|تحریر: ولید خان|
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے۔ اس حقیقت کی سب سے اہم جھلک 11 جون کو دیکھنے میں آئی جب روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید 3.69 فیصد کمزورہوا اور انٹر بینک ریٹ 119.85/120.05 تک پہنچ گیا۔12جون کو روپے کی قدر میں مزید گراوٹ دیکھنے میں آئی اور منڈی میں دباؤ کی وجہ سے ڈالر 122 روپیہ پر بھی فروخت ہو رہا ہے۔ روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق منڈی میں اس وقت ڈالر خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور سوائے چند ایکسچینج کمپنیوں کے ڈالر کہیں سے بھی دستیاب نہیں ہے۔جن لوگوں کو عید پر مقامی کرنسی کی اشد ضرورت ہے وہ بھی ڈالر کی انتہائی کم مقدار فروخت کر رہے ہیں کیونکہ عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں روپے کی قدر میں مزید گراوٹ ہو گی ۔ اسی لیے ہر کسی نے ڈالر کی فروخت کو روک رکھا ہے۔پاؤنڈ، یورو اور ریال کی صورتحال بھی اسی قسم کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عید سے چند روز قبل ایسی صورتحال پہلی دفعہ دیکھنے میں آئی ہے کیونکہ عید کے دنوں میں خریداری اور دیگر اخراجات کے لیے بڑے پیمانے پر کرنسی ایکسچینج کروائی جاتی تھی اور ان دنوں میں روپے کی قدر مستحکم ہوتی تھی۔ اس کی ایک وجہ عید کے دنوں میں بیرون ملک سے ہونے والی ترسیلات زر میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔لیکن اس دفعہ مخدوش معاشی صورتحال کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں بدترین گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ روپے کی قدر کم ہو رہی ہے۔روپے کی قدر میں حالیہ کمی معیشت کی بد ترین صورتحال کے باعث ہے جس میں تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر کو استعمال کرتے ہوئے روپے کی قدر میں گراوٹ کو روکنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن ایسا کرنے سے زر مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوں گے اور معیشت کا انتشار شدت اختیار کرسکتا ہے۔
روپے کی قدر میں گراوٹ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے بھی جڑا ہوا ہے جس میں دنیا بھر کی کمزور معیشتوں کی کرنسیاں شدید دباؤ کا شکار ہیں اور ان کی کرنسی تیزی سے گر رہی ہے۔ ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں اس سال بیس فیصد تک گراوٹ ہو چکی ہے اور وہاں کے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں خاطر خواہ اضافے کے باوجود اس گراوٹ کو ابھی تک روکا نہیں جا سکا۔اسی طرح ملائشیا، انڈونیشیا، برازیل ، ہندوستان ، جنوبی افریقہ اور دیگر نام نہاد ’ابھرتی معیشتوں ‘کی کرنسی کی قدر میں گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ عالمی معیشت پر کالے بادل منڈلا رہے ہیں۔ارب پتی جارج سورس پہلے ہی ایک نئے عالمی مالیاتی بحران کی چتاونی دے چکا ہے۔ایسے میں پاکستانی روپے کی قدر آنے والے عرصے میں مستحکم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
یہ صورتحال ان معیشت دانوں اور سیاست دانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو سی پیک کو ترقی کا زینہ قرار دے رہے تھے۔ ان کے مطابق چین کی اتنی بڑی سرمایہ کاری سے معیشت ترقی کرے گی اور یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔لیکن اس وقت بھی مارکسی یہ کہہ رہے تھے کہ بیرونی سرمایہ کاری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور چین کی تمام تر سرمایہ کاری قرضوں پر مشتمل ہے جو پاکستانی معیشت کو مزید تباہ کرنے کا باعث بنے گی۔حالیہ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اسی کا شاخسانہ ہے جبکہ صنعتوں کی بڑے پیمانے پر بندش کے باعث برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے۔
کرنسی میں حالیہ گراوٹ نئی نہیں ہے۔ گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک یہ روپے کی قدر میں چوتھی گراوٹ ہے جس کے بعد سات ماہ میں روپیہ اپنی قدر کا 14 فیصد سے زائد کھو چکا ہے۔ حالانکہ مارچ میں قدر میں کمی کے بعدسٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ نے قدر میں مزید کمی کو خارج از امکان قرار دے دیا تھا جبکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے نوید سنائی تھی کہ درآمدات میں اضافے کے بعد اب قدر میں کمی کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں۔ سٹیٹ بینک کے حالیہ اعلامیے کے مطابق قدر میں کمی کی ایک اہم وجہ برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں مسلسل اضافہ ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ صرف مئی 2018ء میں درآمدات بل8 5.ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ درآمدات مستقل غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ پر دباؤ بڑھا رہی ہیں جس کی وجہ سے یکم جون 2018ء تک پاکستان کے پاس 10.02 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے تھے جو بمشکل دو مہینے کی درآمدات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ یعنی حقیقی معنوں میں پاکستانی ریاست اس وقت دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ذیلی سطح کے مذاکرات عبوری حکومت کے ذریعے شروع کر دیئے ہیں جس پر نئی حکومت آ کر دستخط کرے گی۔ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اس خبر کی تردید کی ہے لیکن منڈی میں قیاس یہی کیا جا رہا ہے کہ قرضے کے حصول کو آسان بنانے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ بلوم برگ کی مارچ 2018ء رپورٹ کے مطابق پاکستان کو کم از کم 9.5 ارب ڈالر کے نئے قرضوں کی اشد ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں اس سال اپریل میں چینی بینکوں سے 1 ارب ڈالر قرضہ لیا گیااور مزید قرضوں کے لئے بات چیت ہو رہی ہے۔ چین سے لیے جانے والے تمام قرضوں کی شرح سود انتہائی بلند ہے اور وہ معیشت کو مزید تباہی کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔
پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی ، شرح سود میں اضافہ اور آئی ایم ایف سے قرضے کی درخواست ناگزیر ہو چکی تھی لیکن انتخابات کی وجہ سے ان اقدامات کو موخر کیا جاتا رہا۔ خود پاکستانی سرمایہ داروں اور کاروباری اداروں کے لئے اچانک حالیہ روپیہ کی قدر میں کمی حیران کن اور پریشان کن ہے اور اس کے اثرات اسٹاک ایکسچینج پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جسے کوئی بھی ہلکا سا جھٹکا اندھی کھائی میں دھکیل سکتا ہے۔سٹیت بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضہ جات 92 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو کہ GDPکا 82.3 فیصد بنتا ہے۔2022-2023ء تک پاکستان نے IMF، ورلڈ بینک، ADB، پیرس کلب، سی پیک قرضہ جات کی ادائیگی، دیگر ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں اور بینکوں کو 31.3 ارب ڈالر واپس کرنا ہے۔ صرف حالیہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستانی ریاست کا قرضہ 400 ارب روپیہ بڑھ چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح سود میں اضافہ اور بے قابو افراط زر میں مزید ہوشربا اضافہ متوقع ہے۔ امریکہ سے ملنے والی امداد کو صدر ٹرمپ نے معطل کر دیا ہے اور اس کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پاکستان اور امریکہ کے کشیدہ حالات کی وجہ سے جولائی 2018ء میں FATF کی نظر ثانی میٹنگ میں پاکستان پر مزید معاشی دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔روپے کی قدر میں گراوٹ سے برآمدات کے بڑھنے کے بھی زیادہ امکانات نہیں کیونکہ مقامی صنعتیں چین کی سستی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس کا اندازہ سٹیت بینک کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق دسمبر 2017ء سے اب تک قدر میں کمی کا برآمدات پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑا۔ لیکن اس کی وجہ سے درآمدات کی قیمت میں اضافہ ہو گا اور مہنگائی کا جن پہلے سے زیادہ بے قابو ہو جائے گا۔
پیٹرول کی مصنوعات میں تواتر سے اضافہ کیا جا رہا ہے اور چند روز پہلے ہی پیٹرول کی قیمت میں 4 روپیہ اضافہ کیا گیا ہے۔ آ نے والے دنوں میں اس میں مزید 10سے 12 روپے اضافہ متوقع ہے۔ تارکین وطن کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم میں پچھلے مہینے 5 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی منڈی میں پاکستانی بانڈز کی قدر گر رہی ہے۔ اس صورتحال میں آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہو گا ۔ پچھلے قرضوں کے پروگرام کی کئی کٹوتیاں، نجکاریاں اور ٹیکس واجب ہیں جو ابھی تک لاگو نہیں ہو سکے اور اس مرتبہ امریکی آقا کی ناراضگی اور خوفناک معاشی بحران کے نتیجے میں دل دہلا دینے والی کڑی شرائط رکھی جائیں گی۔ عوام کے سامنے ایک ہی مستقبل ہے: لامتناہی کٹوتیاں،ہوشربا ٹیکس، خوفناک مہنگائی، برباد معیار زندگی۔
وزیر اعظم کی کرسی خالی کرنے سے چند دن پہلے ملک کے بہت بڑے سرمایہ دار اور حکمران طبقے کے خاص منظور نظر شاہد خاقان عباسی نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ قرضہ کوئی بری چیز نہیں، قرضوں سے ترقی ہوتی ہے۔ شاہد خاقان کی یہ سوچ اپنے طبقے کے حوالے سے بالکل درست ہے۔ قرضوں کی سپلائی اور ان کے نتیجے میں اندرون ملک شروع کردہ پراجیکٹس میں لوٹ مار سے واقعی پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے حکمران طبقے کی ترقی ہوتی ہے۔ لیکن ان تمام قرضوں کے سود کا بوجھ غریب عوام کی ٹوٹی کمر پر ہی لادا جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت ایسے تضادات کے گھن چکر میں پھنسا ہوا ہے کہ ریاست کا کوئی ایک اٹھایا ہوا قدم مزید تضادات کو جنم دیتے ہوئے انتشار اور کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ اس مالی سال کے بجٹ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ، درمیانہ طبقہ ہے جس کے معیار زندگی کو سامنے رکھ کر بجٹ بنایا گیا ہے تاکہ اس طبقے کی جمع کردہ دولت کو نچوڑا جا سکے۔ محنت کش طبقہ پہلے ہی دہائیوں سے منوں عذاب تلے پس رہا ہے، اس کے پاس زندگی دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں بچا۔ اب درمیانے طبقے کو زیادہ تیزی اور مستعدی سے غربت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ حکمران طبقہ اتنا خونخوار ہو چکا ہے اور ریاست اتنی گل سڑ چکی ہے کہ سماج میں موجود اپنے واحد حمایتی طبقے کا بھی معاشی قتل کرنے پر اتر آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خود حکمران طبقے میں مزید انتشار بڑھتا جا رہا ہے جس میں مختلف شعبوں سے منسلک سرمایہ دار موجود ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر حکمران طبقہ فیصلہ کر چکا ہے کہ معاشی بحران کی قیمت محنت کش اور درمیانہ طبقہ ہی چکائے گا۔ اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کی برباد معیشت کے علمبرداروں کے پاس عوام کے لئے موت کے سوا اور کوئی حل موجود نہیں۔زندگی جس ذلت و رسوائی کا نام ہے، اس سے نکلنے کے لئے پاکستان کی عوام اور خاص طور پر محنت کش طبقے کے پاس انقلابی جدوجہد کے سوا اور کوئی راستہ موجود نہیں جس کے ذریعے اس خون آشام حکمران طبقے کو اکھاڑ کر ایک منصوبہ بند معیشت کا قیام کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج تخلیق کیا جائے۔