عام ہڑتال کی جانب بڑھتا ہوا سربیا!

|تحریر: زونکو ڈین، ترجمہ: عامر سعدی|

نومبر میں، نووی ساد کے نو تعمیر شدہ ریلوے اسٹیشن پر ایک کنکریٹ کی چھت گرنے سے 15 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ شروع ہوا، جس میں حکام کی مجرمانہ غفلت کی مذمت کی گئی جو اس سانحے کی وجہ بنی۔ یہ تحریک مسلسل زور پکڑتی جا رہی ہے، جس میں طلبہ کی جانب سے عمارتوں پر قبضے اور عام ہڑتال کی اپیلیں شامل ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

[اس مضمون کا ایک ابتدائی ورژن 25 دسمبر 2024ء کو crvenakritika.org پر شائع ہوا تھا]

پچھلے مضمون کے بعد سے سربیا میں حالات کافی تیزی سے بدلے ہیں۔ میلوشووِچ (Miloševic) کے زوال کے بعد سے نوجوان اس پُر جوش تحریک کا مرکزی کردار بن چکے ہیں۔

جب حکومت نے کم درجے کے اہلکاروں اور غنڈوں کو طلبہ اور ہائی اسکول کے بچوں کے خلاف بھیجا، جو سڑکوں کی ناکہ بندی میں شریک تھے، تو اس سے حکومت کا خوف پیدا ہونے کی بجائے ان نوجوانوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ فیکلٹی آف ڈرامیٹک آرٹس (FDU) زیرِ ہدف مقامات میں سے ایک تھی جہاں پولیس ایک طالب علم پر جسمانی طور پر حملہ آور ہوئی تھی۔ اس حملے کے جواب میں، ایک ہفتے بعد اس فیکلٹی کے طلبہ نے اپنی فیکلٹی پر قبضہ کر لیا اور طالب علم پر کیے جانے والے حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔

دوسری طرف، کارلووچی (Karlovci) اور نووی ساد (Novi Sad) کے ممتاز جمنازیمز پر، جہاں طلبہ اساتذہ کے ساتھ ’سربیا سٹاپ!‘ تحریک کا حصہ بنے ہوئے تھے، حکمران سیاستدانوں کے بڑھتے دباؤ نے بھی ایسا ردعمل پیدا کیا جس کی حکومت کو توقع نہیں تھی۔

سریمسکی کارلووچی میں، میئر خود اپنے دفتر سے باہر نکلا تاکہ سڑک کی ناکہ بندی کی مخالفت کر سکے جبکہ اس کے کچھ عملے نے طلبہ کو ان کے نوموں سے بھی پکارا۔ نووی ساد میں، اسکول کے پرنسپل نے وزیر اعظم میلوش ووچیوِچ (Miloš Vucevic)، جس کا بیٹا بھی اسی اسکول میں پڑھتا تھا، سے شرمندگی کے ساتھ معذرت کی جب اس نے طلبہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اس کے جواب میں، سریمسکی کارلووچی کے طلبہ نے نووی ساد میں ہونے والے اگلے مظاہرے میں بینرز اٹھائے، جن پر لکھا ہوا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اس تحریک میں شامل ہوئے تھے، چند دن بعد، پرنسپل کے معافی مانگنے کے خلاف احتجاج کے لیے نووی ساد کے جمنازیم کے سامنے ایک عوامی جلسے کا انعقاد کیا گیا۔

لیکن جو تحریک نوجوانوں کے چند چھوٹے مظاہروں سے شروع ہوئی تھی، وہ جلد ہی ایک طوفان میں بدل گئی! FDU پر قبضے کے آغاز کے صرف ایک ہفتے بعد، دیگر فیکلٹیوں کے طلبہ نے بھی اپنے اداروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا، ان طلبہ کے مطالبات بھی وہی تھے جو FDU کے طلبہ کے تھے، ان طلبہ نے عمومی تحریک کے مطالبات کی بھی حمایت کی کہ نووی ساد میں کنکریٹ کی چھت گرنے کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے، جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے، اور اس پراجیکٹ سے متعلق تمام دستاویزات کو عوام کے سامنے لایا جائے۔

چند دنوں کے اندر 50 سے زائد اعلیٰ تعلیمی اداروں پر طلبہ کا قبضہ ہو چکا تھا، جن میں تین سب سے بڑے شہروں کی تمام فیکلٹیز بھی شامل تھیں! طلبہ نے خود کو جمہوری کمیٹیوں میں منظم کیا، جن میں وہ تحریک کی آئندہ سمت کا مشترکہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔

بے مثال تحریک

سربیا میں ماضی میں بھی فیکلٹیوں پر قبضے ہوئے ہیں، لیکن اس پیمانے پر کبھی نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ تھیولوجی فیکلٹی (الہیات کا شعبہ) بھی بند ہو گئی ہے۔ انقلابی تحریک کی ایک علامت یہ ہے کہ سماجی طور پر قدامت پسند پرتیں بھی جدوجہد میں شامل ہو جاتی ہیں۔

یہ جدوجہد سابق یوگوسلاویہ اور اس سے آگے بھی گونجی۔ کروشیا، بوسنیا اور ہرزیگووینا، مونٹی نیگرو، سلووینیا، مقدونیہ، اور یہاں تک کہ پولینڈ کے طلبہ نے بھی سربیا کے طلبہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

فیکلٹیوں پر قبضے سے متاثر ہو کر ہائی اسکول کے طلبہ نے بھی جدوجہد کے اس طریقے کو اپنایا اور بعض کیسز میں اپنے اسکولوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ بالکل غیر معمولی ہے! ہائی اسکولوں پر قبضے کی آخری یاد ہمیں عالمی جنگوں کے درمیانی دور تک لے جاتی ہے، جب کمیونسٹ یوتھ کے اراکین نے اسکول ہڑتالوں کی قیادت کی تھی۔

نووی ساد جمنازیم کے طلبہ کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم سے کی گئی معذرت واپس لی جائے اور پرنسپل ان پروفیسروں سے معذرت کرے جنہیں وزیر اعظم نے نشانہ بنایا تھا، اس کے علاوہ بغیر کسی پابندی اور اسکول کی جانب سے حمایت کے ساتھ طلبہ کو ’سربیا سٹاپ‘ تحریک میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ پرنسپل اور چند بدعنوان پروفیسروں نے اسکول میں گھسنے کی کوشش کی، لیکن طلبہ نے ثابت قدمی سے انکار کر دیا اور زور دیا کہ یہ اسکول کے طلبہ کے متفقہ فیصلے کے مطابق کیا گیا ہے۔

اس اسکول کی والدین کونسل میں، صرف تین ووٹ قبضے کے خلاف گئے، جبکہ باقی تمام والدین نے اس کی حمایت کی۔ اپنی مایوسی میں، پرنسپل اسکول کے باہر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگا، جب زمینی طاقتوں نے اسے تن تنہا چھوڑ دیا تو وہ آسمانی طاقتوں سے فریاد کرنے لگا۔ بعد ازاں ایک اور عوامی جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس میں سکول کے سابقہ طلبہ، والدین اور اساتذہ نے قبضہ کرنے والے طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ اس دوران، ان کے مطالبات پورے کیے جا چکے ہیں اور قبضہ ختم کر دیا گیا ہے۔

طلبہ نے اپنی تحریک کے ذریعے اس غصے کا اظہار کیا ہے جو عرصہ دراز سے ان کے بڑوں میں بھی پنپ رہا تھا۔ حکومت کے دباؤ نے یونیورسٹیوں سمیت معاشرے کی ہر پرت کو متاثر کیا ہے۔ طلبہ کی ناکہ بندیوں کی حمایت کئی پروفیسروں اور حتیٰ کہ ڈینز نے بھی کی، جنہوں نے طلبہ کے ان اقدام کی حمایت کی جنہیں کرنے سے وہ خود خوفزدہ تھے۔ حتیٰ کہ شمالی کوسووُ یونیورسٹی، جو بلغراد (Belgrade) کے سخت کنٹرول میں تھی، کے پروفیسروں نے بھی سربیا کے طلبہ کی حمایت کی۔ وہ اساتذہ جو ایک طویل ہڑتال میں تھے، انہوں نے بھی جدوجہد کو طلبہ کی تحریک کے ساتھ جوڑ لیا۔

اسی دوران، سربیا کے کسان ناکہ بندیوں پر بیٹھے طلبہ کے لیے کھانا لے کر آئے۔ کسانوں نے یہ اس وقت کیا جب حکومت نے کان کنی کی کمپنی رِیو ٹِنٹو (Rio Tinto) کو لانے کی کوشش کی، جو ایک حکومتی پراجیکٹ ہے جسے سربیا کے عوام مسترد کرتے ہیں۔ بیشتر شہریوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا جس کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں کہ طلبہ کو ناکہ بندیوں پر سامان فراہم کرنے کے لیے کس طرح سب نے مل کر کام کام کیا۔ طلبہ کو کئی اداکاروں، کھلاڑیوں اور گلوکاروں کی بھی حمایت حاصل ہوئی۔

حکومت خوف زدہ ہے

یونیورسٹیاں توانائی سے بھرپور ہیں۔ نئے سال کے موقع پر، بلغراد، نووی ساد اور نیش (Niš) کے طلبہ نے تقریبات کو ترک کر کے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ نووی ساد میں، کیمپس سے شہر کے مرکز تک مارچ کے دوران کئی رہائشیوں نے اپنی بالکونیوں سے ان کی حمایت کی، جبکہ طلبہ شور مچاتے اور اپنی گریڈ بُکس لہراتے رہے۔ شہر کے مرکز میں، انہوں نے کلاسیکل موسیقی کی پر فارمنس کی اور جدوجہد سے متعلق شاعری پڑھی۔ نئے سال کے آغاز کے لیے الٹی گنتی کے دوران، 15 متاثرین کی یاد میں 15 منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، جو پس منظر میں چلنے والی آتش بازی سے بالکل مختلف منظر پیش کر رہی تھی۔

حکومت اس تحریک سے خوفزدہ ہے۔ صدر ووچیچ کہتا ہے کہ وہ نوجوانوں کی بات سن رہا ہے اور انہیں سمجھتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ خصوصی فورسز کی دھمکیاں بھی دیتا ہے اور طلبہ پر غیر ملکی مداخلت کا حصہ ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ جب اس نے قوم سے ایک اور خطاب کرنے کا اعلان کیا تو طلبہ صدارتی آفس کے سامنے جمع ہو گئے تاکہ اس کے خطاب کے دوران احتجاج کریں اور شور مچائیں۔ خطاب کی نشریات کے دوران سیٹیوں اور نعروں کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں، جنہیں دبایا نہیں جا سکا۔ طلبہ نے صدر کی طرف سے بھیجی گئی مذاکرات کی درخواست کا جواب ان الفاظ میں دیا: ”کسی نے تم سے کچھ پوچھا؟“

اپنے خطاب میں، وہ واضح طور پر شکست خوردہ نظر آ رہا تھا، حالانکہ اس نے ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ عوامی جلسوں میں اس کی پریشانی اور اپنی پارٹی کی صلاحیتوں اور اپنے ورثے کے بارے میں اس کے شک و شبہات صاف طور پر نظر آ رہے تھے۔ نئے سال کے انٹرویو میں، جب اس سے طلبہ کے جلسوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو اس نے بالشویکوں اور منشویکوں تک کا ذکر کر دیا۔

حکمران جماعتیں مسلسل ایک ’رنگین‘ انقلاب کی بات کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس ہنگامے کے پیچھے امریکہ، یورپی یونین، روس یا چین نہیں بلکہ ہمسایہ ملک کروشیا ہے! یہ الزام ان کی مایوسی کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔

حکومت کی جانب سے کسی بھی بیان یا عوامی جلسے کو غصے اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر تعلیم، جس کے استعفیٰ کا ہڑتالی اساتذہ نے مطالبہ کیا ہے، نیش سٹی کونسل گئی، لیکن طلبہ نے اسمبلی میں گھس کر سیٹیوں اور نعروں سے احتجاج کر کے اس کے دورے کو مختصر کر دیا۔

ہڑبڑائے ہوئے حکام کا اسمبلی سے نکلنے کا منظر طاقت کے اصل توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ تھیٹر میں موڈریٹر نے جب ووچیچ اور وزیروں کا ذکر کیا تو یہ بھی طلبہ کی جانب سے شدید ناراضگی اور سیٹیوں کا سبب بنا۔ کسان وزیر زراعت کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

عام ہڑتال کی جانب بڑھو!

حکومتی حوصلے کی گراوٹ کے ساتھ حکومت کے خاتمے کا سوال سامنے آنا ضروری ہو گیا ہے۔ طلبہ نے بلغراد یونیورسٹی میں عام ہڑتال کی تجویز دی ہے۔ یہاں تک کہ اپوزیشن جماعتوں کے بعض افراد نے بھی ہمت کر کے یہ کہہ دیا ہے کہ صورتحال عام ہڑتال کی طرف جا رہی ہے، حالانکہ احتجاج میں اپوزیشن جماعتوں کی موجودگی کو زیادہ خوش آمدید نہیں کہا جا رہا اور بیشتر مزدور رہنما بھی کمزور نظر آتے ہیں۔

22دسمبر کو بلغراد کے سلاویا اسکوائر پر ایک بڑا احتجاج ہوا، جس میں طلبہ، کسان، پنشنرز اور عام لوگ سمیت دسیوں ہزار لوگ موجود تھے۔ بعض رپورٹس کے مطابق 10 لاکھ سے زیادہ لوگ اس احتجاج میں شامل ہوئے تھے۔ اس لڑائی کا فیصلہ کن مرحلہ جاری ہے، اور تحریک ابھی اپنے عروج تک نہیں پہنچی ہے۔

اپوزیشن لیڈر دراگان جیلاس اور حکمران سربین پروگریسو پارٹی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ کے بعد، امریکی سفیر کرسٹوفر ہِل نے کہا کہ دونوں طرف کے لوگوں کو تھوڑا صبر سے کام لینا چاہیے اور یہ کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہے۔ اس نے یہ نشاندہی بھی کی کہ درحقیقت حکومت اور اپوزیشن، دونوں ہی یورپی یونین میں شمولیت چاہتے ہیں، جس کی امریکہ حمایت کرتا ہے۔ لیکن وہ اپنی بات میں جس چیز کی وضاحت کر رہا تھا وہ یہ کہ صورتحال حکومت اور اپوزیشن دونوں کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔

دوسری جانب، ہم کہتے ہیں کہ عام ہڑتال ہی آگے بڑھنے کا صحیح راستہ ہے! یہ ثابت کرے گی کہ سربیا کے عوام سیاستدانوں اور حکمران طبقے سے زیادہ طاقتور ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ حکومت اور صدر کے استعفے کے مطالبے سمیت ہر مطالبے کو پورا کریں۔

نووی ساد میں ہائی کورٹ نے مقدمے درج کر دیے ہیں، لیکن صرف نچلے درجے کے اہلکاروں پر ہی، جیسے کہ انجینئرز، کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اصل مجرم یعنی اعلیٰ حکام، جیسے کہ سابق وزیرِ انفراسٹرکچر، ابھی تک آزاد ہیں۔ ہم نووی ساد میں ہونے والے جرم کے لیے موجودہ حکومت سے انصاف کی بالکل بھی توقع نہیں رکھ سکتے۔ ووچیچ اور سربین پروگریسو پارٹی کو صرف ایک کاری ضرب کی ضرورت ہے جو پوری مشینری کو توڑ دے۔

ہمیں یہ بات بھی واضح کرنی چاہیے کہ نوجوان اکثر مزدور طبقے کی شمولیت کے لیے تحریک کا ذریعہ بنتے ہیں، لیکن صرف مزدور طبقہ ہی معیشت کے پہیے روک سکتا ہے، جو حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے گا۔ اب کیا کِیا جا سکتا ہے؟ ہم طلبہ کی اسمبلیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ٹریڈ یونینز، ہر فیکٹری اور کام کی جگہ پر اپنے وفد بھیجیں تاکہ عام ہڑتال کے لیے منصوبہ بندی کی جا سکے۔ صورتحال ایک حل کا مطالبہ کر رہی ہے، اور ہمیں عوام کی فتح کے لیے زور دینا ہو گا اور اس لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

ووچیچ مردہ باد!

سربین پروگریسو پارٹی مردہ باد!

حکومت کو مستعفی ہونا چاہیے!

متاثرین کے لیے انصاف!

ذمہ داروں کو سزا دو!

طلبہ اور مزدور جدوجہد کے لیے متحد ہو جاؤ!

عام ہڑتال کی جانب بڑھو!

Comments are closed.