|تحریر: آدم پال|
سانحۂ ساہیوال پر شدید ترین عوامی غم و غصے کے باوجود قاتل ریاستی اہلکاروں کا ہر ممکن دفاع کیا جا رہا ہے اور انہیں رہائی دلوانے کے لیے تمام ریاستی ادارے پورا زور لگا رہے ہیں۔واقعہ کی ویڈیوز موجود ہیں اور عینی شاہدین کی ایک بہت بڑی تعداد گواہی دینے کے لیے تیار ہے کہ یہ ظلم سی ٹی ڈی اہلکاروں نے موقع پر موجود آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر کیا۔ لیکن ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اس ڈکیتی اور قتل کی واردات کو دہشت گردی کی کاروائی ثابت کیا جا سکے۔سی ٹی ڈی اہلکاروں نے بیان دیا ہے کہ انہوں نے فائرنگ کی ہی نہیں اور وہاں موجود موٹر سائیکلوں پر دہشت گردوں کے ساتھیوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تمام افراد قتل ہوئے۔ واقعہ کی تمام ویڈیوز اور شواہد سے یہ بیان مکمل جھوٹ ثابت ہوتا ہے لیکن نہ صرف حتمی طور پر اس بیان کو سچ مان لیا جائے گا بلکہ اس کی تشہیر بھی کی جائے گی اور دہشت گردی کیخلاف کاروائی کرنے والوں کو اعزاز سے بھی نوازا جائے گا۔ قتل ہونے والے ذیشان کو مرنے کے کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ثبوت ڈھونڈنے یا پھر یوں کہیے کہ تخلیق کیے جانے کا عمل جاری ہے۔اس سلسلے میں موجودہ حکومت ، پولیس اور سول بیوروکریسی مکمل طور پر ریاستی اداروں کا ساتھ دے رہی ہے ۔ سینیٹ کی ایک کمیٹی میں ’’سخت‘‘ نوٹس لیا گیا ہے لیکن واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ وہ بھی سیاسی لین دین کے لیے ایک ناٹک کیا جا رہا ہے۔ رحمن ملک جسے اس واقعہ کا بظاہر بہت دکھ ہے وزیر داخلہ ہونے کے باوجود بینظیر کے قتل کا سراغ نہیں لگا سکا تھا۔ وہ اس عمل میں اپنا ریٹ لگوانے کے لیے شامل ہو چکا ہے۔میڈیا بھی اپنے مفادات کے لیے اس واقعہ کی تشہیر کر رہا ہے لیکن دوسری اہم وجہ عوامی رد عمل ہے جسے زائل کرنے کی متعدد کوششیں کی جا رہی ہیں جن میں میڈیا بھی ایک اہم ہتھیار ہے۔
لیکن اس واقعہ سے ریاست کے بھیانک چہرے سے ایک اور نقاب اتر چکا ہے اور عوام اس ریاست کا حقیقی چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔سی ٹی ڈی کے ادارے کی کارکردگی سب کے سامنے ہے جسے دہشت گردی کی کاروائیوں کے حوالے سے پذیرائی دی جاتی تھی۔اس ادارے کے اہلکار دن دیہاڑے ڈکیتی اور قتل کی واردات کرتے ہیں اور پھر مقتولین پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر داد شجاعت بھی لیتے ہیں۔ نہتے معصوم افراد کو بغیر کسی وجہ کے گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے اور ایک بچی اور خاتون کو بھی نہیں بخشا جاتا جبکہ حادثاتی طور پر بچ جانے والے بچوں کو بے یار و مددگار ایک قریبی پٹرول پمپ پر پھینک کر خود فرار ہو جاتے ہیں۔کس طرح ڈکیتی کو دہشت گردی کی کاروائی میں بدلنے کے لیے تمام گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بدلی جاتی ہیں اور دیگر الزامات کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔پہلے موٹر سائیکل سوار کچھ دہشت گردوں کی کہانی گھڑی جاتی ہے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہم نے بچوں کو اغوا کاروں سے بازیاب کرایا ہے لیکن اس کہانی کو کھوکھلا پن بہت جلد عیاں ہو جاتا ہے پھر اس کو مزید تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر کہاجاتا ہے کہ دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ان افراد کے گھروں پر موجود تھی جن کے پاس بھاری مقدار میں اسلحہ موجود تھا۔لیکن مقتولین کے اہل خانہ اور محلے دار پر زور انداز میں اس بیان کو جھٹلا دیتے ہیں۔ اس کہانی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دو دہشت گردوں نے پیچھا کرنے پر خود کو خود کش حملے میں اڑا لیا تھا۔لیکن اس کہانی کا جھوٹ بھی جلد سامنے آ جاتا ہے۔اسی طرح پھر ذیشان کے داعش سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کی گاڑی کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ذیشان کا پہلے سے کوئی ریکارڈ کسی بھی ادارے کے پاس موجود نہیں تھا اور اس تمام ریکارڈ کو اب تخلیق کیا جار ہا ہے۔
اس سارے عمل میں پولیس کا رویہ اور مقدمہ درج کرنے سے لے کر اس کی کاروائی کا پول بھی بیچ چوراہے میں پھوٹتا ہے۔پہلے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی کے باوجود مقدمہ درج نہیں کیا جاتا اور بارہ گھنٹے احتجاج کے بعد نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی غیر قانونی طور پر ذیشان کو نامزد کرتے ہوئے ایک دوسرا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانے میں درج کر لیا جاتا ہے ۔ اسی طرح مقتولین کی نعشیں ورثا کو حوالے کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے بھی ورثا کو احتجاج کرنا پڑتا ہے اور مختلف ’’با اثر‘‘ افراد کو شامل کرنا پڑتا ہے۔اس تمام تر گھناؤنے عمل کو حکومت وقت اور دیگر تمام ریاستی ادارے تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس کو روٹین کی کاروائی قرار دیا جاتا ہے۔اس مملکت خداداد میں یہ ہے بھی روٹین کی کاروائی اور واضح طور پر نظر آتا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف دیگر تمام کاروائیاں بھی اسی طرز پر کی جاتی رہی ہیں۔پولیس کا عام شہریوں کے ساتھ رویہ اور طرز عمل اسی طرح کا ہوتا ہے اور ایسے بہت سے واقعات پہلے بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔گزشتہ سال قصور میں ایک سات سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے بعد عوامی غم و غصہ شدت کے ساتھ ابھرا تھا اور مشتعل مظاہرین نے مقامی تھانے کو آگ لگا دی تھی ۔ اس کی وجہ بھی پولیس کا درندہ صفت سلوک تھا جس میں پولیس والے بچی کی نعش کو ورثا کے حوالے کرنے کی ’’فیس‘‘طلب کر رہے تھے۔ایسے ہی مزید بہت سے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں بے گناہ افراد کو تھانے میں لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں بعض اوقات ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں۔لیکن تمام تر قانونی کاروائی میں پولیس والے بے قصور نکلتے ہیں اور مرنے کی تمام ذمہ داری خود مرنے والے پر ہی ڈال دی جاتی ہے۔ممکن ہے کہ ساہیوال واقعے میں بھی آخر میں یہ کہا جائے کہ مرنے والے خود بندوقوں کے سامنے آگئے تھے اور اپنے اوپر گولیاں چلانی شروع کر دی تھیں۔ عدالت بھی اس بیان کو یقیناسچ ہی تسلیم کر لے گی۔
پولیس اور دیگر تمام سکیورٹی ادارے بشمول سی ٹی ڈی اور آئی ایس آئی عوام پر چھوڑے گئے درندوں کا روپ دھار چکے ہیں اور سار دن عوام کا خون چوسنا اور ان کی ہڈیاں چبانا ان کا محبوب مشغلہ ہے ۔دیگر تمام ریاستی اداروں میں بھی عوام کے ساتھ ایسا ہی بھیڑ بکریوں والا سلوک کیا جاتا ہے جبکہ حکمران طبقات کے لیے ہر قسم کی مراعات شامل ہیں۔بہت سے لوگ اس واقعے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز دے رہے ہیں ۔لیکن یہاں کی عدالتوں میں ہر روز سائلین کی ہونے والی آبر وریزی سے کون واقف نہیں ہے۔عدالت کے ایک معمولی اہلکار سے لے کر سینئر ترین جج لوٹ مار میں ملوث ہیں اور ہر قدم پر عوام کو بے دردی سے نوچا جاتا ہے۔عدالتوں کے نرخ مقرر ہیں اور زیادہ بولی دینے والا اپنی مرضی کا فیصلہ خرید سکتا ہے۔صرف بے سہارا اور لاچار شخص ہی اس گھن چکر میں پھنس کر رسوا ہوتا ہے اور اپنی تمام تر جمع پونجی ان گدھ نما انسانوں پر لٹانے پر مجبور ہوتا ہے۔ایسے میں اس واقعہ پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے صرف ایک ادارے کے گدھ سے چھٹکارا پانے کے بعد دوسرے گدھ کو نوچنے کا موقع دینا ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں متاثرہ افراد کو انصاف کیسے مل سکتا ہے اور ایسے ہی دیگر مظالم ہر روز ہر تھانے اور کچہری میں برپا ہو رہے ہیں وہاں موجود درندوں سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے۔اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ساہیوال واقعہ کو دیکھنا ہوگا۔اس واقعہ میں متاثرہ افراد کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ان درندہ صفت ریاستی اہلکاروں کے لیے معمول ہے لیکن ابھی تک ہونے والی تھوڑی بہت کاروائی جس میں چند اہلکاروں کی گرفتاری شامل ہے کی بنیادی وجہ اس واقعہ کیخلاف ابھرنے والا غم و غصہ اور نفرت ہے۔اس کے ساتھ متاثرہ افراد کے لواحقین کی مستقل مزاجی اور انصاف کے لیے کوشش ہے۔ ایسا پہلے بھی کئی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کہیں پولیس کے ظلم کیخلاف عوام مرکزی سڑک بند کر دیتے ہیں اور اہل علاقہ شدید احتجاج کرتے ہیں ۔ اس کے بعد مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے اور کوئی افسر یا مقامی گماشتہ طفل تسلیاں دے کر معاملہ رفع دفع کر دیتا ہے۔اس کے بعد زندگی معمول پر آجاتی ہے اور انصاف کے طلب گار باقی کی زندگی عدالتوں میں انصاف کے لیے ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں۔
اس تمام تر عمل میں واضح ہے کہ ریاستی ادارے اور ان کے درندہ صفت اہلکار منظم ہیں اور عوام کے ٹیکسوں سے پلنے والے اداروں کے ذریعے خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔لیکن بد قسمتی سے عوام تعداد میں کہیں زیادہ ہونے کے باوجود منظم نہیں ہیں۔ کوئی سیاسی پلیٹ فارم یا مزدور تنظیم ایسی موجود نہیں جو ان مسائل کا شکار افراد کو ایک منظم شکل میں جدوجہد کے لیے لے کر آگے چل سکے۔اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں پر حکمران طبقات کے افراد شامل ہیں جو خود جرائم پیشہ افراد یا ان کے سرپرستوں پر مشتمل ہیں۔ان افراد کے لیے تھانے اور کچہریاں آمدنی کا ذریعہ ہیں اور تمام ریاستی اہلکاروں کی باقاعدہ تربیت ہوتی ہے کہ دولت مند افراد خواہ وہ علاقے کے جاگیر دار ہوں یا سرمایہ دار ان کے ساتھ ہمیشہ عزت اور تکریم کے ساتھ پیش آنا ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا جرم کیوں نہ کر لیں اور ان کے مفادات کا ہر ممکن تحفظ کرنا ہے۔درحقیقت اس ریا ست کا حتمی مقصد ان امیر ترین افراد کی جائیدادوں اور طبقاتی مفاد کا تحفظ کرنا ہے اور تھانے کچہریاں، مجسٹریٹ اور کمشنر وغیرہ اسی مقصد کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔اس لیے حکمران طبقے کے افرادبجا طورپر قانون اورعدالتوں کوگھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ درحقیقت یہاں موجود قانون بھی برطانوی سامراج کے محکوموں کو قابو کرنے کے لیے بنائے گئے ہی مسلط ہیں جوحکمران طبقے کے افرادکو تحفظ دیتے ہیں ۔اگر یہ کبھی کسی جیل میں چلے بھی جائیں یا مقدمے میں پھنس جائیں تو محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے کیا جاتا ہے ۔اپنے ہی طبقے کے مابین کسی لڑائی کے نتیجے میں بھی ایسا ممکن ہے جس کا جلد تصفیہ کر لیا جاتا ہے اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان افراد کو ریلیف دی جاتی ہے۔اگر کوئی کبھی زیر عتاب آ بھی جائے تو اس کا مقصد حکمران طبقے کے عمومی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے جس کے لیے کبھی کبھار ایک آدھ شخص کی قربانی دی بھی جا سکتی ہے۔
لہٰذا تمام تر حقیقی لڑائی حکمران اور محکوم، ظالم اور مظلوم ، امیر اور غریب کے درمیان ہے۔اس لڑائی میں تمام تر ریاستی ادارے ، سیاسی پارٹیاں، میڈیا اور دیگر ایسی تنظیمیں حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں جس کا مقصد عوام کو محکوم رکھنا اور ان کی لوٹ مار جاری رکھنا ہے۔پولیس ، عدالتوں اور دیگر سکیورٹی اداروں کا مقصدعوام کو دہشت زدہ اور مطیع رکھنا ہے تا کہ وہ حکمران طبقات کی حاکمیت کو چیلنج نہ کر سکیں اور یہ نہ پوچھ سکیں کہ امیر اور غریب کی تفریق کا خاتمہ کیونکر ہو سکتا ہے۔اس لڑائی میں محنت کش عوام کو کامیاب ہونے کے لیے خود کو منظم ہونا ہو گا۔لیکن اس سے بھی پہلے ان ریاستی اداروں اور حکمران طبقے کے حقیقی کردار کو سمجھنا ہو گا۔ ساہیوال واقعے نے اس حوالے سے عوام کے شعور میں اہم تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ آنے والے عرصے میں ایسے مزید واقعات ہوں گے جو عوام کے سامنے اس ریاست اور یہاں پر موجود حکمران طبقات کی حقیقت کو عوام کے سامنے آشکار کریں گے۔اسی عمل کے دوران عوام کو خود کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کا آغاز بھی کرنا ہو گا۔مزدور تنظیمیں اس حوالے سے کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔یہاں کے حکمران طبقات نے ان تنظیموں کو ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں اور آج بھی کسی صنعتی ادارے میں مزدوروں کی تنظیم بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔لیکن ان تمام تر حملوں اور رکاوٹوں کے باوجود ان تنظیموں کی جانب بڑھنا ہی بقا کا واحد رستہ ہے۔کسی بھی نئے سیاسی پلیٹ فارم کی تعمیر بھی ریاستی اداروں کی آنکھ میں کھٹکتی ہے اور وہ اس آواز کو اپنی بنیاد میں ہی کچلنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ طلبہ یا محنت کشوں کا کوئی بھی پلیٹ فارم اگر حقیقی مسائل پر آواز بلند کرنا شروع کرے تو اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ان ریاستی اداروں کی خواہش ہوتی ہے کہ پہلے سے موجود زوال پذیر اور تعفن زدہ سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ہی عوامی غم و غصے کو قابو میں رکھا جائے۔ساہیوال واقعے میں بھی اسی لیے ’’اپوزیشن‘‘ پارٹیوں کو میدان میں اتا را گیا ہے۔ یہ اپوزیشن پارٹیاں بھی حکمران طبقے کا ہی حصہ ہیں اور عوامی مسائل سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اب تو یہ حقیقت عوام پر بھی عیاں ہو چکی ہے اور وہ ان پر اعتماد کرنے کے لیے کسی بھی طرح تیار نہیں۔ لیکن میڈیا اور ریاستی اداروں کے ذریعے ان ہی پارٹیوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی بد بودار پارلیمنٹ کی کاروائی کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور کبھی ان درندہ صفت مسخروں کی لڑائیاں میڈیا میں دکھائی جاتی ہیں تاکہ عوام کسی طرح اس سیاسی ناٹک پر اعتماد کر لیں۔ ان لڑائیوں میں اینکر پرسن نامی شخص بندروں کی لڑائی میں ڈگڈگی گھمانے والے کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔لیکن ان تمام ناٹکوں میں عوامی مسائل کا کوئی ذکر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے پاس کبھی کسی بھی مسئلے کا کوئی حل موجود ہے۔
اس وقت تمام مسائل کاواحد حل یہی ہے کہ تمام تر ریاست اور اس کے تمام اداروں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور یہاں پر موجود تمام تر دولت پر عوام کا قبضہ ہو۔ سرمایہ داروں ، بینکوں،جاگیرداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تمام تر دولت اور جائیدادوں کو عوامی سرکشی کے ذریعے ضبط کر لیا جائے اور یہاں ایک نئی مزدور ریاست کی بنیاد رکھی جائے ۔امیر اور غریب کی تفریق ختم کیے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کیا جائے اور ایک غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کے مطابق مزدور ریاست کے ادارے تشکیل دیے جائیں۔ اسی کے تحت یہاں حقیقی جمہوریت قائم کی جا سکتی ہے جس میں عوام کے حقیقی نمائندے منتخب ہو سکیں۔اس مزدور ریاست میں ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی اور پولیس اور عدالتوں کے ظالمانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے چوکوں اور چوراہوں پر عوامی عدالتوں میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ ایک انقلاب کے بغیر ممکن نہیں جس کے لیے اب حالات پک کر تیار ہوتے جا رہے ہیں۔اس انقلاب کی قیادت کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر اشد ضروری ہے جو اس تاریخی فریضے کو سر انجام دینے کی صلاحیت اور نظریاتی بنیادیں رکھتی ہو ۔ صرف اسی ایک طریقے سے ساہیوال سانحے کے متاثرین سمیت تمام افراد کو انصاف مل سکتا ہے اور وہ پولیس سمیت تمام خونی ریاستی اداروں سے اپنا انتقام لے سکتے ہیں۔