|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبرپختونخوا|
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
4 مئی 2023ء کو کرم کے علاقے پاڑا چنار میں میٹرک کے سالانہ امتحانی ڈیوڈی پر مامور سات اساتذہ کو دوران ڈیوٹی نامعلوم افراد نے سکول کے اندر قتل کر دیا۔
ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ واقعہ دونوں فریقین کے درمیان لینڈ ڈسپیوٹ پر ہوا جبکہ اس کو شیعہ سنی تنازع کا رنگ بھی دیا جا رہا ہے اور یہ بار بار کہا جا رہا ہے کہ کہ سنی فرقے کے لوگوں نے اہل تشیع کو قتل کیا۔
ہم اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ امتحانی حال میں ڈیوٹی کے دوران تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ ریاست کی ناکامی ہے کہ وہ ان اساتذہ کو تحفظ فراہم نہیں کرسکی۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقع میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
اسی طرح ماضی میں پاکستانی ریاست نے ان علاقوں میں شیعہ سنی تنازعات کو مصنوعی طور پر اپنے مذموم مقاصد کے لیے ابھارا اور اپنے مفادات کے لئے ایران اور سعودی عرب کے پراکسیوں کو یہاں میدان فراہم کیا۔ جس کے نتیجے میں پچھلی چار دہائیوں میں ہزاروں شیعہ سنیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب ان علاقوں میں سنی شیعہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا تھا اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ اس واقع کے بعد بھی پختونخوا کے تمام تر اساتذہ نے مذہبی اور مسلکی وابستگی سے بالا تر ہو کر اس واقع کی مذمت کی اور غم و غصّے کا اظہار کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں پر مسلکی منافرت مصنوعی طور پر ریاست نے پروان چڑھائی ہے۔
ایک بار پھر ریاست ان تنازعات کو ہوا دے رہی ہے اور قتل عام کیلئے راہ ہموار کر رہی ہے۔ اس وقت پختونخوا میں دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اور امن کیلئے ولسی پاسون کے نام سے ایک بہت بڑی تحریک موجود ہے جو کہ ریاست کی پشت پناہی میں طالبان کو دوبارہ ان علاقوں میں لانے کے خلاف ابھری ہے۔ ولسی پاسون کے جانب سے پچھلے چند ماہ میں خیبرپختونخوا کے اکثریتی علاقوں میں ہزاروں لوگوں نے جلسے اور احتجاج کیے ہیں لیکن تحریک کی لیڈر شپ کے جانب سے ایک واضح طریقہ کار اور لائحہ عمل دینے میں ناکامی کی وجہ سے یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہی۔ ہزاروں لوگوں کے متعدد احتجاجوں کے باوجود آج پورے پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف فوجی آپریشنز بھی ہو رہے ہیں اور دہشتگردوں کی آبادکاری بھی جاری ہے۔ ایسے میں ریاست کی کوشش ہے کہ وہ تحریک پر اپنے لوگوں حاوی کر دے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دہشتگرد اور اسٹیبلشمنٹ ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ یہ دہشت گرد دراصل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے ہیں۔ اس لیے پاکستانی ریاست سے یہ امید بالکل بھی نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ دہشت گردی کو ختم کرے گی۔ بلکہ آنے والے وقت میں جیسے جیسے پاکستانی ریاست کا بحران گہرا ہوتا جائے گا دہشت گردی میں بھی اضافہ ہوگا۔
اس لئے تمام محنت کش عوام کو اپنے اپنے علاقوں، کام کی جگہوں، سکولوں اور کالجوں میں عوامی دفاعی کمیٹیاں بنانا ہوں گی جو کہ ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ تمام تر جرائم کا راستہ روکنے کا واحد طریقہ کار ہے۔ اسی طرح دہشتگردی کا مستقل حل ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔