|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
پچھلی ہفتہ وار چھٹیوں میں روس کے اندر رونما ہونے والے واقعات نے ہر قسم کی افواہوں اور چہ مگوئیوں کو جنم دیا ہے۔ جمعے کی شام کو ویگنر گروپ (پرائیویٹ فوج جو پیسوں کیلئے کام کرتی ہو) کے سربراہ اولیگارش (بڑا کاروباری شخص جو کافی سیاسی اثر رسوخ بھی رکھتا ہو) یف گینی پری گوزن نے ایک ”انصاف کا مارچ“ شروع کر دیا جس کا مقصد روسی افواج کے سربراہ اور وزیر دفاع کی معطلی تھا۔ ہفتے کے دن اس نے روستوف آن ڈان شہر اپنے کنٹرول میں لے لیا اور بھاری اسلحہ کے ساتھ ماسکو کی طرف مارچ شروع کر دیا۔ پیوٹن نے اس کی شدید سرزنش کرتے ہوئے اسے غدار قرار دے دیا اور عہد کیا کہ اس سارے عمل میں شامل تمام افراد کو کڑی سزا دی جائے گی۔ لیکن اس دن کے اختتام پر پری گوزن کی فوج نے اچانک پیش قدمی روک کر واپسی کا راستہ اختیار کر لیا اور ایک معاہدے کا اعلان کر دیا گیا جس کو بیلاروسی صدر لوکاشینکو نے ممکن بنایا ہے۔ اس ساری صورتحال میں شامل مختلف افراد کے ارادوں پر پُراسراریت کا پردہ ہے لیکن ان واقعات نے یوکرین میں روسی جنگ اور پیوٹن آمریت کے کردار کے حوالے سے بہت زیادہ مفید معلومات فراہم کی ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کھوکھلے تجزیوں سے بہتر ہے کہ سب سے پہلے حقائق پر توجہ کی جائے۔ جمعے کے دن 23 جون کو پری گوزن نے کچھ اشتعال انگیز ویڈیوز جاری کیں جن میں یوکرین پر فوج کشی کے حوالے سے روسی وجوہات پر سوالات اٹھائے گئے۔ اس کے مطابق یہ غیر ضروری تھی، روس کو یوکرین سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور جب صدر ولودیمیر زیلنسکی برسراقتدار آیا تو اس وقت روس کو اس کے ساتھ ایک معاہدہ کر لینا چاہیے تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ”روسی شہریوں کو اپنی آغوش میں لینے یا یوکرین کو اسلحہ اور نازی ازم سے پاک کرنے کے لئے جنگ کی ضرورت نہیں تھی۔ جنگ کی ضرورت صرف اس لئے تھی کہ درندوں کا ایک ٹولہ اس کے جاہ جلال میں سرشار ہو جائے“۔ ظاہر ہے یہ بیانات جنگ کے آغاز میں خود پری گوزن کے اپنے تمام بیانات سے مختلف تھے۔
اس نے ایک مرتبہ پھر وزیر دفاع سرجی شوئگو اور روسی مسلح افواج کے سربراہ والیری گیراسیموف پر حملہ کرتے ہوئے روسی جنگ میں ان کی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ انہیں ہٹایا جائے۔ اس کے مطابق ”ویگنر کمانڈرز نے فیصلہ کر لیا ہے۔ ملک کی فوجی قیادت کی پھیلائی ہوئی بدی کو روکنا لازم ہے“۔ پھر اس نے اعلان کیا کہ ویگنر جنگجو روستوف پر قبضہ کریں گے اور جو بھی راستے میں آیا اسے ”تباہ کر دیا جائے گا“۔
یہ ایک سنجیدہ چیلنج تھا جسے روسی حکام نے فوری طور پر بغاوت کی کوشش قرار دے دیا اور اعلان کیا کہ وہ پری گوزن کے خلاف ”مسلح بغاوت“ کی پاداش میں مجرمانہ تفتیش کا آغاز کریں گے۔ پری گوزن نے فوجی افسران اور سپاہیوں کو اپیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا کہ ”یہ ایک فوجی بغاوت نہیں بلکہ انصاف کا مارچ ہے“۔
سلگتے مسائل پھٹ کر سامنے آ گئے
پری گوزن نے پہلی مرتبہ فوجی قیادت پر تنقید نہیں کی ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے تناؤ مسلسل بڑھ رہا تھا اور ویگنر گروپ کا سربراہ الزامات لگا رہا تھا کہ اس کے سپاہیوں کو جنگ لڑنے کے لئے درکار اسلحہ اور دیگر وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔ پھر مسلسل چپقلش کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنگی محاذ پر کامیابیوں کا سہرا کس کے سر بندھے گا۔ اس مسئلے نے خاص طور پر باخموت کی طویل جنگ میں سر اٹھایا جس میں ویگنر جنگجوؤں (ان میں سے کئی کو روسی جیلوں سے ریکروٹ کیا گیا ہے) نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ تھا۔ یوکرین جنگ کے ایک مخصوص مرحلے پر جب جنگی حکمت عملی ناکارہ ہو گئی اور پیوٹن پوری فوج کو اس لئے متحرک نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اس کے سیاسی مسائل بنیں گے، اس نے فیصلہ کیا کہ ایک نجی فوجی کنٹریکٹر (کرائے کے قاتلوں کے لئے قابل قبول نام) ویگنر گروپ کی قوتوں پر انحصار کیا جائے جس کا سربراہ اس کا دوست اور اولیگارش پری گوزن تھا۔ ویگنر افواج کو پہلے بھی روس افریقہ اور اس سے پہلے شام میں استعمال کر چکا تھا تاکہ مختلف افریقی ریاستوں کو ان کرائے کے فوجیوں کی سروسز فراہم کر کے اپنا اثرورسوخ بڑھایا جائے۔ یہ ایک عمومی رجحان کا حصہ ہے جس کے مطابق جنگ کے مخصوص پہلوؤں کو نجی کمپنیوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ نے اربوں ڈالر ان نجی فوجی کنٹریکٹروں (جیسے بدنام زمانہ بلیک واٹر) کی خدمات حاصل کرنے پر خرچ کیے ہیں جو دیگر خطوں سمیت افغانستان اور عراق میں سامراجی جنگوں کے لئے ہزاروں جنگجو مرد اور خواتین سپلائی کرتے رہے ہیں۔
یوکرین جنگ میں ویگنر گروپ کا استعمال پری گوزن کے لئے بہت زیادہ منافع بخش رہا جس نے جنگ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی جیب بھرنے کے ساتھ اپنے اثرورسوخ میں بھی اضافہ کیا اور بلاگرز اور ٹیلی گرام گروپ”عسکری ماہرین“ کے ذریعے اپنی شخصیت کا پرچار بھی کیا۔ ان حرکتوں سے وہ براہ راست فوجی قیادت کے ساتھ متصادم ہو گیا۔
باخموت کی جنگ ختم ہونے کے بعد فوجی قیادت نے سمجھا کہ اب ویگنر گروپ کے خلاف کاروائی کرنے کا اچھا موقع ہے۔ ایک فیصلہ کیا گیا کہ تمام ویگنر ممبران جو یوکرین جنگ میں متحرک رہنا چاہتے ہیں انہیں وزارت دفاع کے ساتھ انفرادی کنٹریکٹ کرنا ہو گا۔ اس سے موجودہ جنگ میں پری گوزن کا منافع بخش کاروبار ختم ہو گیا لیکن ساتھ ہی اس میں پنپنے والے سیاسی عزائم کو بھی شدید ٹھیس پہنچی۔ اس نے اعلان کر دیا کہ اس کا کوئی جنگجو اس طرح کا کنٹریکٹ نہیں کرے گا۔
پیوٹن اب تک روایتی بوناپارٹسٹ (Bonapartist) انداز میں شوئگو اور پری گوزن کے درمیان توازن بنا کر چل رہا تھا لیکن عوام میں اس فیصلے کی حمایت اس کے کرائے کے جنگجو اولیگارش دوست کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ ایک بوناپارٹسٹ کبھی بھی کسی ایسے شخص کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دے سکتا جس کے عزائم اس کی طاقت سے متصادم ہوں۔
پری گوزن کے پاس اب دو ہی راستے تھے۔۔۔مطالبہ مان لیا جائے اور یوکرین جنگ میں ویگنر کی شمولیت ختم ہو جائے یا فیصلے کی مخالفت میں طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیوٹن سے بہتر ڈیل بنا لی جائے۔ اسی ضمن میں وہ حال میں یوکرینی جوابی کاروائیوں کی کامیابی کے حوالے سے بھی بیانات دیتا رہا ہے۔ وہ یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ اس کے اپنے جنگجو۔۔۔تعداد میں معقول، تجربہ کار اور جنگی سختیوں میں پختہ۔۔۔محاذ پر ناگزیر ہیں۔
24 جون کو ہفتہ کے دن اس کی فوج نے روستوف میں کئی اہم عسکری عمارات پر ایک گولی چلائے بغیر قبضہ کر لیا جن میں فوج کا جنوبی عسکری ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اور ایئر فیلڈ بھی شامل تھے۔ ٹیلی گرام پر چلائی گئی ایک ویڈیو میں پری گوزن کو ہیڈکوارٹر میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ ڈپٹی وزیر دفاع یف کوروف اور روسی فیڈریشن کے ڈپٹی چیف جنرل سٹاف الیکسیف سے بات کر رہا ہے۔
صبح 7:30 بجے لگائی جانے والی ایک ویڈیو میں پری گوزن وزیر دفاع شوئگو اور روسی جنرل سٹاف کے چیف گیراسیموف کی ”حوالگی“ کا مطالبہ کر تے ہوئے کہہ دھمکی دے رہا ہے کہ بصورت دیگر وہ ”ماسکو آئے گا“۔
صبح 10:00 بجے پیوٹن نے ٹی وی پر ایک تقریر کی۔ اس نے کہا کہ ”ایسا کام جو ہمارے اتحاد کو توڑے ہمارے ملک اور عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا ہے۔ اور اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے ہر کام جابرانہ ہو گا۔۔۔جنہوں نے فوجی بغاوت تیار کی، جنہوں نے اپنے برادر سپاہیوں کے خلاف بندوق اٹھائی، انہوں نے روس کو دھوکہ دیا ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کریں گے“۔
اس دوران اس کی حقیقی پوزیشن بھی واضح ہو گئی جب اس نے ویگنر جنگجوؤں سے اپیل کی کہ وہ ”سولیدار اور آرتیم وسک، ڈونباس کے قصبوں اور شہروں کو آزاد کرانے والے سورماء ہیں۔ انہوں نے جنگ لڑی اور نووروسیا اور روسی دنیا کے اتحاد کے لئے جانیں دی ہیں۔ اس بغاوت کو منظم کرنے والوں نے ان کا نام اور ان کے کارناموں کو بھی مسخ کر دیا ہے“۔
یہ قابل ذکر ہے کہ پیوٹن نے موجودہ صورتحال کو 1917ء سے تشبیہ دی ہے:
”اسی طرح کا حملہ 1917ء میں بھی ہوا تھا جب ملک پہلی عالمی جنگ میں تھا لیکن اس کی فتح چوری کر لی گئی۔ فوج کی پیٹھ پیچھے سازشیں اور بحثیں سب سے بڑی تباہی تھیں، فوج اور ریاست کی تباہی، دیوہیکل علاقوں کا کھو جانا، جس کا نتیجہ ایک المیہ اور خانہ جنگی تھے“۔
ظاہر کے یہ سب بکواس ہے کیونکہ یہ پہلی عالمی جنگ تھی جس نے فروری 1917ء انقلاب کو جنم دیا تھا۔ لیکن اس سے پیوٹن کے زار نواز سامراجی اور رجعتی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ سب کو واضح ہونا چاہیے (ایک سال پہلے اس نے فوج کشی کا جواز پیش کرتے ہوئے لینن اور بالشویکوں پر بھی شدید تنقید کی کہ انہوں نے یوکرین کو مصنوعی طور پر تخلیق کیا تھا)۔ لیکن اس سب کے باوجود روسی فیڈریشن کی ”کمیونسٹ“ پارٹی اور دیگر ”کمیونسٹ“ پارٹیاں بے شرمی سے پیوٹن کی حمایت کر رہی ہیں یا ان کو اس کی آمریت کے ”ترقی پسند“ کردار اور یوکرین میں جنگ کے حوالے سے خوش فہمی کا شکار ہیں۔
مایوس کن اور شکست خوردہ مہم جوئی
پیوٹن کو چیلنج کرنے کے بعد اور اس کی طرف سے سخت رویے کے نتیجے میں پری گوزن کے پاس مہم جوئی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ شائد وہ اندازہ لگا رہا تھا یا اسے امید تھی کہ فوج، افسران بالا اور عمومی طور پر ریاست اور سیاسی نظام میں اس کی وسیع پیمانے پر حمایت موجود ہے۔
اس کے چند ہزار بھاری اسلحے سے مسلح جنگجوؤں نے دن میں برق رفتاری سے ماسکو کی طرف پیش قدمی کی۔ شہروں اور قصبوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے برعکس ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے انہیں ماسکو پہنچنے کی بہت جلدی ہے، اس سے پہلے کہ روسی فوج منظم ہو کر ان کا راستہ روک دے۔
اس کے کیا عزائم تھے؟ فنانشل ٹائمز میگزین کے میکس سیڈون نے کسی کا تذکرہ کرتے ہوئے، جو ”جنگی سردار کو 1990ء کی دہائی سے جانتا ہے“، پری گوزن کے عزائم پر لکھا ہے کہ:
”میرا نہیں خیال کہ اس کے ذہن میں کوئی خاص ہدف تھا۔ اس نے بس فیصلہ کر لیا کہ وہ جا کر پیوٹن کو قائل کرے گا کہ جو پیسہ اس سے لے لیا گیا ہے وہ اسے لوٹا دیا جائے۔۔۔پھر صورتحال بالکل ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ ایک لمحے پر اسے احساس ہوا کہ اسے نہیں پتا آگے کیا کرنا ہے۔ ماسکو پہنچ گئے اور پھر؟ تم ایک درجن جیلوں کے دروازے کھول دو گے، کچھ ناقابل یقین پاگل باہر نکل آئیں گے، ملک برباد ہو جائے گا اور پھر تم کریملن پہنچ جاؤ گے۔۔۔پھر تمہیں کچھ نہیں پتا آگے کیا کرنا ہے“۔
یہ بات معقول لگتی ہے۔ اس وقت تک کوئی خاص مسلح جھڑپ نہیں ہوئی تھی۔ پری گوزن کو اگر کوئی مزاہمت ہوئی تو وہ ایئر فورس کی جانب سے تھی جس کا ویگنر نے مقابلہ کرتے ہوئے کئی ہیلی کاپٹر مار گرائے۔ شام تک ویگنر فوج لی پیتسک خطے میں ایلیٹس پہنچ چکی تھی جو ماسکو سے محض 250 میل دور ہے۔ اس وقت تک برق رفتاری اور حیرانگی ان کا ہتھیار تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوجی قیادت کسی فوج کو محاذ سے ہٹا کر محاذ کمزور نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ یوکرین اس ساری صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ماسکو کی جانب سڑک پر موجود کم مسلح اور کم تجربہ کار رنگروٹوں کا کوئی موڈ نہیں تھا کہ وہ بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگی تجربہ کار کرائے کے قاتلوں سے محاذ آرائی کریں۔
لیکن آخر کار چیچن افواج نے آ کر روستوف آن ڈان کو گھیرے میں لے لیا اور ماسکو کے داخلی راستوں پر عسکری حفاظتی انتظامات کر لئے گئے۔
پھر کہانی میں اچانک ایک اور موڑ آیا۔ شام 8:30 بجے بیلاروسی میڈیا نے اعلان کیا کہ صدر لوکاشینکو نے ایک معاہدہ کروا دیا ہے اور پری گوزن نے اعلان کیا کہ ”ایک ایسے نکتے پر جہاں سے آگے کشت و خون ہونا تھا“، اس کی فوج دارالحکومت سے واپس پلٹ گئی ہے۔
صدارتی ترجمان نے معاہدے کی شقیں بیان کی ہیں جن کے مطابق جن ویگنر جنگجو ؤں نے مسلح بغاوت میں حصہ نہیں لیا انہیں یوکرین میں موجود فوج میں شمولیت اختیار کرنے کی اجازت ہو گی جبکہ جنہوں نے اس بغاوت میں حصہ لیا ہے، ان پر ”ان کی عسکری سروس“ کی بنیاد پر کوئی قانونی کاروائی نہیں ہو گی۔ پھر پری گوزن کے خلاف ایک مجرمانہ تفتیش کو ختم کر دیا جائے گا اور اسے بیلاروس جانے کی اجازت ہو گی۔ رات 11:00 بجے ویگنر فوج اور خود پری گوزن نے روستوف آن ڈان چھوڑ دیا۔
یہ واضح ہے کہ ویگنر کو یوکرین جنگ سے ہٹانے یا کم از کم اسے فوجی کمانڈ کے تابع کرنے کا ہدف حاصل کیا جا چکا ہے اور کسی بڑے جانی نقصان کے بغیر مسلح بغاوت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ پری گوزن کے پاس اس معاہدے کو قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کو اپنے اقدامات میں کوئی حمایت نہیں ملی اور اسے اندازہ تھا کہ اگر وہ ماسکو میں داخل ہو بھی جائے تو وہ فوج کے ساتھ کھلی جنگ جیت نہیں سکتا۔ اس نے کم از کم اپنی جان بچا لی اور شائد اسے اپنے اثاثے اور افریقہ میں ویگنر کے منافع بخش آپریشن بھی رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔
بہرحال چوروں میں کوئی ایمانداری نہیں ہوتی اور اب جبکہ پری گوزن ہتھیار ڈال چکا ہے تو اس کی پوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے۔ 26 جون پیر کی صبح کو روسی میڈیا نے رپورٹ دی کہ ”ایک مسلح بغاوت منظم کرنے کے جرم کا کیس، جس کا مرکزی مدعا علیہ پری گوزن ہے، تاحال ختم نہیں ہوا ہے اور FSB (فیڈرل سیکورٹی سروس۔۔۔روسی خفیہ ایجنسی۔ مترجم) کے محکمہ تفتیش کا ایک تفتیشی اس کی تفتیش کر رہا ہے“۔
کچھ نے تجزیہ کیا ہے کہ پیوٹن جیسا بوناپارٹسٹ اگر ایک جرم معاف نہیں کر سکتا تو وہ دھوکہ ہے۔ پری گوزن کو اب پتا چلے گا کہ زندگی گزارنا بہت مشکل کام ہے!
خطرہ ٹل چکا لیکن تضادات موجود ہیں
یہ واضح ہے کہ یوکرین جنگ میں کامیابی کی کوشش میں پیوٹن نے کرائے کی فوج کو استعمال کرنے کا ایک بہت بڑا جوا کھیلا تھا کیونکہ یہ فوج اس کے یا چین آف کمانڈ کے براہ راست کنٹرول میں نہیں تھیں۔ ریاست کی تشدد پر اجارہ داری جزوی طور پر ختم ہو گئی تھی۔ یہ صرف ویگنر کا مسئلہ نہیں ہے۔ ریاستی توانائی کمپنی گازپروم کو بھی اپنی ایک ملیشیاء بنانے کی اجازت مل گئی ہے۔
لیکن پری گوزن آپے سے باہر ہو گیا اور اس کے اپنے عزائم پیدا ہو گئے تھے۔ اس خطرے کو ہر صورت ختم کرنا تھا۔ پیوٹن کے خلاف کھلی بغاوت میں پری گوزن کو وہ حمایت نہیں ملی جس کی اسے امید تھی اور اب اس کا ڈنگ نکالا جا چکا ہے۔ ابھی تک تو ایسا لگتا ہے کہ شوئگو اور گیراسیموف اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر پری گوزن کی شکست مکمل ہو جائے گی اور اس نے محض اپنے مخالفین کو ہی مضبوط کیا ہے۔
عالمی مارکسی رجحان کے روسی کامریڈز نے نشاندہی کی ہے کہ درحقیقت روسی محنت کش طبقے کی نظر میں پیوٹن اور پری گوزن کے درمیان کسی ایک کو چننا کوئی انتخاب نہیں تھا۔ یہ ایک رجعتی اولیگارش اور ایک رجعتی اولیگارش آمریت کے درمیان ایک لڑائی تھی جس کا جوہر اقتدار اور طاقت کی عمومی تقسیم اور لوٹ میں حصے داری تھا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ مغربی سامراجی بغلیں بجا رہے تھے کہ ہو سکتا ہے پری گوزن، ایک رجعتی کرائے کا قاتل، کامیاب ہو جائے۔ حکمران طبقے کے زیادہ سنجیدہ دماغ زیادہ محتاط تھے۔ فنانشل ٹائمز نے اداریے میں لکھا کہ ”ہفتہ وار چھٹی میں رونما ہونے والے پریشان کن واقعات ایک یاددہانی بھی ہیں کہ اگر کبھی پیوٹن کا تختہ الٹ گیا تو یہ زیادہ سخت گیر عناصر کے ہاتھوں ہو سکتا ہے جو یوکرین میں اور زیادہ پرتشدد اور جابرانہ جنگ کے خواہاں ہیں“۔
مغربی سرمایہ دارانہ میڈیا ہر قسم کی افواہوں سے بھرا پڑا تھا کہ یہ پیوٹن کا خاتمہ ہے، یوکرین میں روسی جنگ بس اب ختم ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ درحقیقت مغربی انٹیلی جنس اور یوکرین ہائی کمانڈ نے تبصرہ کیا ہے کہ ان تمام واقعات کے دوران محاذ پر کہیں بھی روسی لائن میں دراڑ نہیں آئی۔
اس طرح کے واقعات کے دوران بہتر ہے کہ چہ مگوئیوں سے اجتناب کرتے ہوئے جو جانکاری ہے اسے ملحوظ نظر رکھا جائے۔ یہ بھی اہم ہے کہ صبر کے ساتھ حقائق کو ظاہر ہونے دیا جائے۔
اب تک جتنے اہم اولیگارش ہیں وہ پیوٹن کی حمایت میں موجود ہیں۔ فوجی افسران میں سے کوئی حصہ پری گوزن کی حمایت میں باہر نہیں نکلا اور اسے عوام کے کسی حصے کی حمایت بھی نہیں ملی۔ ٹھوس نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ویگنر گروپ اور خاص طور پر پری گوزن کا پیوٹن کو براہ راست خطرہ ختم ہو چکا ہے جس پر پیوٹن کام کر رہا تھا۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پیوٹن آمریت میں چین کی بنسی بج رہی ہے؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ پری گوزن مہم جوئی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آمریت میں تضادات موجود ہیں۔ فی الحال ان پر ملمع کاری ہو گئی ہے اور پیوٹن ”وطن عزیز“ کے دفاع کی ضرورت کے اردگرد تمام قوتوں کو مجتمع کر لے گا۔ پری گوزن کی مہم جوئی کا فوری خاتمہ ان سب کے لئے ایک پیغام ہے جو اس کی حمایت کا سوچ رہے تھے۔
لیکن مستقبل میں، آج نظر آنے والی چھوٹی دراڑ ایک دیوہیکل کھائی بن سکتی ہے۔ اس وقت صورتحال۔۔۔یوکرین میں مزید جنگ اور نوجوانوں کی مزید اموات کے بعد۔۔۔تیزی سے تبدیل ہو سکتی ہے اور 1917ء کی یاد پیوٹن پر عذاب بن کر نازل ہو سکتی ہے۔ اس طرح کی مسخ شدہ نہیں جیسے اس نے پری گوزن سے جوڑ کر پیش کی ہے بلکہ ایک حقیقی محنت کش انقلاب کی شکل میں جو تمام اولیگارشوں اور ان کی آمریت کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔