افسانہ: انصاف

|تحریر: پارس جان|

اس نے ڈنر کرتے ہی خود کو اپنے کمرے میں قید کر لیا تھا۔ اب کئی ہفتوں سے یہ اس کا معمول سا بن گیا تھا۔ وہ مسلسل اپنے کمرے کی دیواروں اور وہاں پڑے ساز و سامان کو گھورتی اور پھر بیزار ہو کر کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیتی۔ پھر لیٹتی تو اس کی نظریں پنکھے پر ہی ٹکی رہتیں۔ چند روز قبل اس نے ایک ماہرِ نفسیات سے اس بابت مشاورت بھی کی تھی۔ لیکن اس کی تجویز کردہ دوا کا استعمال کرنے سے جہاں اس کا یہ ڈر تو کچھ کم ہو گیا تھا کہ ’کہیں رات کو سوتے میں پنکھا اس پر گر نہ جائے‘، مگر ساتھ ہی یہ تشویش بڑھتی جا رہی تھی کہ ’یہ کم بخت پنکھا آخر گرتا کیوں نہیں ہے‘۔

اس دن بھی لگ بھگ یہی صورتحال تھی۔ وہ بار بار سر جھٹک کر اپنا دھیان بٹانے کی کوشش کرتی تو پھر یہی خیال اسے گھیر لیتا کہ اگر اس بار بھی وہ فیل ہو گئی تو بابا اس صدمے کو کیسے برداشت کریں گے جن کی حالت پہلے ہی بگڑتی جا رہی ہے۔ پھر وہ خود کو حوصلہ دیتی کہ ہمت کر کے بابا کو نہیں تو ممی کو ہی اصل وجہ اور سچ بتا دیا جائے۔ لیکن یہ سچ تو ان کے لیے میرے فیل ہونے کی خبر سے بھی زیادہ اندوہناک ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی گومگو کی کیفیت میں اس نے ہمت کر کے آج سب کچھ صاف صاف کہہ دینے کا اٹل فیصلہ کر لیا۔ موبائل پر وقت دیکھا۔ ابھی ساڑھے دس ہوئے تھے۔ ممی اور بابا ابھی جاگ رہے ہوں گے۔ وہ تیز تیز قدموں سے ان کے کمرے کی طرف چل پڑی۔

کمرے کا دروازہ نیم وا ہونے کے باعث دروازے سے تین فٹ کے فاصلے پر ہی وہ اپنے والدین کی یہ جذباتی گفتگو سن کر رک گئی۔ ”میں تمہیں کہے دیتی ہوں کہ تم فرح کو لے کر پریشان نہ ہوا کرو اس دفعہ وہ سخت محنت کر رہی ہے، تم نے دیکھا نہیں کہ کھانا کھاتے ہی ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتی اور فوراً کمرے میں جا کر کتابوں میں غرق ہو جاتی ہے۔ میں روز اٹھ کر چیک کرتی ہوں، دیر تک اس کے کمرے کی لائٹ جلتی رہتی ہے۔ میں نے کبھی پہلے اسے اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا، وہ یقینا اس دفعہ پاس ہو۔۔۔“

بابا ممی کی بات کاٹ کر چلانے لگے۔ ”یہی تو مجھے سمجھ نہیں آتی باقی سارے مضامین میں اتنے اچھے مارکس لیے ہیں اس نے تو اس ایک پیپر میں مسلسل تین بار کیسے فیل ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہ تو اس کا سب سے فیورٹ مضمون تھا۔ مجھ سے لڑ کر اس نے یہ مضمون خود منتخب کیا تھا۔ میں اس کے ٹیچر سے بھی مل کر آیا ہوں۔ وہ خود بھی بہت پریشان ہے۔ کہہ رہا تھا کہ پتہ نہیں کیوں یہ توجہ ہی نہیں دیتی اور جو بھی اسے کہوں اسے نظر انداز کر دیتی ہے۔ پتہ کرو کہیں اس کا کوئی چکر وکر تو نہیں چل رہا۔ تم اندازہ نہیں کر سکتی کہ مجھے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ وہ ٹیچر انتہائی شریف اور نیک آدمی ہے۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ میں نے کیسے برداشت کیے یہ میں ہی جانتا ہوں۔“

”اوہو میں کہہ رہی ہوں نا کہ مجھے اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے، آپ دیکھ لینا اس دفعہ وہ اپنے ٹیچر اور آپ کو بالکل بھی مایوس نہیں کرے گی۔“ اسے محسوس ہوا کہ فریج کا دروازہ کھلنے کی آواز ہے، شاید فرحان (چھوٹا بھائی) ہو گا۔ اور وہ دبے پاؤں پنکھے پر ٹکٹکی باندھنے کے لیے اپنے کمرے کی طرف لوٹ گئی۔

مزید چند ہفتے خود سے جنگ و جدل کرنے کے بعد جب امتحان بالکل سر پر آ پہنچا تو اس نے بالآخر کسی بھی ’قیمت‘ پر ’پاس‘ ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ ایک دن دوپہر کے بعد دو بجے جب ساری کلاسز اختتام پذیر ہو گئیں تو وہ لرزتے ہوئے قدموں سے اپنے نیک اور شریف ٹیچر کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ لمحہ بھر کو وہ رکتی، ادھر ادھر دیکھتی، پھر دونوں مٹھیاں بھینچ کر اپنی توانائی بحال کرتی اور آہستہ آہستہ چلنے لگتی۔ وہ جونہی دروازے پر پہنچی تو اندر سے میڈم شبانہ نے دروازہ کھولا اور وہ تیزی سے بائیں جانب مڑ گئیں۔ میڈم نے جاتے جاتے پلٹ کر اپنی معنی خیز مسکراہٹ کو سنبھالتے ہوئے فرح کو دیکھا اور فرح کے سر کے ایک ایک بال سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک سارے جسم میں بجلی سی کوند گئی۔ اب دروازہ کھلا تھا، سر شفقت محمود سے اس کی نظریں ٹکرائیں اور وہ پلک جھپکتے ہی کمرے کے اندر تھی۔ اپنی ہونہار طالبہ کے لیے بے پناہ ”شفقت“ سر کی آنکھوں سے رال بن کر ٹپکنے لگی۔ دونوں نے لگ بھگ بیس سیکنڈ تک ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کمرے کا دروازہ بند ہو گیا۔

اس دن گھر جاتے ہوئے اسے سب کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا تھا اور وہ بار بار اپنی آنکھیں ملتی اور وقفے وقفے سے باہر تھوکتی رہی۔ رکشے والا کافی دیر یہ دیکھتا رہا اور پھر کہنے لگا ”باجی، آپ ٹھیک تو ہیں ناں؟“ ہاں ہاں میں ٹھیک ہوں جلدی چلو۔ باجی ہوا بہت تیز چل رہی ہے اور دھول بھی بہت ہے، اس لیے تھوڑا وقت لگے گا، شاید بارش ہونے والی ہے۔ لیکن اسے کیا خبر تھی جو طوفان فرح کے دل و دماغ میں چل رہا تھا، اس نے رومانوی آدرشوں اور لطیف جذبات کے کتنے پیڑ اکھاڑ دیے تھے۔

وہ گھر جاتے ہی باتھ روم میں گھس گئی۔ نہا کر باہر نکلی، کھانا کھائے بغیر ہی لیٹ گئی، تھوڑی دیر بعد اچانک اٹھ بیٹھی، پھر باتھ روم میں گھس گئی، پھر نہا کر باہر نکلی۔ ممی نے آواز دی ”فرح بیٹی کھانا کھا لو، تم نے دن میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔“ وہ بڑی تگ و دو کے بعد اپنے ملبے کو سمیٹ کر ڈائننگ روم تک پہنچی، گھر والے کچھ بھی کہتے وہ ’ہوں، ہاں‘ کرتی رہی۔ چند لقمے ہی لیے اور پھر کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر نہائی۔ یوں ہی بار بار نہا کر بھی وہ خود کو میلی کچیلی محسوس کرتے ہوئے بستر پر لیٹ کر سونے کی اداکاری کرنے لگی۔ آج اسے پنکھے کے گرنے کا رتی برابر بھی خدشہ نہیں تھا۔ اسے لگا کہ پنکھا تو نیچے بستر پر آرام سے سو رہا ہے اور وہ چھت سے الٹی لٹکی ہوئی برق رفتاری سے گھوم رہی ہے۔

رزلٹ آئے بھی کئی ہفتے ہو چکے تھے۔ فرح نے اس آخری مضمون میں سب سے اچھے نمبر لیے تھے۔ اس کے ٹیچر کے لیے مٹھائی اور تحائف لے کر بھی اس کے بابا اکیلے نہیں گئے تھے بلکہ اس کی ممی کو بھی ساتھ لے گئے تھے تاکہ اچھے سے دونوں ان کا شکریہ ادا کر سکیں کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری، فرح سے مایوس نہیں ہوئے اور اس پر محنت جاری رکھی۔ یہ انہی کی محنت کا ہی تو ثمر تھا۔ بلکہ اب تو فرح کی جاب کا انٹرویو بھی ہو گیا تھا۔ فرح بظاہر تو بہت خوش تھی، اس نے اس ایک واقعے کو ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھلانے کی بے پناہ کوشش کی۔ جب اسے پورا یقین ہو گیا کہ وہ بہت جلد اس کوشش میں مکمل طور پر کامیاب ہونے والی ہے تو ایک دن اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے اپنے فون کی سکرین پر دیکھا تو فون کی گھنٹی کی آواز جیسے صور پھونکنے کی آواز میں تبدیل ہو گئی۔ اس کے ماحول کی ہر چیز جیسے پرزہ پرزہ ہو کر روئی کے گالوں کی طرح ادھر ادھر اڑ رہی تھی۔ اس کے موبائل کی سکرین اس کے نیک اور شریف سر کی زور دار ”شفقت“ سے پھٹنے کو ہی تھی کہ اس نے موبائل آف کر کے ایک طرف پھینک دیا۔ وہ ہر رات جو دو گولیاں کھاتی تھی، اس دن اس نے چار گولیاں لیں اور تکیے کے مکمل بھیگ جانے سے قبل ہی جیسے تیسے کر کے اس کی آنکھ لگ گئی۔

اگلی صبح وہ دیر تک سوتی رہی۔ اٹھنے کے بعد اس نے تہیہ کیا کہ آج وہ فون آن ہی نہیں کرے گی۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کمرے میں جاتی، فون کو دیکھتی اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی اور پھر کوئی ان دیکھی قوت اسے پیچھے دھکیل دیتی۔ بالآخر شام ساڑھے چار بجے اسے یاد آیا کہ اس نے جاب کے لیے انٹرویو بھی دیا ہے اور اس آفس سے بھی فون یا ای میل متوقع ہے۔

آن کرتے ہی فون یکے بعد دیگرے میسج ٹونز سے لرزنے لگا۔ 27 مس کالز تھیں، اکا دکا دوستوں کے علاوہ باقی سب سر شفقت کی تھیں۔ واٹس ایپ میسجز کی بھی بھرمار تھی۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اس نے کچھ ایسے واٹس ایپ گروپس اور فیس بک پیجز جوائن اور لائک کیے ہوئے تھے جن پر لطیفے، مزاحیہ ویڈیوز یا سٹینڈ اپ کامیڈینز کے کلپس وافر پائے جاتے تھے، وہ عام طور پر فون اٹھاتے ہی دو تین ویڈیو لازماً دیکھتی تھی لیکن آج اس کی نظر اور دماغ صرف ایک ہی چیٹ پر مرتکز تھے۔

وہ ”شفقت“ بھری چیٹ بے شمار یکطرفہ میسجز سے بھری پڑی تھی۔ وہ کچھ میسج پڑھتی، کچھ کو ادھورا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی۔ کسی میسج میں روایتی حال احوال پوچھا گیا تھا تو کہیں التجائیہ الفاظ دہرائے گئے تھے، ”پلیز، پلیز رپلائی می۔“ پھر کچھ میسجز کے بعد خاص درخواست دوہرائی جاتی کہ میری فیملی ان دنوں شہر سے باہر ہے، پلیز مجھے آ کر ملو۔ کہیں کچھ تنبیہی اور دھمکی آمیز الفاظ بھی نظر سے گزرے، لیکن پھر اگلے ہی میسج میں وہی استدعائیہ لب و لہجہ۔ وہ عجیب تذبذب اور ہیجان کی کیفیت میں تھی کہ اچانک اسی چیٹ سے ایک ویڈیو میسج موصول ہوا۔ اففففف۔ یہ کیا ہے، اس نے چھ سات سیکنڈ کی ویڈیو ہی دیکھی ہو گی کہ اس کے منہ سے چیخ نکلی، دروازہ بند تھا، ٹی وی کے ساتھ ساتھ باہر رینوویشن کا کام بھی چل رہا تھا، اس لیے اس کی آواز کسی نے نہ سنی۔ سات آٹھ منٹ بعد پھر میسج ٹون بجی۔ ”میں یہ سب نہیں کرنا چاہ رہا تھا، میں نے آج تک یہ نہیں کیا، میں اتنا برا آدمی نہیں ہوں لیکن تم مجھے مجبور کر رہی ہو، آج آ جاؤ تو اچھا ہے، میں اکیلا ہی ہوں گا لیکن پھر میرے دوست۔۔۔“ وہ اس سے آگے کچھ پڑھ ہی نہ پائی۔ اس کے فون پر الفاظ بڑے بڑے نوکیلے دانتوں والے چہرے بن گئے تھے جو اس کی طرف لپک رہے تھے۔ فون اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ لیکن عجیب سی آوازیں اس کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگیں۔ ”مجبور کر رہی ہو، میں برا آدمی نہیں ہوں، اکیلا، دوست، مجبور کر رہی ہو۔۔۔“

فرح کا دماغ بالکل کام نہیں کر رہا تھا یا بہت زیادہ کام کر رہا تھا۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی اور اپنا خالی بیگ اٹھا کر مارکیٹ چلی گئی۔ وہاں سے اس نے، بہت سی دوائیاں، رسی اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ خریدا اور بھرے ہوئے بیگ کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد واپس آ گئی۔ ”بیٹی کہاں جا رہی ہو“، ”آ گئی میری بیٹی“ وہ شاید چاہ رہی تھی کہ ایسی مانوس آواز جس کے اس کے کان عادی ہو چکے ہیں، کہیں سے اس کے کانوں میں پڑے۔ اسے پکڑ لیا جائے اور سارا زمانہ جان جائے کہ اس پہ کیا بیت رہی ہے۔ لیکن سب گھر والے ان دنوں بہت خوش تھے، سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے، کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب گئی اور کب آئی۔

ڈائننگ روم میں گھر والوں کے ساتھ کھانے کی کامیاب اداکاری کرنے کے بعد چھوٹے بھائی کے بے پناہ اصرار اور ضد کرنے پر اس نے تھوڑی دیر اس کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی بھی دیکھا لیکن پھر وہ تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس نے فون چیک کیے تو پھر چھ سات ”شفقت“ بھرے میسجز پڑھنے کو ملے۔ ”مجھے پتہ ہے تم بہت سمجھدار ہو، تم ضرور آؤ گی۔ کسی دوست کے گھر کا بہانہ بنا لو، گیارہ بجے سے پہلے میں تمہیں خود گھر چھوڑ دوں گا۔“ اس نے ٹائم دیکھا۔ سات بج چکے تھے۔ اس نے بیگ کھولا۔ آدھے گھنٹے سے زیادہ وہ رسی اور پنکھا کھیلتی رہی، پھر یوٹیوب پر کچھ سرچ کرنے لگتی۔ ہار کر وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پھر تھوڑی دیر بعد منہ دھو کر واپس آئی اور دوبارہ بیگ کھولا۔ اس میں سے ایک تیز دھار بڑا سا خنجر نما چھرا برآمد ہوا۔ وہ لرزتے ہاتھوں سے وہ چھرا کبھی اپنی کلائی کی طرف لے کر جاتی، پھر ایک دم کھڑی ہو جاتی، پھر اس چھرے کو آہستہ آہستہ اپنی گردن کے قریب لے جاتی۔ تھوڑی دیر وہ اسی مشق کو دہراتی رہی اور پھر اچانک بوکھلا کر اس نے چھرا دیوار پر دے مارا۔ لیکن بھلا اسے سکون کیسے آ سکتا تھا۔ بار بار فون بج رہا تھا۔ کالز اور میسجز لگاتار وقفے وقفے سے موصول ہو رہے تھے۔ نیک اور شریف آدمی نے اپنی لوکیشن بھی بھیج دی تھی۔ وہ کچھ دیر کمرے میں ٹہلتی رہی۔ پھر وہ ایسے آرام سے بیٹھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ تین چار لمبے لمبے سانس لیے۔ آرام آرام سے دو تین گلاس پانی پیا۔ پھر تحمل سے اٹھی۔ آہستہ آہستہ دیوار کی طرف گئی جہاں چھرا پڑا ہوا تھا۔ چھرا اٹھایا، آئینے کے سامنے گئی۔ چھرا بہت سکون سے اپنے گلے پر رکھا۔ پھر اپنی آنکھیں بند کر لیں، ڈیڑھ سے دو منٹ اس پر سکتہ سا طاری رہا۔ پھر ایک دم اسے نے آنکھیں کھولیں، خود سے آنکھیں ملائیں، کوئی بہت ضروری مشورہ کیا۔ دوسری طرف مانوس اور پریشان لڑکی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے الماری کھولی، اس میں سے چھوٹا ہینڈ بیگ نکالا۔ چھرا اور کچھ دیگر سامان اس میں رکھا۔ کمرے سے باہر نکلی اور بڑے اعتماد سے ممی سے کچھ کہا اور اپنا پسندیدہ گانا گنگناتے ہوئے گھر سے باہر نکل پڑی۔

چار دن بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو گئی۔ اس سے قبل کہ اسے وہاں سے ڈیلیٹ کیا جاتا، ہزاروں موبائلز اور لیپ ٹاپس میں وہ ڈاؤن لوڈ ہو چکی تھی۔ ویسے تو وہ ویڈیو مارکیٹس سے لے کر دفاتر تک ہر جگہ پہنچی لیکن سب سے بڑھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تو شاید ہی کوئی رہ گیا ہو جو اس ویڈیو سے محظوظ یا حیران نہ ہوا ہو۔ بالخصوص فرح کے کالج میں تو اساتذہ، طلبہ اور سارے عملے نے اس ویڈیو کو دیکھا اور مختلف تبصرے کیے۔

ویڈیو میں ایک شخص کو صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر بٹھایا گیا تھا اور وہ خون سے لت پت تھا۔ اس کے چہرے پر بھی کئی کٹ لگے ہوئے تھے، جن سے شکل خاصی بگڑ گئی تھی۔ مگر جو کوئی بھی اس سے مل چکا تھا ویڈیو کو پاز کر کے وہ تھوڑا غور کرنے پر پہچان سکتا تھا کہ یہ سر شفقت محمود ہیں۔ ہولناک بات یہ تھی کہ کسی نے اس کا آلہئ شفقت کاٹ کر اس کے منہ میں گھسیڑ دیا تھا۔ کچھ دنوں بعد اس ویڈیو کو وائرل کرنے کے الزام میں ایک لیڈی کانسٹیبل کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس ویڈیو سے بھی زیادہ جس خبر نے اس کالج کے لوگوں کو چونکایا وہ اس واقعے کے تیسرے دن اس قتل کے الزام میں فرح کی گرفتاری کی خبر تھی۔ اس کے کالج میں ہر قسم کی سرگوشی سننے میں ملی۔ ”دونوں کا چکر چل رہا ہو گا۔ دیکھنے میں تو بہت بھولی بھالی تھی۔ سر شفقت ایسا نہیں کر سکتے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کچھ لڑکے، لڑکیوں میں عجیب سنسنی سی طاری تھی اور وہ خود سے اور ایک دوسرے سے کچھ الگ ہی بحث مباحثے کر رہے تھے۔

اس کہانی میں سب سے دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب تفتیش کے دوسرے ہفتے کے پہلے دن اسی کالج کی ایک اور لڑکی خود تھانے پہنچ گئی اور اس نے اقرار جرم کر لیا۔ سارے ثبوت فرح کے خلاف تھے لہٰذا تفتیشی افسر نے اس لڑکی کے والدین کو اطلاع دی۔ وہ تھانے پہنچے لیکن اس لڑکی نے گھر جانے سے انکار کر دیا۔ پھر جب اسے بہت مجبور کیا گیا تو اس نے اپنے والدین سے الگ ہو کر تفتیشی افسر کو اپنے موبائل سے کچھ میسجز دکھائے، اس کے بعد اس لڑکی کو بھی شاملِ تفتیش کر لیا گیا۔ یہ خبر بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور یہ کیس اب ہر اخبار اور ہر چینل پر چھا گیا۔ ابھی دو ہی دن گزرے تھے کہ ایک اور لڑکی نے تھانے پہنچ کر یہ دعویٰ کیا کہ یہ قتل میں نے کیا ہے۔ دو دن بعد اس مقدمے کی سماعت تھی۔ سب کی نظریں اس مقدمے کی کاروائی پر لگی ہوئی تھیں، روز نئی افواہ پھیلتی تھی اور سب یقین بھی کر لیتے تھے۔ لوگ بے صبری سے سنوائی کا انتظار کر رہے تھے۔ ادھر کیمپسز میں ماحول کا پارہ چڑھتا ہی جا رہا تھا۔

سنوائی والے دن کورٹ روم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حاضرین سمیت جج اور وکلا کے بھی اس وقت چھکے چھوٹ گئے جب دو اور لڑکیاں کورٹ میں آئیں اور زور زور سے چلانے لگیں۔ ”اس درندے کو ہم نے مارا ہے۔“ اب یہ کیس عججیب و غریب شکل اختیار کر چکا تھا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب اس مقدمے کی کاروائی کیسے آگے بڑھائی جائے۔ کٹہرے میں کھڑی فرح خود بھی ششدر تھی اور شیرخوار بچے کے سے تجسس سے کبھی جج، وکلا اور کبھی ان لڑکیوں کو دیکھتی۔ پھر ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹپک کر اس کے رخسار کو بوسے دیتا ہوا اس کے پپڑیاں جمے ہونٹوں میں جذب ہو جاتا۔

پولیس افسران نے تمام ثبوت عدالت کے سامنے پیش کیے اور فرح کو ہی حقیقی مجرم قرار دیا اور باقی لڑکیوں پر مقدمے کو خراب کرنے کا الزام لگایا۔ دیگر تمام لڑکیوں کے بیانات لیے گئے۔ سب نے بے تکی اور الٹی سیدھی باتیں کیں اور ایک ہی تکرار کرتی رہیں کہ ”یہ قتل میں نے کیا ہے۔“ جج کی پریشانی اس وقت اور بڑھ گئی جب اسے علم ہوا کہ دو لڑکیوں کی مائیں بھی کورٹ روم میں موجود ہیں اور وہ ندامت نہیں بلکہ خوف، فخر اور رشک کے ملے جلے جذبات سے اپنی بچیوں کو تائید بھری نظروں سے دیکھ کر ہاتھ لہرا رہی ہیں۔ جب سرکاری وکیل نے لڑکیوں سے سوال کیا کہ قتل کا محرک کیا ہے تو ایک لڑکی نے کہا کہ وہ قاتل تھا اور اس نے میری ایک بہن کو قتل کیا تھا، میں نے اس کا بدلہ لیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں اخبار کا ایک تراشا تھا جس میں ایک لڑکی کی خودکشی کی خبر درج تھی۔ مزید سوالات پر انکشاف ہوا کہ وہ خود کشی کرنے والی لڑکی تو کسی اور شہر سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا اس بیان دینے والی لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

ڈیڑھ سے دو گھنٹے اپنی طرز کے اس منفرد کیس کی کاروائی چلائی گئی لیکن کچھ نتیجہ نہ نکل سکا اور مقدمے کی کاروائی کو چار دن بعد تک ملتوی کر دیا گیا۔ جج صاحب یہ اعلان کرتے ہی رفو چکر ہو گئے۔ کاروائی ختم ہوتے ہی یہ چاروں لڑکیاں فرح سے ایسے لپٹ گئیں جیسے وہ اس کی بچپن کی سہیلیاں ہوں اور بہت دنوں بعد ملی ہوں۔ وہ کبھی ہنسنے لگتیں اور کبھی رونے لگتیں۔ جب وہ ہنستیں تو کھچا کھچ بھرا کورٹ روم، وہاں موجود لوگ ہی نہیں بلکہ اس کی دیواریں، کٹہرا اور کرسیاں بھی ساتھ ساتھ قہقہے لگاتے اور جب وہ روتیں تو سب ساتھ روتے۔ حالت تو سب ہی کی خراب تھی لیکن جج کی کرسی کی سسکیاں تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔

اسی کیفیت میں ساری لڑکیوں کو کورٹ روم سے نکال کر باہر لے جایا جانے لگا۔ کورٹ روم دوسری منزل پر تھا۔ جونہی وہ باہر نکلیں اور سیڑھیوں کی طرف چلنے لگیں تو اسی راہداری میں انہیں دیکھ کر تین چار مزید لڑکیاں بھی یک زبان ہو کر چلانے لگیں، ”اس درندے کو میں نے مارا ہے!“ ساتھ کچھ لڑکے بھی ان کے ہمنوا بن گئے۔ پولیس والوں نے فرح کو گھیرا ہوا تھا۔ جب پولیس والے رکے اور فرح کی نظر نیچے لان کی طرف گئی تو وہاں بہت بڑی تعداد میں لڑکیاں اور خواتین موجود تھیں جن میں سے بہت سیوں نے ہاتھ میں پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر یہی الفاظ درج تھے۔ ”اس بھیڑیے کو میں نے مارا ہے!“

دو چار قدم مزید چلنے کے بعد فرح کی نظر ان خواتین کے پیچھے دور تک پھیلے بہت بڑے مجمعے پر پڑی۔ جس میں سینکڑوں خواتین کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نو عمر لڑکے بھی موجود تھے۔ پولیس والے اور وکیل شدید پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے اکثریت نے ایسے مناظر کبھی نہیں دیکھے تھے۔ مجمعئ عام میں شامل نو عمر لڑکے، لڑکیوں کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جیسے وہ اعلان کر رہی ہوں کہ ”انصاف وہاں اندر نہیں ہو گا بلکہ یہاں باہر ہو گا۔ ہم کریں گے انصاف!“ اچانک فرح کی نظر اس ہجوم میں موجود ایک نو عمر لڑکے کے ہاتھ میں اوپر اٹھائے گئے ایک پلے کارڈ پر پڑی اور اسی پر جم گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسووں نے قطار باندھ لی اور اس کے دل کا سارا غبار بہہ نکلا۔ اس پلے کارڈ پر سرخ مارکر سے موٹا موٹا لکھا گیا تھا، “Hang The Rapists”۔ پولیس والے تو خوفزدہ تھے ہی پر وہاں موجود بہت سے وکیل بھی چور نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

Comments are closed.