|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
11 مارچ بروز جمعرات، پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ، بہاولپور کی جانب سے محنت کش خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات سمیت صادق ایگرٹن کالج سے بھی طلبہ نے شرکت کی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور کے کارکن عرفان منصور نے حاضرین کے سامنے تاریخی طور پر ترویج پانے والے عورت کے ثانوی تصور پر بات کرتے ہوئے اسکی مادی وجوہات بیان کیں اور کہا کہ یقیناً عورت کو تاریخی طور پر ثانوی قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ وہ الگ سے ایک طبقہ ہے بلکہ اس میں بھی طبقاتی خلیج حائل ہے اور عورت کی آزادی کا تصور ہماری اس مخصوص ملکیتی نظام کو تبدیل کئے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا ہے اور آج کے دور میں محنت کش طبقے کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب ہی وہ واحد حل ہے جو صنفی جبر، جنسی ہراسانی اور بیروزگاری جیسے کئی اور مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔
اسکے بعد پبلک ایڈمنسٹریشن کی طالبہ صیہبا صادق نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہماری سماجی قدریں اس طرح سے تشکیل پاچکی ہیں کہ یہ پدرسری نظام کی حمایت کرتی ہیں اور کیوں نا کریں کہ انکی تشکیل بھی پدرسری نظام نے کی ہے۔ ہمیں دکھائے جانے والے کارٹونز، موویز اور پڑھائے جانے والے ادب میں عورت سے جو جو تعصبات منسلک ہیں وہ ہمارا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں۔ ہمارے سماج میں ہر وہ لڑکی جو اللہ میاں کی گائے بن کر رہے اچھی تصور ہوگی مگر جیسے ہی وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گی وہ ”بری لڑکی“ بن جائے گی۔ آج ان سب تصورات اور پدرسری نظام کے خلاف بولنے اور جدوجہد کرنے کا یہ سب سے مناسب وقت ہے۔
محترمہ عفیفہ پراچہ نے کہا کہ اس تقریب کا عنوان ہی میرے نزدیک اس سماج میں عورت کی اہمیت کو بیان کر رہا ہے کہ عورت کو ثانوی مخلوق سمجھے جانے کے باوجود بھی وہ اس سماج کی بنیاد استوار کرنے میں پہاڑ کی مانند استادہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے حقوق کی حاصل کیے بغیر ہی کام کرتی رہیں اور غلامی اختیار کرلیں بلکہ درست راستہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے مسائل کا شعوری ادراک حاصل کرے اور اس بنیاد پر اپنے حقوق کے حصول کے لئیے جدوجہد کا راستہ اپنائے۔
محترمہ عزہ شکیل نے کہا کہ واضح استحصال کی صورتوں جیسا کہ گھریلو تشدد، صنفی جبر اور اس طرح کے دوسرے مسائل پر تو بات کی جارہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ سماج میں اخلاقیات کو دیکھا جائے تو طلاق، جہیز، اچھی عورت و بری عورت اور اس جیسے کئی اور تصورات ہیں جو اسکے پاؤں کی بیڑی بن چکے ہیں اور مسلسل عورت کو مغلوب کئیے جارہے ہیں اور ہمیں اسکے خلاف عملی جدوجہد کرنی ہوگی۔ اسکے بعد حاضرین کی طرف سے سوالات کئے گئے اور سوالات کے سلسلے کے بعد جناب احمد سعید احمد، محترم اسد تسکین، عزت مآب پارس مزاری، رومانوی سے مزین خالد محبوب، خوبصورت تخیل کے حامل محسن دوست اور ملکی حدود سے ماوراء شہرت کے حامل شاعر اظہر فراغ نے حاضرین کو شاعری سنا کر پروگرام کا وقار بڑھایا۔
اختتام میں ریڈ ورکرز فرنٹ، بہاولپور کے کارکن یاسر ارشاد نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے حاضرین کو سمجھایا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں جو معیشت پر حاوی ہوتا ہے وہی سیاست پر حاوی تو ہوتا ہی مگر ساتھ ساتھ مذہبی اداروں کے فیصلہ جات پر بھی وہی حاوی ہوتا ہے۔ ہمارے اس سماج میں جاری سب سے گہری تفریق کو ہم سے چھپایا جاتا ہے اور وہ ہے طبقاتی تفریق۔ ہمارا سماج آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ طبقاتی تفریق اتنی بڑھ چکی ہے کہ انسان اور تہذیب کی بقا خطرے میں ہے۔ ایک ایسا سماج جو کہ خود پدرسری کو، صنفی فرق کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہو، وہ عورت کے حقوق بھلا کیسے مہیا کرسکتا ہے؟ ہم اگر محنت کش عورت کو اسکے حقوق دینا چاہتے ہیں تو ہمیں عورت کی لڑائی کو صنفی نہیں بلکہ طبقاتی بنیادوں پر لڑنا ہوگا، اس طبقاتی تفریق کو ختم کرنا ہوگا اور اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس طبقاتی نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے جو سماج کو مذہب، ذات پات، رنگ نسل، قومیت اور صنفی بنیادوں پر تقسیم کر رہا ہے۔