|رپورٹ: فارس راج|
یونائیٹڈ لیبر فورم اور پروگریسیو یوتھ الائنس حب چوکی کے زیر اہتمام ایک سیمینار کا انعقاد بعنوان ’’ بالشویک انقلاب اور قومی سوال‘‘ مورخہ 12 نومبر بروز اتوار 5بجے شام، بمقام حب چوکی میں کیا گیا۔ کامریڈ یامین نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض سرانجام دیے۔
سیمینار کے پہلے مقرر ثناء بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1917ء کے روس میں اور آج کے پاکستان میں بہت سی مماثلتیں موجود ہیں، البتہ روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی موجود تھی ، جس کی تعمیر کا فریضہ پاکستان میں ہماری ذمے داری ہے۔ ان کا کہنا تھا آج کے پاکستان کی طرح 1917ء کا روس بھی ایک سامراج کا گماشتہ اور خود بھی سامراجی عزائم رکھنے ولا ملک تھا۔ بالشویک انقلاب کے ذریعے روس کے تمام وسائل کو سامراجی قوتوں کے چنگل سے آزاد کرایا گیا اور انہیں سوویت عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے استعمال کیاگیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ منصوبہ معیشت کی وجہ سے سٹالنزم کی تمام تر غداریوں اور زوال پذیری کے باوجود سوویت یونین دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا اور 1950ء کے بعد وہ عالمی سطح پر امریکہ کے بعد دوسری بڑی طاقت بن چکا تھا۔ ثناء کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کو معیشت کے کئی شعبوں میں امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں پر برتری حاصل تھی، انہوں نے خلائی پروگرام پر بھی سوویت پہل قدمی کو واضح کیا۔
قومی سوال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قومی سوال بہت پیچیدہ صوت حال اختیار کر چکا ہے۔ قوم پرستی کے نظریے پر کاربند سیاسی قوتیں بلوچستان کی آزادی کا کسی بھی طرح کا منطقی اور سائنسی حل دینے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے بلوچ قومی آزادی کی تحریک بار بار ابھرتی ہے مگر خطے میں موجود محنت کشوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ قومی آزادی کے سوال کو پاکستان اور خطے بھر کے محنت کشوں کی آزادی کے سوال سے جوڑا جائے، جب ہی پاکستان کی گماشتہ سامراجی ریاست کے جبر کو توڑا جا سکتا ہے اور آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس کے بعد فارس راج، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم وقاص عالم انگاریہ، نیشنل پارٹی کے رہنماء حافظ رسول بخش اور سلام لانگو نے خطاب کیا۔ وقاص کا کہنا تھا کہ مارکسی نظریے کو قوت نوجوانوں سے مل سکتی ہے اور اس کے لیے ہمیں تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ تک یہ نظریات لے کر جانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے اس لیے طالب علموں کے سامنے آسان انداز میں مارکسی نظریے کو پیش کرنا چاہیے اور ان کو جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آخر میں ریڈ ورکرز فرنٹ سے پارس جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا آج جس بحران، دہشت گردی، بھوک، بیماری اور دیگر مسائل سے دوچار ہے وہیں پرقومی سوال بھی ساری دنیا میں پیچیدہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کی وجہ سے قومی سوال اب اُن خطوں میں بھی دوبارہ سر اٹھانا شروع ہو گیا جہا ں پہلے حل ہو چکا تھا۔ انہوں نے کیٹالونیا کی مثال دیتے ہوئے واضح کیا ایک طرف جب یورپی یونین ترقی کی سمت پر گامزن تھا تو کیٹالونیا میں قومی سوال کو بھڑکنے کے لیے درکار مواد نہیں مل سکا۔ اس سے لینن کی یہ بات پھر درست ثابت ہوتی ہے کہ قومی سوال اپنی بنیاد میں روٹی کا سوال ہوتا ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد یورپی یونین کا معاشی بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے جس کی وجہ سے ہم پہلے ’بریگزٹ‘ ہوتا دیکھتے ہیں اور پھر اب کیٹا لونیا کا ریفرنڈم بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیٹا لونیا کے ریفرنڈم سے قوم پرستی کے نظریے کی محدودیت بھی واضح ہوتی ہے، جہاں 90 فیصدآبادی آزادی کی تحریک میں سرگرم مداخلت کرتے ہوئے نظر آئی مگر جرمنی، فرانس، برطانیہ اورا مریکہ نے اسپین کی وحدت کی حمایت کی ہے اور کیٹا لونیا کی قوم پرست قیادت کے پاس یہاں سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ سوشلسٹ نظریہ ہی اس وقت کیٹا لونیا کو اس بھنور سے نجات دلا سکتا ہے۔ پارس نے بالشویک انقلاب کے بعد صنعت، سائنس، ثقافت اور دیگر شعبوں میں سوویت ترقی کو تفصیل کے ساتھ شرکاء کے سامنے پیش کیا جس کو بہت ہی انہماک کے ساتھ سنا گیا۔ آخر میں پارس نے پاکستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کے وسائل پرسامراجی بھیڑیے مکمل طور پر قابض ہو چکے ہیں، جو وحشی درندوں کی طرح یہاں کے وسائل کو نوچ رہے ہیں۔ انہوں نے سی پیک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کسی بھی طرح پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے ممد ومعاون ثابت نہیں ہو گا، بلکہ اس کے نتیجے میں یہاں مقامی صنعت شدید دباؤ کا شکار ہو گی اور تیزی سے اس کا خاتمہ ہو گا جس کے نتیجے میں یہا ں بیروزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو گا۔ قومی سوال پر پارس کا کہنا تھا کہ پاکستان مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ ہے مگر کیٹالونیا کاریفرنڈم یہاں کے مظلوم قوموں کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کی تحریک کو درست سمت کی جانب گامزن کریں۔ وگرنہ بے شمار قربانیاں دینے کے باوجودآزادی کی منزل دور ہوتی چلی جائے گی۔ سیمینار میں کراچی سے محنت کشوں کے ہر دلعزیز ساتھی بشارت گجر نے اور حب چوکی سے نیشنل پارٹی کے رہنماء عبدالواحد نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ آخر میں کامریڈ فقیر نے انقلابی ترانہ ’’وہ صبح ہمیں سے آئے گی‘‘ پیش کیا۔ اور سیمینار کا اختتام کیا گیا۔