|تحریر: راول اسد|
ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے تجارت کی غرض سے شروع ہونے والے برطانوی سامراج کے غلبے کی دو سو سالہ خونریز تاریخ نے اس خطے کی قدیم تہذیب اور ثقافت کوخون میں ڈبودیا۔ اس سامراجی مداخلت نے جہاں بدترین استحصال کو برقراررکھا وہیں اپنی موت کا جا ل بھی اس خطے میں بچھایا اور ایک طویل جدوجہد اور بغاوت کی روایت کو جنم دیا۔ اس خطے کے عوام کی انگریز سامراج سے آزادی حاصل کرنے کی بے شمار قربانیوں کی ان گنت داستانیں آج بھی زندہ ہیں۔ برطانوی سامراج سے آزادی کی اس جنگ میں بیشمار نوجوانوں نے اپنی عظیم قربانیوں اورشہادتوں سے اس خطے کی سرزمین کو زرخیز کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ مختلف چھوٹی چھوٹی بغاوتیں سر اٹھاتی رہی ہیں۔ نئی صنعت اور پیداوار کے نئے ذرائع نے یہاں جدید محنت کش طبقے کو جنم دیا اور طبقاتی جدوجہد کی چنگاری جلنا شروع ہوئی اس کے ساتھ ساتھ نئے ابھرتے ہوئے ہندوستانی سرمایہ دار طبقے نے برطانوی سامراج کی مکمل دلالی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انگریز سامراج اور دلال ہندوستانی سرمایہ داروں کے ظلم و استحصال نے یہاں وہ انقلابی پیدا کیے جو سامراج کی اس یلغار کے خلاف سر اٹھاتے رہے۔ آزادی کی اس جدوجہد میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کی پسماندگی تھی۔ تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی کے تحت یہاں مذہبی ا ور قومی تعصب کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ ظلم کے واقعات کے طویل سلسلے نے یہاں کے لوگوں کے شعور پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے جس میں ’جلیاں والا باغ‘ کا قتل عام ایک اہم واقعہ تھا۔ انہی واقعات کے اس سلسلے نے اور خاص طور پر جلیاںوالا باغ میں ہونے والے قتل عام نے ایک ایسے نوجوان کو جنم دیا جس کا نام بھگت سنگھ تھا۔
بھگت سنگھ کا تعلق انقلابی گھرانے سے تھا، جس میں غدر پارٹی کی روایت بھی موجود تھی۔ بچپن سے ہی سیاست میں مداخلت نے اسے وہ اہم اسباق سکھائے جو آگے چل کر اس کی زندگی میں اس کے کام آنے والے تھے۔ بچپن سے ہی اپنی زندگی کا مقصد ایک آزاد بھارت کی جدوجہد لئے بھگت سنگھ نے بہت جلد ہی گاندھی اور کانگریس کی روایتی سیاست کو سمجھ لیا تھا اوران سے کناراکشی اختیار کرلی۔ کالج کی زندگی میں بھگت سنگھ کاواسطہ بائیں بازو کے لوگوں اور نظریات سے پڑا اور بہت سارے ہم خیال ساتھی ملے جو نظریات کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ بائیں بازو کے نظریات نے ان پر گہرے اوراہم اثرات مرتب کئے۔ ان نظریات سے متاثر ہو کر انہوں نے بھارت نوجوان سبھا کی بنیاد رکھتے ہوئے بر صغیر کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جوڑا۔ جہاں تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی کے تحت مذہبی اور قومی تعصب کو پروان چڑھایا جا رہا تھا وہاں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے سٹریٹ تھیٹر، شاعری اور انقلابی نغموں کے ذریعے گاؤں گاؤں اس نفرت اور تعصب کے خلاف نوجوانوں کو متحدکیا۔ HRA(ہندوستان رپبلکن ایسوسی ایشن) میں آنے کے بعد بھگت سنگھ نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیالیکن جلد ہی اسے یہ احساس ہوا کہ قومی آزادی کی جدوجہد مسلح لڑائی کے ذریعے نہیں جیتی جاسکتی تھی۔ سیاسی اور طبقاتی جدوجہد ہی اس آزادی کا واحد راستہ تھا۔ پنجاب سٹوڈنٹ کانفرنس کو بھیجے گئے اپنے پیغام میں اس نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’’آج ہم نوجوانو ں کو پستول اور بم اٹھانے کا نہیں کہتے، آج طلبہ کا سامنا اس سے کہیں بڑے مقصدسے ہے۔ ۔ ۔ نوجوانوں کو انقلاب کے اس پیغام کو ملک کے دور دراز کونوں تک لے کر جانا ہوگا۔ ‘‘ بھگت سنگھ نے بہت جلد ہی آزادی کی جدوجہد کے درست رستے کا ادراک کر لیا تھا جب کہ بہت ساری بائیں بازو کی پارٹیوں بشمول کمیونسٹ پارٹی آخر تک اس کا تعین کرنے میں ناکام رہے۔
9ستمبر 1928ء کوشہروز شاہ میں ہونے والی میٹنگ میں بھگت سنگھ نے واضح الفاظ میں سوشلزم کا نا م لیتے ہوئے آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑا اور برطانوی سامراج اور ہندوستانی سرمایہ دار طبقے کو للکارتے ہوئے ایک نئی جنگ کاا علان کیا اور HRAکو HSRA(ہندوستان سوشلسٹ رپبلکن ایسوسی ایشن) میں تبدیل کرتے ہوئے قومی آزادی کی جدوجہد کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے طبقاتی جدوجہد کیساتھ جوڑتے ہوئے یہ موقف رکھا کہ ہندوستان کی حقیقی آزادی صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے وگرنہ ہندوستان سے گورے حکمران تو چلے جائیں گے مگر بعد میں انکی جگہ بھورے حکمران(ہندو اور مسلم سرمایہ دار) لے لیں گے۔ بھگت سنگھ کا یہ موقف درست تھا یا غلط اسکا فیصلہ کرنا آج ہمارے لیے کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ ہندوستان میں آج آزاد وہ ہے جسکے پاس دولت ہے۔ پھر چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان اس کی عزت بھی ہے اور مقام بھی، مگر ہندوستان میں اگر کسی کے پاس دولت نہیں ہے تو پھر چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان اسے انسان کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے اور ایسے لوگ جنکے پاس پیسہ نہیں ہے وہ آبادی کا 99 فیصد ہیں۔ اسکا اندازہ صرف اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہندوستان میں 78 کروڑ انسانوں کے پاس بیت الخلا کی سہولت تک میسر نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی آزادی صرف دولت والوں کو ہی میسر ہے۔ 99فیصد آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر نیا دن اک نئی وحشت لے کر آتا ہے۔ کبھی مسجدوں میں دھماکے ہوتے ہیں تو کبھی بازاروں میں۔ اور دھماکوں میں مرنے والے بھی یہی عام لوگ ہوتے ہیں۔ آج پاکستان میں 45فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
کانگریس سمیت تمام تر دائیں بازوکی سامراجی مفادات کی روایتی سیاست نے ان کو عوام سے کاٹ کر رکھ دیااور وہیں اس کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ پارٹی کی سٹالنسٹ افسرشاہانہ زوال پذیری نے عوام میں بڑے پیمانے پر انکو مسترد کردیا۔ ان حالات میں بھگت سنگھ واقعات کا درست تعین کرتے ہوئے درست تناظرکے ساتھ سیاسی خلا کو پر کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اسمبلی میں بم پھوڑکر برصغیر کے لوگوں کی نظروں میں اپنے وجود کو ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے کے ساتھ منوایا۔ ریڈ پمفلٹ میں سامراج کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے اپنی گرفتاری دی۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ ہرتحریک کا بنیادی نعرہ بن کر ابھرا اور برصغیر اس نعرے سے گونج اٹھا۔ اس عرصے میں کسانوں کی ہڑتال نے بہت کلیدی کردار ادا کیا اور تحریک کو آگے بڑھایا۔ بھگت سنگھ نے اس ٹرائل کے ذریعے خطے کی غریب عوام اور نوجوانوں تک انقلاب کا پیغام پہنچایا۔ کانگریس سمیت تمام تر سیاسی پارٹیوں پر تنقید کرتے ہوئے سامراجی یلغار اور سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کو بے نقاب کیا۔ بھگت سنگھ کی ریڈیکل پوزیشنز نے کانگریس کو ریڈیکل پوزیشنز لینے پر مجبور کیا۔ ریڈیکل پوزیشنز لینے پر بھگت سنگھ کی مقبولیت کانگریس کی صفوں میں موجود نوجوانوں میں سرایت کرنا شروع ہوگئی۔ عدالت میں بھگت سنگھ کے بیان گلی گلی اور گاؤں گاؤں کی بحثوں میں سرایت کر تے چلے جا رہے تھے اور ایک وقت پر بھگت سنگھ کی مقبولیت گاندھی کو چیلنج کرنے لگی تھی۔ اس مقبولیت نے لندن میں بیٹھے حکمرانوں کی نیندیں اڑاکر رکھ دی تھیں۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی ناقابل تسخیر بھوک ہڑتال نے ان کو عام لوگوں کے ساتھ ایک گہر ے رشتے میں جوڑدیا تھا۔ برطانوی حکام کی مسلسل کوششوں کے باوجود وہ اس بھوک ہڑتال کو توڑنے میں نا کام ہوئے اور آخر کار انہیں ان کے مطالبات ماننے پڑے۔
بدترین حالات میں سے گزرتے ہوئے یہ لوگوں میں ایک ٹھوس طاقت کے طور پرسامنے آئے اور سامراج کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں تیزی کے ساتھ عوام میں مقبول ہو رہا تھا۔ حالات کو قابو سے باہر نکلتے دیکھ کر برطانوی سامراج نے بھگت سنگھ سمیت اسکے تین ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے تحریک کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی۔ اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اوراس فیصلے کے خلاف یہاں کے محنت کش نوجوانوں اور کسانوں نے ہڑتالیں اور احتجاج شروع کر دئیے۔ حالات کے دباؤ میں برطانوی سامراج نے بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کو مقررہ وقت سے پہلے 23مارچ1931ء کو ہی پھانسی پر لٹکا دیا۔ جب بھگت سنگھ کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو اس کی عمر 23سال تھی۔ اس پھانسی سے پورے ملک میں دنگے اور فساد شروع ہو گئے ایک انقلابی قیادت کی کمی کی وجہ سے یہ تحریک زائل ہو گئی۔ آج ہمارے نصاب میں اس عظیم الشان جدوجہد کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ اس خطے کی زر خیز مٹی میں بھگت سنگھ سمیت بہت سارے نوجوانوں کی قربانیوں کی اس داستان کو تاریخ کی کتابوں سے تو نکالاجا سکتا ہے مگر یہاں کے بسنے والے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کے ذہنوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ آج اس خطے میں بسنے والی دنیا کی آدھی آبادی غربت اوربے روزگاری جیسے مسائل کا شکار ہے جو آنے والے وقت میں اس خطے میں دوبارہ ایک بغاوت کی بنیاد بنے گی۔ جس کے لئے اس خطے کی نوجوان نسل کو متحد ہو کر اس جھوٹی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے ایک حقیقی انسانی سماج کے قیام کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ جو اس خطے میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔