|تحریر: زین العابدین|
سرمایہ داری کی تاریخ میں جس ایک واقعے کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا اور اس کی یاد تک کو محنت کش عوام کے ذہنوں سے کھرچنے کی کوشش کی گئی وہ 1917ء میں برپا ہونے والا عظیم انقلابِ روس ہے جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا اور جس کی حاصلات کے خلاف دنیا بھر کے حکمران طبقات اور ان کے زر خرید دانشور، جرائد اور میڈیاآج بھی زہر فشانی کرتے نظر آتے ہیں۔ روس کا سوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے جب آج سے 102سال قبل لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں پہلی بار ایک مزدور ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور انسانی تاریخ میں پہلی بار اکثریت کی حکومت قائم ہوئی اور محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کی یاد حکمران طبقات کی نیند حرام کرنے کے لیے کافی ہے۔ مگر آج پھر عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور ایک نئے بحران کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ امریکہ سے لے کر مشرق بعید تک سیاسی زلزلے اور سماجی دھماکے ہورہے ہیں اور عالمی صورتحال میں ایک بنیادی تبدیلی رونما ہوچکی ہے اور ایک بالکل نئی دنیا ہمارے سامنے ہے جس کا کچھ عرصہ پہلے تک کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ پوری دنیا میں تحریکیں اور انقلابات ابھر رہے ہیں اور حکمران طبقات کی حالات پر گرفت کمزور ہوتی چلی جارہی ہے۔ محنت کش طبقہ پوری دنیا میں پھر سے جدوجہد کے میدان میں اتر چکا ہے اور معروضی حالات کے تحت اس کے شعور میں تیز ترین تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ تحریکیں اور انقلابات آج پھر ایک بہت بڑی تبدیلی کی نوید سنا رہے ہیں اور کمیونزم کا بھوت ایک بار عالمی سرمایہ داری پر منڈلا رہا ہے۔ ایسے میں جہاں انقلابِ روس، اس کے واقعات، حاصلات، بالشویک پارٹی کے کردار اور سوویت کے انہدام کا گہرائی میں مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے وہیں موجودہ عالمی سیاسی و معاشی صورتحال کا ایک درست سائنسی تجزیہ بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ مستقبل کے واقعات کی پیش بینی کرتے ہوئے ان میں شعوری مداخلت کی جاسکے۔
سماجی اتھل پتھل
لینن سماج میں انقلابی صورتحال کے بارے میں عمومی نشانیاں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
1۔ حکمران طبقات میں ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور تضادات کے پھٹ کر منظر پر آنے سے عوام میں ان کی اصلیت اور کردار بے نقاب ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
2۔ درمیانہ طبقہ جو عمومی طور پر سماج اور انقلاب میں کسی ہراول کردار کا متحمل نہیں ہوتا اس کاہیجان اور بے چینی بڑھ جاتے ہیں۔ وہ تیزی سے ایک سے دوسری سمت گردش کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کی یہ انتشاری کیفیت بہت شدت اختیار کر جاتی ہے۔ وہ انقلاب اور ردِانقلاب کے درمیان تیزی سے اپنی حمایت اور رخ بدلنا شروع کرکے تحرک کا شکار ہوجاتا ہے۔
3۔ محنت کش طبقے میں ایک نیا ادراک اور اپنی طاقت کا احساس پیداہونا شروع ہو جاتا ہے۔ عوام کی عمومی سوچ جو معاشی کیفیات کے احساس سے پچھڑ کر چل رہی ہوتی ہے۔ اسے معاشی و سماجی حقائق کی اصلیت کا ادراک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جب یہ پچھڑی ہوئی سوچ اور شعور ان معاشی حقائق کی اصلیت سے اجاگر ہوتے ہیں تو انقلاب شدت سے پھٹ اٹھتا ہے۔
4۔ حکمرانوں کی موجودہ بورژوا ریاست کے درمیان تضادات کی شدت بہت بڑھ جاتی ہے اور اس کا سماجی کنٹرول اور اختیار سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ سماجی عوامل پر اس کی دسترس کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جس سے ریاستی انتشار مزید بڑھنا شروع کر دیتا ہے۔
5۔ ادھر ایک مارکسی انقلابی پارٹی موجود ہو تو اس ابھرتی ہوئی تحریک کو اس کے اپنے تجربات اور بدلتی نفسیات وشعور کے مطابق ایک پروگرام اور لائحہ عمل دے کر اس کو انقلابی سرکشی کے لیے منظم و متحرک کرتی ہے(۔۔۔)۔
ان الفاظ کو پڑھ کر اگر اپنے ارد گرد کی دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو ان میں اکثر مظاہر کم و بیش ہر ملک میں کم یا زیادہ شدت کے ساتھ رونما ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران نے دہائیوں سے چلے آرہے معمول کو توڑ دیا ہے اور عالمی سرمایہ داری کو بنیادوں سے لرزا کر رکھ دیا ہے۔ دہائیوں سے قائم ورلڈ آرڈر ہم آج اپنے آنکھوں کے سامنے ٹوٹ کر بکھرتا دیکھ رہے ہیں۔ امریکی سامراج کے بحران نے عالمی اسٹیٹس کو کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں گو کہ یہ عمل پہلے سے جاری تھا اور مارکس وادی اس کے بارے میں لکھتے چلے آرہے تھے مگر ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اس عمل کو مہمیز ملی اور اگر یہ کہا جائے کہ ٹرمپ امریکی سامراج کے زوال کا ایک مجسم اظہار ہے تو یہ کچھ غلط نہیں ہوگا۔
2011ء کے عرب انقلابات کے بعد سرمایہ داری کے زوال کے عمل رکا نہیں بلکہ اس میں پہلے سے زیادہ تیزی آئی ہے اور آج ہر طرف جنگیں، خانہ جنگیاں اور خونریزی نظر آتی ہے اور سرمایہ داری کے اس تاریخی زوال کے عہد میں حکمران طبقات کی اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کی ہوس نے اس کرۂ ارض پر انسانی تہذیب کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ ان سطروں کو تحریر کرتے وقت پوری دنیا میں نوجوان اور طلبہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ستمبر کے آخری ہفتے میں لگ بھگ دنیا کے ہر ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔
کٹوتیوں اور نجکاری کی شکل میں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی تمام تر قیمت محنت کشوں سے وصول کی جارہی ہے جس کے خلاف ہر ملک میں محنت کش اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کے خلاف تحریکیں اور انقلابات ابھر رہے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک ایکواڈور میں آئی ایم ایف کے مزدور دشمن پروگرام کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہیں اور پولیس اور فوج کی بدترین جبر کے باوجود مظاہرین نے پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا اور حکومت کو دارالحکومت چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ معاشی توازن کو برقرار رکھنے کی حکمران طبقات اور ان کے دانشوروں کی ہر کوشش نے سماجی توازن میں ایسا بگاڑ پیدا کیا ہے کہ اس وقت بڑی بڑی سرمایہ دارانہ ریاستیں کبھی نہ دیکھے گئے بحران کا شکا ر ہیں۔ برطانیہ، جسے سرمایہ داری کی جنم بھومی کہا جاتا ہے، اس وقت بدترین صورتحال میں ہے اور ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ بریگزٹ ایک ایسی پہیلی بن چکا ہے جس کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ یہی بحران کا واضح اظہار ہے کہ حکمران طبقات کو صورتحال کو کنٹرول کرنے کا کوئی بھی قدم نئے تضادات کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور صورتحال مزید الجھ کر رہ جاتی ہے۔
اس نئے عہد اورتبدیل شدہ صورتحال کی اہم خاصیت یہ ہے کہ معاملات اور حالات کو پرانے طریقوں سے چلایا اور کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں ایک طرف محنت کش طبقہ اپنے بقا کی لڑائی لڑ رہا ہے اور اس نظام سے بغاوت کر رہا ہے تو وہیں حکمران طبقات جمہوریت، آئین اور انسانی حقوق کا لبادہ اتار کر ننگے جبر کے ساتھ مزدور دشمن پالیسیوں کو نافذ کررہا ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ قومی سوال پوری شدت کے ساتھ عالمی منظر نامے پر پھر سے ابھر کرسامنے آیا ہے اور وہ تضادات جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ سرمایہ داری ان کو حل کرچکی ہے پھر سے سر اٹھا رہے ہیں۔ کیٹا لونیا سے لے کر کردستان اور کردستان سے لے کر کشمیر ہر جگہ سامراجی ریاستیں ننگے جبر کے ساتھ مظلوم قومیتوں پر جبر ڈھا رہی ہیں جس کے خلاف شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں مودی کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمے کے فیصلے اور دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری بدترین لاک ڈاؤن نے خطے کی صورتحال میں ایک واضح تبدیلی کا نقارہ بجایا ہے تو وہیں اردوگان نے شمالی شام میں کرد علاقوں پرغاصبانہ حملہ کردیا ہے۔ ان اقدامات کے ناگزیر طور پر بھارت اور ترکی کے اندر اثرات مرتب ہوں گے اور تضادات میں اضافہ ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی ننگے جبر کے سہارے تحریکوں کا رستہ نہیں روکا جا سکا۔
ہانگ کانگ کی تحریک نے چینی حکمران طبقے کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں اور بدترین پولیس جبر کے باوجود ہانگ کانگ کی تحریک جاری ہے اور مین لینڈ چین کے اندر ایک انقلابی تحریک کا خیال ہی چینی افسر شاہی کو لرزا کر رکھ دیتا ہے۔یورپی یونین کی وحدت بھی ایک کچے دھاگے سے لٹک رہی ہے اور بریگزٹ سمیت کوئی بھی واقعہ اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ سکتا ہے۔مشرق وسطیٰ میں سامراجی طاقتوں کی جانب سے کھیلی گئی خون کی ہولی کے بعد، جس کے نتیجے میں کئی انسانی المیوں نے جنم لیا اور لاکھوں افراد اس کی بھینٹ چڑھائے گئے، دوبارہ تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ معاشی بحران نے سعودی ریاست کے تضادات کو مہمیز دی ہے اور اس کا خصی پن پوری دنیا پر آشکار ہوچکا ہے اور اس وقت آل سعود کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے۔ سماجی پولرائزیشن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور انتہائی نوعیت کے سیاسی مظاہر ابھر رہے ہیں۔ کبھی پنڈولم بائیں جانب اور دوسرے ہی لمحے دائیں جانب جھکتا نظر آتا ہے۔ ماضی کی سیاسی پارٹیاں جو ایک لمبے عرصے سے اقتدار سے چمٹی ہوئی تھیں کی سماجی بنیادوں کو خاتمہ ہوچکا ہے اور دائیں اور بائیں نئے سیاسی مظاہر ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف جیرمی کوربن، برنی سینڈرز، سائریزا اور پوڈیموس جیسے بائیں بازو کی تحریکیں نظر آتی ہیں تو دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ، بولسونارو، مودی جیسے انتہائی دائیں جانب کے سیاسی مظاہر ابھرے ہیں۔غرض سرمایہ داری کی ہر کڑی کی بنیادوں میں بارودی مواد بھرا ہے جو کسی بھی ایک وقت سماجی دھماکے کی صورت میں پھٹ کر سرمایہ داری کو لرزا کر رکھ سکتا ہے۔ جنگیں، خانہ جنگیاں، انقلابات اور ردانقلابات اس عہد کا خاصہ ہیں۔ اور ہم ایک انتہائی غیر معمولی عہد میں زندہ ہیں جس کی ماضی سے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ سرمایہ داری کے تاریخی بحران کا عہد ہے اور دنیا ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک رستہ سوشلزم کا رستہ ہے جو کہ نسل انسانیت کی بقا اور خوشحالی کی ضمانت دیتا ہے، دوسرا رستہ نسل انسانی کو بربریت کی جانب لے جاتا ہے۔
مگر اس تبدیل شدہ صورتحال کا درست تجزیہ رسمی منطق کے اصولوں سے کرنا ناممکن ہے اور اگر ایسی کوئی کوشش کی بھی جاتی ہے تو کوئی نیا واقعہ پچھلے تجزیے کا منہ چڑانے لگ جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے بڑے بڑے دانشور اور جرائد ماضی کے فار مولوں اور اصولوں کی مدد سے اس تبدیل شدہ صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور ماضی سے کوئی مثال ڈھونڈ کر اس کو انتہائی بھونڈے طریقے سے آج کی صورتحال پر مسلط کرتے نظر آتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں۔ اس عہد میں صرف اسی نظریے اور منطق کی بنیاد پر صورتحال کا درست تجزیہ اور تناظر دیا جاسکتا ہے جو مظاہر کو جامد وساکت دیکھنے کی بجائے اور حرکت میں ان کا مطالعہ اور تجزیہ کرے اور ان کا ماضی اور حال کے ساتھ ایک جدلیاتی تعلق بناتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کرے۔ بدقسمتی سے سرمایہ داری کو نظریہ لبرلزم اور اس کی رسمی منطق ایسا کرنے سے قاصر ہے اور یہ کام بس جدلیاتی منطق سے ہی کیا جا سکتا ہے جو کہ مارکسی نظریے کی بنیاد ہے۔ مارکسزم ہی اب تک کا سب سے جدید نظر یہ ہے اور اسی کی بنیاد پر موجودہ صورتحال کا درست تجزیہ کرتے ہوئے ایک سائنسی تناظر تخلیق کیا جاسکتا ہے۔
اس تبدیل شدہ عہد میں سب سے دلچسپ صورتحال اس وقت امریکی سامراج کی ہے جس پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت کے طور پر ابھرا اور پوری دنیا پر اس نے اپنے سامراجی پنجے گاڑے۔ اس وقت دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی جس میں ایک طرف سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک تھا جو کہ دنیا بھر کی مزدور تحریکوں اور محنت کشوں کے لیے ایک کشش رکھتا تھ ا اور ان کو شکتی دیتا تھا اور دوسری جانب سرمایہ دارانہ مغربی بلاک تھا جس میں یورپ اور امریکہ جیسی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستیں شامل تھیں مگر ان کا سرغنہ امریکی سامراج تھا۔ اس سارے عہد میں سرخ آندھی کا رستی روکنے کے لیے جہاں ایک طرف اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، نیٹو جیسے سامراجی ادارے اور فوجی اتحاد تشکیل دئیے گئے تو دوسری جانب سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا کیا گیا جو کہ آج تک جاری ہے۔ امریکہ میں سوشلزم کے لفظ کوگالی بنا دیا گیا اور ہزاروں کمیونسٹوں کو سخت ترین سزائیں دی گئیں۔ مزدور لیڈران اور ٹریڈ یونیز کو بدترین جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام نے اس عمل کو مزید تیز کیا اور سامراجی طاقتوں نے دیوانہ وار جشن مناتے ہوئے تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا اور کہا گیا کہ سرمایہ داری ہی انسانیت کا مستقبل اور حتمی ننظامہے۔ مگر 2008ء کے معاشی بحران نے تمام تر صورتحا ل کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں جہاں ماضی میں کسی کو گالی دینا مقصود ہو تو اس کو ”Commie“ کہہ کر پکا را جاتا تھا وہاں سوشلزم کے نظریات پھر سے مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ امریکی نوجوان ان نظریات کی طرف رجوع کر رہے ہین اور ایک سروے کے مطابق 44فیصد امریکی افراد نے کہا کہ وہ ایک سوشلسٹ کو امریکی صدر کے طور پر قبول کریں گے۔ اس کو مکافات عمل کہا جائے یا کچھ بھی مگر یہ ایک بہ ت بڑی تبدیلی ہے۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ امریکی سامراج وہ دیو جس کے پاؤں ریت کے ہیں اور آج یہ بات بالکل درست ثابت ہورہی ہے اور امریکہ میں مزدور تحریک ایک لمبے عرصے کے بعد پھر سے زور پکڑ رہی ہے۔ اس وقت کاریں بنانے والی دنیا کی ایک بڑی کمپنی جنرل موٹرز کے چالیس ہزار سے زائد محنت کش ہڑتال پر ہیں۔ ”امریکن ڈریم“ ختم ہوچکا ہے اور بیروزگاری، لاعلاجی، بے گھری اور گرتے معیار زندگی امریکی عوام کے شعور میں تیز ترین تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سٹیٹ آف یونین خطاب میں کہا کہ امریکہ کبھی بھی ایک سوشلسٹ ملک نہیں بنے گا۔ اور ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب دنیا کے نقشے پر کوئی سوویت یونین موجود نہیں۔ یہ اس مر کا واضح اظہا رہے کہ امریکی حکمران طبقہ اس تبدیلی کو محسوس کر رہا ہے اور اس سے خوفزدہ ہے۔خود ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے اقدامات عالمی سرمایہ داری کے بحران کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ تحفظاتی پالیسیاں عالمی تجارت اور عالمی سپلائی چینز کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہیں۔ افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراجی کا خصی پن کھل کر سامنے آچکا اور ٹرمپ تو محض اس ناگزیریت کا ایک مجسم اظہا ر ہے۔ اصل مسئلہ امریکی سرمایہ داری کا ہے جوماضی کی شرح ترقی اور شرح منافع برقرار رکھنے سے قاصر ہے جو کہ امریکی محنت کشوں کے شدید استحصال پر مبنی تھا اور امریکی محنت کش طبقہ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اترچکا ہے۔
معاشی بحران اور بڑھتی طبقاتی خلیج
2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد عالمی سرمایہ داری کو بچانے کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدمات جن میں سستے قرضوں سے لے کر عوامی ٹیکس کے پیسوں سے دئیے گئے اربوں ڈالر بیل آؤٹ پیکجز شامل تھے، نے کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کیا اور ایک نیا معاشی بحران عالمی سرمایہ داری کے سروں منڈلا رہا ہے۔ ایک بڑی کساد بازاری کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے جو کبھی نہ دیکھی گئی معاشی تباہی لے کر آئی گی۔ اس وقت تما اعشاریے کسی معاشی بحالی کی بجائے ایک نئے اور گہرے معاشی بحران کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ شرح ترقی مسلسل کم ہوتی چلی جارہی ہے اور بڑی معاشی گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آئی ایم ایف خود اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ عالمی معیشت سست روی کا شکار ہے۔ امریکہ معیشت اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے اور ٹرمپ اس کا غصہ مانیٹری پالیسی پر اتارتا نظر آرہا ہے۔ پوری دنیا میں صنعتی ترقی گراوٹ کا شکار ہے۔ جرمنی اور فرانس جیسی ترقی یافتہ معیشتوں میں صنعتی بحران کی شدت بڑھتی جا رہی ہے جس کا اظہار کاریں بنانے کی صنعت میں ہورہا ہے۔ چین کا گروتھ ریٹ مسلسل گرتے ہوئے 6فیصد سے نیچے آرہا ہے جو کہ 2000ء کے بعد سب سے کم سطح پر ہے۔ ایسے میں امریکہ چین تجارتی جنگ جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے اور چین کی معیشت میں بڑی گراوٹ سامنے آرہی ہے اور کئی صنعتیں دوسرے ممالک میں منتقل ہو رہی ہیں جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سعودی تیل تنصیبات پر حملہ عالمی معیشت کے لیے کسی زلزلے سے کم نہ تھا اور کمزور عالمی معیشت بمشکل ہی اس کو سہہ پائی جس کے اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے۔ ریاستی قرضے آسمانوں کو چھو رہے ہیں، چین، امریکہ سمیت تما م بڑی معیشتوں کو قرضوں کا کینسر کھوکھلا کر چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹس مندی کا شکار ہیں اور شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے کومل رہا ہے۔ ایسے میں yield curveکا الٹا ہونا ایک خطرے کی گھنٹی ہے او رکوئی بھی ایک واقعہ عالمی معیشت کو ایک کساد بازاری کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ وہ واقعہ برطانیہ کا بغیرکسی معاہدے کے یورپی یونین سے اخراج بھی ہوسکتا ہے یا مشرق وسطیٰ میں سعودی اور ایران کا تنازعہ یا ٹرمپ کی جانب سے نئے محصولات اور چین کا جوابی وار۔ مگر بحران کے باوجود سرمایہ داروں اور بڑی کارپوریشنوں کی دولتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور بحران کی تمام تر قیمت محنت کشوں کے شدید استحصال اور کٹوتیوں سے پوری کی گئی ہے، امیر اور غریب کی طبقاتی خلیج ایک بڑے سمندر میں تبدیل ہوچکی ہے اور ایک طرف بھوک ننگ ہے تو دوسری جانب عیاشیوں کے بھرپور سامان۔ یہ سب صورتحال عوامی شعور پر کوڑے برسا رہی ہے اور وہ اس سے سبق حاصل کر رہے ہیں۔
تیزی سے بدلتا عوامی شعور
سرمایہ داری کا یہ بحران عوامی شعور میں تیز ترین تبدیلیاں لا رہا ہے اور لوگ اس نئی صورتحال کو سمجھ رہے ہیں۔ وہ اس بات کا ادراک حاصل کر رہے ہیں کہ اس نظام میں ان کی زندگیوں میں بہتری کے کوئی امکانات نہیں بلکہ حکمران طبقہ ماضی میں ایک لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی چند مراعات کو چھین رہا ہے، نجکاری اور کٹوتیوں کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ مگر محنت کش طبقہ اس کا بھرپور مقابلہ کر ہا ہے جس کا اظہار امریکہ سے لے کر چین تک محنت کشوں کی تحریکوں میں ہو رہا ہے۔ ہر دوسرے ملک میں ان حملوں کے خلاف ہڑتالیں اور عام ہڑتالیں کی جارہی ہیں اور محنت کش سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسے میں نئے نظریات کی پیاس بڑھتی چلی جا رہی ہے اور محنت کش اپنی جدوجہد کی درخشندہ روایتوں کو جان رہے ہیں۔ ایسے میں یہ مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ سوشلزم کے نظریات ان محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں تک لے کر جائیں اور سرمایہ داری کے خلاف لڑائی کومنظم کریں۔
انقلابی پارٹی کی تعمیر؛ عہد حاضر کا سب سے اہم تقاضا
عرب بہار سے لے کر سوڈانی انقلاب اور اب ایکواڈور میں جاری عوامی تحریک تک پچھلے دس سالوں میں ابھرنے والے تمام انقلابات عوام کے تمام تر تحرک، قربانیوں اور جوش وجذبے کے باوجود حتمی کامیابی حاصل نہ کرسکے اور جس ایک چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس کی گئی وہ ایک ایسی قیادت اور پارٹی کی تھی جو ان تمام تر تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے ان کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی جانب لے جاتی۔ روس اور اس کے بعد پوری دنیا میں ہونے والے انقلابات میں سب سے بنیادی فرق انقلابی پارٹی کا تھا۔
روس میں انقلاب کے وقت بالشویک پارٹی موجود تھی جس کو پچھلے ایک لمبے عرصے کی قربانیوں اور نظریاتی لڑائیوں کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ انقلابی پارٹی انقلاب کے دوران تعمیر نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کی تعمیر کا انتہائی کٹھن کام انقلاب سے پہلے کا ہے جس میں مارکسزم کے نظریات پر کیڈرز کی تربیت کرتے ہوئے اور محنت کشوں کی روز مرہ کی لڑائیوں میں حصہ لیتے ہوئے انقلابی پارٹی کی تعمیر کا کام آگے بڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے مگر ناگزیر ہے۔ یہی عہد حاضر کا سب سے اہم تقاضا ہے۔ 1917ء میں یہ بالشویک پارٹی اور لینن اور ٹراٹسکی ہی تھے جنہوں نے درست نعرے اور پروگرام دیتے ہوئے محنت کش طبقے اور کسانوں کی وسیع تر حمایت جیتتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور ریاست کی بنیاد رکھی۔ تمام تر اقتدار مزدوروں اور کسانوں کی سوویتوں کو منتقل کیا گیا اور ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جس میں ایک باورچی بھی وزیر اعظم بن سکتا تھ ااور وزیر اعظم باورچی۔ نجی ملکیت کی لعنت کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام تر ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے مزدوری کے جمہوری کنٹرول میں دیا گیا اور پیداوار کو منافع کی بجائے عوامی ضروریات پورا کرنے کی جانب موڑ دیا گیا۔ غربت، بیروزگاری، جہالت اور لاعلاجی کا خاتمہ کیا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا اور صنفی امتیاز پر مبنی تمام تر کالے قوانین اور رسوم ورواج کا خاتمہ کیا گیا۔ گھریلو غلامی نجات کے لیے عوامی باورچی خانے،کپڑے دھونے کے مراکز، کھانے کے لیے میس،ڈے کئیر سنٹر اور زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹی جیسی مراعات دی گئیں۔ مظلوم قومیتوں پر جبر کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک رضاکارانہ فیڈریشن تشکیل دی گئی۔ جاگیرداری کا خاتمہ کیا گیا اور کسانوں کی ان کی غلامی سے نجات دلائی گئی۔ پنج سالہ منصوبوں کے تحت سماجی کی ترقی کا آغاز ہوا۔ تمام ترسامراجی حملوں کے باوجود ایک انتہائی پسماندہ روس منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر سوویت یونین دنیا کے نقشے پر ایک سپر پاور کے طور پر ابھرا۔
لیکن آج جہاں سوویت یونین اور منصوبہ بند معیشت کی حاصلات کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے وہیں اس کے انہدام کی وجوہات کا بھی سائنسی طریقے سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ مارکس اور لینن کے حقیقی نظریات سے غداری تھی۔ لینن کی وفات کے بعد ابھرنے والی افسر شاہی نے سٹالن کی قیادت میں منصوبہ بند معیشت کا گلا گھونٹ دیا جس کے خلاف ٹراٹسکی جدوجہد کرتا رہا لیکن پہلے اس کو سوویت یونین سے بے دخل کیاگیا اور بعدازاں قتل کروا دیا گیا۔لینن نے کہا تھا کہ مزدور ریاست کے لیے جمہوریت ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے آکسیجن،لیکن سٹالنسٹ افسر شاہی نے مزدور ریاست کو مسخ کرتے ہوئے جمہوریت کا قلع قمع کیا اور اپنا بیوروکریٹک کنٹرول اس مزدور ریاست پر مسلط کر دیا اور اس کیخلاف ابھرنے ولی ہر آواز کو کچلا جاتا رہا۔ اسی باعث یہ مزدور ریاست دم گھٹنے کے باعث زوال پذیر ہوئی اور بالآخر 1991ء میں اس کا انہدام ہو گیا۔روس میں سرمایہ دارای کی استواری کے بعد امارت اور غربت کی خلیج دوبارہ اپنی انتہاؤں تک پہنچ چکی ہے اور روس کا محنت کش طبقہ آج پھر غربت اور محرومی کی زندگی گزار رہا ہے۔ مشرقی یورپ اور دیگر ایسے ممالک جہاں منصوبہ بند معیشت انقلابات کے بعد کسی نہ کسی شکل میں قائم ہوئی تھی وہاں بھی عوام کی حالت آج انتہائی بد تر ہوچکی ہے اور آبادی کی اکثریت اسی نظام کی طرف واپس جانے کی خواہشمند ہے جس میں بنیادی ضروریات کی ذمہ دار ریاست ہو۔
1917ء کا انقلاب اور اس کے بعد مزدوروں کوحاصل ہونے والی کامیابیاں انسانی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور مزدور طبقے کے بہتر مستقبل کی جانب سفر کے لیے مشعل راہ ہیں۔اس انقلاب سے محنت کشوں کو نہ صرف روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم مزدور ریاست کی جانب سے مہیا کیا گیا بلکہ سماج کی تیز رفتار ترقی کا انسانی تاریخ میں ریکارڈ قائم ہوا۔ کروڑوں افراد چند سالوں میں غربت اور ذلت کی زندگی سے نکل کر ترقی یافتہ معیار زندگی گزارنے لگے اور سماج کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ اس کے اثرات دنیا بھر میں مرتب ہوئے اور مغربی ممالک میں سرمایہ داروں کو انقلابی تحریکوں کی سرکشی روکنے کے لیے فلاحی ریاست کو قائم کرنا پڑا۔ پوری دنیا میں محنت کشوں کو مستقل روزگار، پنشن اور دیگر بنیادی مراعات کا حصول ہوا اور مزدور طبقے کی زندگیوں میں ایک بنیادی تبدیلی نظر آئی۔ لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ حاصلات پوری دنیا سے ختم ہوتی جا رہی ہیں اور آج پھر محنت کش طبقہ ایک صدی پہلے سے بھی بدتر حالات سے دوچار ہے۔ ایسے میں اس عظیم انقلاب کی میراث کو زندہ رکھنا اور اس کا پیغام محنت کشوں تک لے کر جانا آج کے انقلابیوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔
آج دنیا ایک بار پھر بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ہر ملک میں انقلابات اور تحریکیں ابھر رہی ہیں۔روس میں پیوٹن کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کیخلاف عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور اس کے آمرانہ طرز حکومت کیخلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔ عالمی سرمایہ داری کی بنیادوں میں بارود بھرا ہوا جو کہ ایک بہت بڑے دھماکے کی صورت میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ انقلاب روس کے درخشاں باب کا بغور مطالعہ کیا جائے اور بالشویک پارٹی کی طرز پر ایک عالمی پارٹی کی تعمیر کی جائے۔ عالمی مارکسی رجحان پوری دنیا میں ایک ایسی ہی عالمگیر محنت کشوں کی پارٹی تعمیر کر رہا ہے۔ آئیے اس کا حصہ بنیں اور انسانیت کو سرمایہ داری کی غلاظتوں سے نجات دلانے کے لیے ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کی تیاری کی جائے۔سماج کی ایک سوشلسٹ تبدیلی ہی آج انسانیت کے پاس واحد رستہ ہے۔ جیسا انقلاب روس کے لیڈر ٹراٹسکی نے کہا:
”انسان کی جسمانی اور روحانی فطرت کو کیسے پرورش دی جائے، اسے کس طرح مطابقت اور یگانگت سے لیس کیا جائے اور اسے کیسے بہتر بناتے ہوئے خوبصورت بنایا جائے؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے مگر جس کے جواب اور حل کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا صرف سوشلزم کے تحت ہی ممکن ہوسکتا ہے۔“