|تحریر: ولید خان|
20 اپریل کو عالمی منڈی میں پہلی مرتبہ امریکی خام تیل (WTI) کی قیمت 306 فیصد گراوٹ کے ساتھ منفی40 ڈالر فی بیرل تک گر گئی۔ یعنی تیل نکالنے والی کمپنیاں 40 ڈالر فی بیرل دینے کو تیار تھیں کہ تیل بھی لے جاؤ اور پیسے بھی لے لو! فی الحال بحالی کے بعد اس تیل کی قیمت 32 ڈالر فی بیرل پر سانسیں لے رہی ہے۔ اسی طرح عالمی منڈی میں برینٹ خام تیل کی قیمت بھی 16 ڈالر فی بیرل تک گرنے کے بعد اب 34ڈالر فی بیرل پر کھڑی ہے۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ان قیمتوں کی موجودگی میں امریکی شیل انڈسٹری کی 80 فیصد کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی جبکہ منافع بخش نہ ہونے کی وجہ سے یہ پوری صنعت ہی بند ہو جائے گی۔ تیل سے منسلک تقریباً تمام عالمی کمپنیوں نے پیداوار میں کمی یا نئے تیل کے ذخائر کو زیر استعمال لانے والی ممکنہ سرمایہ کاری منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں تیل کمپنیوں کے منافعوں میں بھی بڑے پیمانے میں کمی متوقع ہے۔ اس کی وجوہات لاک ڈاؤن اور عالمی معاشی بحران کے باعث عالمی منڈی کی مانگ میں تاریخی گراوٹ (30 فیصد یا 30 ملین بیرل یومیہ)، تیل ذخیرہ کرنے والی تنصیبات کی شدید کمی (85 فیصد تک لبا لب بھر چکا ہے) اور روس۔ سعودی عرب کی چند ہفتوں کی محدود پیمانے پر تیل کی منڈی میں مارکیٹ شیئر کے لیے تجارتی جنگ ہیں۔
اس جھٹکے سے اقتدار کے ایوانوں سے لے بینکاری اور کاروبار تک سرمایہ داری کا ہر اہم ستون لرز چکا ہے۔ اگرچہ، تیل عالمی معیشت کی صحت، کھپت اور پیداوار کے حوالے سے انتہائی اہم پیمانہ ہے اور سرمایہ داری کے لیے گردشی خون کی اہمیت رکھتا ہے لیکن بحران صرف اس ایک صنعت تک محدود نہیں۔ قیمتی دھاتوں (سونا، چاندی) کی قیمتوں میں حیران کن گراوٹ سے لے کر دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں انتشار(مجموعی طور پر 30فیصد گراوٹ)، تیزی سے دیوالیہ ہوتی کمپنیاں، بینک، ائر لائن صنعت اور ہوٹل سب 1929ء کے ”عالمی کریش“ سے کئی گنا بڑے سرمایہ دارانہ بحران کی نوید سنا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر کئی ٹریلین ڈالر منڈیوں سے صفا چٹ ہو چکے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک نے مجموعی طور پر اب تک تقریباً 10 ٹریلین ڈالر کی مالیاتی امداد کا دنوں اور ہفتوں میں اعلان کیا لیکن یہ بھی کارگر نہ ثابت ہو سکے۔ ہر تجزیہ نگار اور ہر مالیاتی ادارہ کرونا وائرس وبا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے لیکن سنجیدہ حلقے اعتراف کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس نہ بھی ہوتا تو بھی عالمی معیشت کو کھائی میں گرنے کے لئے محض ایک بہانہ چاہیے تھا۔ عالمی مارکسی رجحان نے اپنی ستمبر 2019ء کی عالمی تناظر کی دستاویز میں خبردار کیا تھا کہ امریکی چین تجارتی جنگ، مشرقِ وسطیٰ میں نیا تصادم، کوئی وباء، کوئی دیوالیہ یہاں تک کہ ٹرمپ کا ایک بیوقوفانہ ٹویٹ بھی نئے عالمی معاشی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور چین جیسی معیشتوں کے جی ڈی پی میں پہلی سہ ماہی میں بالترتیب 40 فیصد اور 30 فیصد گراوٹ اور تیل کی عالمی قیمت مستقل طور پر 10 ڈالر یا اس سے کم رہنے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں تو آنے والے دنوں میں سعودی عرب جس کی معیشت، عمرانی معاہدہ، خارجہ پالیسی اور حکمران طبقے کی عیش و عشرت کی بنیاد تیل ہے، کا کیا مستقبل ہے؟
سرمایہ داری کا بحران اور ایک شہزادے کے عزائم
پچھلے کئی سالوں سے سعودی معیشت گراوٹ کا شکار ہے۔ گو کہ ملکی معیشت 2008ء کے معاشی بحران سے قدرے محفوظ رہی اور 2013ء میں عرب بہار کے دوران ممکنہ سماجی ہلچل سے بچنے کی خاطر 130 ارب ڈالر کی خطیر رقم عوام پر خرچ کرنی پڑی لیکن تیل کی کم و بیش مستحکم قیمتوں نے معیشت کو سہارا دیے رکھا۔ 14-2011ء کے عرصے میں فی بیرل قیمت 100 ڈالر سے زیادہ رہی اور کچھ عرصہ تو 130-125 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح پر بھی پہنچ گئی۔ 15-2010ء کے درمیان سعودی عرب کی شرح نمو 3سے5 فیصد رہی۔ لیکن عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق اس سال شرحِ نمو منفی ہو گی۔ سعودی مانیٹری اتھارٹی کے مطابق 2015ء میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 732 ارب ڈالر تھے جو چار سالوں میں مسلسل گراوٹ کے بعد 499 ارب ڈالر پر پہنچ چکے ہیں یعنی چار سالوں میں 233 ارب ڈالر کی کمی۔ پچھلے چند سالوں سے سعودی عرب بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے ریاستی بانڈز بھی جاری کرتا رہا ہے اور آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا دارومدار ہی تیل پر ہے (جی ڈی پی کا 50 فیصد اور کل برآمدات کا 70 فیصد) بہت جلد اس کا کل قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 50 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اس سال شروع ہونے والے خوفناک عالمی معاشی بحران سے قطع نظر، سعودی عرب کی معیشت پچھلے کئی سالوں سے ہی گراوٹ کا شکار تھی۔ اسی لیے یہ سوال اہم ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی معیشت حجم کے حوالے سے مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی اور مستحکم تھی اس حال تک کیسے پہنچ گئی؟
ایک مشہور یونانی کہاوت حکمرانوں کے لیے اکثر استعمال ہوتی آئی ہے جس کے مطابق جب دیوتا کسی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو اسے پاگل کر دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے سماجی اور معاشی بحران کا اظہار بھی اس کے حکمران طبقے کے باہمی تضادات ہوتا ہے جو تیزی سے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ لیکن ولی عہد محمد بن سلمان(MBS) اس بحران کا مجسم اظہار ہے جس کے مختلف اقدامات کے باعث یہ تضادات مزید گہرے ہوئے ہیں۔ اگرچہ سماجی تبدیلیوں میں عالمی معیشت اور سیاست کا ہمیشہ کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن تاریخ میں فرد کے کردار سے کبھی بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جنوری 2015ء میں شاہ سلمان سعودی تخت پر بیٹھنے کے ساتھ ہی اس کے بیٹے محمد بن سلمان کی تیز تر اڑان کا آغاز ہوتا ہے۔ شاہ سلمان شدید علیل ہے اور ملکی باگ ڈور، درحقیقت، اس کے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ہاتھوں میں ہے۔ محمد بن سلمان نے اقتدار پر جب اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کی تو اس وقت 2008ء کے بحران کوگزرے سات برس ہو چکے تھے لیکن کمزور عالمی معیشت اور بدلتی عالمی و علاقائی صورتحال نے طالع آزما شہزادے کو بہت تیزی سے کئی اقدامات کرنے پر مجبور کیا۔ اپنے آپ کو ولی عہد نامزد کروانے اور اپنے راستے سے خاندان کے امیدواروں کو ہٹانے کے لئے دو خوفناک محلاتی کُو کئے گئے جن میں دہائیوں سے ریاست کے مختلف حصوں پر براجمان خاندانی شاخوں کو پرے ہٹا دیا گیا یہاں تک کہ امریکی ریاست کے انتہائی قابلِ اعتماد مہرے شہزادہ محمد بن نائف سے وزارتِ داخلہ کا قلمدان واپس لینے کے ساتھ ساتھ ولی عہدی سے بھی ہٹا دیا گیا۔ عوام جو پہلے ہی شاہی خاندان کی کرپشن، عیاشیوں، روز بروز بڑھتی معاشی تباہ حالی اور بیروزگاری سے تنگ تھی اس میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے کرپشن کے خلاف نام نہاد جنگ کو خاندان کے مخالف حصوں کو ایک طرف اپنی وفاداری پر مجبور کیا گیا تو دوسری طرف بہت بڑے پیمانے پر سعودی سماج کی گھٹن بتدریج اصلاحات کے ذریعے کم کی گئی تاکہ نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی جا سکے اور عالمی طور پر اپنا لوہا منوایا جا سکے۔ ساتھ ہی عوام میں اپنی بنیادیں بنانے کے لئے کئی سو ارب ڈالر کے تعمیراتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا تاکہ معیشت بہتر ہو اور روزگار دیا جا سکے گو کہ پچھلی دو دہائیوں میں ایسے کئی منصوبوں کا اعلان کیا جا چکا ہے جو یا تو کبھی شروع ہوئے ہی نہیں اور اگر شروع ہوئے بھی تو ان کا تکمیل تک پہنچنا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ یہی حالات شہزادے کے منصوبوں کا ہے جس کے تحت ملک میں 2017ء سے اب تک تعمیرات میں 25 فیصد گراوٹ واقع ہو چکی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی Aramco کے حصص بیچنے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری کا سیلاب آیا۔ اسی طرح عوام اور خطے میں اپنی دھاک بٹھانے کے لئے مشرقِ وسطیٰ کے سب سے کمزور اور غریب ملک یمن پر فوج کشی کی گئی تاکہ ایک طرف تو قرونِ وسطیٰ کے فاتحین کی نقالی کی جا سکے اور دوسرا شام اور عراق کی خانہ جنگیوں میں کامیابیوں کے بعد ایران کی ملا اشرافیہ کے بڑھتے سامراجی اثرورسوخ کو کم بھی کیا جا سکے۔ یمن میں براہِ راست فوج کشی کے ساتھ علاقائی خانہ جنگیوں میں مذہبی انتہاء پسندوں کے ذریعے بھرپور مداخلت بھی شروع کر دی گئی۔ امریکہ پچھلے چند سالوں میں شیل آئل کو کامیابی سے استعمال کرنے کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا جس کی وجہ سے اس کا مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے تیل پر انحصار بھی ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تیل صنعت کو برباد کرنے اور عالمی منڈی میں اپنی حصہ داری بڑھانے کے لئے 2014 ء میں محمد بن سلمان نے پرائس وار شروع کر دی جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں شدید گراوٹ واقع ہوئی اور مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہ ہوئے۔
اپنے جنم سے لے کر اب تک سعودی عرب مختلف سامراجیوں کا خطے اور دنیا میں رجعتی آلہ کار رہا ہے تاکہ ایک طرف امریکہ کے سامراجی عزائم اور تیل کی سپلائی کا تحفظ کیا جا سکے اور دوسری طرف شاہی خاندان خود کو قائم و دائم رکھے۔ صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد شہزادہ سلمان نے خاص طور پر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ نہ صرف مختلف انداز میں رشوت دے کر دوستی کی پینگیں بڑھائیں بلکہ امریکہ کے ساتھ مل کر فلسطینی حقوق کی جدوجہد کا جھوٹا نقاب بھی اپنے چہرے سے اتار پھینکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو زیادہ مستحکم کیا۔پھر ٹرمپ کی اور زیادہ خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کئی سو ارب ڈالر کی اسلحے کی خریداری کے معاہدے بھی کر ڈالے۔
یمن کے ساتھ جنگ، افریقہ خاص طور پر مصر اور سوڈان میں سیاسی و معاشی مداخلت، مشرقِ وسطیٰ میں سامراجی جنگوں میں مداخلت، عالمی اثرورسوخ بڑھانے کے لئے شاہانہ اخراجات، شاہی خاندان میں اقتدار کے لئے سازشوں، سماج میں لبرل اصلاحات کر نے کی کوششیں اور معیشت کے تیل سے انحصار کو کم کرتے ہوئے نئے معاشی شعبوں کو جنم دینے کی کوششوں میں بے پناہ پیسہ ضائع ہوا ہے اور نتائج حسبِ منشاء نہیں جس کے باعث سعودی ریاست کا بحران مزید گہرا ہو چکا ہے اور وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ سعودی شاہی خاندان اس وقت شدید انتشار کا شکار ہے جس میں اقتدار کی لڑائیوں کے ساتھ ساتھ سماجی دباؤ کا بھی اہم کردار ہے۔ اسی طرح، نیم لبرل اصلاحات کو ریاست کا ایک اہم حصہ اپنے مفادات پر حملہ تصور کر رہا ہے جس میں وہابی رجعتی قوتیں اور سماج کی اہم پرتیں شہزادے کے شدید خلاف ہو چکی ہیں۔ عالمی معاشی سست روی اور شدید بحران میں اپنی عیاشیوں اور نیم سامراجی اخراجات کو برقرار رکھتے ہوئے پہلے کی طرح سماجی اخراجات برقرار رکھنا ممکن نہیں جس وجہ سے سماجی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ ایران سے سامراجی لڑائی مول لینے کا نتیجہ پچھلے سال انتہائی اہم تیل تنصیبات پر حملے کی شکل میں نکلا جس نے عالمی تیل کی صنعت کو لرزا کر رکھ دیا اور ثابت کر دیا کہ بے پناہ جدید ترین ہتھیاروں، امریکی آشیر باد اور سامراجی عزائم کے باوجود سعودی عرب ایک کاغذی شیر ہے۔ یہ سارے اجزائے ترکیبی کسی ایک حادثے کا منتظر تھے جو کرونا وائرس کی شکل میں نمودار ہوا۔
کرونا وائرس اور سعودی عرب کا مستقبل
شہزادے نے ایک مرتبہ پھر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے اس سال کے آغاز میں تیسرے محلاتی کُوکا آغاز کیا جس میں معزول شہزادے محمد بن نائف سمیت شاہ سلمان کے آخری زندہ بھائی شہزادہ احمد بن سلمان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن اس سال حالات یکسر مختلف تھے۔ کرونا وائرس کی آمد سے پہلے آئی ایم ایف پچھلے سال کے اختتام تک نوید سنا چکا تھا کہ سعودی جی ڈی پی کی ممکنہ شرحِ نمو 0.2 فیصد رہے گی۔ سعودی عرب کو بجٹ خسارے کو ختم کرنے کے لئے کم از کم 85 ڈالر فی بیرل سے زیادہ تیل کی قیمت درکار ہے جو دور دور تک نظر نہیں ا ٓرہی تھی اور اب تو ناممکن ہی ہو چکی ہے۔ معاشی اصلاحات کا منصوبہ ناکامی سر دوچار ہے۔ ریاستی اثاثہ جات بیچنے کی کوشش ”ہر چیزاورہماری مراد ہر ایک چیز“ ناکام ہو چکی ہے۔ بجٹ خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس سال آئی ایم ایف کے مطابق یہ جی ڈی پی کے 19 فیصد تک جا پہنچے گا۔ شدید خوفناک سماجی کٹوتیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند دن پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی ریاست نے تمام محکموں اور وزارتوں کو اخراجات میں 50 فیصد کٹوتی کا حکم دیا ہے۔ یہ کٹوتی سالوں سے چلی آ رہی کٹوتیوں اور تنخواہوں کو منجمد کرنے کے علاوہ ہے۔ نوجوان بیروزگاروں کی فوج میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے جبکہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والے 45 فیصد غریب عوام کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ لبرل اصلاحات، جن میں سینما گھر، جوئے خانے، ڈانس پارٹیاں، خواتین کو ڈرائیونگ کا حق وغیرہ شامل تھے، اب ان کا خمار منڈی کی سختی میں تیزی سے اتر رہا ہے اور عوام میں حکمران طبقے کیخلاف نفرت ابھر رہی ہے۔ کئی ہزار مخالف ملاؤں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور مقامی صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا جا چکا تھا جن میں ایک بڑی تعدادخواتین کی بھی شامل ہے۔ بیرونِ ملک سے آئے مزدور، جن کی زندگیاں غلاموں سے بدتر ہیں، تیزی سے بیروزگار ہو رہے ہیں۔ یمن میں جنگ تعطل کا شکار ہو چکی ہے اور عملاً محمد بن سلمان کے گلے کہ ہڈی بن چکی ہے۔ اربوں ڈالر جھونکنے کے بعد بھی وہ فتح سے کوسوں دور ہے۔ بظاہر خطے میں ایران عسکری حوالے سے حاوی ہو چکا ہے اور دو سال پہلے سعودی صحافی جمال خشوگی کے ترکی میں سفاک قتل کے بعد شہزادہ محمد عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے جبکہ ٹرمپ کی اپنی دلچسپی مشرقِ وسطیٰ میں ختم ہو رہی ہے۔ جلتی پر تیل کا کام ان خبروں نے کیا کہ جب پورے ملک میں کرپشن کے خلاف ایک نام نہاد جدوجہد جاری تھی تب شہزادہ سلمان کئی سو ملین ڈالر کی پرتعیش کشتیاں اور مصوری کے شاہکارخرید رہا تھا۔اور اس وقت تیل کی قیمت 20 ڈالر فی بیرل کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے عرصے میں کتنے بڑے طوفان امڈنے والے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تا دم تحریر سعودی عرب میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 55 ہزار سے زائد ہے جبکہ 300سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ جب سے کرونا وائرس آیا ہے تب سے سعودی ریاست کی مذہبی اجارہ داری کو بھی ٹھیس پہنچی ہے اور وہ مقدس مقامات کو زائرین کے لیے بند کرنے پر بھی مجبور ہوا ہے جس کی وجہ سے معیشت کو8 ارب ڈالر کا مزید خسارہ ہو گا۔ تمام ملک میں مکمل کرفیو لگا دیا گیا تھا جس میں اب کچھ نرمی کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر سعودی سوشل میڈیا اور اندرونی اطلاعات کا جائزہ لیا جائے تو ایک مختلف تصویر نظر آتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت کرونا وائرس تمام بڑے شہروں کی غریب آبادیوں اور مزدور کیمپوں میں پھیل چکا ہے۔ خاص طور پر وہ آبادیاں جہاں غیر قانونی تارکینِ وطن موجود ہیں، جو سعودی غیر رسمی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، مکمل طور پر وائرس کی زد میں ہیں۔ شیعہ اکثریتی مشرقی علاقوں میں بھی بیماری بہت زیادہ پھیل چکی ہے۔یہاں پہلے ہی بہت بڑی بغاوتیں ابھر رہی تھیں جنہیں بد ترین جبر کیساتھ کچلا جا رہا تھا۔ ایک ماہ پہلے سعودی عرب نے یمن میں کرونا وائرس کا بہانہ بنا کر ”انسانی بنیادوں“ پر عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن بعد میں اطلاعات ملیں کہ سرحدوں پر تعینات اور جنگ میں سرگرم فوجیوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے ایک تفصیلی مضمون میں آگاہ کیا کہ شاہی خاندان میں کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب تک 150 شہزادے اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس خبر نے شاہی خاندان کی ناقابلِ تسخیر قوت کی دیو مالائی داستان پر کاری وار کیا۔ مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو کی وجہ سے معیشت کا پہیہ مکمل طور پر رک چکا ہے اور اگر یہ ساری کیفیت چشمِ زدن میں ختم بھی ہو جاتی ہے تو بھی عالمی تیل کی منڈی کی تبا ہ حالی کی وجہ سے معیشت کا بد ترین بحران شدت سے جاری رہے گا۔
اس ساری صورتحال میں بیرونی طور پر تنہائی کے شکار شہزادہ محمد بن سلمان پر شاہی خاندان کی داخلی لڑائیوں اوربڑھتے سماجی دباؤ کی وجہ سے ایک خوفناک تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ اس کا ایک اشارہ پچھلے دو سالوں میں شہزادے پر مختلف قاتلانہ حملوں کی رپورٹوں سے ہوتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کے تضادات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب سماجی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ملک میں مکمل طور پر سیاسی سرگرمیوں اور یونین سازی پر پابندی ہے لیکن پچھلے چند سالوں میں بیرونِ ملک سے آئے ہوئے مزدوروں کی جانب سے چند ایک خودرو اور تندوتیز احتجاجوں نے واضح کیا ہے کہ محنت کش طبقے میں ایک لاواپک رہا ہے۔ اسی طرح پچھلی ایک دہائی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی جانب سے بھی احتجاجوں کا ایک طویل سلسلہ دیکھنے میں آ یا ہے۔ پھر پچھلے سال کے آخری مہینوں میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ انتہائی تندوتیز تبدیلیوں اور انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں رہا جن میں ایران، عراق، لبنان، سوڈان اورالجزائر قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح ان ممالک سمیت دنیا کے تیس سے زیادہ ممالک میں سارا سال تحریکیں جاری رہیں جن میں یورپ اور لاطینی امریکہ کے ممالک بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ آج کی نئی نسل سوشل میڈیا اور آن لائن خبروں سے بخوبی واقف ہے اور لمحہ بھر توقف کے بغیر خبریں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پھیل جاتی ہیں۔
شاہی خاندان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ قبائلی ڈھانچے پر مبنی مطلق العنان بادشاہت ہونے کے باوجودآج کی دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور سرمایہ داری کی زنجیریں دنیا کی ہر سماجی پرت کو جکڑے ہوئے ہیں۔عالمی معیشت، سیاست اور سماجی خلفشار کے تھپیڑوں سے سعودی عرب نہ تو الگ تھلگ رہ سکتا ہے اور نہ ہی ان اثرات سے بچ سکتا ہے۔پورے خطے میں عظیم الشان انقلابی روایات موجود ہیں اور مصر اور ایران جیسے ممالک میں ایک دیو ہیکل محنت کش طبقہ پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ کسی ایک ملک میں بھی انقلابی شورش سعودی عرب میں حالات کو پلک جھپکنے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ خود سعودی عرب میں یہ ہیجانی کیفیت زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ نوجوانوں کی ایک پوری نسل تیار ہو چکی ہے جس نے سعودی عرب کے سنہری دور کے بجائے بیروزگاری، بھوک، کٹوتیاں اور شاہی خاندان کی عیاشیاں ہی دیکھی ہیں۔ آنے والے دنوں میں نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے خطے کے محنت کش ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں جن میں رجعتی شاہی خاندان، ظالمان ریاست اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کیخلاف لاکھوں کی تعداد میں محنت کش عوام سڑکوں پر ہوں گے اور ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیاں تمام خلیجی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے ساتھ ساتھ لیبیا سے لے کر پاکستان تک گہرے اثرات مرتب کریں گی۔ انڈیا اور بنگلہ دیش سمیت جنوبی اور مشرقی ایشیا کے اہم ممالک کی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی معیشت کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں بھی سماجی اور سیاسی بحران گہرے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کا بحران اس خطے میں بھی اہم اثرات مرتب کرے گا۔ آنے والا عرصہ تاریخی تبدیلیوں کا عہد ہے جس میں حکمران طبقات کی سرمایہ دارانہ نظام کے بقا کی لڑائی انسانیت کو خونی دلدل میں دھکیل دے گی جس سے نجات کا واحد رستہ ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہی ہے۔