے خدا جانے کیوں یہ ملاں ہم پر مسلط کیئے ہوئے ہیں،اچانک اسے کلثوم کی بیٹی کی زوردار چیخیں کمرے میں گونجتی سنائی دینے لگیں۔۔۔ پھر پاپا۔۔۔ پھر ظہور۔۔ وہ اسی ذہنی اتھل پتھل سے گھبرا کر اٹھ بیٹھی اور اچانک آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اپنے آپ کو ٹائٹ بلیو جینز اور سکائی کلر کی تنگ شرٹ میں اوپر سے نیچے تک ایسے دیکھ رہی تھی جیسے سرِ راہ کوئی کسی اجنبی کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے،کہ اچانک اس کی نظر سبز دھاگے میں لپٹے تعویز پر پڑ گئی جو آئینے کے اوپر بندھا ہوا تھا۔ یکدم آئینے میں اسکا چہرہ کھردرا ہو گیا اور اس کے دانت بڑھنا شروع ہو گئے ، وہ چلاتی ہوئی آنکھیں بند کئے کمرے سے باہر بھاگی تو وہ اس کی چیخ سن کر اس کے کمرے کی طرف دوڑتی ہوئی اپنی ماما سے ٹکرا گئی۔ ماما نے انتہائی پریشان کن بوکھلاہٹ میں اس کا چہرہ پکڑ کر اس سے پوچھا۔۔کیا بات ہے پنکی۔۔آنکھیں کھولو بیٹا۔۔۔کیا ہوا۔پنکی نے آنکھیں کھولیں تو وہ بالکل سرخ ہو چکی تھیں۔ ماما نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا ،تمہاری آنکھیں اور اتنی سرخ ۔۔ کیا ہوا پنکی۔۔ پھر وہی خواب دیکھا کیا؟پنکی نے خوف اور سکون کے ملے جلے جذبات میں آہستہ آہستہ کہا،اب وہ ساری کرچیاں پاؤں اور چہرے کی بجائے میری آنکھوں میں گھس گئی ہیں اور میری آنکھیں جل رہی ہیں جیسے اندر کوئی دوزخ ہے۔ اتنے میں اس کی نظر دور پریشان کھڑی کلثوم کی بیٹی پر پڑی۔ آج پہلی بار اس بچی کی آنکھوں میں اسے دنیا بھر کی معصومیت سمٹی ہوئی دکھائی دی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اسے گلے سے لگا کر رو رو کر اس سے معافی مانگے، اس نے اس لمحے یہ بھی چاہا کہ ظہور اس کے سامنے ہو اور وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑائے۔ اتنے میں اس کی ماں کی انتہائی متفکر آواز نے ایک دفعہ پھراسے جھنجوڑ دیا۔ ہوش کرو بیٹی کیا ہوا تمہیں۔پنکی نے ایک چھوٹی سے بچی کی طرح للچائی ہوئی آواز میں اپنی ماں سے پوچھا۔پاپا کہاں ہیں ماما؟وہ سائیں جی کے ساتھ نشتر روڈ دھرنے پر گئے ہیں تاکہ ان احتجاجی مظاہرین کے کھانے کا بندوبست کیا جا سکے۔ سائیں جی نے پورا یقین دلایا ہے کہ تم بہت جلد بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی اور اس طرح کے ڈراؤنے سپنوں سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔تم ہمت سے کام لو۔۔ پنکی فرطِ حیرت اور ندامت سے باولوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ اس کے منہ سے بے ربط اور بے تکے الفاظ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔ پاپا۔۔ دھرنا۔۔ کھانا۔۔۔ سمیر۔۔ ظہور۔۔۔ سائیں جی۔۔ کلثوم۔۔ اس کی ماں نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اپنے کمرے سے نیند کی دوالا کر پنکی کو دی اور اسے کہا یہ ایک ٹیبلٹ لے کر تم سو جاؤ۔۔ لگتا ہے تمہاری نیند ڈسٹرب ہے۔ میں بھی کبھی کبھار یہ دوا لے لیتی ہوں۔ اس کے بعدوہ پنکی کو ہاتھ سے پکڑ کر اس کے کمرے میں لے گئیں اور اسے بیڈ پر لٹا دیا۔پنکی تھوڑی دیر ہونق ہو کر کمرے میں ادھر ادھر دیکھتی رہی اور پھر ایک کی جگہ دو ٹیبلٹس لے کر بالآخر سو گئی۔
وہ گہری نیند میں تھی کہ اسے بالکل منفرد خواب آیا۔ وہ کسی کچی بستی میں سینکڑوں لوگوں کے بیچ تھی جہاں مرداور عورت دونوں یکساں تعداد میں موجود تھے۔ وہ سماجی مساوات اور آزادی کے موضوع پر دھواں دار تقریر کر رہی تھی۔ شرکا وقتاً فوقتاً پر جوش نعرے لگاتے رہے۔ تقریب کے اختتام پر سب لوگ اسے اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ سب کا اصرار تھا کہ پنکی کھانا ان کے ساتھ کھائے۔ اس نے ایک انتہائی ضعیف بوڑھی عورت کا ہاتھ تھاما اور اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے پنکی کو مونگ کی دال اور سفید چاول کھانے کے لئے دیئے اور بعد ازاں اپنے ہاتھ سے میٹھی چوری کھلائی۔ اس بڑھیا کے مشکور آنسو ٹپک کر اس کے گال پر جمع ہو رہے تھے۔ مگر اس کا چہرا پر سکون اور طمانیت سے بھر پور تھا۔ پنکی محبت، عقیدت اور مسرت بھری نظروں سے اس دیوی کو دیکھتی رہی۔
صبح جب اس کی آ نکھ کھلی تو شاید گیارہ بج چکے تھے۔ اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور سمیر کو فون کیا۔۔۔ پنکی کیسی ہو تم۔۔ دوسری طرف سے انتہائی بے تکلف آواز تھی۔ میں ٹھیک ہوں یار ۔۔کل مصروفیت کی وجہ سے گاڑی لینے آ نہیں سکی تمہاری طرف۔۔ تمہاری مس کالز دیکھی تھیں، سوچا بعد میں بات کرتی ہوں مگر ذہن سے نکل گیا۔۔ تم ایسا کرو میری گاڑی لے کر ادھر آ جاؤ میں تمہیں واپس ڈراپ کر دونگی۔ ارے بھائی لگتا ہے تم نے ٹی وی نہیں دیکھا، آج تو مکمل ہڑتال ہے، سارے راستے بند ہیں، ابھی تو میں نہیں آ سکتا۔۔ پنکی نے اف کہہ کر فون بند کیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگی۔۔بھلا سارے راستے کیسے بند ہو سکتے ہیں۔۔ کوئی نہ کوئی راستہ تو ضرور موجود ہوتا ہے۔ خلافِ معمول اس کے سر میں قطعاً درد یا بوجھ نہیں تھا۔ اس نے اپنی زبان اپنے چکنے ہونٹوں پر پھیری تو اسے چوری کی مٹھاس واقعی محسوس ہوئی۔ اس کے چہرے پر ایک بے ساختہ پر اعتماد مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ تھوڑی دیر سکون کے لمبے لمبے سانس لینے کے بعد بستر سے اٹھی اور آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ سبز کپڑے میں لپٹے تعویز کو اتار کر اس نے دراز میں رکھا اور کرسی لے کر آئینے کے سامنے بیٹھ گئی۔۔ وہ بہت دیر تک اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آئینے کو دیکھتی رہی۔ اور پھر تیار ہو کر اپنی پسند کا گیت گنگناتے ہوئے یہ دیکھنے باہر نکل گئی کہ وہ کونسا راستہ ہے جو ابھی تک بند نہیں ہوا۔۔