|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، گوجرانوالہ|
ریڈ ورکرز فرنٹ، گوجرانوالہ کے کارکنان نے 19 جنوری کو مزدوروں کے مسائل جاننے اور ان کے مسائل پر بات کرنے کے لیے گوجرانوالہ میں واقع تاج سٹیل مِل کا دورہ کیا۔ مزدوروں نے بتایا کہ اس فیکٹری میں مزدور2شفٹوں میں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ مزدوروں کی ایک شفٹ دن میں کام کرتی ہے اور ایک رات میں۔ مزدوروں کا کہنا تھا کہ مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے لیکن مالکان ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرتے اور ان کے کسی بھی مسئلے پر کوئی ان کی بات نہیں سنتا۔ وہاں کام کرنے والے کچھ مزدور وں نے بتایا کہ ان کی مِل میں کام کرنے والے مزدوردور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مہینے یا ہفتے کی چھٹی کے بعد اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ انہیں ایک ہزار روپے دیہاڑی تنخواہ دی جاتی ہے جو کہ مہینے کا تیس ہزار روپے بنتا ہے لیکن اتنی زیادہ مہنگا ئی میں تیس ہزار میں گھر چلانا اور بچوں کے اخراجات پورے کرنا بے حد مشکل ہے۔ وہاں پر ایک مزدور کے چہرے کی جِلد جھلس کر سرخ ہو چکی تھی تو اس مزدور نے پوچھنے پر بتایا کہ اس کی جِلدانتہائی بلند درجہ حرارت میں کام کرنے کی وجہ سے جھلس گئی ہے کیونکہ مِل میں انہیں کام کے دوران کسی قسم کا حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا جاتا۔ اس نے بتایا کہ انہیں صرف جسم کا زیادہ حصہ جلنے کی صورت میں مرہم پٹی کے پیسے دیے جاتے ہیں۔
مزدوروں نے بتایا کہ کبھی کبھی میڈیا والے ان کی فیکٹری میں آتے ہیں، کچھ مزدوروں کی تصویریں بنا کر اور انہیں پاپڑوں کا ایک ایک لفافہ دے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ ظاہر کروایا جاتا ہے کہ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور بہت خوشحال ہیں اور وہاں ان سے بہت اچھا سلوک کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب بھی مِل کے کچھ مزدور کسی مسئلے کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو مالک انہیں باری باری اپنے دفتر میں بلا کر نوکری سے فارغ کر دیتا ہے۔ مزدوروں کو ان کے کسی بھی مسئلے کے لیے اکٹھے نہیں ہونے دیا جاتا کیونکہ ہر مزدور اپنی الگ الگ بات کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مزدور اس بات کا شعور بھی رکھتے تھے کہ جب تک مِل کے سارے مزدور اپنے مسائل کے لئے اکٹھے ہو کر آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ ایک مزدور نے ورکرنامہ بھی خریدا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندگان نے مزدوروں کی باتوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ساری دنیا مزدور طبقہ اپنی محنت سے چلاتا ہے اسی طرح اس مِل کو بھی وہاں کام کرنے والے مزدور ہی چلاتے ہیں اور اس دنیا کی تمام مِلیں صرف تب تک چل سکتی ہیں جب تک مزدور چاہیں اور مزدور اپنے مطالبات بھی اسی صورت منوا سکتے ہیں جب وہ یکجا ہو کراپنے مسائل کے خلاف لڑیں گے۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔