|تحریر: ارسلان گوپانگ (ریڈ ورکرز فرنٹ)، رانا فیض (کسان کمیٹی پنجاب)|
پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست اور سرمایہ دار حکمران طبقے نے آج تک کسی بھی سیکٹر کو ترقی دینے کی بجائے صرف اس کو برباد ہی کیا ہے۔ ایسے ہی پاکستان جو کہ زراعت کے لحاظ سے اپنا ایک الگ مقام رکھتا تھا اور آج حالات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ یہ شعبہ اپنی زبوں حالی میں اپنی مثال آپ ہے اور اب گندم تک پاکستان کو باہر سے منگوانی پڑتی ہے۔ باقی کی کسر حالیہ سیلاب نے پوری کر دی ہے لیکن اس کا سہرا بھی پاکستان کے حکمران طبقے کے سر ہی ہے جو کہ پچھلے ستر سالوں سے صرف اپنی لوٹ مار میں مگن ہے اور حالیہ سیلاب اور معاشی بحران کا اثر یہاں تک آپہنچا ہے کہ پاکستان میں جو انڈسٹری موجود تھی وہ بھی سینکڑوں کے حساب سے بند ہورہی ہے۔
جہاں تک بات رہی کسانوں کی تو کسان موسمیاتی تبدیلیوں، حکمرانوں کی زراعت میں عدم دلچسپی اور ان کی ناقص پالیسیوں، کھاد، بیج، سپرے پر لوٹ مار، مہنگی بجلی اور ڈیزل، مڈل مینوں کی لوٹ مار اور فصلوں کی انتہائی کم امدادی قیمتیں لگنے جیسے مسائل سے اتنا دلبرداشتہ ہوچکے ہیں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر کے شہروں میں منتقل ہو نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اگر ہم شہر لاہور کی بات کریں تو لاہور اب دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے،IQAir.com کے مطابق، لاہور میں فضائی آلودگی گاڑیوں اور صنعتی اخراج، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والے دھوئیں، فصلوں کی باقیات کو جلانے، عام فضلہ اور تعمیراتی جگہوں سے نکلنے والی گردوغبار کی وجہ سے ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی کے دیگر عوامل میں نئی سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے درختوں کا بڑے پیمانے پر کٹاؤ بھی شامل ہے اور اگر لاہور میں پانی کی بات کی جائے تو لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح اس وقت ایک میٹر سالانہ کی ناقابل یقین شرح سے کم ہو رہی ہے۔ اس سب کی مثال تو ایسی ہے کہ پاکستان کے خصی سرمایہ دار حکمران طبقے نے پاکستان کے جس شعبے میں ہاتھ بڑھایا اس کا بیڑا ہی غرق ہوا ہے ماسوائے ان کے اپنے مفاد کے۔ اس کی مثال سرائیکی میں یوں دی جاتی ہے کہ ”جتھاں تیڈا پیر، اتھاں ڈاتری پھیر یانہ پھیر“۔
پچھلے کچھ عرصے سے لاہور میں آلودگی کے خاتمے، پانی کے مسائل سے نمٹنے اور روزگاری جیسی سہولیات کیلئے ”راوی ریور فرنٹ“ منصوبے کو حل کے طور پر بتایا جارہا ہے جس میں راوی کے کنارے ایک نیا شہر ”راوی ریور فرنٹ“ آباد کیا جارہا ہے۔
اس پراجیکٹ کا آغاز عمران خان حکومت کی طرف سے کیا گیا تھا لیکن اس کا آئیڈیا پہلی دفعہ 2006ء میں پیش کیا گیا تھا اور بقول اس وقت کی حکومت کے ملکی و غیر ملکی ماہرین کی طرف سے اس کا ڈیزائن بنایا گیا جس کے بعد نواز شریف حکومت نے اس منصوبے کے لیے فزیبلٹی اور تفصیلی منصوبہ تیار کرنے کے لیے بین الاقوامی فرموں کی خدمات حاصل کیں۔ 2012ء میں اس کی ایک تصوراتی ویڈیو کو مسلم لیگ ن کے یوٹیوب چینل پر نشر کیا گیا، جس سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ عمران و نواز ایک دوسرے کے خلاف چاہے جتنی بیان بازی کر لیں لیکن ان کے منصوبے ایک ہی ہیں اور یہ منصوبے کتنے عوام دوست ہیں اور کتنے عوام دشمن ہیں اس کا جائزہ ہم اس آرٹیکل میں لیں گے۔
پنجاب حکومت نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ”روڈا“ کو اس پراجیکٹ کو تشکیل دینے کیلئے بنایا ہے جس کے مطابق ”روڈا“ کو فیروزوالہ ضلع شیخوپورہ کی زمین درکار ہے جس کے حصول کو تین مراحل میں مکمل کیا جائیگا اور 1 لاکھ 2 ہزار 294 ایکڑ پر بننے والے اس شہرپر تقریباً 700 ارب روپے کی لاگت آئے گی، جبکہ روڈا نے پہلے ہی UAE اور چین میں مقیم فرموں کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ 1.4 بلین امریکی ڈالر کے مفاہمت ناموں پر دستخط کیے ہیں، تاکہ اس منصوبے کے کچھ اجزاء تیار کیے جا سکیں۔ اس کام کیلئے ”روڈا“ کو پہلے مرحلے کی تکمیل کیلئے تقریباً 44 ہزار ایکڑ زمین، دوسرے مرحلے میں 28 ہزار اور تیسرے مرحلے میں 30 ہزار ایکڑ زمین درکار ہو گی اوراس مطلوبہ زمین کا زیادہ تر حصہ کسانوں کے زیرِکاشت علاقہ ہے۔ جس کے حصول کیلئے ”روڈا“ نے مقامی کسانوں سے زمینیں حاصل کرنا شروع کیں لیکن یہاں موجود مقامی کسانوں نے اپنی زمینیں بیچنے سے انکار کر دیا اور کسان یہ سمجھتے ہیں کہ ایک رہائشی منصوبے کے لیے زرعی زمین کو ختم کرنا درست فیصلہ نہیں ہے۔ مزید برآں اکثریت کو یہ اعتراض بھی ہے کہ حکومت ان کے زرعی رقبوں کا صحیح معاوضہ ادا نہیں کر رہی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سیکشن 4 کے مطابق ”روڈا“ کو وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جن کے ذریعے وہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے زمین یا جائیداد سے بے دخل کرنے کیلئے ایسی طاقت کا استعمال کر سکتی ہے جو ضروری ہو اور ضرورت کے مطابق کسی بھی عمارت یا ڈھانچے کو ”ہٹانے، گرانے یا تبدیل کرنے“ کا اختیار بھی رکھتی ہے۔
نئے شہر کی تعمیر کو یقینی بنانے اور مطلوبہ زمین کے حصول کے لیے ریاستی حکام کسانوں اور رہائشیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے لیے 1894ء میں برطانوی سامراج کی جانب سے بنائے گئے قانون کو استعمال کر رہے ہیں جسے ”لینڈ ایکوزیشن ایکٹ“ کہا جاتا ہے اور جس کے تحت عوامی مقاصد کے نام پر ہنگامی بنیادوں پر زمین حاصل کی جا سکتی ہے لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ راوی ریور فرنٹ ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ عوام کے لیے نہیں بلکہ نجی سرمایہ کاروں اور لینڈ مافیا کے منافعوں کے لیے بنایا جا رہا ہے۔
”روڈا“ کو زمین کے حصول کیلئے کسانوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اوراس مزاحمت کے نتیجے میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف کسان ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا جس نے ”روڈا“ کے پراجیکٹ کو عدالت میں چیلنج کیا، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے جنوری 2022ء میں عوامی دباؤ کے تحت اس منصوبے کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ اس منصوبے کا کام ماحولیاتی جائزے کے بغیر شروع کیا گیا ہے، ہائی کورٹ نے پنجاب انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) کو کسی بھی قسم کی منظوری دینے سے بھی روک دیا ہے۔ لیکن اس نام نہاد پابندی کے باوجود ”روڈا“ نے منصوبے کی مارکیٹنگ جاری رکھی جبکہ زمین کا حصول مکمل کیے بغیر اور ماحولیاتی منظوری کے بغیر، روڈا منصوبے کی مارکیٹنگ اور سرمایہ کاری کیسے جاری رکھ سکتی ہے، خاص طور پر جب عدالتی حکم نامہ اسے آگے بڑھنے سے روک رہا ہو؟ شہری ترقی کے قانون کے مطابق کوئی بھی پراپرٹی ڈویلپر تمام متعلقہ منظوری حاصل کیے بغیر اپنے پروجیکٹ کی مارکیٹنگ نہیں کر سکتا۔ اگر ”روڈا“ کوئی چھوٹی موٹی روٹین کی پراپرٹی ڈویلپر ہوتا تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہوتی۔ لیکن ”روڈا“ ایک عام پراپرٹی ڈویلپر نہیں ہے۔ ایک خصوصی قانون بنایا گیا ہے جو اسے اس طریقے سے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کا حکمران طبقہ سرمایہ داروں کے مفادکے تابع ہوتا ہے اور سرمایہ دار کے مفاد کیلئے ہر قسم کا قانون بنایا جا سکتا ہے، چاہے یہ قانون کسان و محنت کش طبقے کی زندگی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور عدالتیں بھی اس کا کچھ نہیں کر سکتیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمران خان کی طرف سے بیان آیا تھا کہ وہ اپنا کیس صحیح معنوں میں ہائی کورٹ میں نہیں رکھ سکے اور اس منصوبے کے ذریعے وہ بیراجوں اور جھیلوں کی تعمیر کے ذریعے دریائے راوی کو میٹھے پانی کے ذریعے بحال کریں گے۔
واضح رہے کہ دریائے راوی کئی دہائیوں سے لاہور سے سیوریج کے ساتھ ساتھ صنعتی اور زرعی فضلہ جمع کرنے کے کارن اس وقت دنیا کا آلودہ ترین دریا بن چکا ہے بلکہ درحقیقت اس وقت یہ بڑا سا سیوریج ڈرین ہی ہے کیونکہ سندھ طاس معاہدے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ انڈیا کی طرف سے راوی پر بیراجوں وغیرہ کی تعمیر کے نتیجے میں اس میں اب تازہ پانی نہ ہونے کے برابر ہی آتا ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ وہ راوی ریور فرنٹ منصوبے کے ذریعے دریائے راوی کو بحال کرے گی اور لاہور میں موجود پانی کی کمی کا مسئلہ حل کرے گی کیونکہ ماہرین کے مطابق ملک کو 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح گزشتہ سال کی ایک حکومتی تحقیق کے مطابق، 29 شہروں میں صرف 39 فیصد پانی کے ذرائع پینے کے لیے محفوظ تھے۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق راوی کی صفائی سے پاکستان کو پانی کے آنے والے بحران سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، اور دوسری طرف لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی کو بسانے، لاہور شہر کے آلودگی اور پانی جیسے مسائل کو حل کرنے اور نیا روزگار پیدا کرنے کے حوالے سے بھی اس منصوبے کا ایک اہم کردار ہو گا۔ جبکہ بقول حکومت کے اس منصوبے میں شمال مغربی لاہور کے دونوں کناروں پر اعلیٰ معیار کے رہائشی، صنعتی، تجارتی اور تفریحی زونز اور اس کے علاوہ ہسپتال و تعلیمی ادارے بھی قائم کیے جائیں گے۔
یہ منصوبہ پاکستان کا اسلام آباد کے بعد اس طرز کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور حکومت کے مطابق یہ ایک ماحول دوست پراجیکٹ ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا کہ”روڈا“ نے جتنی زمین حاصل کر لی ہے وہ صرف اس پر ہی کام کر سکتی ہے، جس کے بعد کسانوں کا کہنا ہے کہ اگست میں روڈا نے اس زمین کو بھی ہتھیانا شروع کر دیا جو اس کے قبضے میں نہیں تھی اور لوگوں کو ان کی زرعی زمینوں سے زبردستی ہٹانے کے لیے وہ اپنے ساتھ پولیس اہلکار بھی لے آئے اور پکی ہوئی فصلوں کو تباہ کر دیا۔ تو اس پر سب سے پہلے تو یہ سوال بنتا ہے کہ راوی کو بحال کہاں سے کیا جائے گا؟ کیونکہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائے بیاس، ستلج اور راوی کا کنٹرول انڈیا کو دیا گیا تھا۔ جس میں بھارت نے ڈیمز اور بیراجز بنائے ہوئے ہیں اور کہاجارہا ہے کہ بھارت کے ممکنہ طور پر پانی چھوڑنے کی وجہ سے بڑے سیلاب کا خطرہ ہے اورمودی اس مقصد کے لیے انڈیا کا شاہ پور کنڈی ڈیم بنا رہا ہے لہٰذا ریور فرنٹ منصوبے کے تحت اس علاقے کو سیلاب سے بچانے کیلئے بیراج بنائے جائیں گے۔
یہاں سوال بنتا ہے کہ دریائے راوی میں آخری بار سیلاب 1990ء کی دہائی کے اوائل میں آیا تھا اور اگر اب بھارت راوی کا پانی پاکستان کی جانب چھوڑتا بھی ہے تو بھارت کے اپنے علاقے سب سے پہلے اس کی زد میں آئیں گے۔ مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گندہ نالہ بنے راوی کی بحالی کے لئے بڑی مقدار میں درکار تازہ دریائی پانی کہاں سے آئے گا کیونکہ راوی کا اپنا پانی تو اب مکمل طور پر انڈیا اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ اسی طرح اگر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ پر نظر دوڑائی جائے تو راوی کو اپنے کلچر کے طور پر دکھایا گیا ہے، جس میں یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں اپنے ورثے کو بحال رکھنا ہے یا یہ ہمارا کلچر ہے لیکن دوسری طرف کیا راوی ریور فرنٹ میں موجود ہاؤسنگ سوسائٹیز کسانوں یا عام عوام کیلئے بنائی جا رہی ہیں یا لاہور کے محنت کش طبقے کیلئے بنائی جا رہی ہیں؟جس کے پورے خاندان کو صرف ایک کمرے کا گھر دستیاب ہوتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسانوں سے ان کی زمینیں چھین کر وہاں امیر طبقے کیلئے ایک شہر بنایا جائے گا،جو اِس پوش ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر خرید سکتا ہے اور کاروبار کر سکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وہاں موجود جن کسانوں سے ان کا گھر اور زرخیر زمین چھینی جا رہی ہے ان کو اس ہاؤسنگ سوسائیٹی میں اتنے داموں میں گھر اور زور گار مل جائے گا جتنے میں حکومت ان سے زبردستی ان کی زرعی زمین ”خرید“ رہی ہے۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس اس پراجیکٹ میں کسانوں کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور اگر بقول حکومت کے لاہور کی آبادی کیلئے نیا شہر بنایا جا رہا ہے تو فیروزوالہ کے رہائشی اپنی زمین اور گھر بار سے بے دخل ہو کر کس شہر کو جائیں گے؟ اور جہاں تک بات ہے لاہور شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی اور اس مسئلے کو بنیادبنا کر راوی کے کناروں پر شہر بسایا جا رہا ہے، تو اس پر حکومت اور ریاست سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ لاہور کے کس حصے میں آبادی بڑھ رہی ہے؟ کیونکہ جہاں تک بات ہے لاہور کی 70فیصد زمین کی، اس پر تو ایلیٹ کلاس بیٹھی ہوئی ہے جس میں ڈی ایچ اے، کینٹ، بحریہ ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن جیسی بڑی بڑی پوش کالونیاں بنی ہوئی ہیں جن میں لاہور کی آبادی کا کوئی بمشکل ہی پانچ سے سات فیصد آبادہے جبکہ 30 فیصد کے رقبے میں لاہور کی بقیہ 90 فیصد سے زائد آبادی بسی ہوئی ہے تو پھر چین، خلیجی ممالک اور پاکستان کے سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری سے بننے والا یہ نیا شہر کس آبادی کیلئے بنایا جارہا ہے؟ یقیناً یہ اسی امیر اقلیت کا پراجیکٹ ہے جو کہ لاہورکے 70 فیصد رقبے پر پہلے سے ہی قابض ہے۔
جہاں تک بات ہے لاہور کی فضا کو درست کرنے کی، تو کیا یہ حماقت نہیں ہو گی کہ زرخیر زمینوں پر کنکریٹ کی عمارتیں کھڑی کر دی جائیں؟ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک تحقیق کے مطابق دریائے راوی کے طاس کا 75 فیصد حصہ زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور سوا کروڑ آبادی کے لاہور شہر کی سبزیوں اور دودھ کی سپلائی کا ایک بڑا حصہ راوی کے کنارے والے علاقوں سے آتا ہے۔ جہاں تک بات ہے پانی کے مسئلے کی تو حکومت نے ”پنجاب واٹر ایکٹ 19“ پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا۔ اگر حکمران طبقہ واقعی پانی کے مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ ہوتا تو ”پنجاب واٹر ایکٹ 19“ پر عمل درآمد ہونا چاہیے تھا۔ پانی کے مسئلے پر واٹر ایکٹ کے تحت منظم منصوبہ بندی کی بجائے حکمران طبقے نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ہی ترجیح دی کیونکہ یہاں مسئلہ پانی کی کمی اور آلودگی کے حل کا نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور لینڈ مافیا کے منافع کا تھا۔جبکہ مقامی کسانوں اور رہائشیوں نے پانی صاف کرنے کے کسی حقیقی منصوبے کے لئے اپنی زمین کے کچھ حصے کو حکومت کو مفت دینے کی بھی پیش کش کی ہے لیکن حکومت نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ درحقیقت آبی آلودگی کا خاتمہ اس کا مقصد ہی نہیں ہے۔ ”روڈا“ کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ انڈس ڈیلٹا تک زرعی آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرے گا۔ اسی طرح ”روڈا“ کی طرف سے ایک کے بعد ایک مضحکہ خیز بیانات سامنے آرہے ہیں، لیکن یہ پانی کہاں سے آئے گا، اس پر کوئی ٹھوس بات نہیں کر رہا جبکہ پراجیکٹ اور اپنی باتوں سے ہٹ کر ”روڈا“ کے پاس ایسا کوئی بھی پلان نہیں ہے، جس سے دریائے راوی کو دوبارہ بحال کیا جا سکے۔
2013 ء میں نواز حکومت کی طرف سے راوی کو بحال کرنے اور اس کے کناروں کو پرکشش بنانے کیلئے ”روڈا“ اور ”ای آئی اے“ (Environmental Impact Assessment) نے راوی تک پانی لانے کے لیے تکنیکی حل پر غور کیا تھا، جس میں ایک تو سیالکوٹ کے قریب مون سون کی بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے آبی ذخائربنانا شامل تھا۔ لیکن 1,000 ایکڑ پر پھیلے یہ چھوٹے آبی ذخائر چاول اگانے والی زرخیز زمین کی قیمت پر آئیں گے، دوسرا پلان تھا آبپاشی کے پانی کو BRB (Bambawali-Ravi-Bedian) کینال سے موڑنا، اسے لاہور کے ساتھ سے گزارنا اور ہیڈ بلوکی میں تقریباً 80 کلومیٹر نیچے کی جانب آبپاشی کے نظام میں ڈالنا۔
لیکن محکمہ آبپاشی نے اس پلان سے انکار کر دیا کہ اس طرح ان کا آبپاشی کے لئے صاف پانی حد درجہ غلیظ ہو کر واپس آئے گا، کیونکہ لاہور شہر اپنا تمام گھریلو و صنعتی فضلہ راوی میں چھوڑتا ہے۔ اس کے علاوہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور فیصل آباد کا آدھا سیورج اور صنعتی فضلہ بھی راوی میں چھوڑا جاتا ہے۔ مزید برآں اگر یہ دونوں مجوزہ منصوبے بنا بھی دیے جاتے ہیں تو بھی ان سے میسر آنے والا پانی راوی جیسے بڑے دریا کی کایا پلٹنے کے لئے نہایت ناکافی ہو گا۔ ماحولیات اور پانی کا مسئلہ صرف لاہور شہر کا یا پاکستان کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اسے اسی تناظر میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن زرخیز زمین کو برباد کر کے محض لینڈ مافیا کے پرافٹ کے لئے ایک نیا شہر کھڑا کر دینا اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے میں مزید اضافہ ہے۔ مسئلے کا حل تو تب ہی نکلے گا جب پرائیویٹ گاڑیوں کی جگہ پبلک ٹرانسپورٹ کو رائج کیا جائے گا۔ انڈسڑی اور پورے نظام کو فاسل فیولز کی جگہ گرین انرجی پر لایا جائے گا، تمام صنعتوں کو ویسٹ ٹریٹمنٹ کا پابند کیا جائے گا، بڑے پیمانے کی شجر کاری کی جائے گی اور پورے نہری نظام کی اوور ہالنگ اور آبپاشی کے جدید طریقوں کو رائج کیا جائے گا۔ لیکن یہاں کی سرمایہ دارانہ ریاست میں اتنی سکت موجود نہیں ہے کہ وہ ایسے اقدام کر سکے کیونکہ یہ ریاست تو ابھی تک بجلی کی مسلسل فراہمی میں ناکام رہی ہے۔ ماحولیات کے مسئلے کا حل اس خطے میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے خاتمے اور ایک مزدور ریاست و منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کیساتھ جڑا ہو اہے۔ جس میں تمام ذرائع پیداوار محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور پیداوار کا مقصد منافع خوری نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی ماحول دوست طریقے سے تکمیل ہو گا۔
جہاں تک رہی بات راوی کی بحالی کی تو اس کی بحالی سندھ طاس معاہدے کے خاتمے سے ہی ممکن ہے اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود بارڈر کو ختم کیا جائے گااور یہ انقلابی اقدام صرف بھارت اور پاکستان کے محنت کش عوام اپنے اپنے ملک میں سرمایہ داری کے خاتمے اور ایک مشترکہ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔
کسان کمیٹی پنجاب اور ریڈ ورکرز فرنٹ ”کسان ایکشن کمیٹی“ کی جرأت کو سلام پیش کرتے ہیں جو کہ اس سرمایہ دارانہ پراجیکٹ کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے اور سمجھتے ہیں کہ عام کسانوں کو اس لڑائی کیلئے مزید منظم ہونا ہو گا اور اپنی لڑائی کو محنت کش طبقے کی لڑائی کے ساتھ جوڑنا ہو گا کیونکہ صرف محنت کش طبقے اور عام کسانوں کا طبقاتی اتحاد ہی ان دونوں طبقوں کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہے۔