|تحریر: ناصرہ وائیں |
گاؤں کی جانب جانے والی کچی پگڈنڈی آج سرِ شام ہی اندھیرے میں غرق ہو چکی تھی۔ سورج کو ڈوبے ابھی چند منٹ بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ لیکن چاروں اور ایک یاسیت بھرا غبار امڈ امڈ کے آ رہا تھا۔ جاڑا شروع ہونے کو تھا۔ ہو امیں ایک دم سے کچھ خنکی سی در آئی تھی۔ ابھی دوپہر تک چلچلاتی دھوپ نکلی پڑی تھی۔
گاؤں کے رہائشی پکی سڑک تک پہنچتے پہنچتے پسینے میں شرابور ہو جاتے تھے۔ پہلے بھی سردیاں آیا کرتی تھیں، لیکن اس بار تو سردی سے پہلے ہی گرد، غبار اور دھوئیں کی ایک منحوس چادر نے ان کے پُر فضا گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
شریف منہ اندھیرے اپنی بیوی کو جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اٹھ بھی جا اب۔۔۔۔ بچوں نے سکول بھی جانا ہے۔ اس نے لکڑیاں جلا کر چائے کی پتیلی مٹی کے چولھے پر چڑھا دی تھی۔ ثمو جو ساری رات کھانستی رہی تھی ابھی تک بے سدھ پڑی تھی۔ شریف نے چائے مٹی کے پیالے میں انڈیلی اور اپنی بیو ی کی بان کی چارپائی کے پاس پہنچا۔ اٹھ بھی جا بھاگوان۔
اس نے ثمو کا ماتھا چھو کر دیکھا تو وہ معمول کے مطابق ہی تھا۔ چائے کا پیالہ لے کر ثمو نے کہا پتا نہیں کل سے کھانسی آ رہی ہے۔ رات جاگتی رہی اس لیے نہیں اٹھا گیا۔ ویسے میں ٹھیک ہوں، بنا دیتی ہوں روٹی۔
شریف نے کہا رہنے دے بچوں کو دیر ہو رہی ہے۔ میں ان کو باہر سے چیز لے دوں گا۔ شریف چائے پی کر بچوں کو سائیکل پر سکول چھوڑنے اور اپنے کام کے لیے نکل گیا۔
شام کو جب وہ بچوں کے ساتھ واپس آیا تو ثمینہ گھر کے روز مرہ کے کاموں میں لگی تھی۔ اب طبیعت کیسی ہے تیری؟ اس کو دوا کی گولیاں پکڑاتے ہوئے شریف نے بڑے پیار اور شفقت سے پوچھا۔ وہ زرد چہرے کے ساتھ دھیرے سے مسکائی۔ بھلی چنگی ہوں، ہٹی کٹی ہوں۔ بچوں کو پیار کیا اور کھانا پروسنے بیٹھ گئی۔
رات کو سوتے وقت شریف نے بڑی بے چارگی سے بتایا کہ بڑا غضب ہو گیا ہے، شہر کے جس سکول میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں۔ وہ کل سے بند ہو رہا ہے۔ اچھا! اس نے پہلے بات کو نہ سمجھتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔ پھر اس کی بات کو سوچتے ہوئے دہرایا۔
کیا کہہ رہے ہو؟ وہی جو تم نے سنا۔ سرکار نے ہمارے سکول بیچ دیے ہیں؟ بیچ دیے۔۔۔ مطلب؟ وہ فوراً اپنی چرچراتی چارپائی سے اٹھ بیٹھی۔ کچھ پلے نہیں پڑ رہا۔ اگر سرکار اپنے سکول بیچ رہی ہے تو ہمیں اس سے کیا نقصان ہو گا؟ شہر میں لوگ بتا رہے تھے کہ استادوں نے احتجاج کیا ہے لیکن ان کی کوئی نہیں سن رہا۔
لیکن ہمیں اس احتجاج سے کیا؟ سرکار سکول بیچے یا نہ بیچے۔ اس نے پُر تجسس انداز میں کہا۔
ثمو! ماسٹر جی بتا رہے تھے کہ جو لوگ سکول خرید لیں گے وہ ایک طرف تو ہمارے ان دس روپے فیس والے سکول کی فیس بڑھا دیں گے اور پہلے والے استادوں اور استانیوں کی نوکریاں چلی جائیں گی۔ ہیں!؟ اگر استادوں کی نوکریاں چلی جائیں گی تو پڑھائے گا کون؟
یہی تو ماسٹر جی بتا رہے تھے کہ پہلے ان سکولوں میں پڑھے لکھے لوگ نوکریاں کرتے تھے، لیکن اب یہاں ان لوگوں کو نوکری ملے گی جو ہم مزدوروں سے بھی آدھی تنخواہ پر کام کرنے کو راضی ہو جائیں۔ گلی محلے کی آٹھ دس پڑھی وہ لڑکیاں ہی یہ نوکری کریں گی جن کو نیا نیا شوق ہوتا ہے پڑھانے کا اور نوکری کرنے کا۔
تو اس سے ہماری جان کو کیا فرق پڑے گا؟ اس نے پریشانی سے سر کو کجھلاتے ہوئے پوچھا۔
فرق کیا پڑے گا؟؟ ثمو! ہمارے بچے کہاں پڑھیں گے؟ بھلا ہم مزدور لوگ پرائیویٹ سکولوں کی فیس کہاں سے لائیں گے؟ اور یہ بچیاں کیا پڑھائیں گی ہمارے بچوں کو؟ اور ہمیں تو یہ بھی پتا نہیں چلنا کہ وہ کیا پڑھا رہی ہیں۔
اچھا! یہ بتاؤ کہ تم کو یہ ماسٹر جی کہاں مل گئے؟ اس نے لاپرواہی سے اپنی چوٹی سے کھیلتے ہوئے استفسار کیا۔
آج جب میں بچوں کو سکول سے لینے گیا تو استاد سڑک پر جمع ہو کر نعرے لگا رہے تھے، کچھ ہی دیر میں پولیس آ گئی اور اس نے استادوں کو ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیا۔ میں تو بچوں کو سکول سے لے کر گھر آ گیا ہوں۔
بہت ظالم دنیا ہے۔ استاد بیچارے کی کوئی عزت ہی نہیں۔ شریف نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے بے چارگی سے کہا۔ چل اب سو جا، کل پھر بچوں کو۔۔۔۔ پھر وہ خاموش ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں سوچتے سوچتے نیند میں ڈوب گیا اور خراٹے لینے لگا۔
بچے ساتھ والی چارپائی پر سو رہے تھے۔ وہ اپنی چارپائی سے اٹھ کر اپنے مختصر سے کمرے سے نکل آئی۔ لیکن نیند اس کی انکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ اپنے چھوٹے سے کچے صحن میں ٹہل رہی تھی اور مسلسل سوچے جا رہی تھی۔
اب رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور خنکی بھی بڑھتی جا رہی تھی، ٹہل ٹہل کر اس کی ٹانگیں تھک چکی تھیں۔ وہ بار بار تاروں بھرے آسمان کی جانب بڑی آس سے دیکھتی اور بار بار التجائی نظروں سے کسی معجزے کی منتظر تھی۔ جب مرغے نے اذان دی تو وہ سونے چلی گئی۔
صبح جب شریف اٹھا تو اس نے دیکھا ثمو جاگ کر ناشتہ بنا چکی تھی اور گھر کی صاف صفائی میں مگن تھی۔ ناشتے کے لیے اس نے بچوں کو جگایا۔ اس کا ٹفن تیار کیا۔ شریف اس کو کام کرتا دیکھ کر خوش ہوا۔ لگتا ہے تیری طبیعت اب بہتر ہے۔
نہیں، طبیعت تو کچھ خاص بہتر نہیں ہوئی لیکن ابھی میں باہر گئی تھی تو بشیراں آپا ملی تھی۔ اس سے میں نے ساری بات کا ذکر کیا تو وہ بتا رہی تھی کہ سکول سموگ کی وجہ سے بند ہیں۔ کچھ دنوں بعد میں کھل جائیں گے۔ ثمو نے پُر امید لہجے میں کہا۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ شریف نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے خوشی سے کہا۔