|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
یکم مئی 2018ء کو مزدوروں کے عالمی دن کی مناسبت سے ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کی جانب سے ایک تقریب ہمدرد ہال میں منعقد کی گئی جس میں یونیورسٹی کے طالب علموں اورمختلف اداروں کے محنت کشوں نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز عثمان ضیاء اور ڈاکٹر علی شاذف نے انقلابی شاعری سنائی۔ پہلے مقرر کراچی سے پارس جان تھے۔ پارس نے محنت کشوں کے عالمی دن کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ1886ء میں شکاگو کے محنت کش ہاتھوں میں سفید جھنڈے لے کر اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے۔ جن پر گولیاں چلا کر سفید جھنڈوں کو ان کے خون سے سرخ کر دیا گیا۔ آج دنیا میں ہر جگہ یہ دن منایا جا رہا ہے لیکن کہیں بھی محنت کشوں کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان مسائل کا حل بتایا جاتا ہے۔
اس کے بعد PTCL سے لطف اللہ نے نجکاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح بڑی تعداد میں محنت کشوں کو نوکریوں سے نکالا گیا اور دن بدن کا م کرنے والوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ RWF کے عام ہڑتال کے نعرہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہی وہ راستہ ہے جس سے تمام تر جبر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر زین العابدین نے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ نوجوانوں کی تحریک پر بات کی اور کہا کہ کچھ عرصہ سے طالب علم آئے روز احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ فیسوں میں اضافے اور روزگار جیسے بنیادی مسائل پر تمام نوجوانوں میں غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جدوجہد کو محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ جوڑ ا جائے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی سے انعم پتافی نے محنت کش خواتین کے مسائل پر بات کی اور کہا کہ محنت کشوں کی تحریک میں عورتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ میں جب بھی عوام اپنے حقوق کے لئے نکلے، خواتین نے بھرپور شرکت کی۔ آج بھی یہ پیغام خواتین میں لے جانے کی ضرورت ہے۔ واپڈا سے مقصود ہمدانی نے کہا کہ سرمایہ دار اپنی تمام تر ناکامیوں کا بوجھ محنت کشوں پر ڈال دیتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنی آسائشوں میں کمی نہیں کرتا اور عوام کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ واپڈا میں کام کرنے والے مزدور ہر روز جان ہتھیلی پر لے کر کام کے لئے نکلتے ہیں۔ حفاظتی آلات نہ ملنے کی وجہ سے روز کئی محنت کش شہید ہو جاتے ہیں لیکن کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ عام ہڑتال ہی وہ ذریعہ ہے جس سے حکمران طبقات کو مزدوروں کی طاقت سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
آدم پال نے محنت کشوں کی جدوجہد کی تاریخ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں نے ہمیشہ اپنے حقوق لڑ کے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان ہی میں وقتاً فوقتاً محنت کشوں کی بے شمار تحریکیں نظر آتی ہیں۔ PTCL کے مزدوروں کی نجکاری کے خلاف ایک طویل جدوجہد ہے۔ جب PTCLکے مزدوروں نے ہڑتال کی تو ریاست نے یہ ادارہ چلانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ PIA کے محنت کشوں کی نجکاری کے خلاف جدوجہد پر ریاستی اداروں نے گولی چلا کر دو محنت کشوں کو شہید کر دیا جس کے بعد پی آئی اے کے محنت کشوں نے 8دن تمام پروازوں کو روکا اور ایک شاندار ہڑتال کی۔ محنت کشوں نے بارہا یہ ثابت کیا کہ یہ تمام ادارے صرف مزدور ہی چلا سکتے ہیں لیکن محنت کشوں کی قیادتیں مصالحت کا شکار ہوتی رہیں۔ اس کے بعدرائے اسد نے طلباکے مسائل پر روشنی ڈالی۔ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے انہیں محنت کشوں کے ہی بچے ہیں۔ تعلیم عام انسان کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ سرکاری اداروں کو تباہ کرکے نجی تعلیمی اداروں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ ڈگری لینے کے بعد نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہے۔ یہ ریاست اپنے خلاف ایک فوج تیار کر رہی ہے جو اس کے لئے گلے کا پھندہ ثابت ہوگی۔ اور جب تک امیر اور غریب طبقہ موجود ہے، تب تک یہ لڑائی جاری رہے گی۔ پاکستان کے محنت کش نہ صرف ہڑتال کر سکتے ہیں بلکہ اس نظام کا خاتمہ کرکے ایک مزدور ریاست بھی قائم کر سکتے ہیں۔
تقریب سے پی ٹی سی ایل کے یونین رہنما صابر بٹ نے بھی خطاب کیا اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے عام ہڑتال کے نعرے کو سراہتے ہوئے کہا کہ نجکاری ایک لعنت ہے اور اس کیخلاف متحد ہو کر لڑائی کے علاوہ اور کوئی راستہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ اس جدوجہد میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔
تقریب کے آخری مقرر ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کے مرکزی آرگنائزر آفتاب اشرف نے کہا کہ عام ہڑتال کا نعرہ ہماری خواہش نہیں بلکہ عوام کے دِلوں کی آواز ہے۔ پچھلے چند سالوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں عام ہڑتالیں ہوتی رہی ہیں۔ حال ہی میں پڑوسی ملک ہندوستان میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال ہوئی جس میں کم و بیش 25 کروڑ محنت کشوں نے شرکت کی۔ ریاست کی دلال ٹریڈ یونین قیادتوں نے بہت چالاکی سے عام ہڑتال کا لفظ ختم کیا ہے۔ ہمیں دوبارہ اس پیغام کو محنت کشوں کی وسیع پرتوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور ایک عام ہڑتال کے بعد ہی عوام جانیں گے کی سماج کو چلانے والے سرمایہ دار، جاگیر دار اور حکمران نہیں ہیں بلکہ یہ مزدور ہی ہیں جن کی بدولت سماج کا پہیہ چلتا ہے۔
تقریب کا اختتام انقلابی نعروں سے کیا گیا!!!