|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بہاولپور|
مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر گذشتہ روز ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام گلستان ٹیکسٹائل ملز بہاولپور میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ جلسے کے اختتام پر پریس کلب بہاولپور تک احتجاجی ریلی نکا لی گئی۔ جلسے اور ریلی میں بڑی تعداد میں محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں نے شرکت کی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یاسر ارشاد، عادل راؤ، جلیل منگلا، رفیق چنڑ، ملک ساجد، آصف جاہ اور اخرم اسدی نے کہا کہ آج سے 131سال قبل امریکہ میں ایک عام ہڑتال ہو ئی جس کا مطالبہ اوقات کار میں کمی اور اجرتوں میں اضافہ تھا۔ جب شکاگو کے لاکھوں مزدوروں نے سڑکوں پر مارچ شروع کیا تو ان نہتے مزدوروں پرگولیاں چلا دی گئیں۔ اس تحریک میں کئی مزدور شہید ہوئے۔ انہیں مزدوروں کی جدوجہد کے نتائج میں آج اوقات کار کم ہے۔ مگر یہ جدوجہد رکی نہیں آج بھی پوری دنیا میں محنت کشوں کی اپنے حقوق کیلئے تحریکیں نظر آتیں۔ پا کستان میں بھی محنت کشوں کے حالات بہت زیادہ ابتر ہیں۔ دنیا کی آبادی کاننانوے فیصد حصہ محنت کش طبقہ ہے جو اپنی محنت سے ساری دولت پیدا کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف چند سر مایہ دار دنیا کی آدھی دولت سے زیادہ پر قابض ہیں۔ عالم یہ ہے ایک سال قبل دنیا کی آدھی آبادی سے زائد دولت پر 62افراد قابض تھے جبکہ حالیہ رپورٹ کے مطا بق اب صرف 8 امیر ترین انسانوں کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زائد دولت ہے۔ دوسری طرف محنت کش اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی کھلا نے کیلئے ہر قسم کے خطرے کو بھی نظر انداز کردیتا ہے جس میں گڈانی جیسے بڑے حادثات نظر آتے ہیں جس میں کئی مزدور زندہ جل گئے تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ مزدوروں کے حقوق کیلئے نام نہاد قوانین ہو نے کے باوجود سرمایہ دار ان کو ماننے سے انکاری ہیں اور لیبر آفیسر اور لیبر ڈیپارٹمنٹ بھی مزدوروں کے بجائے سرمایہ داروں کی دلالی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حکمران سرکاری طور اجرتوں کا اعلان کر کے مزدوروں کے زخموں نمک چھڑکنے والا کام کرتے ہیں۔ مزدوروں کی اجرت 14000 ایک بھونڈا مذاق ہے مگر یہ بھی نہیں دی جاتی۔ جبکہ جتنی اجرت کا یہ اعلان کرتے ہیں اس سے زیادہ تو یہ لوگ خود ایک ٹائم کا ناشتہ کرتے ہیں۔ حکمران ملک کو قرضوں پر چلا رہے ہیں جبکہ میڈیا پر جھوٹے دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ معیشت ترقی کررہی ہے جبکہ اندرونی اور بیرونی قرضہ چھبیس ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے تجارتی خسارہ تیس ارب سے تجاوز کرگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں آنے والے وقت اپنی عیاشی کو جاری رکھنے کیلئے محنت کش طبقے پر مزید حملے کرینگے۔ نجکاری کے نام پر رہی سہی سہولیات بھی چھینی جا رہی ہیں۔ قرضوں کی واپسی اور اپنی عیاشی جاری رکھنے کے لئے مزید ٹیکسز لگائے جائینگے۔ آ ج حالات یہ ہیں پورے پنجاب میں سیاستدانوں، نام نہاد جہادیوں، ملاؤں اور این جی اوز کو ہر قسم کے جلسے کرنے کی اجازت ہے جبکہ محنت کشوں کیلئے اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آنے پر پابندی ہے۔ آنے والے وقت میں اٹھنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں سے خوفزدہ ہو کر دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی آڑ میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی اپنے حقوق اور اس نظام کے خلاف اٹھنے والی آوازوں دبانے کے لئے ہر حربہ استعمال کررہے ہیں۔ مشال خان کے قتل کے واقعہ سے اٹھنے والی تحریک سے یہ حکمران اتنے خوفزدہ ہو ئے کہ عجلت میں انہیں پانامہ کا فیصلہ لا نا پڑا تاکہ لوگوں کی توجہ ہٹ سکے مگر اسطرح کی تحریکیں رکا نہیں کرتی وہ اپنی منزل پا کررہتی ہیں۔ مشال خان نے نوجوانوں کے حقوق کیلئے جو آواز اٹھائی تھی اب وہ دب نہیں سکتی۔
گلستان ٹیکسٹائل ملز کے مسائل پر بات کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ گلستان کے مسئلہ کو دیکھا جائے تو مقامی حکمران گلستان ملز کے مالک کے آگے چپڑاسی نظر آتے ہیں۔ نام نہاد محکمہ لیبر کے کسی بھی افسر کی جرات نہیں کہ مزدوروں کے حقوق کی بات بھی کرسکے۔ مزدوروں کے بیس کروڑ سے زیادہ کی رقم ڈوبی ہو ئی ہے مگر حکمرانوں کو پرواہ ہی نہیں۔ بیوروکریسی سے لیکر سیاستدانوں تک سب انہیں کی دلا لی کرتے نظر آتے ہیں۔ گلستان کے ورکر ایک وقت کے کھا نے سے بھی تنگ ہیں۔ اب وہ وقت دور نہیں جب یہاں مزدوروں کا راج ہو گا کیو نکہ محنت کش جب بھی نکلے گا وہ رکے گا نہیں۔ اس کی منزل پھر انقلا ب ہو گی ایک سوشلسٹ انقلاب۔ جس طرح آج بہاولپور سوشلسٹ انقلاب کے نعروں سے گو نج رہا ہے ایسے ہی سارا عالم گونجے گا۔