|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کامونکی|
محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر یکم مئی کے دن کامونکی بلدیہ ہال میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں اور نجکاری کے خلاف جلسہ منعقد کیا گیاجس میں مختلف یونینز کے نمائندوں، سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور مختلف اداروں کے طلبہ نے شرکت کی۔ سٹیج سیکریٹری کے فرائض ناصرہ وائیں نے سر انجام دئیے۔
جلسے کے پہلے مقرر اسٹیٹ لائف انشورنس گوجرانوالہ کے صدر ملک فقیر محمد نے اسٹیٹ لائف انشورنس کے ملازمین کے مسائل پر بات رکھی اور کہا کہ وہ اس شعبہ کی نجکاری کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نجکاری کے اس فیصلے کو واپس لے۔ اس کے بعد یونین آف جرنلسٹ اسلام آباد کے صدر شیخ عبدالرشید نے صحافیوں کو درپیش مسائل پر بات کی۔
پنجاب ٹیچرز یونین کی جانب سے ملک محمد الیاس، محمد انور اور کامریڈ گل زادہ صافی نے بات کی اور انہوں نے حکومت سے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے چاہے اس کے لیے انہیں اپنی جانیں ہی قربان کرنی پڑیں۔ عمران ہاشمی نے یومِ مئی کے حوالے سے لکھی گئی اپنی ایک نظم حاضرین کے سامنے پیش کر کے داد وصول کی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے آدم پال نے ہال میں موجود مختلف یونینز سے اظہارِ یکجہتی کیا اور حکومت کے محنت کش طبقے پر دن بدن بڑھتے حملوں کے شدید مذمت کی اور کہا کہ آج محنت کش طبقے کو اپنی اجرتوں میں اضافے کے لیے، مہنگائی، نجکاری اور بیروزگاری کے خلاف الگ الگ لڑنے کی بجائے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد کے ذریعے سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
بعد ازاں میڈم ملکہ اور کامریڈ سلمیٰ نے پرائیویٹ سکولوں میں کام کرنے والے محنت کش خواتین کے مسائل پر بات کی۔ اویس قرنی نے بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے محنت کشوں کے مسائل پر بات کی۔ گجرات یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی سٹوڈنٹ شاہ زینہ نے پی وائی اے کی نمائندگی کرتے ہوئے طلبہ کے مسائل پر بات کی اور کہا کہ طلبہ اور محنت کشوں کو اپنے حقوق کے لیے خود لڑنا ہو گا کوئی دوسرا ان کے حقوق کے لیے نہیں لڑے گا۔
صبغت وائیں نے محنت کش طبقے اور سرمایہ دار طبقے میں فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس سماج میں صرف دو ہی طبقے موجود ہیں۔ سرمایہ دار طبقہ ذرائع پیداوار پر قابض ہے اور محنت کش طبقہ اپنا گزارہ کرنے کے لیے اپنی قوتِ محنت سرمایہ داروں کو بیچتا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی محنت کش طبقہ ذرائع پیداوار کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔ آخر میں سٹیج سیکرٹری نے جلسے کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔