|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: ولید خان|
غزہ شہر پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مقتولین کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 3 ہزار لاپتہ ہیں۔ انفرا سٹرکچر کی تباہی و بربادی، ہسپتالوں، سکولوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بمباری، ایمبولینس اور شعبہ صحت سے منسلک افراد کی نشانہ بازی، ان سب نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی فوج کی خونخوار بربریت کو واضح کر دیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک طرف غزہ پٹی ان بھیانک حالات سے دوچار ہے تو دوسری طرف مغربی کنارے (West Bank) میں رہنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجیوں اور آبادکاروں کے حملے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان کا آغاز 7 اکتوبر سے بہت پہلے ہو چکا تھا لیکن اس وقت سے اب تک ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب تک 200 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ کچھ علاقوں میں قتل کے خطرے سے دوچار پوری آبادیوں کو ہجرت کرنی پڑی ہے۔
یہ تنازعہ آج کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کی گہری تاریخی جڑیں قدیم فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے صیہونی پراجیکٹ کے آغاز میں پیوستہ ہیں۔ 1948ء میں ریاست بنانے کا ایک ہی طریقہ کار تھا کہ ایک پوری قوم کو اس کی اپنی سرزمین سے نکال دیا جائے۔ لہٰذا اس طرح فلسطینی عوام کے خلاف ایک جرم سرزد ہوا جو آج تک جاری اس نسلی تنازعے کی حقیقی بنیاد ہے۔
7 اکتوبر 2023ء کو رونما ہونے والے واقعات نے اس تنازعے کو ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ ان ڈرامائی واقعات کے بعد سے غزہ شہریوں کا قتل عام مسلسل جاری ہے اور یہ فلسطینی عوام کی ہولناک حالت زار میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
لیکن یہ واقعات اچانک آسمان سے رونما نہیں ہو گئے۔ ہمیں خاص طور پر مغربی کنارے میں دہائیوں سے جاری زمینوں پر قبضوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ 1993ء میں ہونے والے اوسلو معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی، اور اس معاہدے سے پہلے اور بعد میں بھی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ جاری ہے۔
آبادکاریوں میں اضافہ
موجودہ جنگ سے کئی مہینے پہلے اس سال جون میں نیتن یاہو کی حکومت، جو کہ اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ جنونی دائیں بازو کی حکومت ہے، نے مغربی کنارے میں آبادکاریوں کو بڑھانے کے پروگرام کو تیز تر کر دیا تھا۔ یعنی فلسطینی اتھارٹی کے ہی علاقے میں جہاں فلسطینیوں نے دہائیاں پہلے یہ آس لگا لی تھی کہ انہیں خودمختاری کا حق مل جائے گا اور یہ ایک ریاست کے حقیقی قیام کی جانب پہلا قدم ثابت ہو گا۔ اس امید کو لاتعداد مرتبہ تباہ و برباد کیا گیا ہے اور آج مسلط کردہ نسل کشی اس آپشن کو قتل کرنے میں ایک اور قدم ہے۔
اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں مغربی کنارے میں 7 ہزار سے زیادہ نئے ہاوسنگ یونٹ تعمیر کرنے کی اجازت مل چکی ہے۔ لیکن جون میں قانون میں تبدیلی کے بعد اس پروگرام میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ فلسطینی زمینوں پر 250 آبادکاریوں میں اس وقت 7 لاکھ 50 ہزار اسرائیلی آبادکار رہائش پذیر ہو چکے ہیں۔ 2 لاکھ 50 ہزار آبادکار مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں جبکہ دیگر مغربی کنارے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ہر آبادکاری کو اسرائیلی ڈیفنس فورسز (اسرائیلی فوج) کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان کو کھلا پانی اور درجہ اول سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور باڑوں اور لوہے کی تاروں میں محفوظ سڑکوں کے نیٹ ورک کے ذریعے رسائی یقینی بنائی جاتی ہے۔ یہ سارا ڈیزائن بنایا ہی اس لئے گیا ہے تاکہ فلسطینی زمین پر فلسطینیوں کی رسائی کو ہر ممکن حد تک کاٹ دیا جائے اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی ذریعہ معاش کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے موجودہ آبادکاریوں کے گرد و نواح میں زمینوں پر مزید قبضے کی راہ ہموار کی جائے اور نئی آبادکاریاں بنائی جائیں۔
نیتن یاہو نے اپنی سیاسی بقاء کے لئے شدید انتہاء پسند دائیں بازو کے یہودی نسل پرستوں کا رنگا رنگ ٹولہ اکٹھا کر رکھا ہے۔ اس میں وزیر معیشت بیزالیل سموتریچ (مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضوں کا انچارج) اور قومی سیکورٹی وزیر ایتامار بن گویر شامل ہے جسے اپنے انتہاء پسند خیالات کی وجہ سے اسرائیلی ڈیفنس فورسز میں سروس سے روک دیا گیا تھا۔ دونوں آبادکاروں کی تحریک کے صف اول داعی ہیں۔ یہ انتہائی دائیں بازو کے جنونی نسل پرست افراد اسرائیلی سیاست کی گمنامیوں سے نکل کر اس وقت نیتن یاہو حکومت کی مرکزی وزارتوں پر قابض ہیں۔ ان کا پروگرام ایک نیا نقبہ ہے جس کے ذریعے تمام فلسطینیوں کو تاریخی فلسطین کے پورے علاقے سے باہر نکال دیا جائے گا۔
پچھلی تمام حکومتوں نے ہمیشہ آبادکاریوں کی حمایت کی ہے جن میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے اس لڑائی کو نئی انتہاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ اس لئے جون کے مہینے میں سموتریچ کو عرصہ دراز سے چلے آ رہے طریقہ کار کو بائی پاس کرتے ہوئے تعمیراتی پرمٹ جاری کرنے کے لئے بے تحاشہ اختیارات دے دیے گئے۔ درحقیقت مغربی کنارے کی غیرقانونی قبضہ گیریت کا مکمل کنٹرول ایک جنونی کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ یہ وہی وزیر ہے جس نے اس سال مارچ میں مغربی کنارے میں فلسطینی گاؤں ہوارا میں آبادکاروں کی بے لگام ہنگامہ آرائی، جس میں 1 فرد قتل اور 100 سے زائد زخمی ہو ئے تھے، کے بعد کہا تھا کہ ”پورے ہوارا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ضرورت ہے“ اور ”اسرائیلی ریاست کو یہ کام کرنا چاہیے“۔
جون میں جب سموتریچ کو یہ اختیارات دیے گئے تو حماس نے خبردار کیا کہ اس سے تناؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔ بادی النظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حقیقت نوشتہ دیوار تھی! 28 فروری کو واشنگٹن پوسٹ اخبار میں ایک مضمون میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ”ایک نئی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد آبادکار سمجھتے ہیں کہ بائبلی پیدائشی حق کے مطابق اب زمینوں پر باقائدہ قبضہ شروع کرنے کا وقت آ چکا ہے“۔
7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس حملے کے بعد غزہ کے شہریوں کا جاری قتل عام توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور دوسری طرف مغربی کنارے میں آبادکاروں نے گاؤں در گاؤں اپنے حملوں کی وسعت اور تیزی میں اضافہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں فلسطینی اپنی زمینیں اور گھر چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ آبادکاروں کو اسرائیلی فوج اور حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ حملے کے بعد بن گویر نے فوراً اعلان کر دیا کہ آبادکاروں کو ہزاروں آٹومیٹک رائفلز دی جائیں گی۔ اس اعلان سے پہلے ہی ہزاروں آبادکار مسلح تھے۔
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف آبادکاروں کے روزانہ حملوں کی تعداد تین سے بڑھ کر سات ہو چکی ہے اور 7 اکتوبر سے اب تک 200 سے زائد ایسے حملے ہو چکے ہیں۔ اس سال (9 نومبر تک) پورے مغربی کنارے میں 378 فلسطینی قتل کئے جا چکے ہیں۔ اس قتل و غارت گری میں زیادہ تر اسرائیلی فوج شامل ہے جبکہ کچھ میں آبادکار بھی ملوث ہیں جن کی سرگرمیوں کو مکمل حمایت حاصل ہے۔ ان میں سے تقریباً نصف، یعنی 170 کو، 7 اکتوبر کے بعد قتل کیا گیا ہے۔
الجزیرہ کی ویب سائٹ پر 3 نومبر کو شائع کردہ ایک مضمون بعنوان ”اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ: اسرائیلی آبادکار جنوبی ہیبرون پہاڑیوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں“ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال کیا ہے۔ مثلاً مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:
”عام طور پر آبادکار رات کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں، پانی کی ٹینکی، پائپوں اور بجلی کے نظام کو تباہ کرتے ہیں، کھڑکیوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ خربت زانوتا کے رہائشیوں کے لئے سب سے زیادہ پریشان کن وہ وقت تھا جب مسلح آبادکار گھروں میں گھس کر فلسطینی چرواہوں کو مارنا پیٹنا شروع ہو گئے۔ 27 اکتوبر کو آبادکاروں نے رہائشیوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ 24 گھنٹے میں یہاں سے نہیں نکلیں گے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا“۔
اس مضمون میں آگے لکھا ہے کہ:
”اقوام متحدہ آفس برائے انسانی امور (OCHA) کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق کم از کم 864 فلسطینیوں کو، جن میں 333 بچے بھی شامل ہیں، اس عرصے میں اسرائیلی آبادکاروں نے جبری طور پر ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے جبکہ 11 آبادیاں مکمل طور پر اور 11 آبادیاں جزوی طور پر جبری دربدر ہو چکی ہیں۔ پرتشدد آبادکاری کے تقریباً 186 واقعات، جن میں افراد زخمی ہوئے یا پراپرٹی کو نقصان پہنچا، اسرائیلی فوج کی موجودگی یا حمایت میں رونما ہوئے۔ ان میں سے ایک تہائی واقعات میں آبادکاروں نے ہتھیار استعمال کئے ہیں“۔
ایک اور الجزیرہ مضمون کے مطابق:
”فلسطینی اتھارٹی کے ایک اہلکار غسان داغلاس، جو آبادکاروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’آبادکار مغربی کنارے میں 7 اکتوبر سے بہت پہلے سے جرائم کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد ان کو گرین سگنل مل گیا کہ زیادہ جرائم کرو‘۔
28 اکتوبر کو مقبوضہ مغربی کنارے میں نابلس شہر میں ایک فلسطینی کسان کو زیتون چنتے ہوئے آبادکاروں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ داغلاس کا کہنا تھا کہ ’اس وقت زیتون کی چنائی کا موسم ہے، مگر لوگ نابلس کے علاقے میں 60 فیصد زیتون کے درختوں تک آبادکاروں کے حملوں کی وجہ سے پہنچ نہیں پاتے‘۔
12 اکتوبر کے دن مقبوضہ مغربی کنارے میں وادی از سیق کے بدو گاؤں کے 200 رہائشی آبادکاروں کی دھمکیوں کے نتیجے میں گاؤں چھوڑ کر چلے گئے“۔
مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کی زمینوں پر منظم قبضہ جاری ہے جنہیں اچانک پتا لگتا ہے کہ ان کی ملکیت کو یہودی آبادکاروں نے باڑ لگا کر قبضہ کر لیا ہے۔ اسرائیلی عدالتوں کی جانب سے ”قانونی بے دخلی“ کے احکامات کی موجودگی میں اُلٹا انہیں ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ حقیقی مالکان ہیں۔
امریکہ میں نام نہاد ”فلاحی تنظیمیں“ وہ فنڈ فراہم کر رہی ہیں جن کے ذریعے زمین یہودیوں کو منتقل کی جا رہی ہے۔ ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں امریکی یہودی اعلانیہ فلسطینیوں کو کنیسیٹ (پارلیمنٹ) ممبران، یہاں تک کہ بن گویر جیسے حکومتی وزراء کی موجودگی میں بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ ساری تفصیل واضح کرتی ہے کہ پوری آبادیوں کا شیرازہ بکھیرا جا رہا ہے اور اکثر موت کی دھمکی کے تحت انہیں جبری طور پر دربدر کیا جا رہا ہے۔ اسی کو نسل کشی کہا جاتا ہے۔
صیہونی پراجیکٹ میں دو ریاستوں کی کوئی جگہ نہیں ہے
اب ہم ایک سوال پوچھتے ہیں؛ کیا یہ سب 7 اکتوبر حملوں کا نتیجہ ہے؟ واضح طور پر جواب منفی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت آبادکاری پروگرام کو پھیلانے اور تیز تر کرنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن پھر اس کام کا آغاز اس حکومت نے تو نہیں کیا۔ درحقیقت مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی دہائیوں پرانی ہے، یقیناً اسرائیل کے قیام کی بنیاد ہے۔ اُس وقت صیہونیوں کے ذہن میں منصوبہ بندی بالکل مربوط اور واضح تھی۔
وہ بالکل واضح ہیں کہ اصلی صیہونی پراجیکٹ میں فلسطین کے بٹوارے کے نتیجے میں ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ ان کا مقصد پورے فلسطین میں فلسطینی آبادی کو دربدر کر کے صرف یہودیوں کے لئے ایک یہودی ریاست قائم کرنا تھا۔ اس کی وضاحت اسرائیل کے بانیان، خاص طور پر ڈیوڈ بن گوریون نے کی تھی جس کے الفاظ ریکارڈ پر موجود ہیں کہ 1947ء میں اقوام متحدہ کا بٹوارہ منصوبہ بالآخر پورے فلسطین پر قبضے کی حکمت عملی میں محض ایک مرحلہ ہے۔
1937ء میں بن گوریون نے صیہونی ایگزیکٹیو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اسرائیلی زمین کے بٹوارے کی مخالفت یا حمایت میں کوئی بحث مباحثہ موجود نہیں ہے۔ کوئی صیہونی اسرائیلی زمین کا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی نہیں چھوڑے گا۔ بحث مباحثہ یہ تھا کہ دو راستوں میں سے کونسا مشترکہ ہدف کی جانب تیزی سے لے کر جائے گا۔ ریاست کے قیام کے بعد ایک بڑی فوج تعمیر کی جائے گی جس کے بعد بٹوارہ ختم کر دیا جائے گا اور پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے گا“ (اسرائیل کا جنم، سیمہا فلاپان، نیو یارک: پینتھیون، 1987ء، صفحہ نمبر 22)۔
کوئی بھی بن گوریون پر مبہم ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اس وقت صیہونی حکمران طبقہ مجبور تھا کہ موجودہ طاقتوں کے توازن میں (بڑی طاقتوں کا دباؤ، ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ اعلانیہ جنگ سے اجتناب، فی الحال آبادی کا نسلی عدم توازن جس میں فلسطینی ابھی بھی اکثریت میں تھے) فلسطین کے ایک حصے پر اسرائیلی ریاست کے قیام پر اکتفاء کرے۔ لیکن ان کا ہدف واضح تھا کہ فوج کی تعمیر سے آغاز لیتے ہوئے ایک طاقتور ریاست کی تعمیر کی جائے اور پھر اس کے بعد باقی زمین پر قبضے کی تیاری شروع کی جائے۔
صیہونی حکمران طبقے کا ”دو ریاستی حل“ پر آمادہ ہونے کا کبھی بھی کوئی پروگرام نہیں تھا جس کا پرچار کچھ لوگ اسرائیل کے قیام کے دوران کر رہے تھے۔ اس کے برعکس 1947ء میں انہوں نے اس وقت اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ اول کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا جس میں اس نے سمجھوتا کیا کہ وہ خاموشی سے مغربی کنارے کو اردن میں شامل کرنے کے بدلے اسرائیل پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس لئے عبداللہ اول کو 1951ء میں ایک فلسطینی قوم پرست نے نقبہ کے دوران فلسطینی تحریک کو دھوکہ دینے کی پاداش میں قتل کر دیا تھا۔
اس سوچ اور صورتحال کے پس منظر میں 1948ء کی جنگ کا آغاز ہوا۔ صیہونی حکمران طبقے کی سوچ کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے یہ منصوبہ بہتر تھا۔ انہوں نے مغربی کنارے کو اردنیوں کے انتظام میں دے دیا تاکہ مستقبل میں جب وہ قابل ہوں تو فوجی طاقت کی بنیاد پر اسے واپس حاصل کر لیا جائے۔
1948ء میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کے برعکس زیادہ علاقے پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے فلسطینیوں پر حملے کئے، ہزاروں کو قتل کیا، دہشت پھیلائی اور انہیں لاکھوں کی تعداد میں بھاگنے پر مجبور کر دیا (اقوام متحدہ کی مہاجرین ایجنسی کے مطابق 1948ء میں 7 لاکھ 50 ہزار افراد مستقل طور پر دربدر ہو گئے) جس نے مہاجرین کے ایک ایسے مسئلے جو جنم دیا جو آج تک حل نہیں ہوا۔ بڑی طاقتوں نے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اسرائیل کی فتح کردہ نئی سرحدوں کو تسلیم کر لیا۔
پھر اقوام متحدہ نے قراردار نمبر 194 (1948ء) منظور کی۔ یہ منظور کردہ قراردادوں کی طویل فہرست میں سرفہرست قرارداد ہے جنہیں اسرائیل مسلسل رد کرتا آیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ”۔۔ جو مہاجرین اپنے گھروں کو واپس لوٹنا چاہتے ہیں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن رہنا چاہتے ہیں، انہیں فوراً یہ حق دیا جائے۔۔۔“۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کی شمولیت اس قرارداد پر عمل درآمد سے مشروط تھی۔ اسرائیل نے اعلانیہ حامی بھری لیکن اقوام متحدہ میں ممبرشپ ملنے کے فوراً بعد وعدہ خلافی کر دی۔ بن گوریون نے کہا کہ ”ہر قیمت پر ان کی واپسی کو روکنا ہو گا“۔
اس کے بعد 1950ء میں اسرائیل نے ایک بالکل مختلف ”واپسی کا قانون“ پاس کیا جس کے مطابق پوری دنیا سے تمام یہودیوں کو اسرائیل میں بطور شہری آباد ہونے کا حق مل گیا۔ پھر پوری دنیا سے اسرائیل کی جانب یہودیوں کی ہجرت پالیسی کا آغاز ہو گیا۔ صیہونیوں کو اس کی اشد ضرورت تھی تاکہ نسلی توازن کو تبدیل کیا جائے اور جنگ میں جیتی زمین پر بڑی تعداد میں آبادکاری کی جائے۔ 1951ء کے وسط میں 6 لاکھ 50 ہزار یہودیوں کو جرمنی اور آسٹریا (50 ہزار)، مشرقی یورپ (2 لاکھ)، ہمسایہ اسلامی ممالک (2 لاکھ 50 ہزار) اور دیگر دنیا سے اسرائیل میں آباد کیا گیا۔
آبادکاروں کے اس سمندر کو بسانے کے لئے وقت درکار تھا۔ 2 لاکھ نے فلسطینیوں کے خالی گھروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1 لاکھ خیموں میں رہائش پذیر تھے۔ مشرقی (مزراہی) یہودیوں کو بیروزگاری اور غربت کا سامنا تھا، انتہائی غلیظ حالات میں رہنے پر مجبور تھے اور ایک وقت آنے پر جو اسرائیل چھوڑ کر جا سکتے تھے وہ چلے گئے۔ لیکن پھر انفرسٹرکچر تعمیر ہوا اور اسرائیل بطور ایک ریاست مستحکم ہو گیا جس کی ایک طاقتور فوج تھی۔
اسرائیلی ریاست کے فوری قیام کے بعد مسلسل جھڑپیں، بمباری، ہمسایہ زمین پر فوج کشی اور کئی عربوں کی اموات ہوتی رہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 1949-56ء کے دوران مصری سرزمین پر اسرائیل نے 17 مرتبہ حملہ کیا۔ یہ دیگر ہمسایہ ممالک پر حملوں کے علاوہ ہے۔ 1956ء میں سوئز کنال بحران میں اسرائیل نے سینائی جزیرہ نما پر قبضہ کر لیا لیکن بعد میں اسے مجبوراً پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
اسرائیلی تاریخ دان آوی شلیم نے اپنی کتاب ”کولیوژن ایکراس دی جورڈن (Collusion across the Jordan)“ میں سخت گیر صیہونیوں کی سوچ پر تبصرہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک سخت گیر موشے دایان تھا، ایک فوجی قائد جو بن گوریون سے مکمل طور پر متفق تھا۔ اس نے ”نظریہ ایجاد کیا کہ (1948ء) جنگ آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی اور سازگار نتائج کے لئے ابھی مزید بڑے آپریشنوں کی ضرورت ہے۔ دایان نے غزہ پٹی، ہیبرون پہاڑی اور مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے لئے کئی منصوبے پیش کئے۔۔“ (کولیوژن ایکراس دی جورڈن، آوی شلیم، نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 1988ء)۔
اس پالیسی کے ساتھ ریاست نے فوجی اخراجات میں دیوہیکل اضافہ کیا۔ 1952-66ء کے دوران فوجی بجٹ کو 16 گنا بڑھایا گیا جو کل قومی پیداوار کے ایک تہائی جیسے حیران کن ہندسے تک پہنچ گیا۔ یہ واضح تھا کہ وہ مستقبل میں جنگوں کے لئے انتہائی طاقتور فوج تیار کر رہے ہیں۔
چھ روزہ جنگ کے بعد
یہاں سے ہم سیدھے 1967ء اور اس میں لڑی جانے والی بدنام زمانہ چھ روزہ جنگ پر پہنچ جاتے ہیں جو 5 تا 10 جون کے دوران رونما ہوئی۔ اسرائیل ان چھ دنوں کی جنگ کے بعد گولان ہائیٹس (شام کا حصہ)، سینائی جزیرہ نما (مصر کا حصہ)، اس وقت مصری زیر تسلط غزہ پٹی، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم پر قابض ہو گیا۔
اس عمل میں 3 لاکھ کے لگ بھگ فلسطینیوں کو مغربی کنارے سے دربدر کر دیا گیا۔ اردن وادی کی مغربی پٹی کو تقریباً خالی کرا دیا گیا۔ بعد میں سینائی جزیرہ نما مصر کو واپس کر دیا گیا لیکن اسرائیل دیگر علاقوں پر قابض رہا۔ بن گوریون کے طویل مدتی منصوبوں پر بالآخر عمل ہو رہا تھا۔
ان واقعات کے بعد ان علاقوں کی بتدریج آبادکاری کا عمل یہودی آبادیوں کے قیام کے ساتھ شروع ہوا۔ صیہونی حکمران طبقے نے سوچ بچار کیا کہ کیا ان علاقوں کو براہ راست اسرائیل میں شامل کر لیا جائے۔ اس طریقہ کار میں مسئلہ یہ تھا کہ اسرائیلی سرحدوں میں رہنے والے فلسطینی عربوں کی آبادی میں ایک ہی جھٹکے میں تین گنا اضافہ ہو جاتا۔ اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ اسرائیل میں فلسطینیوں میں شرح پیدائش یہودیوں سے زیادہ تھی اور اس لئے ایک خطرہ موجود تھا کہ ایک مخصوص مرحلے پر فلسطینی اکثریت آبادی بن جائیں گے۔
اس بنیاد پر اس وقت سے کاربند پالیسی کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ سرکاری طور پر علاقوں پر قبضہ نہ کرنے کے نتیجے میں فلسطینی اپنی ہی زمین پر ”غیر ملکی“ ہیں، ایک ”فوجی – سول“ انتظامیہ اور مارشل لاء انتظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ یہودی آبادکار اسرائیل کی عالمی طور پر تسلیم شدہ سرحد سے باہر رہنے کے باوجود اسرائیلی شہری ہیں جو اسرائیلی انتخابات میں حصہ لینے کے ساتھ تمام شہری حقوق کے حق دار ہیں۔ سخت گیر صیہونیوں کا منصوبہ واضح تھا کہ بتدریج فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جائے، انہیں دربدر کیا جائے اور بالآخر انہیں ہمیشہ کے لئے نکال دیا جائے۔
اس مقصد کے لئے کیا منصوبہ بندی تھی؟ جنگ کر کے ایک ہی جھٹکے میں تمام فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کا نتیجہ مشرق وسطیٰ کے تمام عربوں کو شدید اشتعال دینا ہوتا اور پھر اس عمل میں خطے کے باہر دیگر دنیا میں بھی شدید نفرت اور غم و غصہ پھٹ سکتا تھا۔ بہتر طریقہ کار یہ تھا کہ بتدریج عمل کو جاری رکھا جائے یعنی سست رو نقبہ دوئم (عربی زبان میں نقبہ کا مطلب ”تباہی“ ہے، 1948ء میں ابتدائی عوامی ملک بدری کی طرف اشارہ)۔
ستمبر 1967ء میں ہیبرون میں پہلی آبادکاری کی گئی۔ اسرائیلی قبضے کے پہلے چند سالوں میں شہریوں کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت نہیں ہوئی۔ 1970ء کی دہائی کے اختتام اور 1980ء کی دہائی کے اوائل میں فلسطینیوں کا موڈ تبدیل ہونا شروع ہو گیا کیونکہ اس وقت تک اسرائیل کا آبادکاری پروگرام وسیع تر ہو چکا تھا۔ اس کے ساتھ زمینوں اور فلسطینی مالکان کی عمارات پر قبضے بھی جاری رہے جن میں سے اکثر 1948ء کی جنگ یا بعد میں 1967ء کی جنگ میں جان بچا کر بھاگ چکے تھے۔
اس صورتحال میں ایک کلیدی مرحلہ مئی 1977ء انتخابات میں پیش آیا جب میناچیم بیگن کی قیادت میں لیکود پارٹی بڑی اکثریت کے ساتھ جیت کر کنیسیٹ میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی حالانکہ اسے ابھی بھی مطلق اکثریت حاصل نہیں تھی۔ بیگن کی حکومت (1977-83ء) میں مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاریوں کی چند ہزاروں تک محدود تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔
فلسطینی زمینوں کی اعلانیہ چوری کو قانونی پردہ دینے کے لئے اسرائیلی حکومت نے دعویٰ کیا کہ مغربی کنارے میں جو زمین غیر کاشت شدہ یا قانونی مالک کے بغیر پڑی ہے اس کے انتظامی امور کا حق ریاست کو حاصل ہے۔ لاگو شدہ معیار کے مطابق مغربی کنارے میں 30 اور 70 فیصد زمین پر اسرائیل قبضہ کر سکتا تھا۔
اس سے واضح ہو چکا تھا کہ اسرائیلی ریاست فلسطینی زمینوں پر مکمل قبضہ کرنے کی پالیسی پر کاربند تھی۔ میناچیم بیگن نے مغربی کنارے میں موجود ابتدائی آبادکاریوں کا فروری 1981ء میں دورہ کیا۔ اس وقت مغربی کنارے میں آبادکاریوں کی تعداد 72 اور آبادکاروں کی تعداد 20 ہزار تھی۔ چار سال پہلے جب اس نے انتخابات جیتے تھے تو آبادکاروں کی کل تعداد 3 ہزار 200 تھی۔ سرکاری اور علامتی آبادکاری ایلون موریح میں اس نے اعلان کیا کہ ”اور کئی ایلون موریح ہوں گے“۔
اس وقت وزیر زراعت جنرل ایریل شیرون بیگن حکومت کے آبادکاری پروگرام کا مرکزی حکمت کار تھا۔ وہ بالکل واضح تھا کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ نیو یارک ٹائمز اخبار نے 19 فروری 1981ء میں اس کے الفاظ کا حوالہ دیا کہ:
”اسرائیل سامریہ، یہودیہ اور غزہ ڈسٹرکٹ میں ایک فلسطینی ریاست کو قائم نہیں ہونے دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے اردن کے بعد ایک دوسری فلسطینی ریاست کا امکان ختم کر دیا ہے“۔ (یہ قابل ذکر ہے کہ وہ مغربی کنارے کا نام استعمال کرنے سے بھی خائف تھا اور اس نے ان زمینوں کا بائبلی نام استعمال کیا)۔
اس مضمون میں مزید بتایا گیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے میں زمین کی ملکیت کی تین مختلف اقسام متعارف کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ”۔۔ نجی ملکیت جو مقامی فلسطینی انتظامیہ کے تحت ہو گی، پبلک ملکیت جس کا استعمال متعین نہیں ہو گا اور اس کا انتظام اسرائیل اور فلسطین مل کر کریں گے اور ریاستی ملکیت جس کا مقصد فوجی استعمال یا آبادکاری ہو گا جس کا تعین صرف اسرائیل کا حق ہو گا“۔ یہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس بنیاد پر مستقبل میں فلسطینی اتھارٹی کو ان تین علاقوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔
اسرائیلی ریاست کو فلسطینی ملکیت کی چوری کے لئے ایک قانونی جواز چاہیے تھا۔ اسرائیلی حکمران خواہ سرمایہ دارانہ نظام کے شدید ترین اور رجعتی ترین حامی ہوں گے، جو ملکیت اور نجی ملکیت کے اصولوں کے محافظ ہوں گے، لیکن جہاں سوال فلسطینی ملکیت کا تھا، تو انہیں سب کچھ بھول گیا۔
ایسا نہیں ہے کہ قوانین منظور نہیں ہوئے جن کے تحت فلسطینی زمینوں پر قبضے کو قانونی پردہ فراہم کیا گیا۔ 1950ء میں اسرائیل ”غیر حاضری پراپرٹی قانون“ منظور کر چکا تھا جس کے تحت غیر حاضر پرانے مالکان کے ملکیتی حقوق ضبط کر لئے گئے۔ وہ اس لئے ”غیر حاضر“ تھے اور چاہنے کے باوجود واپس اس لئے نہیں آ سکتے تھے کیونکہ انہیں شدید تشدد اور جبر کے ذریعے دربدر کر دیا گیا تھا اور واپسی کے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے۔ اس حقیقت کو ایک مرتبہ پھر آسانی سے نظرانداز کر دیا گیا۔
مثلاً اس قانون کو اردن وادی کے ساتھ لاگو کیا گیا۔ تزویراتی طور پر اہم سمجھی جانے والی اس زمین کو اسرائیلی کمانڈر ”بند علاقوں“ میں واقع زمین قرار دے سکتے تھے۔ اس سے وہ فلسطینی جو ”غیر حاضر“ نہیں بھی تھے لیکن اسرائیل میں اندرونی طور پر مہاجر تھے، نہ اپنی زمینوں پر واپس آ سکتے تھے نہ اسے کاشت کر سکتے تھے۔ اس کے بعد زمین کو اتنی دیر کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا کہ اسے ”غیر کاشت شدہ“ قرار دے دیا جائے جس کے بعد اسے ”ریاستی زمین“ قرار دے دیا جاتا۔
ایک مرتبہ یہ چالبازی مکمل ہو جاتی اور اسرائیلی ریاست زمین اپنے قبضے میں لے لیتی تو اس کے بعد اسے یہودی آبادکاروں کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ درحقیقت اسرائیل نے مغربی کنارے کی 26 فیصد زمین کو ”ریاستی زمین“ قرار دیا ہوا ہے جہاں آبادکاریاں قائم کی جا سکتی ہیں۔
اس طرح کی قانونی ہیرا پھیریوں اور دھوکے بازی کو کس طرح فلسطینیوں کی زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا، 1981ء میں اقوام متحدہ میں اس سوال پر ایک سیمینار میں ایک تفصیلی تحقیق پیش ہوئی۔ تحقیق جینیٹ ابو لوغود نے ”مقبوضہ عرب زمینوں پر اسرائیلی آبادکاریاں: فتح سے نوآبادیات تک“ کے عنوان سے پیش کی۔ اس تحقیق میں ان منصوبوں کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں حکمران پارٹی سے قریب صیہونی افراد نے تشکیل دیا تھا۔
یہ منصوبے اس حوالے سے حیران کن ہیں کہ بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے ان پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔ ان میں اعلانیہ ”پورے اسرائیل میں آبادکاری“ پر بحث مباحثہ موجود ہے جس میں ”سامریہ اور یہودیہ“ بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق ”زرعی زمین پر قبضہ کیا جائے گا اور مشترکہ چراہ گاہوں پر باڑ لگائی جائے گی اور قلیل پانی کی سپلائی کو روک دیا جائے گا جس کے بعد زمین ناکارہ ہو جائے گی“۔
پھر جینیت، ویلیم ولسن ہیرس کی کتاب ”مضبوط جڑیں: مغربی کنارہ، گولان اور غزہ – سینائی میں اسرائیلی آبادکاری، 1967-80ء“ کا حوالہ بھی دیتی ہے جس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ:
”طویل مدت میں عرب آبادی کو تنہا ٹکڑوں میں کاٹ دیا جائے گا، جو ایک دوسرے سے شیرون لائنز (بڑی ہائی ویز جو آبادکاریوں کو ایک دوسرے سے ملائیں گی) کے ذریعے علیحدہ ہوں گی، یہودیہ سے یروشلم کے باہر ایک یہودی مدار میں اور موجودہ اردن رفٹ وادی کے باہر سے۔ جب مغربی کنارہ اس طرح سے تقسیم ہو جائے گا تو پھر یہ سوچنا مشکل ہے کہ عملی طور پر کسی حقیقی خودمختاری کی اوقات میونسپل سطح سے زیادہ ہو سکتی ہے“۔
مستقبل میں یہی کام مغربی کنارے کے ساتھ کیا گیا اور 1993ء سے اب تک فلسطینی اتھارٹی کے تحت یہی کام جاری ہے۔
معاشی طور پر گلا گھونٹنے کا منصوبہ
اب مسئلہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ جب زمینوں پر قبضہ ہو جائے گا تو پھر فلسطینیوں کا کیا کرنا ہے اور ان کا کیا کرنا ہے جو ابھی بھی کھیتوں کے مالک تھے۔ اس کا حل ابو لوغود کے الفاظ میں ”معاشی طور پر گلا گھونٹنا“ تھا۔
اس پالیسی کا ایک کلیدی ستون فلسطینیوں کی زرعی ضروریات کے لئے درکار پانی کو بند کرنا تھا۔ پانی سپلائی تک رسائی کے لئے لائسنس، لیز حقوق وغیرہ کی ضرورت ہوتی تھی جس کا اجراء کرانا پڑتا تھا اور اسرائیلی انتظامیہ اجراء سے انکار کر سکتی تھی۔ دوسری طرف جب بھی ایک اسرائیلی آبادکاری انہی حقوق کے لئے درخواست پیش کرتی تھی تو اسے فوری تمام سہولیات میسر ہو جاتی تھیں۔
ظاہر ہے اس سب کا مقصد یہی تھا کہ فلسطینیوں کی بڑھتی تعداد کو زندہ رہنے کے لئے ہجرت پر مجبور کیا جائے جبکہ دیگر کو سستی لیبر بنا کر ان کا استحصال کیا جائے۔ درحقیقت 1967ء کے بعد والے دور میں کئی نوجوان فلسطینیوں نے انفرادی طور پر حل کی تلاش میں ہجرت کی جو 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں ایک وسیع عمل بن گیا۔ 1999ء میں بیرزیت یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار ویمن سٹڈیز نے تحقیق کی کہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں سروے کئے جانے والے افراد میں سے 49 فیصد میں سے ہر ایک کا کم از کم ایک خاندانی فرد بیرون ملک کام کر رہا تھا۔
لیکن ان میں سے کوئی بھی طریقہ فلسطینیوں کو ختم کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوا کیونکہ ان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی تھی۔ ہیرس (مندرجہ بالا حوالہ دیا گیا ہے) نے 1980ء میں نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اسرائیلی انتظامیہ کو امید ہے کہ ”۔۔ اندرونی آبادیاتی عدم توازن کو مغربی کنارے سے ہجرت کے ذریعے درست کیا جا سکتا ہے، اس کے لئے شائد تشدد کے ایک اور دور کی ضرورت ہو“۔
وہ مزید خبردار کرتا ہے کہ:
”تشدد کے اس دور میں، جس کا امکان حالیہ جنگ بندی کے بعد اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے، مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر زیادہ قہر برسے گا کیونکہ اس تشدد کے پردے میں، یقینا اور ناگزیر طور پر انہیں ہمیشہ کے لئے ان کے اپنے گھروں سے دربدر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان حالات میں مقبوضہ علاقوں میں 127 یہودی آبادکاریوں، موجودہ اور زیر تعمیر، کا حقیقی اور المناک مطلب واضح ہو جائے گا۔ یہ مسلح قلعے ہوں گے، مجتمع شدہ فلسطینی آبادیوں کے اندر اور ان کے گرد، جنہیں مزاحمت کو کچلنے کے لئے استعمال کیا جائے گا اور فلسطینی مہاجرین کو اسرائیل کی ’اسرائیلی سرزمین‘ کی تلاش میں اگلی جنگ بندی کے بعد کی لائن کی جانب ہانکا جائے گا“۔
اس وقت بن یامین نیتن یاہو ایک نوجوان تھا لیکن 1977ء میں یروشلم میں رات کے ایک کھانے پر اس نے جو الفاظ کہے (9 مئی 2009ء کو دی گارڈین اخبار میں میکس ہیسٹنگز نے ایک مضمون میں ان کا حوالہ دیا ہے)، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل کی جنگوں کو زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کے لئے استعمال کرنا اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک ایک مسلسل عمل رہا ہے۔ میکس ہیسٹنگز لکھتا ہے کہ:
”میں نے ایک اسرائیلی نوجوان کو عربوں کے بارے میں ایسی گفتگو کرتے سنا جس نے میرا خون جما دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’اگلی جنگ میں ہمیں مغربی کنارے سے ہمیشہ کے لئے فلسطینیوں کو نکالنا ہو گا‘۔ (۔۔) جس اسرائیلی نوجوان کو میں نے گرم جوشی سے مغربی کنارے سے عربوں کو نکالنے کے بارے میں سنا وہ آج اپنے ملک کا وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو ہے“۔
فلسطینی اتھارٹی کا دھوکہ
یہ سب اس لئے حیران کن ہے کہ صیہونی حکمران طبقے نے کبھی بھی اپنا منصوبہ اور مقصد نہیں چھپایا۔ ایک ”دو ریاستی حل“ کبھی ان کا مقصد ہی نہیں تھا۔
لیکن فلسطینیوں پر مسلسل دباؤ کے نتیجے میں فلسطینی عوام کا احتجاج مسلسل بڑھتے جانا اور وسیع تر ہو نا ناگزیر تھا جس کا بھرپور اظہار بالآخر 1987ء میں پہلے انتفادہ پر منتج ہوا۔ یہ پوری فلسطینی عوام کی عظیم الشان بغاوت تھی جس میں نوجوان ہراول دستہ تھے اور اپنے انقلابی پوٹینشل کا واشگاف اعلان کر رہے تھے۔
تحریک اتنی طاقتور تھی کہ بالآخر اسرائیل کے صیہونی حکمران طبقے کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا جس کا نتیجہ 1993ء میں اوسلو معاہدے اور فلسطینی اتھارٹی کا قیام تھا۔ لیکن یاسر عرفات اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) قیادت کی جانب سے دی جانے والی مراعات ایسی تھیں کہ ان معاہدوں کے نتیجے میں مغربی کنارے میں جو انتظامیہ بنی وہ درحقیقت ایریل شیرون کے 1981ء کے تقسیم منصوبے کی فوٹوکاپی تھی۔
یہ پہلا موقع تھا جب اسرائیل اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن نے ایک دوسرے کو باقاعدہ تسلیم کیا۔ اس وقت کئی افراد کا خیال تھا کہ یہ ایک حقیقی فلسطینی ریاست کی جانب پہلا قدم ہے۔ لیکن مارکس وادیوں کو کسی قسم کی غلط فہمی نہیں تھی۔ ملی ٹینٹ انٹرنیشنل ریویو (نمبر 37) کے 1988ء کے موسم گرماء شمارے میں ”مغربی کنارے میں بغاوت؛ عوام حرکت میں آچکے ہیں“ کے نام سے ایک مضمون شائع ہوا۔ یہ اوسلو معاہدے سے کئی سال پہلے شائع ہوا تھا اور اس میں تفصیلی بیان کیا گیا تھا کہ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ”امن مذاکرات“ کے نتیجے میں قبضہ ختم نہیں ہو گا۔ اس میں ہم نے لکھا تھا کہ:
”۔۔۔یہ سوچ ایک فلسطینی ریاست کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو نظرانداز کر دیتی ہے جن کی بنیاد ایسی کانفرنس میں شامل ہونے والے کسی بھی فریق کے طبقاتی مفادات ہیں جن میں خاص طور پر امریکہ، اسرائیل اور اردن قابل ذکر ہیں۔ فلسطینی محنت کشوں کے مفادات کی نہ انہیں پہلے کبھی پرواہ تھی اور نہ مستقبل میں کبھی ہو گی۔ ان کی تشویش صرف اپنے حکمران طبقات کے مفادات کے حوالے سے ہے۔ ان کا مرکزی مسئلہ خطے میں سیاسی استحکام ہے اور اس نظام کا دوام ہے جو ان کے کرایوں، شرح سود اور منافعوں کو یقینی بناتا ہے“۔
اس میں مزید بیان کیا گیا تھا کہ:
”۔۔۔ ایک فلسطینی ریاست جس کا رقبہ تقریباً مغربی کنارے اور غزہ پر محیط ہو گا، سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مکمل طور پر غیر فعال ہو گی کیونکہ معیشت عوام کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی اہل ہی نہیں ہو گی۔۔“۔
یہ فلسطینی اتھارٹی کے لئے درست پیش گوئی ثابت ہوئی جس کا جنم اوسلو معاہدے سے ہوا اور تاریخ نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک سفید جھوٹ تھا۔ اس میں 1981ء کا شیرون منصوبہ بھی شامل تھا جو واضح طور پر فلسطینی علاقے کے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ تھا اور عوام کی امنگوں کے بالکل الٹ تھا۔
مغربی کنارے کو تین علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا، A، B اور C۔ حصہ A فلسطینی حکومت کے تحت تھا اور اس کی سیکورٹی مکمل طور پر فلسطینی اتھارٹی کے پاس تھی۔ یہ پورے علاقے کا 18 فیصد تھا۔ حصہ B کی حکومت فلسطینی تھی لیکن کنٹرول اسرائیلی سیکورٹی کے پاس تھا اور یہ 22 فیصد علاقہ تھا۔ بقایا 60 فیصد مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں تھا۔ ان تمام علاقوں سے ”فلائی اوور“ سسٹم گزر رہا ہے، یعنی سڑکوں کا ایک جال جو فلسطینی دیہات کو بائی پاس کرتا ہے۔ زرعی زمین، پانی اور معدنیات ذخائر کی اکثریت حصے C میں ہے۔
اوسلو معاہدوں میں ان سب معاملات پر دونوں فریقین متفق ہو گئے۔ فلسطینی عوام کو پہلے دن سے دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ معاہدوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کے لئے ایک مسلسل ملحقہ زمین نہیں بنی اور علاقے کا زیادہ تر حصہ مزید آبادکاریوں کے لئے کھول دیا گیا۔ اسرائیل نے بہت عرصے بعد ایک مراعت دی اور وہ 2005ء میں غزہ سے 8 ہزار 500 آبادکاروں کا انخلاء تھا، یہ ناکارہ آبادکاریاں تھیں۔ اس کے برعکس انہوں نے مغربی کنارے کو ہدف پر رکھا۔
ہمارے سامنے1993ء سے اب تک تمام اقدامات ایک حقیقی فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے اوسلو معاہدے کو استعمال کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو مطمئن کیا، فلسطینیوں کے ذریعے فلسطینیوں کو کنٹرول کیا اور مسلسل غیر قانونی آبادکاریوں کو جاری رکھا۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس وقت 40 فیصد مغربی کنارے پر آبادکاریوں کا قبضہ ہے۔
One of the reasons #Hamas gave for its surprise attack on #Israel was the ongoing military occupation of Palestine's #WestBank, where over 700,000 Israeli settlers live on stolen #Palestinian land.
— CGTN America (@cgtnamerica) October 9, 2023
Take a look at the explosion of growth of these Israeli settlements, which are… pic.twitter.com/LAAwrCoOAc
آبادکاریوں کا منصوبہ اسرائیلی حکمت عملی کا مرکزی ستون ہے جس کے ذریعے پورے تاریخی فلسطین پر قبضہ کرنا مقصد ہے۔ لیکن یہ آبادکار کون ہیں؟ یہ مختلف پرتیں ہیں۔ ان میں سے کچھ انتہائی قدامت پرست یہودی ہیں جو مذہبی وجوہات پر یہاں آئے ہیں اور اندازاً تمام آبادکاروں کا ایک تہائی بنتے ہیں۔ یہ عناصر واقعی یقین کرتے ہیں کہ اسرائیل وہ ”وعید کردہ زمین“ ہے جو خدا نے انہیں عطاء کی ہے اور اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔ سب سے زیادہ جنونی صیہونی ان میں سے ہیں جو قدیم اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے مقدس مشن کے لئے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ وہ مسلح ہیں اور فلسطینی عوام پر حملوں کو منظم کر رہے ہیں۔
دیگر حکومتی معاشی مراعات کے نتیجے میں یہاں پہنچے ہیں۔ انتہائی قدامت پرست یہودیوں کی کم تعداد ملنے پر اسرائیلی حکومت نے عرصہ دراز پہلے دیگر ممالک سے یہودیوں کو راغب کرنے کے لئے ایک مہم لانچ کی جس میں ”معیار زندگی“ پر بہت زور دیا گیا۔ آبادکاروں کی آبادی بڑھانے میں اس مہم کا کلیدی کردار ہے۔
اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اسرائیل اس وقت مغربی کنارے میں رہنے والے یہودیوں پر اپنی قانونی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں میں رہنے والے یہودیوں سے زیادہ خرچہ کر رہا ہے۔ وہاں سکولوں کو زیادہ فنڈ مل رہے ہیں۔ تمام سبسڈی نواز رہائش کا ایک تہائی ان آبادکاریوں میں ہے اگرچہ یہاں صرف 10 فیصد آبادی آباد ہے۔ آبادکاروں کے لئے ایک سبسڈی نواز مارٹگیج پروگرام (قرض پر گھر کا حصول) بھی ہے۔ 2016ء میں حکومت نے ایک عام اسرائیلی سے اوسطاً دگنا پیسہ مغربی کنارے کے ہر فرد پر خرچ کیا۔
منصوبہ واضح ہے کہ زیادہ سے زیادہ آبادکاروں کو مغربی کنارے میں آباد کیا جائے اور فلسطینیوں کو یہاں سے ملک بدری پر مجبور کیا جائے۔
آج کا فلسطین
انتہائی دائیں بازو کے صیہونی اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ملک بدر کرو۔ دو کنیسیٹ ممبران ڈینی ڈانون (لیکود پارٹی) اور حزب اختلاف میں رام بن باراک (یش آتد پارٹی) نے وال سٹریٹ جرنل اخبار میں 13 نومبر کو ایک مضمون بعنوان ”مغرب کو غزہ مہاجرین کو خوش آمدید کہنا چاہئیے“ لکھا ہے۔ مضمون کا عنوان ہی کافی ہے! وہ لکھتے ہیں کہ:
”۔۔ پوری دنیا میں ممالک کو نقل مکانی کرنے والے غزہ شہریوں کو پناہ فراہم کرنی چاہیے۔ ممالک یہ کام مربوط سٹرکچر اور عالمی سطح پر ہم آہنگ نقل مکانی پروگرامز تشکیل دے کر کر سکتے ہیں۔ عالمی کمیونٹی کے ممبران غزہ شہریوں کو ایک مرتبہ کا مالی سپورٹ پیکج دینے میں تعاون کر سکتے ہیں جو نقل مکانی کے خواہش مند ہیں تاکہ نقل مکانی کے اخراجات پورے ہو جائیں اور نئی آبادیوں میں مہاجرین کی آبادکاری سہل ہو جائے“۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”اگر فی ملک 10 ہزار افراد بھی لے لئے جائیں تو بحران حل ہو سکتا ہے“۔ وہ آخر میں نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ:
”عالمی برادری کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے اور یہ ایک موقع ہے کہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے غزہ کی عوام کو ایک خوشحال مستقبل کی جانب گامزن کیا جائے اور اکٹھے کام کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں بہتر امن اور استحکام حاصل کیا جائے“۔
یہ دونوں افراد اسرائیل میں اہم سیاسی شخصیات ہیں۔ ڈینی ڈانون 2015-20ء کے دوران اقوام متحدہ میں سفیر تھا جبکہ رام بن باراک 2009-11ء کے دوران موساد کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا۔ یہ واضح طور پر صیہونی حکمران طبقے کے ایک اہم دھڑے کی سوچ کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اپنے الفاظ کو ”اخلاقی ذمہ داری“ اور ”ہمدردی“ کا غلاف پہنا رہے ہیں لیکن ان کی تجویز یہی ہے کہ غزہ میں دیوہیکل نسل کشی کی جائے اور موجودہ بربریت کو جواز بناتے ہوئے دیگر ممالک مہاجرین کو اپنی سرحدوں میں بسائیں۔
لیکن یہ دو ”شرفاء“ دیگر کے مقابلے میں نرم دل امن پسند معلوم ہوتے ہیں جیسے وزیر ورثہ آمیچائی ایلیاہو جو انتہائی دائیں بازو کی اوتزما یہودیت پارٹی کا ممبر ہے۔ اس نے مشورہ دیا ہے کہ غزہ پٹی پر ایٹم بم بھی گرایا جا سکتا ہے۔ باڑ کی دوسری طرف رہنے والے اسرائیلی شہریوں کے حوالے سے اسے کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہے!
یہ تمام باتیں واضح کرتی ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کی دربدری پر صیہونی حکمران طبقے کے کم از کم کچھ حصے سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔
ہم نے ماضی میں کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ جنگ کو جواز بنا کر زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو دربدر کیا ہے۔ یہ کام 1948ء کی جنگ میں ہوا تھا اور پھر اسے 1967ء کی جنگ میں دہرایا گیا۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ اس پورے منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے۔ وہ منظم انداز میں تمام انفراسٹرکچر تباہ و برباد کر رہے ہیں تاکہ وہاں پر انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے امکانات بالکل مسدود ہو کر رہ جائیں۔
”حماس کو تباہ و برباد“ کرنے والا پورا فوجی آپریشن درحقیقت بجلی، پانی، نکاسی آب، بیکریاں، سکول، ہسپتال وغیرہ کو تباہ و برباد کر کے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنانے کا آپریشن ہے۔ اسرائیل کے وحشیانہ قہر و غضب کے آگے کچھ محفوظ نہیں۔ سیٹلائیٹ تصاویر کے مطابق غزہ میں ایک تہائی عمارات مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔
مقصد واضح ہے۔ غزہ شہر کو ایک ایسی جہنم بنا دیا جائے کہ شہری واپسی کا رُخ نہ کر سکیں۔ انہوں نے غزہ پٹی کے جنوبی حصے پر بھی بمباری کی ہے۔ اس تمام ظلم و جبر کا جواز یہ ہے کہ وہ حماس سے جنگ کر رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ جنگ پوری فلسطینی قوم کے خلاف ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس قوم کو ملک بدر کر دیا جائے اور یہ کہیں اور جا کر مر کھپ جائیں۔
اسرائیل کے تمام اقدامات کا ایک ہی مقصد ہے کہ بے گھر افراد کی واپسی اگر ناممکن نہیں ہوتی تو کم از کم شدید مشکل ضرور ہو جائے۔ غزہ وادی کے جنوب میں فلسطینیوں کی اندرونی دربدری نے غزہ کے 23 لاکھ شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور ایک تاریخی انسانی بحران پیدا ہو رہا ہے۔ اسرائیل کو یقین ہے کہ مصر کو مجبوراً رفاہ کے گیٹ غزہ مہاجرین کے لئے کھولنے پڑیں گے جس کے بعد وہ سینائی ریگستان میں دھکیلے جائیں گے۔
اس دوران جنونی صیہونی آبادکار مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کو آگ میں جھونک رہے ہیں تاکہ ایک ”نیا نقبہ“ برپا ہو جائے۔ فلسطینی دیہات اور محلوں کو لوٹتے ہوئے وہ یہی نعرہ بلند کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ سنجیدہ صیہونی حکمت کاروں کو اندازہ ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ایک نئی بغاوت، ایک نیا انتفادہ پھٹ سکتا ہے جو آگ کی طرح اردن، مصر اور تمام رجعتی عرب بادشاہتوں میں پھیل جائے گا۔ اس وقت یہ سب دم سادھے اس بحران کو پھیلتا دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس صورتحال کو اسرائیل کے لئے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھتے ہیں۔
یہ تمام حالات دہائیوں پہلے تشکیل دیے گئے صیہونی منصوبوں کے عین مطابق ہیں کہ پوری فلسطینی آبادی کو دربدر کر دیا جائے اور اس حوالے سے جنگیں ہمیشہ سب سے کارآمد ہتھیار رہی ہیں۔ لیکن غزہ میں نسل کشی کے ساتھ اب یہ منصوبے واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ عمل ایک دیوہیکل رد عمل کو جنم دے رہا ہے۔
فلسطینی قوم ان ہولناک حالات کی بھٹی میں جل رہی ہے۔ پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے یہ تاریخی جرم سرزد ہو رہا ہے۔ اس جرم میں تمام بڑی سامراجی قوتوں کے حکمران طبقات، شمالی امریکی، یورپی اور دیگر اسرائیل کے صیہونی حکمران طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی منافقت کا پردہ چاق ہو رہا ہے کہ یوکرین میں روسی جنگی جرائم پر لعن طعن کرتے یہ تھکتے نہیں جبکہ اسرائیل دیوہیکل تباہی و بربادی پھیلاتے ہوئے ہزاروں عورتیں اور بچے قتل کر رہا ہے اور یہ منہ بند کئے بیٹھے ہیں۔
غزہ کی پوری شہری آبادی کو تباہ و برباد کرنا اجتماعی سزا کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کا غلیظ اور منافقانہ دوغلا معیار اسرائیل کی حمایت میں متحرک دیوہیکل پروپیگنڈہ مشینری کو بھی ننگا کر رہا ہے۔ مغرب میں محنت کش اور نوجوان مسلسل بڑھتی تعداد میں فلسطینیوں کے ساتھ حمایت اور یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں اس سوال پر واضح طبقاتی تفریق کا اظہار ہو رہا ہے اور مغربی سامراجی ممالک اور ان کے حکمران جو اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، ان میں یہ عمل اور بھی زیادہ شدید ہے۔
ریاستیں فلسطینی حمایت کے لئے منعقد ہونے والے احتجاجوں پر پابندیاں لگا رہی ہیں یا انہیں جرم قرار دے رہی ہیں۔ لیکن تحریک رُکنے کی بجائے اور تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام ممالک میں محنت کشوں کا جم غفیر فطری طور پر سمجھتا ہے کہ اس نے کہاں کھڑا ہونا ہے۔ فلسطینی قوم کا ایک ملک کیلئے اپنا حق عالمی طبقاتی جدوجہد کے لئے نکتہ ارتکاز بن چکا ہے۔
ہم کمیونسٹوں نے ہمیشہ فلسطینی قوم کی آزادی اور باعزت زندگی کی حمایت کی ہے۔ ہم جہاں بھی موجود ہیں، ہمارا فرض اپنے سامراجی حکمران طبقات کے خلاف جدوجہد کرنا اور محنت کش تحریک سے مطالبہ کرنا ہے کہ اپنی اجتماعی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی جنگی مشین کو تنہا اور ناکارہ بنایا جائے۔ حتمی طور پر ایک آزاد فلسطین کو انتفادہ کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، ایک ایسی عوامی انقلابی بغاوت جو نہ صرف فلسطین پر قابض اسرائیلی دلال حکمران اور اسرائیل کی جابر ریاست کو بہا لے جائے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ان کا صفایا کر دے تاکہ اس خطے کی عوام حقیقی امن اور آزادی سے زندگی گزار سکیں۔
ہم کہتے ہیں:
1۔ قبضہ ختم کرو!
2۔ محنت کش طبقہ اسرائیلی جنگ کا بائیکاٹ کرے!
3۔ پورے مشرق وسطیٰ میں انقلابی بغاوت زندہ باد!
4۔ مشرق وسطیٰ میں سوشلسٹ فیڈریشن اور اس کے حصے فلسطینی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام زندہ باد!
5۔ فتح تک انتفادہ زندہ باد!