سانحہ سوات: حکمرانوں کی مذہبی شدت پسندی اور قومی تعصب پھیلانے کی گھناؤنی سازش

|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ، خیبرپختونخواہ|

سوات مدین میں گزشتہ دنوں سیالکوٹ سے آئے ہوئے ایک سیاح کو قرآن جلانے کے الزام میں قتل کرنے کے بعد جلا دیا گیا۔ اس حوالے سے اب تک جتنی بھی معلومات سامنے آئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اس شخص پر صرف ایک جھوٹا الزام تھا اور اس واقعہ کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتہائی منظم طریقے سے سر انجام دیا گیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے خاص عزائم کار فرما ہوتے ہیں۔

سوات مدین میں رونما ہونے والا واقعہ اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایک تسلسل اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس قسم کے سینکڑوں واقعات پورے پاکستان میں رونما ہو چکے ہیں۔ ایسے واقعات سے جہاں ایک طرف محنت کش طبقے اور ان کی تحریکوں کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور نفرت پھیلانے، لوگوں کو مذہبی شدت پسند ظاہر کرنے کے لیے رونما کروائے جاتے ہیں تو دوسری طرف خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو علمی، شعوری اور سیاسی عمل سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سب سے پہلے اس واقعے کی آڑ میں جو لوگ پنجابی پشتون منافرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور قومی تعصب پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ لوگ دوغلے کردار کے حامل، ریاستی دلال اور عوام دشمن ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات پنجاب، سندھ، پختونخوا اور بلوچستان میں بھی ہو چکے ہیں، جن میں معصوم و بے گناہ لوگوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ہم ان واقعات کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ نفرت اور تعصب کی بنیاد پر منافقت پھیلا رہے ہیں وہ جرنیلوں، حکمرانوں، مذہبی اشرافیہ اور امریکی سامراج کے دلال ہیں۔

مذہبی بنیاد پر رونما ہونے والے واقعات کسی ایک خاص قوم، نسل، رنگ اور فرقے کا مسئلہ نہیں ہیں۔ ایسے واقعات کی جڑیں 1947ء کے نام نہاد دو قومی نظریۂ پاکستان میں موجود ہیں۔ اس کے بعد مذہبی انتہا پسندی کی جو ریاستی پشت پناہی کی گئی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بالخصوص ضیاء الباطل کا سارا دور اس غیر انسانی پروجیکشن پر مشتمل رہا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی تعصبات کو پھیلانے میں ڈالر جہاد اور پاکستان کے حکمران طبقے کا جو غلیظ کردار رہا ہے، اس سے آنکھیں پھیرنا ناممکن بات ہے۔ سی ائی اے نے یہاں پر جو حرام زدگیاں کی ہیں، ڈالر جہاد کے اندر اس کی وجوہات بھی شامل ہیں۔

ریاستی پشت پناہی میں لاکھوں کی تعداد میں مدرسے بنائے گئے اور یہ سارے انسان دشمن نظریات پھیلائے گئے۔ جس کے ذمہ دار یہاں کے جرنیل اور حکمران ہیں۔ جنہوں نے امریکی ڈالروں کے ذریعے اپنی ہوس اور عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے پورے سماج کو آگ کے اندر دھکیل دیا اور یہاں کی محنت کش عوام کے خون سے ہولی کھیلتے رہے۔

اسی طرح پچھلے عرصے کے اندر پختون سماج کے اندر جتنی بھی عوامی تحریکیں ابھری ہیں، وہ تحریکیں بنیادی طور پر امریکی سامراج اور اس کی دلال پاکستانی ریاست کی جانب سے بنائے گئے مذہبی انتہا پسند نظریات کے خلاف چلی ہیں۔

جبکہ حال ہی میں مالاکنڈ یونیورسٹی سے ایک طالب علم موسیٰ خان کو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رباب لانے پر یونیورسٹی ہاسٹل سے نکالا گیا تھا۔ موسیٰ خان کی ناگہانی وفات کے بعد پھر ایک احتجاجی سلسلہ چل پڑا جس میں رباب کو بطور مزاحمتی علامت استعمال کیا گیا اور ان احتجاجوں کے ذریعے مذہبی انتہا پسند رجحانات کے خلاف عوامی ردعمل کھل کر سامنے آیا۔

اس کے علاوہ ریاست پاکستان نے جب دوبارہ طالبان کی مداخلت بحال کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف پورے خیبرپختونخواہ میں اولسی پاسون کی تحریکیں چلی ہیں۔ ان تحریکوں میں پختون سماج کی بھاری ترین اکثریت نے مذہبی انتہا پسندی کی سوچ اور اس کی انسٹالیشن کو رد کیا ہے۔

حکمران طبقے کی جانب سے پھیلائی گئی مذہبی منافرت کی وجہ سے مختلف اقوام کے کچھ لوگوں میں مذہبی شدت پسندی ضرور نظر آ سکتی ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ فلاں قوم ہی شدت پسند ہے یا پھر ساری عوام ہی شدت پسند ہے، انتہائی غیر سائنسی بات ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ذریعے محنت کش عوام کے اندر پھوٹ بھی ڈالی جاتی ہے۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی حکمران طبقے کی جانب سے مذہبی اور قومی، لسانی اور رنگ و نسل کی بنیادوں پر محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے اور ان میں پھوٹ ڈالنے کے ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتی ہے۔ آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں محنت کش طبقہ سرمایہ دار طبقے سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس نظام کے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسی سے خوف زدہ ہو کر حکمران طبقہ آج مذہبی تعصبات اور قومی تعصبات کو سوچے سمجھے طریقے سے ہوا دے رہا ہے تاکہ محنت کش اور نوجوان حکمران طبقے، جو محنت کش طبقے کا حقیقی دشمن ہے، کے خلاف متحد ہونے اور اس سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرنے کی بجائے آپسی تعصبات میں الجھے رہیں اور ایک دوسرے سے لڑتے رہیں۔

لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ آج دنیا کی کوئی طاقت محنت کش طبقے کو جدوجہد کے میدان میں اترنے سے نہیں روک سکتی۔ محنت کش طبقے کو اپنے حقیقی دشمن کو پہچاننا ہو گا اور اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے محنت کش طبقے کی پارٹی یعنی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ جڑنا ہو گا۔ مذہبی فرقہ واریت اور تعصبات جیسے دوسرے جرائم کا خاتمہ اس نظام یعنی سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

Comments are closed.