|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
8 مارچ بروز سوموار پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کی جانب سے دیال سنگھ کالج لاہور میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موضوع پر سیمینار منعقد کروایا گیا جس میں مختلف تعلیمی اداروں جیسے یوایم ٹی، پنجاب یونیورسٹی، نمل، یو او ایل، یو سی پی، ایف سی کالج اورنیشنل کالج آف آرٹس کے طلبہ نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ گھریلو خواتین اور محنت کش ساتھیوں نے بھی شرکت کی۔
نمل یونیورسٹی سے بابر علی نے سمینار کی صدارت کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے کامریڈ شہربانو نے سماج میں جنسی ہراسانی اور بڑھتے ریپ واقعات پر بات کرتے ہوئے بحث کا آغاز کیا کہ تمام مسائل کے باوجود جب ایک عورت انصاف کی خاطر عدالت کا رخ کرتی ہے تو وہاں بھی کوئی ایکشن لینے کے بجائے عورت ہی کو تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ سے کامریڈ مقصود ہمدانی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھوک اور غربت کے مسئلے پر کہا تھا کہ یہ بات پرے کہ عورت کا لباس کیسا ہے یا کردار کیسا ہے، سب سے ضروری بات یہ ہے کہ کیا اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور کیا تمام حقوق سمیت اس کی سماجی ضروریات پوری ہیں؟ اس کے بعد حریم نے حبیب جالب کی نظم”عورت“ پڑھ کر سنائی۔
پروگرام میں تقاریر اور شاعری کے علاوہ انقلابی گیت بھی گائے گئے۔ نمل یونیورسٹی سے مریم عابد نے ساحر لدھیانوی کا معروف گیت ”وہ صبح کبھی تو آئے گی“گایا جس کے ساتھ حمزہ نے گٹار بھی بجایا۔ اس کے بعد تقاریر کا مرحلہ دوبارہ شروع ہوا۔ لاہور سے پروگریسو یوتھ الائنس کے آرگنائیزر آکاش جلبانی نے سٹوڈنٹ یونین کی بحالی اور اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیز کی تشکیل پر بات کی۔ نمل یونیورسٹی سے علیحہ عارف نے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبات کو یونیورسٹی جاتے وقت ٹرانسپورٹ میسر نہ ہونے پرشدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روز یونیورسٹی جانے میں ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے اور کبھی دیر ہوجائے تو لیکچر چھوٹ جانے پر حاضری کم ہو جانے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دیگر مسائل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان مسائل سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔
اس کے بعد نیشنل کالج آف آرٹس سے سالار مری نے سماج میں محنت کش خواتین کے مسائل پر بات کی، خاص طور پر اکیلی ماؤں کو اس سماج میں اپنے بچوں کو پالنے اور سماج میں زندہ رہنے کے جو مسائل ہیں ان پر بات کی۔ ان کے مطابق جب تک ہم اس طبقاتی سماج سے چھٹکارا نہیں پاتے تب تک عورت بھی اس غلامی سے نجات نہیں پاسکتی۔ اس کے بعد یو ایم ٹی سے کامریڈ دانیال خالد نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ آج سماج میں عورت کو نجی ملکیت کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ اس کے بعد یو سی پی سے کامریڈ ساحر نے کہا کہ صنفی جبر کا خاتمہ بھی طبقاتی سماج کے خاتمے کے ساتھ ممکن ہے۔ عورت کی جنگ مرد سے نہیں بلکہ اس سرمایہ درانہ نظام سے ہے۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ سے رائے اسد نے بات کی کہ سماج میں عورت کو مر د کی طرف سے جبر کا سامنا توہے لیکن اسطرح کا جبر ہمیں حکمران طبقے کی خواتین میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ مریم نواز اور شیریں مزاری جیسی خواتین کبھی بھی ہراسمنٹ کا شکار نہیں ہوتیں۔ وہ خود ان جرائم میں شریک ہیں اور وہ نہ صرف اپنے سے نچلے طبقے کی خواتین بلکہ مردوں کو بھی معاشی اور سماجی طور پر ہراساں کرتی ہیں۔اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ماہ نور باجوہ نے بات کو آگے بڑھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی ان لڑکیوں کی بہت کم شرح ہے جو یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کرتی ہیں اور جو پڑھ رہی ہیں وہ استا د کے روپ میں بھیڑیوں سے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جلد ہی یونیورسٹیوں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیز بنانے کی جانب جائیں گے۔ ثناء نے خواتین کی بڑھتی گھریلو ذمہ داریوں پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دن رات کی محنت بھی ایک فیکٹری میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کی محنت کے برابر ہے لیکن اسے ایک عورت کا فرض سمجھا جاتا ہے، اس کا چھٹکارا بھی سرمایہ درانہ سماج کے خاتمے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
اس کے بعد مریم اور حمزہ نے فیص احمد فیض کی غزل”ہم دیکھیں گے“ گا کر سنائی۔ پھر کامریڈ عدیل زیدی نے خواتین کے عالمی دن کی تاریخ اور اہمیت پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی انتہا پسند ی نے عورت کو انسان نہیں بلکہ ایک شے بنا کہ رکھ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت ان تمام مسائل سے نجات سرمایہ درانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی حاصل کرسکتی ہے۔
اس کے بعد لال سلام کے مرکزی رہنما آدم پال نے انقلابات کی تاریخ پر بات رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی انقلاب سے لے کر بالشویک پارٹی کے عظیم انقلاب روس تک اگر دیکھیں تو ہمیں ان انقلابا ت میں محنت کش خواتین کا اہم کردار نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے انقلاب روس کی حاصلات پر بحث کی اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیز کی تشکیل پر بات کی۔ آدم پال نے تمام ساتھیوں کو فریڈرک اینگلز کی کتاب ”خاندان، ریاست اور ذاتی ملکیت کا آغاز“ پڑھنے کی تجویز دی تاکہ تمام ساتھی ذاتی ملکیت کے جنم اور اس کی وجوہات اور تاریخ کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوسکیں۔
آخر میں پنجاب یونیورسٹی سے مشعل وائیں نے پروگرام کو سمیٹتے ہو ئے ”عورت فطری طور پر کمزور ہے“ کے مغالطے پر بات کی کہ لڑکی کو بچپن سے کھیلوں اور دنیا سے دور رکھا جاتا ہے اور ہاتھ میں گڑیا پکڑا دی جاتی ہے۔ بالغ ہو کر وہ اپنی ساری زندگی گڑیا بننے میں صرف کر دیتی ہے۔ چھوٹی بچیوں کی بچپن سے ایک آئیڈیل لڑکی بننے کی ٹریننگ شروع کردی جاتی ہے تاکہ اسکی شادی کر دی جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے فیمینسٹ تناظر پر بات کی کہ عورت کی جنگ مرد سے نہیں ہے اور نہ عورت کی آزادی مرد کے خاتمے کے ساتھ منسلک ہے بلکہ یہ طبقاتی جنگ ہے اور تب تک رہے گی جب تک ہم طبقاتی تفریق کا خاتمہ نہیں کرتے۔ ہمیں ایک نئے سماج کی بنیاد رکھنی ہوگی اسی طرح جس طرح روس میں لاکھوں محنت کش خواتین نے 1917ء میں تاریخ کے عظیم سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔