|رپورٹ: حمیرا چوہدری|
روٹس میلنئیم سکول ایک نجی ادارہ ہے جس کی ملک بھر میں درجنوں شاخیں موجود ہے۔ اس سکول چین کے مالک کا نام چوہدری فیصل مشتاق ہے جو کہ ماضی قریب میں نگراں صوبائی وزیر تعلیم بھی رہ چکا ہے۔نئے سال کے آغاز پر اس ادارے سے بڑی تعداد میں اساتذہ کو جبری برطرف کر دیا گیا۔ ان اساتذہ کو کسی بھی قسم کا کوئی قانونی نوٹس دیا گیا اور نہ ہی دیگر قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ صرف فون پر بتا دیا گیا کہ وہ کل سے سکول نہ آئیں۔
ان اساتذہ سے کیے گئے معاہدے بھی اساتذہ کو نہیں دیے گئے تھے جن میں سے کچھ پر واضح طور پر درج تھا کہ یہ اساتذہ 2020ء تک سکول میں کام کرتے رہیں گے۔ ان معاہدوں پر اساتذہ سے دستخط تو لے لیے گئے تھے لیکن اس کی کاپی انہیں فراہم نہیں کی گئی تھی۔ اسی طرح دیگر لیبر قوانین کی بھی پابندی نہیں کی جا رہی تھی۔ جبری برطرفی کی کوئی بھی وجہ بتائی نہیں گئی سوائے اس کے کہ یہ سب چیف جسٹس کے حکم کے تحت کیا جا رہا ہے۔
کچھ دن پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے پانچ ہزار ماہانہ سے زائد فیس وصول کرنے والے تمام پرائیویٹ سکولوں کو فیس میں 20فیصد کمی اور گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس واپس ادا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا کہ سکول بند نہ کیے جائیں ورنہ قانونی کارروائی کی جائے گی۔ روٹس ملینیم نے اپنی بچت اور منافع کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے سکول کی تمام شاخوں سے مختلف شعبہ تدریس مثلاً میوزک، کراٹے/کھیل، آرٹ، اور جرمن ٹیچرز کو ما سوائے ملینیم کے اس کیمپس سے جس میں روٹس ملینیم کے سی ای او فیصل مشتاق کے بچے پڑھتے ہیں بغیر نوٹس کے نوکریوں سے برخاست کر دیا۔
ان سکولوں کے ڈائریکٹرز کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں اوران کی ملازمت جوں کی توں ہی ہے جبکہ مالکان کے منافعوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔اگر ان کی تنخواہیں اور منافع کم کیے بھی جائیں تو انہیں زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن ایک چند ہزار روپے تنخواہ لینے والے استاد کو اگر نکالا جائے تو اس کے گھر کا چولہا بند ہو جائے گا۔ لیکن چیف جسٹس کے حکم کی تعمیل کے چکر میں سارا ملبہ محنت کش اساتذہ پر ڈال دیا گیا۔ لہٰذا میں مطالبہ کرتی ہوں کہ عام آدمی کو حقیقت میں انصاف دینا ہے تو اس ادارے کی اس حرکت کا نوٹس لیا جائے کیونکہ بات رہی عام آدمی کی تو اس کی مشکلات ویسے کی ویسی ہی ہیں، وہ 5ہزار تو کیا 3ہزار فیس دینے سے بھی قاصر ہے۔
لہٰذا اگر عام آدمی کو سہولت دینی ہی ہے تو اسے بیروزگاری سے بچایا جائے۔ سکولوں کے مالکان کی بھی بہت سی انجمنیں موجود ہیں جبکہ بچوں کے والدین نے بھی کچھ جگہوں پر خود کو منظم کیا ہے لیکن پرائیویٹ اساتذہ کی کوئی تنظیم موجود نہیں اور نہ ہی یہ نجی سکولوں کے مالکان اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر کہیں اساتذہ منظم ہونے کی کوشش کریں تو انہیں فوری طور پر نوکری سے جبری برطرف کر دیا جاتا ہے۔ اس سنگین معاملے کا نوٹس نہ کوئی عدالت لیتی ہے اور نہ کوئی سیاسی پارٹی یا حکومتی ادارہ۔ کیونکہ ہر جگہ مالکان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے موجود ہیں جبکہ اساتذہ کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔
اگر اس ظلم کا نوٹس نہ لیا گیا تو پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ احتجاج کا رستہ اپنانے پر مجبور ہو ں گے اور ہر شہر میں خود کو منظم کرتے ہوئے چیف جسٹس اور نجی سکولوں کے مالکان کیخلاف احتجاج کریں گے۔ اس احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے دیگر اداروں بالخصوص سرکاری اساتذہ سے بھی تعاون کی اپیل کی جائے گی۔ اگر حق مانگنے سے نہ ملے تو اس بڑھ کر چھیننا پڑتا ہے۔اس ظلم اور استحصال کا مقابلہ کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔