|تحریر: آدم پال|
1917ء کا انقلابِ روس انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ اس انقلاب کے بعدمحنت کش طبقے نے کرۂ ارض کے ایک وسیع حصے پرصدیوں سے رائج طبقاتی نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست قائم کی تھی۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے اس انقلاب نے پوری دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد سرمایہ دارانہ ریاستیں بھی شدید بحرانوں کا شکار تھیں اور پوری دنیا انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں تھی۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں انقلابات ابھر رہے تھے جو سرمایہ دار طبقے کی حاکمیت کو چیلنج کر رہے تھے۔ جرمنی سے لے کر امریکہ تک ہر جگہ محنت کش طبقہ بغاوت کا آغاز کر چکا تھا۔ ایسے میں انقلابِ روس نے پوری دنیا کی انقلابی تحریکوں کے لیے ایک عمل انگیز کا کام کیا تھا اور کرۂ ارض کے محنت کشوں پر واضح کردیا تھا کہ سرمایہ دار طبقے اور اس کی پروردہ ریاست کو شکست دے کر محنت کش طبقہ فتح یا ب ہو سکتا ہے۔ حکمرانی کرنا صرف دولت مند افراد اور ان کے گماشتوں کا حق نہیں بلکہ جو محنت کش اس دولت کو پیدا کرتے ہیں وہ خود بھی منظم ہو کر سماج کی اکثریت کے طور پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔ اس کامیاب انقلاب نے ان تمام تحریکوں میں نئی روح پھونک دی تھی اور ہر طرف محنت کش طبقہ ایک نئے عزم سے اپنی جدوجہد میں مصروف عمل ہو گیا تھا۔ ان تمام تحریکوں کو منظم کرنے کے لیے اور پوری دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ سماج کے قیام کی جدوجہد کرنے کے لیے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں کمیونسٹ انٹرنیشنل(کومنٹرن) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ قیام کے پہلے پانچ سالوں میں اس انٹرنیشنل کے اجلاس باقاعدگی سے منظم ہوتے رہے جس میں دنیا کے تمام ممالک کی انقلابی تحریکوں اور ان کے لائحہ عمل اور طریقہ کار پر تفصیلی مباحثے کیے جاتے اور سوشلزم کو پھیلانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جاتے۔
ہندوستان پر بھی اس انقلاب کے دور رس اثرات مرتب ہوئے اور اس خطے کے انقلابی نوجوانوں، محنت کشوں اور آزادی پسندوں کو اس انقلاب نے شدید متاثر کیا۔ اس وقت کے روس اور ہندوستان میں بہت سے مماثلتیں پائی جاتی تھیں۔ گوکہ روس پر کسی بیرونی سامراجی طاقت کا غلبہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود زار روس کے دور اقتدار میں آبادی کی ایک وسیع اکثریت انتہائی پسماندگی اور غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ زار کے اپنے سامراجی عزائم بھی موجود تھے جس کے تحت اس نے ایران سے یوکرائن تک مختلف اقوام کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ صنعتی ترقی کی پسماندگی، زراعت پر انحصار اور قدیم طرز پیداوار کی بڑے پیمانے پر موجودگی سمیت مختلف حوالوں سے ان دو خطوں کی مماثلتوں کی طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔ لیکن ان دوخطوں میں معیاری فرق یہ تھا کہ روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی موجود تھی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے نظریاتی اور سیاسی بحثوں کے نتیجے میں انتہائی بلند معیار کے کیڈرز کے ساتھ ایک مربوط اور منظم انقلابی پارٹی کی تعمیر کا فریضہ سر انجام دے چکی تھی۔ جبکہ ہندوستان میں کمیونزم یا مارکسزم کے نظریات ابھی تک رسائی ہی حاصل نہیں کر پائے تھے۔ انیسویں صدی میں ہی پلیخانوف کی شکل میں روسی سرزمین پر مارکسزم کے نظریات کا تعارف نہ صرف پہنچ چکا تھا بلکہ ان نظریات کے گرد منظم جدوجہد کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ یہ جدوجہد جہاں عملی میدان میں روس کے محنت کشوں تک اپنا انقلابی پیغام پہنچا رہی تھی اور انہیں منظم کر رہی تھی وہاں نظریاتی میدان میں روس کے انقلاب کے کردارپر بھی اہم بحثیں جاری تھیں۔ انہی بحثوں کے نتیجے میں ٹراٹسکی کا نظریہ مسلسل انقلاب تشکیل پایا تھا جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں انقلاب برپا کیا گیا۔
دوسری جانب ہندوستان میں برطانوی راج کیخلاف عوامی سطح پر شدید نفرت پائی جاتی تھی اور اس کا اظہار مختلف بغاوتوں اور تحریکوں کی شکل میں نظر آتا تھا لیکن نظریاتی کمزوریوں کے باعث یہ تحریکیں سامراجی جبر سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ انقلابِ روس کے بعد ہندوستان کے انقلابیوں کا کمیونسٹ نظریات کے ساتھ تعارف کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو وہ نظریاتی بنیادیں میسر آنا شروع ہوئیں جن کی بنیاد پر نہ صرف برطانوی سامراج کے حقیقی کردار کا سائنسی تجزیہ کیاجا سکے بلکہ ہندوستان کے سماج میں موجود مختلف طبقات کا کردار بھی واضح ہو۔ اور اسی کے ساتھ ہی درست بنیادوں پر آزادی کی جدوجہد منظم کی جا سکے۔ لیکن سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں محنت کش طبقے کی لازوال جدوجہد کو مذہبی جنونیت کے خونی سمندر میں ڈبو دیا گیا اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک یہاں سے سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کو اکھاڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
آج برصغیر کے حکمرانوں سمیت دنیا بھر کے تاریخ دانوں کی اکثریت محنت کش طبقے کی اس عظیم الشان انقلابی تحریک کو تاریخ کے اوراق سے غائب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ محنت کشوں کو باور کروایا جا سکے کہ اس خطے میں کبھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا اور نہ ہی یہاں کبھی محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ لیکن مارکسیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ محنت کش طبقے کی تاریخ کو ان گماشتہ تاریخ دانوں کے بنائے ہوئے جھوٹوں کے پہاڑ کے نیچے سے نکال کر منظر عام پر لائیں اور محنت کش طبقے کی انقلابی تاریخ سے اہم اسباق اور نتائج اخذ کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیں۔
انقلاب روس کے سو سال مکمل ہونے پر اس انقلاب کے ہندوستان پر اثرات کا حقائق کی بنیاد پر جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور ان کی ترتیب دی گئی تاریخ کی کتابوں کے مطابق ہندوستان کی آزادی کی تحریک صرف یہاں کے سرمایہ دار طبقے اور اس کے گماشتہ سیاستدانوں کی تاریخ ہے۔ اس جھوٹی تاریخ کو سچ ثابت کرنے کے لیے جھوٹے دلائل مہیا کیے جاتے ہیں اور مذہبی منافرتوں کی تاریخ کا ماضی کی جانب سفر شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران محنت کشوں کی ہڑتالوں، احتجاجی مظاہروں اور انقلابی تحریکوں کو فراموش کر دیا جاتا ہے جو برطانوی سامراج کی شکست کا باعث بنیں اور اسے یہاں سے جانے پر مجبور کیا۔ گوکہ بالشویک پارٹی کی طرز پر کسی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث محنت کش طبقہ ان انقلابی تحریکوں کو حتمی کامیابی سے ہمکنار نہ کر سکا۔ محنت کشوں کی لازوال قربانیوں کے باوجود ان کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکی اور برطانوی سامراج کا گماشتہ سرمایہ دار طبقہ نہ صرف اس خطے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا باعث بنا بلکہ یہاں برطانوی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ اور حکمران بھی بن گیا۔
پس منظر
1857ء کی جنگ آزادی میں پہلی دفعہ ہندوستان کے عوام میں قوم کا تشخص ابھر کر سامنے آیا تھا۔ اس سے پہلے ہندوستان میں ایک قوم ہونے کا تصور موجود نہیں تھا۔ یہ پورا خطہ مختلف ریاستوں اور رجواڑوں میں تقسیم تھا اور ہر علاقے کے اپنے حکمران تھے۔ مغلوں نے اپنے دور سلطنت میں ہندوستان کے ایک بڑے حصے پر حکمرانی قائم کی لیکن اس کے باوجود ان کی حکمرانی کا ایک بڑا حصہ مقامی راجوں اور نوابوں سے معاہدوں کی شکل میں تھا۔ لیکن انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی صورتحال تیزی سے بدلنے لگی۔ انگریزوں نے نہ صرف یہاں پر موجود مقامی حکمرانوں کا صفایا کرنا شرو ع کیا بلکہ یہاں پر سامراجی جبر کے تحت سرمایہ دارانہ نظام بھی متعارف کروایا۔ یہاں سے خام مال کو زیادہ تیزی اور بڑے پیمانے پر برطانیہ منتقل کرنے کے لیے یہاں پر ریلوے لائن اور ٹیلی گراف کا نظام بچھایا گیاجس نے یہاں صدیوں پرانے ایشیائی طرز پیداوار کے نظام کو اکھاڑتے ہوئے یہاں ایک مسخ شدہ شکل میں سرمایہ دارانہ نظام رائج کرنا شروع کر دیا۔ 1848ء میں پنجاب میں رنجیت سنگھ کے وارثوں کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ہی انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ مکمل ہوا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی 1857ء کی جنگ آزادی کی راہ ہموار ہو گئی۔
اس خونریز جنگ میں مقامی آزادی پسندوں کو کچلنے کے بعد یہاں پر برطانوی راج نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے تیز ترین اقدامات شروع کر دئیے۔ اس تمام تر عرصے میں انگریزوں کو مقامی اشرافیہ کے ایک بڑے حصے کی حمایت حاصل رہی۔ اسی دوران برطانیہ اور ہندوستان کے مابین جاری تجارت میں مقامی افراد کی شمولیت کا بھی بڑے پیمانے پر آغاز ہوا جس سے ہندوستا ن کے مقامی سرمایہ دار طبقے کی تشکیل کا آغاز ہوا۔ جہاں ریلوے اور ٹیلی گراف کے محکموں میں محنت کشوں کے نئے کردار کا آغاز ہوا وہاں مختلف شہروں میں ٹیکسٹائل اور متعلقہ چھوٹی صنعتوں کا بھی آغاز ہوا جہاں سے ہندوستان کے محنت کش طبقے کی تشکیل شروع ہوئی۔
ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی پہلی لڑائی بنگال میں شروع ہوئی۔ کلکتہ ہندوستان کا دارالحکومت اور ملک کی سب سے اہم بندرگاہ تھی جس کے گرد ایک جدید شہر کی بنیاد انگریزوں نے ہی رکھی تھی۔ اس کے بعد دوسری اہم ترین بندرگاہ بمبئی کی تھی جو باقی دنیا سے تجارت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ ان بندرگاہوں پر ہندوستانی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مقامی تاجر وں اور نوزائیدہ سرمایہ داروں کے لیے یہ شہر مرکزی اہمیت کے حامل تھے۔ ان دوشہروں میں ٹیکسٹائل اور پٹ سن کی بھی بہت سی ملیں موجود تھیں۔ 1896ء میں بمبئی اور پونا میں طاعون کی وبا پھیلنے سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جن سے برطانوی راج کے خلاف نفر ت مزید بھڑک اٹھی۔ اس دوران آزادی پسند سیاست دانوں کو ابھرنے کا موقع ملا جن میں سے ایک بی۔ جی۔ تلک بھی تھا۔ تلک 1890ء سے کانگریس کا حصہ تھا لیکن وہ مکمل آزادی پر کانگریس کے نرم مؤقف کی شدید مخالفت کرتا تھا۔ اسی مؤقف کے باعث تلک کو کانگریسی انتہا پسند کہا جاتا تھا جو 1907ء میں کانگریس کی پہلی سپلٹ کا باعث بنا۔ تلک نے اپنے مراٹھی اخبار ’’کیسری‘‘میں برطانوی سامراج کیخلاف کھل کر لکھنا شروع کر دیا اور کہا کہ ظالم کو قتل کرنا کسی دھرم میں کوئی گناہ نہیں۔ 1897ء میں دو برطانوی افسران کو آزادی پسندوں نے قتل کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد تلک پر قتل کے لیے اکسانے کا الزام لگا اور اسے اٹھارہ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ جب وہ جیل سے باہر نکلا تو وہ ایک آزادی کا ہیرو بن چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دوران بنگال اور دیگر علاقوں میں آزادی کی تحریک شدت اختیار کر چکی تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز پرریلوے سمیت دیگر اداروں اور صنعتوں میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کا آغاز ہو چکا تھا اور محنت کش عوام کھل کر برطانوی سامراج سے نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ تلک نے جیل سے رہا ہوتے ہی سووراج یا آزادی کا نعرہ لگایا۔ اس نے کہا کہ ’’سووراج میرا پیدائشی حق ہے اور میں اسے لے کر رہوں گا‘‘۔ یہ نعرہ عوام میں تیزی سے مقبول ہوا اور برطانوی راج کے خلاف تحریک زیادہ شدت اختیار کر گئی۔
اس تحریک کو زائل کرنے کے لیے وائسرائے لارڈ کرزن نے1905ء میں بنگال کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ مشرقی بنگال میں مسلم نوابوں اور اشرافیہ کے ساتھ مل کر وہ اس آزادی کی تحریک کو با آسانی مذہبی منافرت کی جانب دھکیل دے گا اور ہندوستان میں برطانوی راج پہلے کی طرح دوبارہ مستحکم ہو جائے گا۔ اس مقصد کے لیے مشرقی بنگال کے مسلمان نوابوں اور دیگر اشرافیہ نے برطانوی وائسرائے کے گھناؤنے منصوبے کی مکمل حمایت کی اور اس کی ہدایات پر 1906ء میں مسلم لیگ کے نام سے ڈھاکہ میں نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ مسلم اشرافیہ کے اس گماشتہ کردار کو کسی بھی قسم کی عوامی حمایت نہیں مل سکی اور سووراج کی تحریک کمزور ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرتی چلی گئی۔
1905ء میں روس میں ابھرنے والے انقلاب نے بھی اس تحریک کو شکتی دی اور ہندوستان کے سیاسی کارکنان کو ایک نیا حوصلہ ملا۔ نومبر 1905ء میں تلک نے اپنے اخبار ’’کیسری ‘‘ میں لکھا،
’’عوامی مزاحمت اور ہڑتالیں انتہائی اہم طاقت ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ برطانوی افسران کے مقابلے میں روسی زار اور اس کے افسران زیادہ ظالم اور بربریت پسند ہیں۔ لیکن جب روس کے نچلے طبقے کے لوگ اور اس کے ساتھ اوپر والے طبقے سے پروفیسروں، طلبہ، مزدوروں اور فیکٹری مالکان، ایڈیٹروں اور دکانداروں نے بغیر کسی خوف کے ہر جگہ ہڑتالیں کیں اور اپنے مطالبات جرات کے ساتھ زار کے سامنے رکھے تو سب سے طاقتور بادشاہ کو، جو بیس سے بائیس لاکھ کی فوج کا سربراہ ہے ، یہ مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔ ‘‘
یہاں نظر آتا ہے کہ تلک کو اس انقلاب کے حقیقی کردار کا ادراک نہیں تھا اور نہ ہی وہ روس میں مارکس وادیوں کی جدوجہد کا علم رکھتا تھا۔ وہ ہڑتالوں کے طبقاتی لڑائی میں ایک کلیدی کردار اور اوزار کے طور پر استعمال سے نا بلد تھا۔ اسی غیر سائنسی رویے نے بعد ازاں تحریک کو نقصان بھی پہنچایا۔ لیکن اس کے باوجود اس انقلاب نے اسے یہ حوصلہ دیا کہ وہ برطانوی راج کیخلاف جدوجہد کو جاری رکھے۔
برطانوی وائسرائے کے بنگال کی تقسیم کے فیصلے کیخلاف سوادیشی تحریک کا آغاز ہو گیا۔ اس تحریک کا ہندوستانیوں سے مطالبہ تھا کہ انگریزوں کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور صرف ہندوستانی مصنوعات خریدی جائیں۔ اس تحریک میں پہلی دفعہ ہندوستان کے مقامی سرمایہ داربڑی تعداد میں کانگریس میں شامل ہوئے اور اس مطالبے کی حمایت کی۔
لیکن اس تحریک کے دوران محنت کشوں کی ہڑتالیں بڑے پیمانے پر پھیل گئیں۔ ریلوے، پنجاب اور بمبئی کے کارخانوں اور ملوں کے علاوہ دیگر بہت سے شعبوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ تمام ہڑتالیں بغیر کسی یونین کے منظم ہو رہی تھیں اور ابھی منظم یونین سازی کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ 21اکتوبر 1905ء کو سرکاری پرنٹنگ پریسوں میں ہڑتال کا آغاز ہوا۔ اسی دوران ہاؤرا میں برن کمپنی کے ملازمین، کلکتہ ٹرام کمپنی کے ملازمین اور دو ہزار قلی اور خاکروب ہڑتال پر چلے گئے۔ اکتوبر 1905ء میں ہی ایسٹ انڈیا ریلوے، بنگال سیکٹر کے 950ریلوے گارڈتنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال پر چلے گئے۔ 1906ء میں پٹ سن ملوں کے ایک ہزار سے زائد محنت کش برطانوی افسران کے غیر انسانی سلوک پر ہڑتال پر چلے گئے۔ اسی سال بمبئی کی ٹیکسٹائل صنعتوں میں بھی ہڑتالوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ 1907ء میں بھی ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی بہت سی ہڑتالیں ہوئی تھیں۔ 1906ء میں پوسٹ اور ٹیلی گراف کے محکمے کے 500سے زائد ملازمین نے ہڑتال کی جس سے پورے محکمے کا کام رک گیا۔ 1907ء میں ریلوے کے محنت کشوں کی ہڑتالوں کا آغاز ہوا جس میں بہت سے معاشی مطالبات شامل تھے۔
محنت کش طبقے کے اس ابھار نے کانگریس کے اندر بھی ایک نئی سیاسی بحث کا آغاز کر دیااور 1907ء میں گجرات کے شہر سورت میں ہونے والے اجلاس میں کانگریس دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تلک انتہا پسند حصے کی قیادت کر رہا تھا اور وہ برطانوی سامراج کو جڑ سے اکھاڑنے کے حق میں تھا۔ جبکہ دوسرانرم دھڑا گوکھلے کی قیادت میں اس انتہا پسندی کا مخالف تھا اور انگریز سامراج سے تعلقات کشیدہ نہ کرنے کا مؤقف اپنائے ہوئے تھا۔ تلک کو بنگال میں بپن چندرا پال اور پنجاب میں لالہ لجپت رائے کی حمایت حاصل تھی۔
اس تحریک کا نقطۂ عروج 1908ء میں ٹیلی گراف کے محنت کشوں کی ملک گیر ہڑتال تھی جو چھ روزہ عام ہڑتال کی سطح تک پہنچ گئی تھی۔ یہ ہڑتال برما سے لے کر کلکتہ، بمبئی، دہلی، الٰہ آباد، آگرہ، لاہور اور کراچی تک پھیل گئی اور پورے ہندوستان کے محنت کشوں کو ایک لڑائی میں متحد کر دیا تھا۔ اس ہڑتال نے واضح کر دیا تھا کہ ہندوستان میں ایک محنت کش طبقہ وجود میں آ چکا ہے جو رنگ، نسل، زبان، مذہب سمیت تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر طبقے کی بنیاد پر ایک لڑائی لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت ٹیلی گراف کے محکمے میں ملازمین کی زیادہ تعداد یورپی اور یوریشین محنت کشوں پر مشتمل تھی جو سگنلرز کے عہدے پر تعینات تھے۔ لیکن اس کے علاوہ بہت سے مقامی محنت کش نائب قاصد، کلرک، پیغام رساں اوردیگر بہت سے کام سر انجام دیتے تھے۔ اس ہڑتال نے ان تمام محنت کشوں کو ایک ہی صف میں لا کر کھڑا کر دیا تھا اور پورے ہندوستان میں ان تمام محنت کشوں نے متحد ہو کر اپنے حقوق کی لڑائی لڑی تھی۔ ٹیلی گراف کا محکمہ اس وقت برطانوی راج کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل تھا اور نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر رابطہ رکھنے کے لیے اس محکمے کا کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ برطانوی حکومت 1904ء سے ہی محکمے میں ڈاؤن سائزنگ کے منصوبے بنا رہی تھی اور اس مقصد کے لیے 1906ء میں ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی جس نے 1907ء میں اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس کمیٹی کی سفارشات میں کام کے اوقات کار میں اضافہ، نائٹ شفٹوں کی تعداد میں اضافہ اور دیگر ایسے اقدامات تھے جن سے ملازمین کے مسائل میں بڑے پیمانے پر اضافے کا امکان تھا۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کا آغاز بھی کیا جا رہا تھا۔ اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے ملازمین متحد ہو گئے اور انہوں نے پراویڈنٹ فنڈ اور پنشن، میڈیکل کی سہولیات، تنخواہوں میں اضافہ، اپ گریڈیشن سمیت بہت سے مطالبات حکومت کو پیش کیے۔ اس تحریک کا قائد ہینری بارٹن تھا جس نے 1907ء کے اواخر میں یونین سازی کے عمل کا آغاز کیا۔ اس نے جنوری 1908ء میں ٹیلی گراف ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کی حیثیت سے برما کے شہر رنگون سے’’ ٹیلی گراف ریکارڈر‘‘ کے نام سے اخبار بھی شروع کر دیا۔ 27فروری 1908ء کو ڈلیوری کرنے والے نائب قاصدوں نے ہڑتال کر دی۔ دو دن بعد کلکتہ میں ٹیلی گراف کے محنت کشوں کی ہڑتال کا آغاز ہو گیا۔ آغاز میں 173مستقل اور 193عارضی ملازمین نے آغاز کیا۔ لیکن جلد ہی یہ تعداد 400تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کلکتہ میدان میں ایک اجلاس کیا اور آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا۔ 2مارچ کو کلکتہ سنٹرل ٹیلی گراف آفس کے نائب قاصد بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ 4مارچ کو مدراس کے ٹیلی گراف کے ملازم اس ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ 29مارچ کو بمبئی میں بھی ہڑتال کا آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد احمد آباد اور مختلف شہروں میں پوسٹ آفس کے محنت کش بھی اس میں شامل ہو گئے۔ کلکتہ اور کھڈر پور کے شپ یارڈ کے محنت کش بھی اس میں شامل ہو گئے۔ چندر نگر کی پٹ سن کی ملوں میں بھی ہڑتال شروع ہو گئی جبکہ بمبئی کی ریلوے ورکشاپ کے چھ ہزار محنت کشوں نے بھی ہڑتال کا آغاز کر دیا۔ ان ہڑتالوں کو توڑنے کے لیے حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے۔ بہت سے ملازمین کو جبری برطرف کر دیا گیاجبکہ کچھ کو لالچ دے کر ڈیوٹیوں پر واپس لانے کی کوشش کی۔ مارچ کا پورا مہینہ یہی لڑائی جاری رہی اور کچھ جگہوں پر ٹیلی گراف کی ہڑتال ٹوٹتی بھی رہی۔ لیکن اپریل کے آغاز میں ایک دوسری لہر کا آغاز ہوا۔ 6اپریل کو کلکتہ کی پندرہ ٹرنک لائنیں اچانک خراب ہو گئیں۔ بمبئی میں بہت سے پیغامات اکٹھے ہونا شروع ہو گئے اور بمبئی اور مدراس کی لائن پر خرابی شروع ہو گئی۔ اسی کے ساتھ یہ ہڑتال کراچی، آگرہ، رنگون تک پھیل گئی۔ تلک نے اپنے اخبار کیسری میں ہڑتال کی حمایت کر دی۔ اس ہڑتال سے تمام مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ ہندوستانی سرمایہ دار اس ہڑتال کے مخالف تھے اور وائسرائے کو اسے جلد ختم کروانے کی اپیل کر رہے تھے۔ رنگون میں ہینری بارٹن بڑے بڑے اجلاسوں سے خطاب کر رہا تھا اور ہڑتال کے مطالبات پر زور دے رہا تھا۔ آخر کار شعبہ مواصلات اور صنعت کے سیکرٹری نے بارٹن کو رنگون سے کلکتہ بلا کر مذاکرات کیے جس کے بعد تنخواہوں میں بیس فیصد اضافہ منظور کر لیا گیا۔ 22اپریل 1908ء کو یہ ہڑتال کامیابی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی اور تمام ملازمین نے دوبارہ معمول کے مطابق کام کا آغاز کر دیا۔ یہ ہڑتال ملک بھر کے محنت کش طبقے کی ایک شاندار فتح تھی۔
ہڑتال کے خاتمے کے بعد آزادی کی تحریک کی شدت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی۔ ایسے میں تلک نے دائیں بازو کے مسلح گروہوں کی بھی حوصلہ افزائی شروع کر دی۔ 30اپریل کو دو بنگالی نوجوانوں خودی رام بوس اور پرافولا چاکی نے مظفر پور میں برطانوی افسروں کی گاڑی میں بم پھینک دیا جس سے دو خواتین ہلاک ہو گئیں۔ اس اقدام پر خودی رام بوس کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ تلک نے اپنے رسالے کیسری میں اس اقدام کی مخالفت کی اور فوری طور پر سووراج کا مطالبہ کیا۔ اس اقدام پر تلک پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا اور 24جون 1908ء کو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ تلک کی گرفتاری پر تحریک مزید بھڑک اٹھی اور ہڑتالوں کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا۔ عدالت کے سامنے ہزاروں محنت کشوں کی پولیس سے ہاتھا پائی ہوتی اور دوسری جانب ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ جیسے جیسے مقدمہ عدالت میں فیصلے کے قریب پہنچتا گیا یہ لڑائی شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ 18جولائی کو پولیس نے محنت کشوں پر گولی چلا دی۔ 19جولائی کو بمبئی اور مہیم کے علاقوں میں 65ہزار مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ اگلے دن پھر پولیس نے گولی چلائی جس پر شپ یارڈ کے مزدور اور چھوٹے تاجر وں نے کام چھوڑ دیا۔ 22جولائی کو تلک کے مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا اور اسے چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس سزا کے بعد چھ دن تک ہڑتال کا اعلان کیا گیا جس میں پولیس اور محنت کشوں کی شدید لڑائیاں ہوئیں۔ ان لڑائیوں میں 200کے قریب محنت کش ہلاک ہوئے۔ ہڑتالوں میں صرف بمبئی کے ایک لاکھ کے قریب محنت کشوں نے حصہ لیا جن میں بعد ازاں قریبی علاقوں کے زراعت سے وابستہ محنت کش بھی شامل ہو گئے۔ یہ درحقیقت ہندوستان کے محنت کش طبقے کی برطانوی سامراج کے خلاف منظم جدوجہد کا آغاز تھا۔ لینن نے اس تحریک کے بارے میں لکھا،
’’برطانوی گیدڑوں کی جانب سے جمہوریت پسند تلک کے خلاف بدنام زمانہ فیصلے سے۔ ۔ ۔ بمبئی میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ہندوستان میں بھی پرولتاریہ عوامی سیاسی جدوجہد میں شامل ہو چکا ہے۔ اور اس لیے ہندوستان میں روسی طرز پر قائم برطانوی ریاست اپنے انجام کو پہنچے گی‘‘۔ (لینن، عالمی سیاست میں بھڑکنے والا مواد، مجموعہ تصانیف، جلد 5، صفحہ 182)
تلک کی گرفتاری کے بعد بھی تحریک زور و شور سے چلتی رہی اور بالآخر برطانوی راج کو بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لینا پڑا اور 1911ء میں بنگال کی وحدت کو بحال کر دیا گیا۔ عوامی تحریک کی شدت سے خوفزدہ ہو کر اسی سال برطانوی حکومت نے ہندوستان میں اپنا دارالحکومت بھی کلکتہ سے دہلی منتقل کر دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے آغاز تک مزدور تحریک تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی لیکن عالمی جنگ نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا۔
جنگ کے آغاز پرانگریز حکمران مزدور تحریک سے خوفزدہ تھے۔ ہینری بارٹن کو گرفتار کر لیا گیا تھا کیونکہ برطانوی حکمران جنگ کے دوران ٹیلی گراف جیسے کلیدی شعبے میں ہڑتال کے امکان کو بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس صورتحال میں محنت کشوں کے پاس کوئی قیادت موجود نہیں تھی۔ تلک سمیت تمام انتہا پسند راہنماؤں نے برطانوی سامراج کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی اور ضمانت طلب کی کہ جنگ کے اختتام پر برطانیہ ہندوستان چھوڑ کر چلا جائے گا۔ اس جھوٹی یقین دہانی پر تلک، لالہ لجپت رائے اور دیگر انتہا پسند برطانوی فوج میں بھرتی کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنے لگے۔ انتہا پسندوں کے اس فیصلے پر دوسری انٹرنیشنل کی غداری کے اثرات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تمام آزادی پسند عالمی صورتحال سے باخبر تھے اور عالمی سطح پر جاری تحریکوں سے جڑے ہوئے تھے۔ ایسے میں دوسری انٹرنیشنل عالمی سطح پر سیاسی منظر نامے میں اہمیت کی حامل تھی۔ یہ انٹرنیشنل جنگ سے قبل محکوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کر چکی تھی اور نوآبادیاتی ممالک کی آزادی کی حامی تھی۔ لیکن جنگ کے آغاز پر اس انٹرنیشنل کے قائد نے اپنے ہی فیصلوں سے غداری کرتے ہوئے جنگ کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ ہر ملک کے محنت کشوں کو اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنے حکمران طبقے کا ساتھ دینا چاہیے۔ لینن اور ٹراٹسکی نے بھگوڑے کاؤتسکی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی اور انٹرنیشنل کی اپوزیشن کا اجلاس سوئٹزر لینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے زمروالڈ میں بلایا۔ لیکن مخالفت کرنے والے ان افراد کی تعداد انتہائی کم تھی اور بقول لینن دو تانگوں کی سواریوں سے بھی کم تھی۔ اس لیے ان کی آواز دنیا بھر کے محنت کشوں اور آزادی کی جدوجہد کرنے والوں تک نہیں پہنچ سکی جبکہ دوسری انٹرنیشنل کی قیادت کے فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا۔ اس دوران بہت سے ہندوستانی طلبہ برطانیہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے۔ کچھ برطانیہ کی لیبر پارٹی سے بھی منسلک تھے۔ کچھ طلبہ فرانس کی سوشلسٹ پارٹی کے بھی ممبر تھے اور چند ایک نے دوسری انٹرنیشنل کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہوئے ہندوستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔ اس دوران لینن اورٹراٹسکی بھی لندن اور یورپ کے دیگر شہروں میں مقیم رہے۔ لیکن ان کا کسی بھی ہندوستانی سے تعلق قائم نہیں ہو سکا اور ہندوستان کا کوئی بھی آزادی پسند ان کے نظریات سے آگاہی نہیں حاصل کر سکا۔
اس دوران ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں غدر پارٹی کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ یہ پارٹی امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے ہندوستانیوں نے1913ء میں بنائی تھی۔ ان میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا کے ہندوستانی طالب علم بھی شامل تھے۔ اس پارٹی کے اہم لیڈر لالہ ہردیال اور سوہن سنگھ بھکنا تھے۔ اس پارٹی کا پہلا ترجمان اخبار امریکی شہر سان فرانسسکو سے شائع ہوا جس کانام ’غدر‘ تھا۔ اس کی پیشانی پر لکھا تھا ، ’’انگریز راج کا دشمن‘‘۔ یہ ہفتہ وار اخبار تھا جو گورمکھی اور اردو میں شائع ہوتا تھا اور اسے خفیہ ذرائع سے ہندوستان پہنچایا جاتا تھا۔ اس پارٹی کے بانی ارکان 1861ء کی امریکہ کی خانہ جنگی میں ابراہام لنکن کی کامیابی سے شدید متاثر تھے اور اسی طرز پر مسلح بغاوت کے ذریعے انگریز کو ہندوستان سے نکالنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے ہندوستانیوں کو بڑے پیمانے پر مجتمع کرنا شروع کیا تا کہ ہندوستان پہنچ کر مسلح بغاوت کے ذریعے انگریز کو باہر نکالا جائے۔ پہلی عالمی جنگ کے آغاز نے انہیں مزید حوصلہ دیا اور انہوں نے 1914ء میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ لیکن ہندوستان پہنچنے سے پہلے ہی ان کی تمام خبریں برطانوی سامراج کو پہنچ چکی تھیں۔ انہوں نے سمندر میں ہی ان کے بحری جہاز کو روکا اور اس بغاوت کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ کچھ لوگ جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس پارٹی پر جرمن بادشاہ سے امداد لینے کا الزام بھی لگایا گیا اور ہندو جرمن سازش کے نام سے ان پر مقدمہ بھی چلایا گیا۔ لیکن ناکام ہونے کے باوجود اس بغاوت کی خبر پنجاب سمیت دوسرے علاقوں میں پھیل گئی تھی اوربڑے پیمانے پر نوجوانوں اور محنت کشوں کو شدید متاثر کیا تھا۔ بھگت سنگھ کا والد اوردیگر بہت سے رشتہ دار بھی غدر پارٹی کا حصہ یا ہمدرد تھے۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی سامراج نے اپنے مفادات کے دفاع کے لیے ہندوستان کے محنت کشوں کو جنگ کا ایندھن بنایا۔ برطانوی فوج میں جنگ کے دوران پندرہ لاکھ کے قریب ہندوستانی فوجیوں نے خدمات سر انجام دیں جن میں سے 62ہزار ہلاک جبکہ 67ہزار زخمی ہوئے۔ انہیں فرانس، بیلجیم اور یورپ کے مختلف محاذوں سمیت مصر، عراق اورمشرقی ایشیا کے بہت سے محاذوں پر تعینات کیا گیا۔ ترکی کے عثمانیوں کیخلاف برطانوی فوج میں بھی ہندوستانی فوجی بڑی تعداد میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان سے ایک لاکھ سے زائد جانور، 37لاکھ ٹن کی سپلائی اور بڑی تعداد میں پٹ سن بھی اس جنگ کے لیے مہیا کی گئی۔ اس کے علاوہ آج کے معیار کے مطابق دو ارب پاؤنڈ قرضہ بھی برطانوی حکومت کو دیا گیا۔ برطانوی سامراج نے جنگ جیتنے کے لیے ہندوستان کو درندے کی طرح نوچا اور اپنی لوٹ مار کے مقاصد کے لیے یہاں کے عوام کو غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر خوراک کی اشیا کی برآمد سے خود ہندوستان میں قحط سالی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
اس دوران آزادی کی تحریک میں بھی شدت آتی گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں بھرتی ہونے والے فوجی بھی جنگ کے ہولناک تجربات سے گزرنے کے بعد جب واپس آئے تو بالکل تبدیل ہو چکے تھے۔ ایک جانب انہیں سامراجی مقاصد کی حقیقت کا ادراک ہو چکا تھا دوسرے وہ جنگ کے دوران مختلف محاذوں پر تعینات ہونے کے باعث دنیا کے دیگر حصوں کے محنت کشوں کے تجربات سے بھی آگاہ ہو چکے تھے۔ اس دوران بہت سے فوجیوں نے برطانوی افسران کے خلاف فوجی بغاوتوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہونے والی بڑی فوجی بغاوتوں میں سے1915ء میں سنگاپور میں ہونے والی ہندوستانی فوجیوں کی بغاوت تھی۔ اس میں 850کے قریب ہندوستانی فوجیوں نے حصہ لیا تھا اور یہ سات دن تک جاری رہی۔ اس دوران آٹھ برطانوی افسران اور کئی دیگر ہلاک ہوئے۔ برطانوی حکومت نے اسے غدر پارٹی کی بغاوت کا حصہ قرار دے کر خون میں ڈبو دیا۔
انقلابِ روس
1917ء میں روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب نے عالمی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا۔ ہندوستان پر بھی اس انقلاب کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس انقلاب کی خبریں جب یہاں کے آزادی پسند نوجوانوں اور محنت کشوں تک پہنچی تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان کے لیے یہ محنت کشوں کی ایک بڑی کامیابی تھی جس میں انہوں نے زار کی ظالمانہ بادشاہت کا خاتمہ کرنے کے بعد وہاں ایک مزدور ریاست قائم کر دی تھی۔ سوویت روس میں جب زار کے دور میں قبضہ کیے گئے ایران اور دیگر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اسے ہندوستان کے آزادی پسندوں میں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔ لیکن اس دوران یہاں کوئی ایسی منظم سیاسی پارٹی موجود نہیں تھی جو اس انقلاب کی نظریاتی بنیادوں کو یہاں کے محنت کشوں تک پہنچا سکتی اور ان کو انہی نظریات پر جوڑتے ہوئے یہاں پر ایک سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جاسکتی۔
اس وقت یہاں برطانوی سامراج سے آزادی کا نعرہ ہی عوامی نعرہ تھا لیکن ہندوستانی سماج کا طبقاتی بنیادوں پر درست تجزیہ و تناظر موجود نہیں تھا۔ لالہ لجپت رائے نے 1916ء میں لکھی جانے والی اپنی کتاب ’’ینگ انڈیا‘‘ میں آزادی پسندوں کی مختلف قسموں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں انتہا پسند جیسا کہ خود لالہ جی، مذہبی انتہا پسند جو ہندوستان کی سرزمین کو ماں سمجھتے ہیں، منظم بغاوت کے حامی جیسے غدری جو سیاسی آزادی چاہتے ہیں، انفرادی دہشت گردی کے حامی جو بم دھماکوں اور دیگر ذرائع سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں، نرم مزاج کانگریسی جیسے گوکھلے اور دیگر بہت سی قسموں کا ذکر کیا ہے۔ ان تمام قسموں میں مختلف نظریاتی رجحانات اور ان کے فلسفوں کا بھی ذکر ہے لیکن کہیں بھی سائنسی بنیادوں پر سماج کا درست طبقاتی تجزیہ اور اس پر درست لائحہ عمل اور طریقہ کار موجود نہیں۔ انقلاب روس کے بعد پہلی دفعہ ہندوستان میں مارکسی نظریات کا تعار ف پہنچا۔
برطانوی سامراج خود انقلاب روس سے شدید خوفزدہ تھا اور ہندوستان پر اس کے اثرات مرتب ہونے سے فکر مند تھا۔ اسی دوران جنگ کے اختتام پر مزدور تحریک میں بھی شدت آ چکی تھی اور آزادی کی تحریک بھی زوروں پر تھی۔ جنگ کے دوران آبادی کی وسیع اکثریت کی غربت اور ذلت میں شدید اضافہ ہوا تھا جبکہ مختلف وباؤں اور قحط کے پھیلنے سے لاکھوں افراد ہلاک ہو رہے تھے۔ جنگ کے اختتام پر1917ء میں سوا تین کروڑ کے قریب افراد قحط سالی اور وباؤں کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جنگ کے دوران خوراک کو بڑے پیمانے پر ہندوستان سے برآمد کیا جا رہا تھا۔ ان تمام حالات نے بھی بے چینی میں اضافہ کیا اور تحریک کی شدت میں اضافہ ہوا۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں حالات اس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ لگتا تھا کہ برطانیہ کو ہندوستان کو ہر صورت میں آزادی دینی پڑے گی ورنہ یہاں کے لوگ یہ آزادی چھین لیں گے۔ کانگریس اور تلک کی قیادت میں ہوم رول لیگ برطانوی سامرج سے اپنا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی کہ انہیں یہاں پر اپنی حکومت قائم کرنے کا اختیار دیا جائے۔ لیکن دوسری جانب برطانوی سامراج اس سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا لیکن تحریک اور سماجی حالات سے بھی خوفزدہ تھا۔ اس تحریک کو زائل کرنے کے لیے1917ء میں اصلاحات کے لیے سروے کا آغاز کیا گیا اور1918ء میں اصلاحات کا بل منظور کیا گیا جس کے تحت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء میں نافذ کیا گیا۔ اس کے تحت یہاں کے مقامی افراد کی ایک انتہائی قلیل تعداد کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا گو کہ ان نمائندوں کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان اصلاحات کا مقصد ایک طرف مقامی سرمایہ داروں اور ان کے گماشتہ سیاستدانوں کو رام کرنا اور آزادی کی تحریک کو ٹھنڈا کرنا تھا۔ لیکن اس کے الٹ نتائج مرتب ہوئے اور مقامی سرمایہ دارخوش ہونے کی بجائے ناراض ہو گئے۔ ان سرمایہ داروں کی سیاسی میدان میں نمائندگی گاندھی کر رہا تھا۔
لیکن اسی دوران 1917ء میں ہی رولٹ کمیٹی کے نام سے بھی ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد بمبئی سمیت ملک بھر میں ہونے والی ہڑتالوں اور تحریکوں کے سد باب کے لیے اقدامات کرنا اور ہندوستان میں بالشویکوں کی کسی بھی قسم کی موجودگی کو تلاش کرنا تھا۔ اس کمیٹی کی سفارشات پر 18مارچ1919ء میں بدنام زمانہ رولٹ ایکٹ نافذ کر دیا گیا۔ اس انسانیت سوز قانون کا نفاذ واضح کرتا ہے کہ برطانوی سامراج ہندوستان کی مزدور تحریک سے کس قدر خوفزدہ تھا اور اسے کچلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ اس قانون کے تحت پریس کی آزادی کو سلب کر لیا گیا، بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا، مقدمے کے بغیر غیر معینہ مدت تک گرفتاری کی اجازت دی گئی، ملزمان مدعی اور دعویٰ جانے بغیر مقدمے میں پیش ہو سکتے تھے۔ اس کے علاوہ سیاسی و سماجی آزادی پر شدید قدغنیں لگا دی گئیں۔ پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ کسی کو بھی گرفتار کر سکتی تھی اور کسی بھی جگہ کی تلاشی لے سکتی تھی۔ اس کے بارے میں مشہور ہوا کہ ’’نہ دلیل، نہ وکیل، نہ اپیل‘‘۔
برطانوی سامراج کے اس انتہائی ا قدام کے پیچھے جہاں انقلابِ روس کا خوف تھا وہاں ہندوستان میں منظم مزدور تحریک کا بھی وسیع پیمانے پر آغاز اس کی وجہ بنا تھا۔ 1917ء کے بعد سے ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں میں مسلسل اضافہ ہور ہا تھا۔ دیہاتی علاقوں میں بھی غربت اور ذلت کے باعث بے چینی میں شدت آ چکی تھی اور کسانوں کی بغاوتوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ دوسری جانب مقامی سرمایہ دار اور چھوٹے تاجر اور سرمایہ داراور کانگریسی سیاستدان بھی نالاں تھے اور اصلاحات کے بل سے مکمل طور پر خوش نہیں تھے۔ گاندھی نے رولٹ ایکٹ کے نفاذ کیخلاف 6اپریل 1919ء کوہڑتال کا اعلان کیا۔ اس ہڑتال کا مقصد برطانوی حکومت کیخلاف سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کرنا تھا تا کہ برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ لیکن اس دوران پنجاب میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی جانب سے سیاسی کارکنان پر تشدد کی کاروائیوں کا آغاز ہو چکا تھا جبکہ احتجاجی تحریک شدت اختیار کر تی جا رہی تھی۔ 10اپریل کو پنجاب میں کانگریس کے دو اہم لیڈر ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو گرفتار کر لیا گیااور پنجاب میں فوج کو بلا لیا گیا۔ 13اپریل 1919ء کو امرتسر میں جلیانوالہ باغ کا خونریز واقعہ برپا ہوا جس میں بیساکھی کا میلہ منانے کے لیے آنے والے عام لوگوں پر انگریز افسر کرنل ڈائر کے حکم پر گولی چلا دی گئی۔ برطانوی حکومت کے مطابق اس دن 379لوگ قتل اور1200زخمی ہوئے جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس واقعہ نے پورے ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف ایک ملک گیر انقلابی تحریک کا آغاز کر دیاجو ایک عوامی بغاوت کا روپ دھار گئی۔ دہلی، لاہور، قصور، گوجرانوالہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ صرف دو دن بعد گوجرانوالہ میں اس قتل عام کیخلاف احتجاج ہوا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس احتجاج پر پولیس کے تشدد کے علاوہ مشین گن اور بم بھی مظاہرین کیخلاف استعمال کیے گئے جس میں 12افراد ہلاک اور 27زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں مزدوروں کی ہڑتالوں میں شدت آ گئی اور لاکھوں مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ ہندوستان کی پہلی منظم مقامی یونین مدراس میں 1918ء میں بنائی گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انتہائی تیزی سے یونینیں بننے کا آغاز ہو گیا اور ان یونینوں نے اپنے مطالبات کے لیے ہڑتالوں کا آغاز کر دیا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے بعد عدم تعاون کی تحریک کے دوران ان ہڑتالوں میں مزید شدت آ گئی تھی۔ صرف جولائی 1920ء سے مارچ 1921ء تک بنگال میں 137ہڑتالیں ہوئیں۔ ان ہڑتالوں میں ڈھائی لاکھ کے قریب محنت کشوں نے حصہ لیا۔ اپریل سے جون 1921ء کے صرف تین ماہ میں بمبئی میں 33ہڑتالیں ہوئیں جن میں دو لاکھ چالیس ہزار محنت کشوں نے حصہ لیا۔ اسی سال مدراس میں بیس ہزار محنت کشوں نے ہڑتال کی۔ شمالی ہندوستان میں ریلوے کے ساٹھ ہزار محنت کشوں نے 1920ء میں ہڑتال کی۔ ان محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پنجاب کے پرنٹنگ پریس کے محنت کشوں نے ہڑتال کر دی۔ اسی ہڑتال کے نتیجے میں پنجاب لیبر یونین کاقیام عمل میں آیا۔ اسی سال کانپور کے چمڑے اور ٹیکسٹائل کے تیس ہزار محنت کشوں کی ہڑتال بھی اہمیت کی حامل ہے۔ 1920ء میں تقریباً پچیس لاکھ محنت کشوں نے ہڑتالوں میں شرکت کی جن پر پولیس کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا۔ اس میں ہزار کے قریب محنت کش ہلاک یا زخمی ہوئے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مزدور تحریک میں شدت کی ایک بڑی وجہ یہاں صنعتوں اور ان کی پیداوار میں تیز ترین اضافہ بھی تھا جس سے مقامی سرمایہ دار بڑے پیمانے پر فیض یاب ہو رہے تھے۔ اسی کے ساتھ محنت کشوں کے استحصال میں بھی اضافہ ہورہا تھا اور وہ اپنے حقوق کے لیے احتجاجوں اور ہڑتالوں کا طریقہ کار اختیار کر رہے تھے۔
اسی عوامی بغاوت کے دوران31اکتوبر 1920ء کو بمبئی میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں لالہ لجپت رائے کو صدر منتخب کیا گیا جبکہ دیگر اہم قائدین میں مدراس کے بی۔ پی۔ واڈیا، بہار سے کان کنوں کے راہنما وشوان آنندا اور دیگر شامل تھے۔ اس اجلاس میں لیبر لیڈروں کی شکل میں سرمایہ داروں کے بھی بہت سے ایجنٹ شامل تھے۔ لالہ لجپت رائے نے اپنے صدارتی خطبے میں سرمایہ داری کی شدید مذمت کی لیکن اس سے نجات کا کوئی لائحہ عمل اور طریقہ کار پیش نہیں کیا۔ ٹریڈ یونین کانگریس کے دوسرے مرکزی اجلاس میں وشوان آنند نے کہا کہ ’’اگر ہندوستان کے محنت کشوں کی ذلت آمیز زندگی ایسے ہی جاری رہی تو بالشوازم کو یہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ‘‘ اس دوران گاندھی بھی ہندوستان میں اپنی سیاست کا آغاز کر چکا تھا اور سرمایہ داروں اور چھوٹے تاجروں کی حمایت حاصل کر رہا تھا۔ اس نے 1918ء میں گجرات کے شہر احمد آباد میں ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی ہڑتال میں مداخلت کی کوشش کی اور سرمایہ داروں کی جانب سے صلح کا پیغام لے کر محنت کشوں کے پاس گیا جسے محنت کشوں نے سختی سے رد کر دیا۔ اس کے بعد گاندھی نے مزدور تحریک سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس نے اس وقت کہا کہ ، ’’ہمیں مزدوروں کے ساتھ بالکل بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے۔ پرولتاریہ کا سیاسی استعمال انتہائی خطرناک ہے‘‘۔ (دی ٹائمز، مئی 1921ء )
مزدور تحریک کے ساتھ ساتھ زراعت سے وابستہ محنت کشوں کی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا اور مختلف علاقوں میں کسانوں نے جاگیر داروں کی زمینوں پر قبضوں کا آغاز کر دیا تھا۔ پنجاب، یو پی اور دیگر بہت سے علاقوں میں بھی کسانوں کی بغاوتیں شروع ہو چکی تھیں۔ پنجاب میں کسانوں نے دولت مند زمینداروں اور جاگیرداروں کیخلاف مسلح بغاوت شروع کر دی تھی۔ بہت سی جگہوں پر گردواروں کا قبضہ بھی غریب کسانوں کے پاس آ گیا تھا۔ یو پی اور دیگر جگہوں پر بھی صورتحال مختلف نہیں تھی اور کسانوں کی بغاوتیں شدت اختیار کر رہی تھیں۔
یہ تمام بغاوتیں اور تحریکیں گاندھی کی قیادت میں چلنے والی کانگریس کی عدم تعاون کی تحریک میں مجتمع ہو رہی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں محنت کش طبقے کی اپنی کوئی پارٹی نہ ہونے کے باعث اس تحریک کی قیادت ہندوستان کے مقامی سرمایہ دار طبقے کے پاس آ گئی تھی جس کی نمائندگی گاندھی کر رہا تھا۔
روس میں لینن اور ٹراٹسکی اس نتیجے پر بہت پہلے ہی پہنچ چکے تھے کہ پسماندہ ممالک کا سرمایہ دار طبقہ کوئی بھی انقلابی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ٹراٹسکی نے اپنے نظریہ مسلسل انقلاب میں اس کی تفصیلی وضاحت کی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ ان ممالک میں بورژوا انقلاب کے فرائض ابھی تک پورے نہیں ہوئے لیکن ان کی تکمیل سرمایہ دار طبقہ نہیں کر سکتا بلکہ یہ فرائض بھی محنت کش طبقے کو ہی ادا کرنے ہوں گے۔ اسی لیے ان ممالک کا انقلاب مسلسل ہو گا اور یہ بورژوا انقلاب کے فرائض پورے کرتا ہوا سوشلسٹ اقدامات کی جانب بڑھے گا۔ روس کے 1917ء کے انقلاب میں یہ نظریہ درست ثابت ہوا تھا اور لینن اور ٹراٹسکی نے ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مارکسی نظریات کی درستگی پوری دنیا پر واضح کر دی تھی۔ روس کے فروری 1917ء کے انقلاب کے بعد وہاں کے سرمایہ دار طبقے کا خصی پن بھی واضح ہو گیا تھا جو پہلے تو اقتدار کو مکمل طور پر حاصل کرنے سے ہی کترا رہاتھا اور واپس اسے زار کے وزیروں کی جانب دھکیل رہا تھا اور بعد ازاں کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں کر سکا۔ زار کی سامراجی جنگ کو بھی ختم کرنے کی بجائے انہوں نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ درحقیقت فروری 1917ء میں زار روس کا تخت گرانے میں بھی بالشویکو ں اور ان کے تربیت یافتہ مزدوروں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ہندوستان میں محنت کش طبقے کی ایسی کوئی پارٹی موجود نہیں تھی۔ برطانوی سامراج کیخلاف جاری تمام تحریکوں کی قیادت کانگریس پارٹی کے پاس آ گئی تھی جو مقامی سرمایہ دارطبقے کی نمائندگی کر رہی تھی۔ آغاز میں اس پارٹی کے ایک حصے نے عدم تعاون کی تحریک سے اختلاف کیا تھا لیکن بعد ازاں پوری پارٹی اس تحریک کی حمایت میں یکجا ہو گئی تھی۔ دائیں بازو کی تحریک خلافت نے بھی اس تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ترکی میں ظالم اور جابر سلطنتِ عثمانیہ کا احیا تھا۔ اس رجعتی بادشاہت کے خاتمے کیخلاف خود ترکی میں ایک بورژوا انقلاب کا آغاز ہو چکا تھا جس کی قیادت مصطفی کمال اتاترک کر رہا تھا لیکن ہندوستان کے بہت سے رجعتی ملا اس کے باوجود سلطنت عثمانیہ کے احیا کی رد انقلابی تحریک چلا رہے تھے۔ اس تحریک کی بنیادیں ہندوستانی سماج کے پسماندہ حصوں میں تھیں۔
عدم تعاون کی تحریک جوں جوں آگے بڑھتی گئی اس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور سماج کے مزید حصے اس کے ساتھ جڑتے چلے گئے۔ برطانوی سامراج نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن تحریک کی شدت میں کمی نہیں آئی۔ تحریک کی شدت اتنی زیادہ تھی اور برطانوی سامراج کی ہندوستان میں شکست اتنی واضح ہو گئی کہ خود ہندوستان کا سرمایہ دار طبقہ اس تحریک سے خوفزدہ ہو گیا۔ ان کے نزدیک برطانوی سامراج کی چھتری کے بغیر ان کی بقا ممکن نہیں تھی اور نہ ہی وہ سامراج سے مکمل آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہیں نظر آ رہا تھا کہ یہ تحریک اگر برطانوی سامراج کو اکھاڑنے میں کامیاب ہو گئی تو مزدوروں اور کسانوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ مقامی سرمایہ داروں کیخلاف بغاوت کا آغاز کر دیں گے۔
اسی خوف اور تذبذب کے عالم میں گاندھی نے مارچ 1922ء میں بغاوت کے عروج پر عدم تعاون کی تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کی وجہ چوری چورا کے علاقے میں پر تشدد فسادات کو بتایا گیا۔ اس واقعہ میں خبروں کے مطابق 21پولیس والے ہلاک ہوئے تھے۔ گاندھی کا کہنا تھا کہ وہ عدم تشدد کے نظریہ پر یقین رکھتا ہے اور اس پرتشدد واقعہ کے بعد تحریک کو جاری رکھنا ممکن نہیں۔ جبکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔
عدم تعاون کی تحریک سے قبل ہی یوپی میں کسانوں کی بغاوتوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ جب گاندھی نے تحریک کے دوران ٹیکسوں اور محصولات کی عدم ادائیگی کی تحریک کا آغاز کیا تو بغاوت میں موجود ان کسانوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ ان کسانوں کے لیے سووراج یا مکمل آزادی کا مطلب ٹیکسوں اور ہر قسم کے جبر سے آزادی تھا۔ یہ تحریک جنگل کی آگ کی طرح تمام دیہاتوں میں پھیل گئی۔ دیہاتوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ کانگریسی رضاکار بن گئے اور مختلف جگہ ناکے لگا کر انگریزی مصنوعات کی تلاشی لینے لگے۔ اسی کے ساتھ ہی جاگیروں پر قبضوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس صورتحال میں متعدد جگہوں پر ان کا پولیس کے ساتھ ٹکراؤ ہونے لگا۔ 2فروری 1922ء کو ان رضاکاروں نے ایک ایسے علاقے میں ناکہ لگا رکھا تھا جہاں کا جاگیر دار انگریزوں کا گماشتہ تھا اور اپنے مزارعوں پر بد ترین جبر کے لیے بدنام تھا۔ اس جگہ پر پولیس نے رضاکاروں پر گولی چلائی۔ اس کے اگلے دن تین ہزار رضاکار اسی جگہ پر ناکہ لگانے پہنچ گئے۔ اس دوران یہ جلوس چوری چورا کے مقام سے گزر رہا تھا جب ایک پولیس اسٹیشن سے اس پر گولی چلائی گئی۔ اس پر کسان مشتعل ہو گئے اور تھانے کو آگ لگا دی جس میں 21پولیس والے ہلاک ہو گئے۔ لیکن کسانوں کی ہلاکتوں کو رپورٹ نہیں کیا گیا جو یقیناًاس سے کہیں زیادہ تھی۔ یہاں سے یہ بغاوت مزید شدت اختیار کر گئی اور پورے ملک میں مزید پھیل گئی۔ گاندھی اس تمام صورتحال سے شدید خوفزدہ ہو گیا اور اسے لگا کہ صورتحال اس کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے۔ اسی لیے اس نے تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ درحقیقت یہ تحریک جمہوری مطالبات سے بہت آگے بڑھ چکی تھی اور نجی ملکیت کو چیلنج کر رہی تھی۔ گاندھی نجی ملکیت کا سب سے بڑا محافظ تھا اور مقامی سرمایہ دار طبقے کا گماشتہ تھا۔ ان کے لیے تحریک کی یہ شدت ناقابل برداشت تھی اور خود ان کے اپنے طبقے کے مفادات کو چیلنج کر رہی تھی۔ اسی لیے اس تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اگر اس وقت محنت کش طبقے کی کوئی پارٹی موجود ہوتی تو گاندھی کی غداری کے بعد اس کی حقیقت محنت کشوں پر عیاں کر سکتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی تحریک کو سوشلسٹ پروگرام دیتے ہوئے نہ صرف برطانوی سامراج سے آزادی کی جانب لے کر جا سکتی تھی بلکہ سرمایہ داری کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔
گاندھی کے اعلان سے ہندوستان بھر میں تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور بڑے پیمانے پر انقلابی نوجوان اور محنت کش مایوسی میں چلے گئے۔ خود کانگریس دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ موتی لعل نہرو اور دوسرے لیڈروں نے گاندھی پر شدید تنقید کی اور کانگریس سے الگ ہو کر سووراج پارٹی قائم کر لی۔ اس پارٹی کا مقصد برطانوی راج سے مکمل آزادی حاصل کرنا تھا۔ درحقیقت کانگریس کی یہ پھوٹ ہندوستان کے بورژوا اورپیٹی بورژوا طبقے کے متصادم مفادات کی عکاسی کرتی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ جہاں برطانوی سامراج کی چھتری تلے خود کو محفوظ محسوس کرتا تھا وہاں پیٹی بورژوا سامراجی قوانین اور پابندیوں کی جکڑ بندیوں سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
تحریک کے خاتمے کے بعد ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے مقدمے چلائے گئے۔ ملک بھر میں تحریک کو کچلنے کے لیے فوج کو طلب کر لیا گیا اور سامراجی جبر کی انتہا کر دی گئی۔ چوری چورا کے واقعے میں 228افراد پر مقدمہ چلایا گیا جن میں سے 172کو سزائے موت سنائی گئی۔ دوسرے الفاظ میں نجی ملکیت کا تقدس بحال کرد یا گیااور ریاستی جبر کو تقویت دی گئی۔
تحریک کے بعد مقامی سرمایہ دار طبقے نے برطانوی سامراج سے مزید مراعات حاصل کیں اور ہندوستان میں صنعتوں کے قیام پر پابندی کے خاتمے کا مطالبہ منظور کروایا۔ عالمی جنگ سے پہلے برطانوی سامراج ہندوستان کو زیادہ تر خام مال کے حصول اور تیار مال کی کھپت کے لیے منڈی کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ ایسے قوانین موجود تھے جن کے تحت ہندوستان میں نئی صنعتوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ لیکن اس دوران ہندوستان کے سرمایہ داروں کے پاس خاطر خواہ سرمایہ مجتمع ہو چکا تھا اور وہ ان قوانین کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے مقامی سرمایہ دار برطانوی سامراج پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے۔ جنگ کے دوران ہی برطانیہ میں حکمران طبقے میں اس پالیسی کی تشکیل کا آغاز ہو چکا تھا جس میں مقامی سرمایہ داروں کو صنعتیں لگانے کی اجازت دی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کا اقتدار ہندوستان میں مزید مستحکم ہو گا۔ برطانوی سامراج کے اس اقدام کی وجہ جہاں مقامی سرمایہ داروں کا دباؤ تھا وہاں اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ برطانوی سامراج سمیت تمام عالمی سامراجی طاقتوں کا انحصار صنعتی سرمائے کی بجائے مالیاتی سرمائے پر بڑھ چکا تھا۔ اس لیے وہ اپنی نوآبادیات کو صنعتی سرمائے کی بجائے مالیاتی سرمائے سے کنٹرول کرنے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ لینن نے اپنی کتاب ’’سامراج۔ ۔ ۔ سرمایہ داری کی حتمی منزل ‘‘ میں عالمی سطح پر ہونے والی اس تبدیلی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اس سارے عمل میں ہندوستان میں لوہے، سٹیل، کپڑے سمیت دیگر بہت سی صنعتوں کا بڑے پیمانے پر آغاز ہوا۔ سب سے بڑا ٹھیکہ ٹاٹا کو دیا گیا جسے ہندوستان کی ریلوے کو خام لوہا اور سٹیل مہیا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس عمل کے دوران مزدور تحریک بھی تیزی سے مضبوط ہوتی چلی گئی۔ دوسری جانب ہندوستان کے سرمایہ دار اور نواب، راجے، مہاراجے اور دیگر اشرافیہ برطانوی سامراج کے مزید قریب ہوتے چلے گئے۔ ان کے نزدیک برطانوی سامراج کی چھتری تلے ہی وہ اپنی تجوریاں بھر سکتے تھے اور ان سامراجی آقاؤں کے جانے کے بعد یہاں کے محنت کش عوام ان سے اقتدار چھین سکتے ہیں۔ اس تمام تر کشمکش کا اظہار سیاسی میدان میں بھی ہوتا رہا۔
کمیونسٹ پارٹی
روس میں انقلاب کے فوری بعد اس انقلاب کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے تیسری انٹرنیشنل جسے کمیونسٹ انٹرنیشنل (کومنٹرن) بھی کہا جاتا ہے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مارچ 1919 ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں اس کا تاسیسی اجلاس روس میں منعقد کیا گیا۔ اس کا مقصد دنیا کے مختلف ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں کو منظم کرنا تھا۔ اس انٹرنیشنل کے دوسرے سالانہ اجلاس میں نوآبادیاتی ممالک میں جاری آزادی کی تحریکوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ اس اجلاس میں کمیونسٹ پارٹی آف میکسیکو کا مندوب ایم این رائے تھا۔ اس نے نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں پر پیش ہونے والی قرار داد پربحث میں بھرپور حصہ لیا۔ اس اجلاس میں ایم این رائے اور لینن کے اختلافات بھی سامنے آئے۔ لینن کا مؤقف تھا کہ نوآبادیاتی ممالک کے عوام کی آزادی کی تحریکوں کی مکمل حمایت کی جائے جبکہ رائے کا مؤقف تھا کہ ان ممالک کے سرمایہ دار طبقے کی حمایت کرنے کی بجائے وہاں کمیونسٹ تحریک کو الگ سے منظم کیا جائے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لینن کے مؤقف کے ساتھ رائے کا مؤقف بھی ضمنی طور پر شامل کر لیا جائے۔ اجلاس کے بعد ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی تعمیر کرنے کی ذمہ داری بھی ایم این رائے کو سونپ دی گئی۔ رائے انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا بھی ممبر تھا اور اس سے پہلے میکسیکو کی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ یہ ذمہ داری ملنے کے بعد رائے اور اس کی بیوی ایولن ٹرینٹ رائے نے اکتوبر 1920ء میں سوویت یونین کے علاقے تاشقند میں اس پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس پارٹی کے بنیادی اراکین میں ابانی مکھر جی اور اس کی بیوی روزا فٹنگوف بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی چھوٹے گروپ موجود تھے جو کمیونسٹ پارٹی کی حیثیت سے آزادانہ طور پر کام کر رہے تھے۔
ایم این رائے نے روس کی طرز پر ہندوستان میں بالشویک پارٹی بنانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی نظریاتی بحثوں اور انقلاب روس کے واقعات کی شکل میں اس کے پاس وہ تمام نظریاتی بنیادیں موجود تھیں جن پر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کی جا سکتی تھی۔ اس نے افغانستان میں موجود ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے نوجوانوں کے ساتھ بحثوں کا آغاز کر دیا۔ ان میں سے بہت سے نوجوان تحریک خلافت سے متاثر تھے اور سلطنت عثمانیہ کے احیا کے لیے استنبول جانا چاہتے تھے۔ رائے نے ان سے بحثیں کیں کہ جب ترکی کے عوام ہی اس بادشاہت سے نفرت کرتے ہیں تو وہ وہاں جا کر کیا کریں گے۔ ان میں سے 40کے قریب نوجوان تاشقند میں قائم رائے کے سیاسی و عسکری سکول میں تربیت حاصل کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس دوران رائے نے ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے علیحدہ اخبار کا بھی آغاز کر دیا۔ 1922ء میں وین گارڈ کے نام سے اس ا خبار کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی۔ رائے کے علاوہ بھی کچھ لوگوں نے لینن اور ماسکو میں سوویت حکومت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مارکسی نظریات سے مکمل طور پر نا بلد تھے۔
اس دوران برطانوی حکومت نے بھی ہندوستان میں بالشویک نظریات کے پھیلاؤ کی سخت نگرانی شروع کر دی تھی۔ روس سے افغانستان کے راستے آنے والے کمیونسٹوں کو گرفتار کر کے مختلف مقدمات چلائے گئے۔ ان میں پشاور سازش کیس، کانپور بالشویک سازش کیس کے تحت ان افراد کو سخت سزائیں سنائی گئی۔ ان مقدمات کی اخبارات میں خبروں کے ذریعے بہت سے انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں تک کمیونسٹ پارٹی کے نظریات نے رسائی حاصل کی۔ یہاں پر عوامی سطح پر کمیونسٹ نظریات کو متعارف کروانے میں ان مقدمات کا اہم کردار ہے۔ اس دوران برطانیہ میں بھی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اور وہ بھی ہندوستان کے محنت کشوں کے ساتھ رابطے بنا رہی تھی۔ اسی حوالے سے مختلف مضامین بھی CPB کے جریدے میں شائع ہوتے رہے۔
تاشقند میں تربیت حاصل کرنے والوں نے سوویت حکومت سے درخواست کی کہ افغانستان کا بادشاہ برطانوی سامراج کے شدید خلاف ہے اور اس نے ہندوستان سے جلا وطن ہونے والوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اس کی مدد سے برطانوی سامراج کیخلاف آزادی کی جنگ کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ اگر سوویت حکومت ہمیں اسلحہ فراہم کرے تو ہم اس آزادی کی جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ لیکن لینن نے اس حکمت عملی کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ افغانستان کے بادشاہ کے طبقاتی مفادات برطانوی سامراج کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت وہ خواہ ان کا مخالف ہو لیکن جب تحریک کا آغاز ہو گا تو وہ خود اپنے ملک میں تحریک پھیلنے کے خوف سے برطانوی سامراج کی حمایت کر کے تحریک کو کچلنے کی جانب بڑھے گا۔ اس لیے ہمیں ہندوستان اور افغانستان کے محنت کش طبقے پر مشتمل قوتوں کو تیار کرنا ہو گا۔
ہندوستان کی سرزمین پر کمیونسٹ پارٹی کا تاسیسی اجلاس دسمبر1925ء میں کانپور میں منعقد ہو ا۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے کمیونسٹ گروپوں کو اکٹھا کیا گیا اور تنظیم سازی کا آغاز کیا گیا۔ اس اجلاس میں بھی اکثر مندوبین مارکسزم کے نظریات سے مکمل طور پر واقف نہیں تھے۔ یہ لوگ اپنے اپنے طریقوں سے برطانوی سامراج کیخلاف جدوجہد ضرور کر رہے تھے اور اس کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کر رہے تھے لیکن مارکسزم کی نظریاتی بنیادوں اور سائنسی طرز فکرسے مکمل طور پر آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ ہندوستان کے انقلاب کے کردار کے حوالے سے بھی وہ مسلسل انقلاب کے نظریے کی بجائے محض قومی آزادی کی جدوجہد کے طریقہ کار کے زیادہ قریب تھے۔ اس دوران مزدور تحریک میں بھی شدت آتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کو درست نظریاتی بنیادیں اور لائحہ عمل اور طریقہ کار فراہم کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ 1924ء میں بمبئی کی ٹیکسٹائل ملوں کے ڈیڑھ لاکھ محنت کشوں نے ہڑتال کر دی تھی۔ ان میں تیس ہزار عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس ہڑتال کے نتیجے میں بمبئی کی تمام 83ملیں مکمل طور پر بند ہو گئی تھیں۔ محنت کشوں کا مطالبہ تھا کہ اجرتوں اور بونس میں اضافہ کیا جائے۔ یہ ہڑتال کئی ماہ تک جاری رہی اور اس میں بمبئی کے دیگر محنت کش اور عوام بھی شامل ہوتے گئے۔ مقامی سرمایہ داروں نے اس ہڑتال کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن محنت کش ایک لمبے وقت تک اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور فاقوں سمیت ہر قسم کا جبر برداشت کیا۔ اسی طرح دوسرے علاقوں اور شعبوں میں بھی ہڑتالوں میں شدت آتی جا رہی تھی۔ خاص طور پر ریلوے کے محنت کشوں کی ہڑتالوں اور احتجاجوں میں اضافہ ہورہا تھا۔
لیکن اس سارے عرصے میں کمیونسٹ پارٹی نظریاتی ابہام اور دیگر وجوہات کے باعث منظم انداز میں کام کا آغاز نہیں کر سکی تھی۔ اس کے ساتھ ہندوستان کے انقلاب کے کردار پر تفصیلی بحث درکار تھی۔ اس سلسلے میں کمیونسٹ انٹرنیشنل میں ہونے والی بحثیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ستمبر 1920ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کے فیصلے کے مطابق مشرقی عوام کے لیے خصوصی کانفرنس باکو میں منعقد کی گئی۔ اس اجلاس میں 1900کے قریب مندوبین نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت کمیونسٹ انٹرنیشنل اور سوویت یونین کے اہم رہنما زنوویف نے کی۔ امریکی کمیونسٹ تحریک کے راہنما جان ریڈ نے بھی اس میں خصوصی شرکت کی اور یکجہتی کا پیغام پہنچایا۔ اس اجلاس میں ایران، ترکی، انڈونیشیا اور دیگر مشرقی ممالک سے مندوبین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ہندوستان کے بھی درجن بھر مندوبین وہاں موجود تھے۔ اس اجلاس سے بالشویک نظریات کا تعارف تو ان ممالک تو ضرور پہنچالیکن نظریہ مسلسل انقلاب کے تحت واضح لائحہ عمل اور طریقہ کار مرتب نہیں کیا جا سکا۔ اس اجلاس میں سامراجی ممالک کے خلاف آزادی کی جدوجہد کا واضح پیغام دیا گیا جس سے ان ممالک کے محنت کشوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
اس کے بعد بھی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں یہ نوآبادیاتی ممالک کی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں بحث جاری رہیں۔ خاص طور پر چین میں 27-1925ء کی انقلابی تحریک پر کمیونسٹ انٹرنیشنل میں ہونے والی بحثیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس دوران لینن کی وفات کے بعد سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کا عمل شروع ہو چکا تھا اور ٹراٹسکی کے انٹرنیشنلسٹ نظریات کو رد کیا جا رہا تھا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی بھی انقلاب روس کے بعد ہی قائم ہوئی تھی لیکن وہاں پہلی عالمی جنگ کے بعد مزدور تحریک میں شدت آنے کے باعث کمیونسٹ پارٹی بہت جلد عوامی بنیادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ لیکن سٹالن کی جانب سے کمیونسٹ پارٹی کو حکم دیا گیا کہ وہ سرمایہ دار طبقے کی پارٹی کومنٹانگ اور اس کے قائد چیانگ کائی شیک کی حمایت کریں۔ ٹراٹسکی نے اس کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ سرمایہ دار طبقہ کسی بھی صورت میں انقلابی کردار اداکرنے کا اہل نہیں۔ آخر کار ٹراٹسکی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور چیانگ کائی شیک نے بر سر اقتدار آتے ہی کمیونسٹوں کے قتل عام کا آغاز کر دیا۔ اس پر کومنٹانگ کے دوسرے دھڑے کے قائد وانگ جین وی کی حمایت کا غلط فیصلہ کیا گیا۔ ایم این رائے اس سے پہلے ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کی مکمل حمایت کرتا تھا اور ہندوستان کے انقلاب کے کردار کو اسی نظرئیے پر تشکیل دیتا تھا۔ لیکن چین کے انقلاب کے کردار پر وہ تذبذب کا شکار ہو گیا۔ 1927ء میں جب ٹراٹسکی کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ ہو رہا تھا تو اس نے اس فیصلے کی حمایت کر دی۔ اس نے چین میں کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے سرمایہ دار طبقے کی حمایت کے غلط فیصلے کی بھی حمایت کی۔ ان فیصلوں کا جہاں چین کی کمیونسٹ پارٹی کوبھاری خمیازہ بھگتنا پڑا اور اس کی قیادت کی اکثریت کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیاوہاں ہندوستان کی نوزائیدہ کمیونسٹ تحریک کو بھی نظریاتی زوال پذیری کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف ہندوستان کے کمیونسٹ برطانوی سامراج کے جبر کا مقابلہ کر رہے تھے اور پوری طرح منظم بھی نہیں ہوئے تھے دوسری طرف انقلاب کے کردار کے حوالے سے زوال پذیر نظریات اور لائحہ عمل ان تک پہنچنا شروع ہوا۔ اس نظریاتی زوال پذیری کے بعد خود ایم این رائے بتدریج مارکسزم سے دور ہوتا گیا اور بالآخر اسے خیر باد کہہ دیا۔
ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کو1930ء کی دہائی میں ابھرنے والی تحریکوں کے دوران عوامی بنیادیں ملنا شروع ہوئی تھیں جس میں بھگت سنگھ کی پھانسی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ میرٹھ سازش کیس میں برطانوی راج کو عوامی ردعمل سامنا کرنا پڑا جس میں ریلوے میں ہڑتال منظم کرنے پر 33 ٹریڈیونین قائدین کو1933ء میں سزائیں سنائی گئیں۔ اسی دوران مزدور تحریک کے ایک نئے ابھار کا آغاز ہو ا تھا جس میں کمیونسٹ پارٹی باقاعدہ طور پر منظم انداز میں قائم ہوئی اور 1934ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ساتھ اس کا الحاق ہوا۔ لیکن اس دوران ماسکو میں سٹالنسٹ زوال پذیری کا عمل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا جس کے باعث ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک مارکسزم کے درست نظریات تک رسائی حاصل نہ کر سکی۔ انہی سٹالنسٹ پالیسیوں کے نتیجے میں کانگریس کے بائیں بازو کے دھڑے کانگریس سوشلسٹ پارٹی کو پہلے سوشل فاشسٹ قرار دیا گیا اور پھر ان کے اندر مداخلت شروع کر دی گئی۔ بہت سی جگہوں پر اس سوشلسٹ پارٹی کو کمیونسٹ پارٹی میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور مداخلت کے دوران اپنے الگ ڈھانچے تحلیل کر دیے گئے۔ اسی طرح پہلے سٹالن کے ہٹلر کے ساتھ معاہدے اور پھر برطانیہ و امریکی سامراج کے ساتھ معاہدوں نے ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کو شدید نقصان پہنچایا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب مزدور تحریک اپنے عروج پر تھی اور برطانوی سامراج کیخلاف آزادی کی تحریک پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی، کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان برطانوی فوج میں بھرتیاں کروانے کی مہم چلا رہے تھے۔ ان نظریاتی کمزوریوں کے باعث ہندوستان کا محنت کش طبقہ لازوال قربانیوں کے باوجود انقلاب روس کی طرز پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس ناکامی کا نتیجہ ہندوستان کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی صورت میں نکلا جس میں لاکھوں افراد قتل اور کروڑوں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس خونی بٹوارے کے زخم آج بھی رِس رہے ہیں۔
اس تمام تر تاریخ کا سبق یہی ہے کہ آج ایک صدی بعد ان نظریات کا گہرائی میں مطالعہ کیا جائے جن پر روس کا انقلاب برپا ہوا تھا اور اسی طرز پر ایک بالشویک پارٹی تعمیر کی جائے جو اس ایک صدی میں محنت کشوں کے بہنے والے خون اور پسینے کا انتقام لیتے ہوئے یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے اور ان مصنوعی تقسیموں کا خاتمہ کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرے۔
آج پھر ایک نئے عہد کا آغاز ہو چکا ہے جو انقلابات اور رد انقلابات کا عہد ہے۔ پوری دنیا میں مزدور تحریک آگے کی جانب بڑھ رہی ہے اور بہت سے ممالک میں انقلابات سیاسی و سماجی نظام کو تبدیل کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بر صغیر جنوبی ایشیا میں بھی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ آنے والے عرصے میں اس خطے سمیت دنیا بھر میں اہم واقعات جنم لیں گے جو انسانی تاریخ کا دھارا موڑنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اگر اس دوران کسی بھی نظریاتی ابہام کے بغیر درست مارکسی نظریات پر کوئی انقلابی پارٹی موجود ہوئی تو یہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ انقلاب روس کے ایک صدی بعد اسے خراج تحسین پیش کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔