صدا آرہی ہے میرے دل سے پیہم. .
کہ ہو گا ہر اِک دشمنِ جاں کا سر خم
نہیں ہے نظامِ ہلاکت میں کچھ دم
ضرورت ہے انسان کی امنِ عالم
فضاؤں میں لہرائے گا سرخ پرچم
صدا آرہی ہے میرے دل سے پیہم
نہ ذلّت کے سائے میں بچے پلیں گے
نہ ہاتھ اپنی قسمت کے ہاتھوں ملیں گے
مساوات کے دیپ گھر گھر چلیں گے
سب اہلِ وطن سر اٹھا کر چلیں گے
نہ ہو گی کبھی زندگی وقفِ ماتم
فضاؤں میں لہرائے گا سرخ پرچم
حبیب جالب