|تحریر: آدم پال|
19جنوری کو ہونے والی ریاستی اہلکاروں کی ڈکیتی اور دہشت گردی کی واردات کا دفاع کرنے کے لیے تمام ریاستی ادارے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ جبکہ متاثرین اور اہل علاقہ انصاف لینے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ 23جنوری کو لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کی عوام نے ایک دفعہ پھر فیروز پور روڈ کی مرکزی شاہراہ بلاک کر دی اور ہر قسم کی ٹریفک بند کر دی۔ بکاؤمیڈیا جو اس سے پہلے پل پل کی رپورٹنگ کر رہا تھا اس احتجاج سے ایسے غائب ہوا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
پولیس، سی ٹی ڈی، آئی ایس آئی اور دیگر تمام سکیورٹی ادارے و سول بیوروکریسی حکمران جماعت کے ساتھ مل کر اس وقت بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اس واقعے کو دہشت گردی کی ایک کاروائی ثابت کیا جائے۔ اس حوالے سے متعدد دفعہ بیانات تبدیل کیے جا چکے ہیں اور ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ریاستی اہلکاروں نے زیورات اور نقدی لوٹنے کے لیے یہ گھناؤنا عمل کیا جو ان سکیورٹی اداروں کا روزمرہ کا معمول ہے۔پاکستان کے طول و عرض میں کسی بھی عام شخص کو بتائیں کہ ڈکیتی کی واردات میں پولیس والے ملوث ہیں تو وہ بالکل بھی حیران نہیں ہو گا بلکہ کہے گا کہ یہ سب پولیس والے یہی کچھ کرتے ہیں۔ لیکن اس واقعے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی بہت سی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں جنہوں نے پورے ملک کے عوام میں شدیدغم و غصے کی لہر کو جنم دیا اور سی ٹی ڈی اورآئی ایس آئی کے اداروں کے خلاف عوامی نفرت منظر پر نظر آئی۔نفرت کی سب سے بڑی وجہ معصوم بچے تھے جن کی موجودگی میں ان کے والدین اور بڑی بہن کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔بہیمانہ قتل کرنے کے بعد ڈکیتی کا عمل شروع کیا گیا اور گاڑی میں موجود قیمتی سامان کی لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے علاوہ لواحقین کے مطابق خاتون اور بچی کی نعش سے زیورات بھی بے دردی سے نوچے گئے اور بچے کے ہاتھ مسلتے ہوئے اس سے موبائل فون چھین کر جیبوں میں ڈال لیے گئے۔
اس تمام تر گھناؤنے عمل کی مذمت کرنے اور تمام ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے ریاستی اداروں نے روایتی انداز میں مقتولین کو قصور وار ٹھہرانا شروع کر دیا۔سب سے پہلے کہا گیا کہ یہ سب دہشت گرد تھے اور فیملی کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ ایک وفاقی وزیر نے سینہ چوڑا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بہت بڑے دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس کے بعد کہا گیا کہ اغوا کاروں سے بچے بازیاب کروائے ہیں۔ اسی طرح قتل ہونے والوں پر مکروہ ترین الزامات کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔وزیر اعلیٰ نے پہلے 72گھنٹوں کا طویل وقت لیا تا کہ عوامی غم و غصہ زائل ہو جائے اور اس کے بعد اس معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے۔جے آئی ٹی کی تشکیل کو بہت بڑا اقدام گردانا گیا حالانکہ اس کی کوئی بھی ضرورت نہیں ۔ بڑی تعداد میں عینی شایدین موجود ہیں جو ہر قسم کی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں جبکہ واقعے کی بہت سی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں۔لیکن اس کے باوجود وزیر اعلیٰ کو ثبوت ناکافی لگ رہے تھے۔
اس دوران متاثرہ خاندان کے ساتھ ریاستی اداروں نے روایتی درندہ صفت سلوک جاری رکھا۔ وزیر اعلیٰ کی یقین دہانیوں کے باوجود ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی اور جب بارہ گھنٹے احتجاج جاری رہا اور سڑک بلاک کی گئی تو نا معلوم افراد کے خلاف ایک ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔ لیکن اسی کے ساتھ ذیشان کو دہشت گرد نامزد کرتے ہوئے ایک دوسری ایف آئی آر بھی کاٹ دی گئی۔ابھی تک ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کسی شخص کو قتل کرنے کے بعد اس کی تفتیش کی جارہی ہے اور اس کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے تیس دن کا وقت مانگ لیا گیا ہے۔ اس سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کسی بھی ادارے بشمول آئی ایس آئی کے پاس اس کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا اور اب ایسا ریکارڈ تخلیق کیا جارہا ہے اور اس کے لیے مختلف کاغذات میں رد و بدل سمیت کوئی بھی حربہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جو ادارے دن دیہاڑے سڑک پر معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کر سکتے ہیں ان کے لیے ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنا اور کسی عام شہری کو دہشت گرد ثابت کتنا مشکل ہوگا یہ سمجھنا آسان ہے۔ اس تمام عمل میں موجودہ حکومت گھناؤنی حرکت کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہے اور تمام ادارے اس میں ملوث ہیں جبکہ دوسری جانب ریاست کے خونخوار چہرے سے ایک کے بعد دوسرا نقاب اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ان کے خلاف نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔مختلف شہروں میں خود رو انداز میں اس کیخلاف خود رو انداز میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید احتجاج متوقع ہیں۔ ریاست کے کسی بھی بیان پر عوام اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جہاں بھی پولیس والے نظر آتے ہیں وہاں ان سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے لاہور میں پولیس والوں کو عوام سے مار پڑنے کی ویڈیو بھی کافی زیادہ دیکھی گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں ایسے مزید واقعات متوقع ہیں۔کوئی بھی شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر یہ واقعی دہشت گردی کیخلاف آپریشن ہوتا تو بچوں کو پٹرول پمپ پر پھینک کر یوں فرار نہ ہوا جاتا بلکہ انہیں ایمبولینس میں ہسپتال بھیجا جاتا۔ ایسے ہی اس میں سینکڑوں ایسے نکتے ہیں جن سے واضح نظر آتا ہے کہ یہ ایک ڈکیتی اور قتل کی واردات تھی جسے اب عوام کی نظروں میں دھول جھونکتے ہوئے دہشت گردی کیخلاف کاروائی بنایا جائے گا۔
مقتول خلیل کے دس سالہ بیٹے عمیر نے بھی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سڑکوں پر باہر نکل آئیں اور اسے اور اس کے خاندان کو انصاف دلانے کے لیے اس کا ساتھ دیں ۔ علاقے کے عوام نے گھروں کے باہر پوسٹر لگا دیے ہیں جن پر لکھا ہے کہ ہمیں مار دو یا انصاف دو۔ ان کا کہنا ہے کہ یا تو انہیں بھی سڑکوں پر ایسے ہی چھلنی کر دیا جائے یا پھر انصاف دیا جائے اور قتل میں ملوث تمام افراد کو سزائے موت دی جائے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے پاس وکیل کروانے کے پیسے نہیں ہیں اور وہ محنت کش خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ عدالتی کاروائیاں بھی ویسے ایک مذاق بن چکی ہیں جہاں عدالتوں کے ججوں کی ریٹ لسٹ موجود ہوتی ہے اور زیادہ بولی لگانے والا کیس جیت کر نکل جاتا ہے۔اسی طرح دیگر تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہر روز عوام کو نوچتے رہتے ہیں جن میں پولیس سر فہرست ہے۔
یہ تمام لوگ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں اور درحقیقت دو پیروں پر چلنے والے گدھ ہیں جو مردار کو نوچتے ہیں اور اس کی بوٹیاں کھاتے ہیں۔ان مردار خوروں سے کسی بھی قسم کی انصاف یا بہتری کی توقع کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔دوسری جانب عوام کو دوبارہ ’’پولیس ریفارمز‘‘ کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ یہ پولیس کا نظام انگریز سامراج نے ترتیب دیا تھا تا کہ یہاں کے عوام کو محکوم رکھا جا سکے۔ یہاں کے حکمران انگریزوں کے گماشتے ہیں اور آج تک ان کی دلالی ہی کرتے آئے ہیں۔ اگر پولیس کی اصلاح کر دی جائے تو ان کی دلالی پر مبنی حکمرانی قائم نہیں رہ سکتی اور نہ ہی ریاست کا موجودہ ڈھانچہ قائم رہ سکتا ہے۔
اس تمام جبر کو ختم کرنے کے لیے عوام کو اس تمام تر ریاست اور اس کی بنیاد پر موجود سرمایے کی حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرنا ہوگا۔ امیر اور غریب پر مبنی اس نظام میں محنت کشوں کے لیے صرف دہشت، خوف، جبر اور خون میں لپٹی لاشیں ہی مقد ر ہیں۔ اس کو تقدیر کو بدلنے کے لیے اس نظام کو بدلنا ہوگا جو ایک انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔