تحریر: |ولید خان|
2016ء کا سال عالمی معیشت میں دھماکہ خیز واقعات سے شروع ہوا۔ دیوہیکل لیکن نحیف عالمی معیشت اپنی جڑوں تک ہل گئی۔ عالمی منڈی میں سٹاک مارکیٹوں کی قدر تقریباً زمین بوس ہو گئی جس میں سرِ فہرست چین کی سٹاک مارکیٹ تھی جو اپنی مالیت کا 30 فیصد کھو چکی ہے۔ روزانہ بینکوں، مالیاتی اداروں، کمپنیوں، فیکٹریوں اور مختلف ممالک کی مایوس کن معاشی رپورٹیں آ رہی ہیں۔ عالمی منڈی میں شدید مندی اور گراوٹ ہے۔ تمام معاشی سیکٹرز جن میں تیل، اشیا، بانڈز، سٹاک، پراپرٹی وغیرہ شامل ہیں ہر جگہ تنزلی کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور غربت میں کمی کے اہداف سرمایہ داری کے ناقدین کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اب تو معاشی ماہرین نے بھی جھوٹی امیدیں اور دلاسے دینے چھوڑ دئیے ہیں۔ ہر اخبار، میگزین اور ذرائع ابلاغ میں اس مالی سال عالمی معیشت میں شدید گراوٹ اور اس کے ساتھ ہونی والی تباہ کاریوں کی آئے دن پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ ہر جگہ جنگ و جدل، ہڑتالیں، تحریکیں، شدید طبقاتی کشمکش اور سیاسی انتشار پھیلتاجا رہا ہے۔
انسان بدلتے حالات میں بنیادی وجوہات کو عام طور پر آسانی سے سمجھ نہیں پاتا اور جب تک سمجھنا شروع کرتا ہے حالات پھر سے تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں روز مرہ زندگی گزارتے ہوئے انسان تبدیلی کے عہد میں بڑے بڑے واقعات کو بھی معمول کے واقعات کے طور پر دیکھنا اور سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ سعودی عرب ان گنتی کے ممالک میں سے ہے جو 2008ء میں شروع ہونے والے عالمی سرمایہ دارانہ بحران اور اس کے نتیجے میں 2011ء کے عرب بہار انقلاب کی تپش میں پگھلنے سے بچ گیااور نام نہاد تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ حالات اگلے ہزار سال ایسے ہی رہنا تھے۔ ٹی وی پر بیٹھے مسخروں اور اخباروں کے صفحے سیاہ کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ سرمایہ داری نے عالمی معیشت کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے اور کسی ایک کمزور جگہ سے ٹوٹنے کا اثر تمام عالمی معیشت پر ، جلد یا بدیر اثر انداز ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سعودی عرب میں بن لادن کمپنی کے ملازمین کے احتجاج اور کمپنی املاک کو توڑنے اور جلانے کے حوالے سے ہے۔ دیوالیہ ہوتی کمپنی 30 ارب ڈالر کی مقروض ہے۔حال ہی میں اس نے 77,000 ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں 13,000 مقامی سعودی بھی شامل ہیں۔ مقامی سعودیوں کو اتنی بڑی تعداد میں پہلی مرتبہ نوکری سے برخاست کیاجا رہا ہے۔ یہ خبر اخباروں اور ٹی وی چینلز کی کچھ دیر تو زینت بنی لیکن ہر طرف بربریت اور تباہی کی پھیلی ہوئی خبروں میں پھر کہیں گم ہو گئی یا کر دی گئی۔
امریکی سامراج کا خصی پن
بیسویں صدی انقلابات اور ردِ انقلابات ، جنگوں اور خانہ جنگیوں کی صدی تھی ۔ سوویت یونین کی موجودگی اور صدی کے بیشتر حصوں میں جدوجہد اور انقلابی کشمکش کے باجود سرمایہ داری اپنی تاریخ کے طاقتور ترین اور خوشحال ترین دور کے مزے لوٹ رہی تھی اور اس دمکتے چمکتے تاج کا کوہِ نور ہیرا امریکہ تھا۔ بے شمار مالیاتی، سماجی، اقتصادی اور فوجی معاہدوں کے ذریعے امریکہ نے اپنا سامراجی تسلط دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا تھا۔ یہاں تک کہ امریکا کو ’’عالمی پولیس مین‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ 1989-1991ء کے دورانیے میں دیوارِ برلن کے گرنے اور سٹالنسٹ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد امریکہ کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ تھی۔ پرانا بایاں بازو NGOs بنا بنا کر اپنی جدوجہد کی قیمت وصول رہا تھا جبکہ روائتی محنت کش سیاسی پارٹیاں سرمایہ داری کو پہلی اور آخری حقیقت تسلیم کر چکی تھیں۔ فرانسس فوکویاما کی گھٹیا منطق ’’ تاریخ کا اختتام‘‘ اسمِ اعظم بن چکا تھا۔ صرف ٹراٹسکائٹس اس آنے والے کل کی نشاندہی کر رہے تھے جس میں بظاہر نہ ختم ہونے والی اس دعوتِ شیراز نے برباد ہونا تھا اور وہ 2008ء کے خوفناک عالمی مالیاتی بحران کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے ہرعمل،ہر سوچ، ہر روایت اور ہر نظریہ کی دھجیاں اڑا دیں۔
2008ء تک آتے امریکہ عراق اور افغانستان میں بے پناہ وسائل صرف کر چکا تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول کے مطابق دونوں جنگوں پر اب تک 40-60 کھرب روپے (4-6ٹریلین ڈالر) کا خرچ ہو چکا ہے۔ مالیاتی اداروں کی مدد کے پیکج اور دیگر اخراجات کے بعد امریکا کا ٹوٹل فیڈرل قرضہ 190کھرب روپے(19.5ٹریلین ڈالر) ہے جو ٹوٹل GDPکا 106 فیصد بنتا ہے اور اس سال کے آخر تک 225 کھرب روپے تک (22.5 ٹریلین ڈالر)متوقع ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور ٹیکس آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جبکہ تمام فلاحی خرچوں پر شدید کٹوتیاں لگ رہی ہیں۔ امریکی عوام کٹوتیوں، بے روزگاری،مہنگائی اور جنگوں سے شدید تنگ آ چکی ہے اورطبقاتی کشمکش روز بروز شدید ہوتی جا رہی ہے جس کا اظہار مختلف تحریکوں اور جاری امریکی صدارتی انتخابات میں ہو رہا ہے۔
اس صورتحال میں امریکہ کے پاس دنیا کے کونے کونے میں اپنے 900 جنگی بیسوں کو چلانے اوردنیا کے مختلف خطوں میں پہلے کی طرح جنگی مداخلت کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ۔ اسی لئے اب وہ اپنے روائتی زیرِ تسلط علاقوں میں علاقائی طاقتوں کو زیادہ کردار دینے پر مجبور ہے۔ اسی سلسلے میں مشرقِ وسطی میں امریکہ نے اپنے دہائیوں پرانے حریف ایران سے ایٹمی معاہدہ کیا ہے تاکہ عراق، شام، یمن، بحرین، اردن، لبنان اور سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں حالات کومعمول پر لانے میں مدد مل سکے۔ عراق کی فوج برباد ہونے کے بعد اب اگراس خطے میں کوئی قابلِ ذکر فوجی قوت ہے تو وہ ایران ہے اور اس حقیقت کا امریکی سامراج انکار نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف مشرقِ وسطی میں امریکی دلال سعودی عرب اور اسرائیل اپنی امریکہ وفاداری اور ایران دشمنی میں اکٹھے ہیں۔ سعودی عرب کو اس بات کی شدید خلش ہے کہ کئی سال کی کوششوں کے باوجود امریکہ براہِ راست شام اور یمن میں مداخلت کیوں نہیں کر رہا۔ ساتھ ہی ساتھ ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے جہاں سعودی عرب کو اپنی علاقائی حاکمیت خطرے میں نظر آ رہی ہے وہیں پر اپنے مشرقی علاقوں میں شیعہ اکثریت عوام سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کو اپنے ہمسایوں سے اور اپنی عوام سے تحفظ کیلئے ہمیشہ پیشہ ورانہ قاتلوں کی ضرورت رہی ہے جن کو اس نے تیل کی دولت سے اجرت ادا کی ہے اور اس میں امریکہ سے پاکستان تک کی تمام افواج شامل ہیں۔
سامراجی جنگیں، کس قیمت پر؟
امریکی سامراج کے پیچھے ہٹنے سے مشرقِ وسطی ایک ایسا میدان بن چکا ہے جس میں ہر ٹیم زور آزمائی کر رہی ہے۔ اس میں جہاں بڑے سامراج روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تگ و دو کر رہے ہیں وہیں پر علاقائی سامراجی سعودی عرب، ایران، عرب امارات، قطر، کویت، ترکی اور اسرائیل بر سرِ پیکار ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سعودی عرب یمن جنگ میں 600 ارب روپے (6ارب ڈالر) ماہانہ لگائے جارہے ہیں جبکہ بعض ذرائع کے مطابق اس جنگ کی قیمت 1000 ارب روپے (10 ارب ڈالر) ماہانہ تک ہے۔ اسی طرح عراق، شام اور افغانستان کی جنگوں میں، بحرین کی بادشاہت(سعودی حکمرانوں کے کزن) اور مصری آمریت کو سہارا دینے کیلئے اور شمالی افریقہ میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بھی اربوں ڈالر بہایا جا رہاہے۔ اس تمام خرچے میں 8000 ارب روپے(80ارب ڈالر) کا سالانہ دفاعی بجٹ شامل نہیں۔اس بجٹ کی بدولت سعودی عرب اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
ان تمام شاہ خرچیوں کے باوجود زمینی حقائق خواہشات کے الٹ ہیں۔ یمن کی جنگ کاا ختتام ہوتا نظر نہیں آ رہا اور عراق، شام اور لیبیا ایسی دلدلیں ثابت ہوئی ہیں جن میں تمام چھوٹے بڑے سامراجی دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اگر زمین پر کسی کی جیت ہو رہی ہے تو ایران کی کیونکہ ایران کی افواج سعودی افواج سے یکسر مختلف ہیں۔ ان کی افواج براہِ راست جنگ اور جنگی مشاورت دونوں میں تجربہ رکھتی ہیں۔ساتھ ہی سعودی فوج کی طرح قبائلی فوقیت پر نہیں بلکہ پیشہ ورانہ طریقہ کار پر استوار ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایک نجات دہندہ کے طور پر ایران کا پروپیگنڈا بہت کامیاب ہے۔ سعودی حکمران اپنے شیعہ عوام کو آہنی ہاتھوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں جنوری 2016ء میں ہر دلعزیز شیخ نمر بن نمر کا 47 افراد سمیت سر قلم کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے شیعہ عوام میں غصہ اور اضطراب بھی شدید بڑھ گیا ہے۔ اس تمام تر غم و غصے کی بنیاد وہ محرومی اور غربت ہے جو ایک لمبے عرصے سے ان علاقوں کے عوام محسوس کر رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ میں اس تمام تر بغاوت کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر وضاحت پیش کی جاتی ہے جبکہ درحقیقت یہ حکمران طبقے کے خلاف مظلوم عوام کی بغاوت ہے جسے ایران اور سعودی عرب کی ریاستیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس تحریک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر زائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پچھلے سال گر میوں میں یکے بعد دیگرے مشرقی علاقوں میں دو بم دھماکے بھی ہوئے جو اس عوامی بغاوت کو دہشت گردی کے ذریعے ختم کرنے کی سازش تھی۔
تیل کی گرتی قیمتیں اورلڑکھڑاتی معیشت
مشرقِ وسطیٰ کی تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کا دارومدار تیل پر ہے۔ معاشی ماہرین جتنی مرضی قلابازیاں کھا لیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ تیل ہی وہ واحد جنس ہے جس نے ان بادشاہتوں کو سہارا دے رکھا ہے۔ اب تک چینی ریاست کا دیو ہیکل خرچہ اور سرمایہ کاری عالمی سرمایہ داری کے بوسیدہ جسم کو کھینچے جا رہی تھی لیکن اب چین کی بھی بس ہو چکی ہے۔ عالمی معاشی تباہ کاری کے بعد جہاں اشیائے صرف اور فیکٹریوں کی پیداوار میں عالمی سطح پر کمی ہوئی ہے وہیں پر ان اشیا کی تیاری میں خام مال کی کھپت بھی کم ہوئی ہے۔ جن معیشتوں کا دارومدار چین کو خام مال بیچنے پر تھا وہ اب مال نہ بکنے کی وجہ سے شدید مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی شیل تیل (Shale Oil) کی صنعت بھی موجود ہے جسے باقی تیل بیچنے والوں کے ساتھ مسابقت میں رہنے کیلئے کم از کم بھی 60-80 ڈالر فی بیرل کی قیمت درکار ہے۔ یہ ایک طرح سے باقی ممالک کی تیل کی قیمت بڑھانے کی کوشش پر قدرتی قدغن ہے کیونکہ اس طرح شیل تیل کو مارکیٹ میں حصہ داری کے مواقع مل جاتے ہیں اور یہ روائتی پیداواری ممالک کی خواہشات کے برخلاف ہے۔ اس صنعت کا عالمی منڈی میں حصہ کم کرنے کیلئے باقی ممالک نے ، جن میں سعودی عرب پیش پیش تھا تیل کی پیداوار کو بڑھایا اور ساتھ ہی قیمتوں کو بھی گرانا شروع کر دیا۔ تیل کی زیادتی، قیمت میں گراوٹ اور مانگ میں کمی ایسا نسخہ ثابت ہوئے کہ جس سے تیل جون 2014ء میں اپنی تاریخی 115 ڈالر فی بیرل کی اونچائی سے گر کر اب 45 ڈالر فی بیرل پر آ گیا ہے ۔ اب بھی یہ قیمت مصنوعی ہے کیونکہ چند ماہ پہلے قیمت 25-26 ڈالر فی بیرل تک گر گئی تھی۔ بعض معاشی تجزیہ نگار ابھی بھی پیشین گوئی کر رہے ہیں کہ تیل کی قیمت 10 ڈالر فی بیرل تک گر سکتی ہے(Standard Charterd، Morgan Stanley، RBS،Goldman Sachs)۔ اس کی بنیادی وجوہات مانگ میں کمی، پابندیاں ہٹنے کے بعد مارکیٹ میں ایران کے تیل کی ترسیل اور شیل تیل سے مسابقت ہیں۔ اس وقت بھی تقریباً 8 لاکھ بیرل یومیہ اضافی تیل مارکیٹ میں آ رہا ہے جس کی وجہ سے قیمتیں اور بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ ایران کی ترسیل مستحکم ہونے کے بعد تقریباً 1.5 سے 2 لاکھ بیرل یومیہ اضافی مارکیٹ میں جون سے آیا کرے گا۔ اس تمام صورتحال کے مشرقِ وسطیٰ اور خصوصاً سعودی عرب پر تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔
یہاں سب سے پہلے ہمیں سعودی معیشت کو سمجھنا ضروری ہے جس کی روشنی میں سیاسی اور سماجی کیفیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
سعود ی عرب میں تیل 1938ء میں دریافت ہوا۔ آج سعودی عرب دنیا کا تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور OPEC(تیل بیچنے والے ملکوں کا اکٹھ) کا سب سے زیادہ اثرو رسوخ کا حامل ممبر ہے۔ سعودی عرب کا2014ء کا GDP 746 ارب ڈالر تھا جو 1968ء کے بعد کسی بھی سال میں سب سے زیادہ تھا (1968ء میں سعودی عرب کا GDP 4.19ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر تھا)۔تیل پر سعودی معیشت کے انحصار کا اندازہ یوں لگایا کا سکتا ہے کہ GDP کا 55فیصد ، بجٹ کا 92.5 فیصد(کل بجٹ 224ارب ڈالر) اوربرآمدات کا 97فیصد تیل سے آتا ہے۔ عالمی منڈی میں سعودی تیل کی کھپت تقریباً ایک کروڑ بیرل یومیہ سے کچھ زیادہ ہے جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی کل کھپت تقریباً 9کروڑ بیرل یومیہ ہے۔ سعودی عرب کی کل آبادی تقریباً تین کروڑ ہے جس میں 33 فیصد غیر ملکی محنت کش ہیں۔ تقریباً 60فیصد آبادی کی عمر 25سال سے کم ہے۔ بیروزگاری کی شرح 11.5 فیصد ہے جبکہ نوجوانوں میں یہ شرح 30فیصد تک ہے۔ 85فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے اور روزگار کابڑا ذریعہ ریاستی ادارے ہیں جبکہ نجی اداروں میں سعودی عوام کی روزگار کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے۔ 2030ء تک تقریباً 50 لاکھ سعودی نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوں گے۔ غربت کی شرح25فیصد جبکہ کچھ محتاط اندازوں کے مطابق یہ شرح 35-45 فیصد تک ہے۔ دس لاکھ سعودی کسی نہ کسی طرح ریاستی امداد پر زندہ ہیں جبکہ دوسری جانب حکمران پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ سعودی حکمران طبقے کا سب سے کامیاب بزنس مین شہزادہ ولید بن طلال کی کل مالیت تقریباً 26 ارب ڈالر ہے جبکہ پچھلے بادشاہ سلامت شاہ عبداللہ کی ذاتی ملکیت کا تخمینہ 18 ارب ڈالر کے لگ بھگ لگایا گیا ہے۔
IMFکی ایک رپورٹ کے مطابق2002-2013ء تک تیل کی ہوشربا قیمتوں کے نتیجہ میں سعودی عرب کے GDP کی 3 فیصد سے زیادہ بڑھوتری رہی جو اب محتاط اندازوں کے مطابق 2فیصد سے بھی کم لگائی گئی ہے۔ گزشتہ سال سعودی عرب کا گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے مجموعی خسارہ 100 ارب ڈالر(GDPکا 16فیصد)اور بعض اندازوں کے مطابق 20 فیصد تھا۔ اس سال کی پیشین گوئی بھی کم از کم 20 فیصد خسارے کی ہے۔ ان خساروں کو پورا کرنے کیلئے ملکیتی فنڈ میں سے تقریباً 100 ارب ڈالر خرچ کیا جا چکا ہے جس کے بعد فنڈ کی کل مالیت 635 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ اس مہینے کے آخر تک سعودی عرب نو سال بعد عالمی منڈی سے پہلی مرتبہ 10ارب ڈالر کے قرضے لے گا۔ سعودی عرب محنت سے لے کر انسانی استعمال کی ہر شئے تک در آمد کرتا ہے اور ان پر سبسڈی بھی دی جاتی ہے جو بتدریج کم کی جا رہی ہے۔ ان تمام عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے IMF نے پیشین گوئی کی ہے کہ سعودی عرب 2020ء تک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔
ایک طرف تو سعودی عرب کی معیشت شدید گراوٹ کا شکار ہے تو دوسری طرف بے روزگاری، غربت اور مہنگائی ہے جو بڑھتی جا رہی ہے۔ اپنے عوام کو پر سکون رکھنے کیلئے سعودی عرب نے 2010ء میں تقریباً 130 ارب ڈالر کے ریاستی اخراجات کیے جن سے دیو ہیکل انفراسٹرکچر کے منصوبے شروع کئے گئے تاکہ روزگار میسر آ سکے لیکن معیشت کو زوال پذیری سے نہیں بچایا جا سکا۔ اسی طرح فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے شاہی تحت پر براجمان ہوتے ہی کسی ممکنہ عوامی ردعمل سے بچنے کیلئے تنخواہوں میں اضافے اور بونس کی مد میں 32 ارب ڈالر خرچ کئے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ صحت، تعلیم، کھانے پینے کی اشیا، انفراسٹرکچر پراجیکٹ، جنگوں کے خرچے، خارجہ پالیسی کے خرچے وغیرہ کیلئے سعودی حکمرانوں کو تیل کی قیمت کم از کم بھی 106 ڈالر فی بیرل درکار ہے جو زیادہ تر معاشی ماہرین کے مطابق کم از کم اس نسل کی زندگی میں تو ممکن نہیں۔
2016ء کے بجٹ میں سعودی حکمرانوں نے IMFکا زہریلا نسخہ خوفناک کٹوتیاں ، ٹیکس، نجکاری اور بے روزگاری کی شکل میں لاگو کیا ہے جس کی وجہ سے تقریباً تمام پراجیکٹس تعطل کا شکار ہیں۔ ہر جگہ سبسڈی ختم کی جا رہی ہے۔ صحت، تعلیم اور تیل کی کمپنیوں جن میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو(ARAMCO) شامل ہے، کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ نیا روزگار دستیاب نہیں اور روزگار پر موجود محنت کشوں کو لاکھوں کی تعداد میں نکالا جا رہا ہے تاکہ سعودی نوجوانوں کو نوکری دی جا سکے۔ لیکن سعودی نوجوان شدید کٹوتیوں اور ٹیکسوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ویسے بھی شدید معاشی گراوٹ میں روزگار کے بہترمواقع موجود نہیں اور سعودی شہریوں کو انتہائی کم اجرتیں قبول کرنی پڑرہی ہیں۔ غیر ملکی محنت کش بھی اپنے تباہ حال ممالک میں واپس جانے کو تیار نہیں کیونکہ ان کی محنت پر پیچھے گھر چل رہے ہیں۔ ایسے میں سعودی معاشرہ ایک ایسا پریشر ککر ہے جو کسی وقت بھی پھٹنے کی طرف جا سکتا ہے۔
پاکستان پر اثرات
پاکستان پر سعودی عرب کے ان شدید معاشی حالات کے اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشی ، سماجی اور مذہبی حوالے سے یہاں سعودی عرب کی بے پناہ مداخلت ہے۔پاکستان سے تقریباً 20 لاکھ محنت کش روزگار کیلئے سعودی عرب میں مقیم ہیں جن میں سے بیشتر کی زندگی جانوروں سے بھی بد تر ہے۔ پاکستان کی کئی سال سے برباد معیشت کی وجہ سے اور بھی زیادہ محنت کش مسلسل باہر جانے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں کروڑوں گھر پوری دنیا میں پھیلے پاکستانی محنت کشوں کی ترسیلات زر پر چل رہے ہیں۔ بیرونِ ملک سے آنے والی رقم کا ایک بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ کے تارکین وطن کی جانب سے آتا ہے۔ بگڑتی سعودی معاشی صورتحال کے نتیجے میں ایک تو پیسہ ملک میں آنا کم ہو گا جو غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کے نصف تک جا سکتا ہے، دوسرا کثیر تعداد میں لوگ نوکریوں سے فارغ کر کے واپس بھیجے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب میں تارکینِ وطن کے واپس پیسے بھیجنے پر ٹیکس لگانے کی تجاویز بھی زیرِ غور ہیں۔ شدت اختیار کرتی معاشی صورتحال، سعودیہ میں موجود تارکینِ وطن کی طرف سے پیسے کی ترسیل میں کمی اور روزگار کے مواقع میں کمی کے نتیجہ میں پاکستان میں بھی بیروزگاری، غربت اور مجبوری کے تحت انتشار بڑھے گا۔ دہشت گردی، ڈکیتی، جرائم ، منشیات کے خرید و فروخت اور استعمال میں اور زیادہ اضافہ ہو گا۔ ان تمام محرکات کی وجہ سے پاکستان میں بربریت اور زیادہ بڑھے گی جس کے پاکستانی عوام پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔
نجات کا واحد راستہ۔۔۔سوشلسٹ انقلاب!
سعودی فرمانرواؤں کی تاریخ ظلم، جبر، بربریت، نسل کشی، استحصال اور عوامی خون پر عیاشیوں کی تاریخ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے جنگ و جدل اور تباہی بڑھتی جائے گی جس کے اثرات سعودی عرب میں دہشت گردی کی شکل میں بھی پڑیں گے۔ سعودی حکمران خاندان اس وقت لوٹ مار کی لڑائی میں شدید اندرونی کشمکش کا شکار ہے جس میں ایک طرف پرانی نسل اور دوسری طرف نئی نسل کھڑی ہے لیکن پھر ان میں بھی آپسی گروہ در گروہ کی کیفیت ہے۔ سعودی عرب میں ایک جدید ریاست کا کوئی ادارہ مثلاً عدلیہ، سیاسی جماعتیں، آزاد پارلیمان، آزاد پریس،یونینز اور فیڈریشنز وغیرہ کچھ موجود نہیں۔ یہاں تمام عہدے قبائلی عصبیت کی بنیاد پر بانٹے جاتے ہیں۔ مٹھی بھر لوگ تمام ذرائع پیداوار پر قابض ہیں اور مال و دولت لوٹ لوٹ کر بیرونِ ملک اکاؤنٹس میں بھری جا رہے ہیں۔ حالیہ پاناما لیکس میں سعودی فرمانروا سلمان کا نام بھی ہے۔ اس تمام تر کیفیت میں شاہی خاندان، فوج، ملیشیا اور قبائل شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر خونریز خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں جس کے حاوی امکانات ہیں۔
لیکن کشت و خون میں ڈوبنے سے پہلے ایک راستہ موجود ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کا راستہ۔ آج کا سعودی نوجوان اپنی پچھلی نسل سے مختلف ہے۔ اس کو تباہ کن معاشی گراوٹ اور خون ریزی کا سامنا ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی محنت کش اس سے جڑنے کے منتظر ہیں۔ آئے دن سعودی عرب میں کسی نا کسی ادارے، کسی نا کسی شہر میں احتجاج ہو رہے ہیں اور اس میں تمام قومیتوں کے لوگ شامل ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہم بن لادن کمپنی میں ہونے والے واقعات سے زیادہ بڑے اور حیران کن واقعات دیکھیں گے۔اب یہ وقت کی ضرورت ہے کہ سعودی عرب میں ملکی اور غیر ملکی محنت کش ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھ کرتے ہوئے عالمی محنت کش طبقے کی تحریکوں کے ساتھ جڑیں اور اس سرخ سویرے کی جدوجہد کریں کہ جس کے بعد انسان درندگی سے چھٹکارا حاصل کر کے انسانیت کی طرف دوبارہ سفر کا آغاز کرے۔