|تحریر: فضیل اصغر|
برما جسے اب میانمارکہا جاتا ہے دوبارہ خبروں اور تبصروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہاں کے روہنگیا افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم کو مختلف سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے اپنے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برما کی ریاست کی جانب سے بدھ انتہا پسندوں کے ذریعے ڈھائے جانے والے ان مظالم کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان مظالم کے نتیجے میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ چار لاکھ کے قریب روہنگیا افراد بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جہاں انہیں خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ یہ انسانیت سوز مظالم ابھی جاری ہیں کہ سیاست کی دوکان چمکانے والی مذہبی جنونی پارٹیوں نے اپنی حمایت اور چندے میں اضافے کے لیے ان مظالم کو مخصوص مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ اس خطے میں امریکہ اور چین بھی اپنے متصادم سامراجی مفادات کے لیے برما کی ریاست اور ان مظلوم لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
25 اگست کو میانمار(برما) کی ریاست راخائن میں روہنگیا قبیلے کے افراد پر مشتمل مسلح تنظیم اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (Arakan Rohingya Salvation Army-ARSA)کی جانب سے تقریباً 30 پولیس چوکیوں اور ایک آرمی بیس پر حملہ کیا گیاجس میں حکومتی ذرائع کے مطابق 72 لوگ مارے گئے جن میں 59کا تعلق ARSA سے تھا اور 12 ریاستی اہلکار شامل تھے۔ اس حملے کے بعد برمی فوج نے انتہائی سفاک آپریشن کا آغاز کیا جس میں روہنگیا آبادی کے متعدد دیہاتوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور گھروں کو جلایا گیا۔
عالمی میڈیا پر اس مسئلے پر بہت بحث دیکھنے کو ملی جس کا قطعاً مقصد اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا نہیں تھا بلکہ اپنے سامراجی آقاؤں کے مذموم مفادات کی تکمیل اوراشتہارات کے ذریعے مال بنانا تھا۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا کا ہر چینل بھی اسی کوشش میں رہا کہ اپنے پروگراموں میں خوب چٹخارے دار اور جذباتیت سے بھرپور بحث کرائی جائے اور زیادہ سے زیادہ مال بنایا جائے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی پیٹی بوژوازی کے نام نہاد ترقی پسند دانشور وں(ان میں نام نہاد انقلابی بھی شامل ہیں ) اور جدید انٹرنیٹ جہادیوں کی رنگ برنگی بحثیں بھی دیکھنے کو ملیں جن میں کچھ کا یہ کہنا تھا کہ سب کچھ جہادیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اگر جہادی ہتھیار پھینک دیں تو سارا مسئلہ حل ہو جائیگا اور کچھ کا کہنا تھا کہ سارا مسئلہ جہاد سے دوری ہے۔ مگر اس طرح کے سطحی تجزیوں کی بنیاد پر نہ تو کبھی بھی کسی مسئلے کو حقیقی معنوں میں جانا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے حل کیا جا سکتا ہے۔ روہنگیا مسئلے کو سمجھنے کیلئے ہمیں اسے برما اور خطے کی مکمل صورتحال کیساتھ جوڑ کر دیکھنا ہوگاصرف اس وقت ہی مسئلے کی شناخت کے ساتھ ساتھ اس کا مستقل حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔
سامراج اور وحشی برمی حکمران طبقہ
اس وقت چین برما کی راخائن ریاست میں خلیج بنگال میں گوادر کی طرز پر Kyauk Pyu کے مقام پر7.3ارب ڈالر کی لاگت سے گہرے پانی کی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔ بحر ہند میں واقع اس اہم سٹریٹجک بندر گاہ پر مشرقِ وسطیٰ سے تیل اور گیس درآمد کیا جائے گا اور پھر پائپ لائنوں کے ذریعے چین تک پہنچایا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کے تحت مقامی آبادی کے ایک بڑے حصے کو نقل مکانی کرنی پڑے گی تاکہ اس منصوبے کے لیے زمین فراہم ہو سکے۔ اس سے پہلے چین برما میں ڈیم کے متنازعہ منصوبوں کے لیے بھی سرمایہ کاری کر چکا ہے جن ڈیموں سے چین میں بجلی مہیا کی جانی تھی۔
اس وقت برما میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کی سالانہ تجارت کا حجم 6ارب ڈالر کے قریب ہے۔ برما سے چین کو برآمد کی جانے والی مصنوعات میں چاول، زرعی اجناس، قیمتی پتھراور دیگر خام مال ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں میں بھی چین بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ انہی منصوبوں کے باعث چین برما کی خونخوار ریاست کی عالمی سطح پر پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ امریکہ اور دیگر سامراجی ریاستیں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو زائل کرنے کے لیے روہنگیا افراد کے دکھوں پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہیں۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے ترجمان جریدے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان دکھوں کی دلالی کرنے کے لیے متحرک ہو گئی ہیں اور اقوام متحدہ میں قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں جنہیں چین رد کر رہا ہے۔ اس سامراجی کھلواڑ میں روہنگیا افراد محض ایک کٹھ پتلی بن گئے ہیں اور ان کی لاشوں کی بولی منڈی میں لگ رہی ہے۔ پاکستان کے وحشی ملا بھی اس سارے خونی کھیل میں ڈالر وں کی بھیک میں جھولی پھیلائے اور رالیں ٹپکاتے ہوئے کھڑے ہیں اور ان مسلمان بھائیوں کے غم میں نڈھال ہونے کا ناٹک شروع ہو گیا ہے۔ انہی وحشی ملاؤں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کے گلے کاٹے تھے اور انہیں زندہ جلایا تھا۔ اسی طرح کے سینکڑوں واقعات میں ان ملاؤں کا وحشی کردار کئی دفعہ سامنے آ چکا ہے جس میں سے ایک کوئٹہ میں ہزارہ افراد کا قتل عام بھی شامل ہے۔ لیکن ان سب مقتولوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد اب یہ ڈالروں کی امید میں روہنگیا افراد پر مظالم کا پراپیگنڈہ کر ر ہے ہیں۔ لیکن جب سے خبر آئی ہے کہ پاکستانی ریاست کا نیا سامراجی آقا چین ان مظالم کی حمایت کر رہا ہے تو ان ملاؤں کی ہوا نکل گئی ہے اور وہ بغلیں جھانک رہے ہیں۔
لیکن اس ساری صورتحال میں واضح ہو چکا ہے کہ ان مظالم سمیت دنیا کے تمام مسائل کا حل ایک طبقاتی لڑائی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر موجود سامراجی طاقتیں ہوں یا خطے کے حکمران طبقات سب مظلوم قومیتوں پر ہونے والے مظالم کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی حقیقی لڑائیوں کو بھی اپنی منافع کی ہوس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نام نہاد ترقی پسند دانشوروں کے تجزیوں میں پسماندہ ممالک اور خاص طور پر ایسے ممالک جہاں دہشت گردی اور خانہ جنگی موجود ہو میں بیرونی مداخلت اور سرمایہ کاری کو بہت سراہا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بیرونی سرمایہ کاری اس ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی۔ چونکہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ایک ترقی یافتہ ملک ہے لہٰذا اس پسماندہ ملک میں یہ بیرونی سرمایہ کاری ترقی کی نئی راہیں کھولے گی۔ اور اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سامراج ان ممالک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر دے گا۔ مگر جب حقائق دیکھے جائیں تو وہ ان سامراجی دلالوں کی جہالت اور منافقت پر مبنی تجزیوں کے بالکل الٹ نظر آتے ہیں۔ خواہ افغانستان ہو، عراق ہو، یاشام ہو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری اور فوجی مداخلت سامراجی عزائم کیلئے کی جاتی ہے۔ جہاں کہیں بھی کوئی سامراجی طاقت گئی ہے اس نے اس ملک میں امن لانے کے بجائے مزید خون خرابا اور وحشت پھیلائی ہے اور وحشت پھیلانے کیساتھ ساتھ خوب لوٹ مار بھی کی ہے۔
آنگ سانگ سوچی کی ناکام جمہوریت
اس سارے عمل میں عالمی سرمایہ داری کی انسانی حقوق کے نام پر کی جانے والی مکاری اور عیاری بھی کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک لمبے عرصے سے آنگ سانگ سوچی کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا علمبردار بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے اور اس منافقت کو دلائل فراہم کرنے کے لیے اسے بدنام زمانہ امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ یہ انعام اوباما اور دیگر ایسے خونخوار بھیڑیوں کو بھی دیا جا چکا ہے جو دنیا پر جنگوں اور لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔ اب ایک اور امن انعام یافتہ شخصیت کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوا ہے جس کی سربراہی میں روہنگیا افراد پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کی مالا جپتے ہوئے انسانی حقوق کے نام پر دکانداری کرنے والی این جی اوز اور دیگر تمام لبرلز کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ آنگ سان سو چی نے اس قتل و غارت کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ان مظلوم افراد کے خلاف آپریشن کو درست قرار دیا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی جمہوری حکومت کی سربراہ حسینہ واجد نے بھی روہنگیا افراد کوآغاز میں اپنے ملک میں داخلے سے روکا اور ان افراد کی شدید مذمت کی۔ ہندوستان جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا جاتا ہے وہ بھی ان افراد کی شدید مذمت کر رہا ہے اور انہیں ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ پاکستان میں پہلے ہی بڑی تعداد میں روہنگیا افراد زندگی گزار رہے ہیں جن کو غربت اور ذلت کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ شناختی کارڈ جیسی بنیادی سہولت بھی مہیا نہیں کی گئی۔ یہ تمام سرمایہ دارانہ جمہوریتیں درحقیقت محنت کشوں کے زخموں کا کاروبار کرتی ہیں اور ان پر ہونے والے مظالم میں برابر کی شریک ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ایک فراڈ کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ در حقیقت حکمران طبقے کے ہاتھوں میں حکمرانی کا ایک آلہ ہے۔
جب برما میں نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت نہیں تھی اس وقت فوجی جنتا کے دور میں یورپی اور امریکی سامراج برما کے تمام مسائل کا حل جمہوریت کو قرار دے رہے تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ آنگ سان سوچی برما کو تمام مسائل سے چھٹکارا دلا دے گی اور 2015ء کے الیکشن میں سوچی کی جیت پر سامراجی ممالک میں جشن منایا گیا اور سو چی کو مختلف ممالک میں دورے کی دعوتیں دی گئیں جن میں ایک دورہ پاکستان کا بھی تھا، جس میں آصف علی زرداری (اس وقت کے صدرپاکستان)کی جانب سے ’بے نظیر ایوارڈ فار ڈیموکریسی‘ دیا گیا۔ اسی طرح برما کے عوام میں بھی یہ تاثر پھیلایا گیا کہ سو چی تمام مسائل کا خاتمہ کر دے گی اور جمہوریت کے فروغ کیساتھ برما ترقی کریگا۔ اس وقت جب ہر کوئی سوچی کے گن گا رہا تھا تو مارکسیوں نے یہ لکھا تھا کہ لبرل جمہوریت کے ذریعے آج کے عہد میں برما کے مسائل کا خاتمہ ایک فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور حالات نے اس تناظر کو بالکل درست ثابت کیا ہے۔ امریکی اور یورپی سامراج کی پٹھو سو چی نے حکومت میں آنے کے بعد اب تک برمی عوام کا کوئی بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا۔ خاص طور پر روہنگیا مسئلے پر تو سوچی بات کرنے تک کو تیار نہیں کیونکہ وہ برما کے حکمران طبقے کی حمایت نہیں کھونا چاہتی۔ فوج کیساتھ مفاہمت کی پالیسی کے تحت برما میں وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو حکمران طبقہ چاہتاہے۔ مودی کی حالیہ سوچی سے ملاقات کے دوران مودی کا کہنا تھا کہ برما کو بھی ہندوستان کی طرح دہشت گردی کا سامنا ہے جس کیخلاف لڑائی میں ہندوستان برمی حکومت کیساتھ ہے۔ مودی نے راخائن ریاست میں جاری برمی جارحیت پر کوئی بات نہیں کی۔ اسی طرح 7ستمبر کو دیے گئے ایک بیان میں سو چی کا کہنا تھا کہ راخائن ریاست میں برما کو بھی انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو جموں کشمیر میں ہندوستان کو۔ اس ایک بیان سے سو چی کی وحشیانہ سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کو کشمیر میں ہونے والی ہندوستانی آرمی کی وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کی اموات اور انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔ درحقیقت جس نظریے (سرمایہ دارانہ لبرل جمہوریت)کی وہ علمبردار ہے آج کے عہد میں وہ شدید زوال کا شکار ہے اور دنیا میں سرمائے کیلئے یہی کچھ کر رہا ہے اور اس کے معذرت خواہان کے ایسے بیان کوئی حیرت کی بات نہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ سو چی اور اس کی لبرل جمہوریت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور بنیادی انسانی ضروریات، پناہ گزینوں کا مسئلہ، محروم قومیتوں کا مسئلہ اور اسکے ساتھ ساتھ زمینوں پر جبری قبضے سمیت کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کر پائی۔
روہنگیا کون ہیں؟
روہنگیا ایک اقلیتی گروہ ہے جوایک لمبے عرصے سے میانمار کی ریاست راخائن(اراکان) میں رہ رہا ہے۔ اس گروہ میں اکثریتی مسلمان ہیں۔ ان کی تعداد تقریباً بارہ لاکھ کے قریب ہے جن میں سے تقریباً آدھی آبادی راخائن ریاست چھوڑ کر دوسرے ممالک ہجرت کر گئی ہے یا پھر حراستی مراکز(Concentration Camps) میں ہے۔ روہنگیا آبادی کو 1882ء کے برمی شہریت کے قانون کے تحت برما کی شہریت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ان کو نہ تو حکومتی نوکری مل سکتی ہے، نہ ہی وہ آزادانہ برما میں گھوم سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس معاملے پر حکومتی مؤقف یہ رہا ہے کہ برطانوی دور میں برما کو ہندوستان کے صوبے کے طور پر چلایا جاتا تھا اور اس دور میں بہت سارے مزدور برما میں داخل ہوئے اور اسی طرح برصغیر کی تقسیم کے وقت بھی بہت سارے لوگ برما (خاص طور پر راخائن) میں داخل ہوئے جو سب بنگالی تھے۔ اب چونکہ وہ ہمیشہ سے برما کے شہری نہیں رہے لہٰذا انہیں برمی حکومت شہریت نہیں دے گی۔ جبکہ اس کے جواب میں روہنگیا آبادی کی طرف سے یہ کہنا ہے کہ وہ 12 ویں صدی (کئی رپورٹوں کے مطابق 8ویں، 5ویں صدی اور کچھ کے مطابق ایک بہت لمبے عرصے سے ) سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ راخائن ریاست میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس میں صحت کا شعبہ سرفہرست ہے۔ راخائن ریاست میں کل 41 مراکزِ صحت ہیں جن میں صرف16 ہسپتال ہیں اور اسکے علاوہ چھوٹے موٹے کلینک وغیرہ ہیں۔ ان ہسپتالوں میں محض 553 بیڈ ہیں یعنی کہ 31 لاکھ کی آبادی کیلئے صرف 16 ہسپتال اور 553 بیڈ۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راخائن ریاست میں رہنے والوں کی زندگی کیسی ہو گی اور خاص طور پر اگر روہنگیاآبادی کی بات کی جائے جس کے ساتھ ایک لمبے عرصے سے برمی حکمران طبقہ شدت پسند بدھ پیشواؤں کے ذریعے ایک عبرت ناک سلوک کر رہا ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ تباہ حال راخائن ریاست کی سب سے زیادہ متنازع اور جبر کا شکار اقلیت کی زندگی کیسی ہوگی۔ 1948ء میں ملنے والی نام نہاد آزادی کے بعد برمی حکومت نے ایک قانون ’یونین سٹیزن شپ ایکٹ‘‘ پاس کیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کون کونسی قوموں کو تسلیم کیا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ البتہ یہ اجازت دی گئی کہ وہ لوگ جو کم از کم دو نسلوں سے برما میں آباد ہیں وہ اپنے شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں۔ آغاز میں روہنگیا آبادی کو کارڈ دیئے بھی گئے اور ان میں سے کچھ لوگ پارلیمنٹ کا بھی حصہ رہے۔ مگر پھر 1962ء کے بعدسب کچھ بد ل گیا۔ تمام شہریوں کو قومی رجسٹریشن کارڈ بنوانے کا کہا گیا۔ البتہ روہنگیا کو محض بیرونی شناختی کارڈ ہی دیئے گئے۔ اس کے بعد 1982ء کے سٹیزن شپ لاء کے تحت روہنگیا کو برما میں موجود ایک قوم ماننے سے ہی انکار کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک روہنگیا پر فوج کی جانب سے کئی بار حملے کئے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے 1970ء سے لے کرا ب تک تقریباً دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا برما چھوڑ کر دوسرے ممالک جا چکے ہیں۔ جبکہ تقریباً 1 لاکھ 40 ہزار کے قریب راخائن ریاست کے اندر ہی آئی ڈی پیز (IDPs)کی شکل میں موجود ہیں۔ ہجرت کے دوران ان کو بے تحاشا مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتہائی خطرناک سفر طے کرنے کے دوران کئی لوگ مارے جاتے ہیں اور کئی دنوں کے طویل اور خطرناک سفر طے کرنے کے بعد جو لوگ کسی سرحد پر پہنچتے بھی ہیں تو آگے انہیں ہاتھوں میں بندوق اٹھائے سپاہی نظر آتے ہیں جو انہیں یہ کہتے ہیں کہ زمین کے اس خطے میں داخلہ ممنوع ہے۔ اگر داخل ہونا ہے تو یہاں سے نہیں بلکہ فلاں فلاں کاغذ اور اتنے پیسے جمع کروا کر دوسرے رستے سے آؤ جسے وہ قانونی طریقہ کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی سرحد پر سپاہی نہیں بھی ہوں تو ان کی جگہ انسانی سمگلر انہیں مل جاتے ہیں جو انکی خواتین کو جبری یا دھوکے سے بیچنے کیلئے لے جاتے ہیں اور اگر ان سے بھی بچ نکلے کوئی تو وہ پھر اپنی انتہائی سستی لیبر بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
برمی سماج کی موجودہ کیفیت
برمی حکمران طبقے کے خصی پن اور جبر کے باعث برما کے متعلق اعداد و شمار بہت مشکل سے ملتے ہیں کیونکہ سارے کا سارا مقامی میڈیا فوج کے کنٹرول میں ہے اور فوج نے خبروں پر سخت سنسرشپ لگائی ہوئی ہے۔ اسی طرح بیرونی اداروں کو بھی برما کی صورتحال پر ریسرچ کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ما سوائے ان اداروں کے جو برمی حکمران طبقے کے حق میں اعداد و شمار اور تجزیے پیش کریں۔ مثلاً اگر ورلڈ بینک کے میانمار (برما) کے متعلق اعدادو شمار پر نظر دوڑائی جائے اور اس کا میانمار کی معیشت کے متعلق تجزیہ پڑھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے برما جلد ہی ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست بن جائے گا۔ درحقیقت اس کے پس پردہ وجہ یہ ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ ادارے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ برما کا سب سے بڑا مسئلہ آمریت تھی اور اس کے خاتمے کیساتھ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بدولت اب برما ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور فوج اور سویلین حکومت کے مابین مفاہمت کی پالیسی کی بدولت برما اب درست راہ پر گامزن ہے اور جمہوریت کو مزید طاقتور کرنا ہوگا وغیرہ۔ دستیاب اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو وہ کچھ یوں ہیں۔ میانمار کی کل آبادی چھ کروڑ کے قریب ہے(مختلف ذرائع کی جانب سے مختلف اعداد و شمار دیکھنے کو ملتے ہیں) جس میں سے 35فی صد آبادی شہروں میں رہتی ہے جبکہ 65 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ شہروں کی نسبت دیہاتوں کی حالت انتہائی خراب ہے اور بہت سے علاقوں میں بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت تک مہیا نہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا حال ہے۔ 1997-98ء کی ایک رپورٹ کے مطابق میانمار میں 39,305 پرائمری سکول، 3871 مڈل سکول، 1737 ہائی سکول اور 151 یونیورسٹیاں اور کالج ہیں۔ برمی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی تعلیم کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ انہی یونیورسٹیوں سے ہمیشہ بغاوتوں نے جنم لیا ہے اور اب بھی ان یونیورسٹیوں میں برمی حکمران طبقے کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اندازے کے مطابق 2011ء تک میانمار کی تقریباً چھ کروڑ آبادی میں صرف 52 لاکھ بچے پرائمری سکول جاتے ہیں یعنی کہ کل آبادی کا محض 8فیصد۔ یہیں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے میانمار میں تعلیم کی کیا صورت حال ہوگی۔ مگر یہ مسائل برمی محنت کش طبقے کیلئے ہیں حکمران طبقے کے بچوں کی تعلیم تو یورپ کی جدید اور مشہور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوتی ہے۔
اسی طرح صحت کے شعبے کی حالت ہے۔ میانمار میں ڈاکٹروں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ لوگوں کیلئے صرف 61 ڈاکٹر دستیاب ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صحت کے شعبے پر انتہائی کم خرچ کرنا ہے۔ اسی طرح سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال ہے۔ 2014 تک میانمار میں سرکاری ہسپتالوں کی تعداد 1056 تھی جن میں کل 56,748 بیڈ موجود تھے۔ شہری سرکاری ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد دیہاتی سرکاری ہسپتالوں سے نسبتاً زیادہ ہیمگر ان ہسپتالوں میں جدید مشینری کا شدید فقدان ہے۔ جبکہ برما کے مالدار لوگوں کیلئے جدید پرائیویٹ ہسپتال بھی موجود ہیں جن میں ہر قسم کے علاج کی سہولت موجود ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کی تعداد 193ہے۔ برمی حکمران طبقہ تعلیم اور صحت پر انتہائی کم خرچ کرتا ہے۔ مثلاً برمی دفاعی اخراجات تعلیم اور صحت دونوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں۔
اسی طرح انفراسٹرکچر کی بھی صورت حال ہے۔ برما میں تقریباً چھوٹے بڑے135 نسلی گروہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑا گروہ برمی ہے جس کی تعداد برما کی کل آبادی کا تقریباً 68 فیصد ہے۔ اس گروہ کا مذہب تھیرواڈا بدھ مت ہے۔ برمی حکومت میں یہی گروہ غالب ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ دیگر نسلی گروہ جیسے شان (9فیصد)، یینگ(7فیصد)، راخائن(3.5فیصد)، چائنیز (2.5فیصد)، مون(2فیصد)اور کاچن(1.5فیصد)وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں بہت سارے نسلی گروہ برمی حکومت کیخلاف قومی محرومی کی وجہ سے مسلح جدوجہد میں بھی شامل ہیں جن میں شان، کیچن اور روہنگیا نمایاں ہیں۔ ان گروہوں سے حکومت کے جنگ بندی کے معاہدے بھی ہوئے ہیں مگر قومی محرومی، فوجی حملوں اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات انہیں پھر مسلح جدوجہد کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
تاریخی پس منظر
برما 17ویں صدی سے لے کر 1948ء تک برطانوی سامراج کی کالونی رہا۔ دوسری عالمی جنگ میں بھاری پیمانے پر نقصان اٹھانے اور شکست خوردہ ہونے کے بعد برطانیہ کو اپنی بہت سی نو آبادیات سے ہاتھ دھونا پڑے جہاں قومی آزادی کی تحریکیں زوروشور سے جاری تھیں۔ 1947ء کے خونی بٹوارے کے بعد برطانوی سامراج برصغیر سے چلتا بنا۔ ویسے تو 4 جنوری 1948ء میں برطانیہ کے نکل جانے کے بعد برما ایک آزاد جمہوریہ بن گیا جس کا نام ’’یونین آف برما‘‘ رکھا گیا اور اس کے بعد برما میں 1951-52ء، 1956ء اور 1960ء میں ملٹی پارٹی الیکشن بھی کروائے گئے۔ مگر اس نام نہاد آزادی سے عام لوگوں (خاص طور پر برما میں موجود نسلی اقلیتوں) کی زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور برما ایک پسماندہ ملک ہی رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ برطانیہ کا برما کی ترقی میں کسی قسم کا بھی کوئی کردار ادا نہ کر پانا تھا۔ برطانوی سامراج برما میں سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی بھی فریضہ ادا نہ کر پایا جس کی وجہ سے آزادی مل جانے کے بعد بھی برما کا بورژوا طبقہ برما میں جدید سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیاد رکھنے کے بالکل بھی قابل نہیں تھا۔
چین کے 1949ء کے سوشلسٹ انقلاب نے برما پر اہم اثرات مرتب کیے اور وہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے منصوبہ بند معیشت کاآغاز کیا گیا۔ اس دوران برما کے پسماندہ سماج کو تیزی سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن عالمی سطح پر موجود طاقتوں کے توازن اور خود چین میں انقلاب کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث برما کی منصوبہ معیشت بھی مسخ شدہ کیفیت میں موجود رہی۔ روس، چین اور دیگر بہت سے سوشلسٹ ممالک میں مسخ شدہ معیشت کی زوال پذیری کی طرح برما میں بھی ریاست کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران برما میں حکمران فوجی بیوروکریسی کی داخلی لڑائیاں بھی پوری شدت کے ساتھ جاری رہیں۔ سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی استواری کے بعد برما بھی اسی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور آج وہاں نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام غلیظ ترین شکل میں موجود ہے بلکہ اس کا خونی کھلواڑ بھی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ ایسے میں برما کے محنت کش عوام ماضی میں فوجی جنتا کے مظالم سہنے کے بعد اب سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظتوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ یہ مظالم ڈھانے میں جموریت کا ناٹک کرنے والی آنگ سانگ سو چی اور فوجی حکمران دونوں برابر کے شریک ہیں اور برما کے معدنی وسائل محنت کش عوام کی محنت کو چین اور دیگر سامراجی قوتوں کے ہاتھوں بیچنے کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔
حل کیا ہے؟
برما کے حکمران طبقے کی نسلی اور مذہبی جارحیت، مسلسل چلی آرہی خانہ جنگی، برمی حکمران طبقے کے خصی پن، معاشی بدحالی، نسلی لڑائیاں اور سامراجی یلغار کی وجہ سے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر برما کا مستقبل کسی صورت بھی روشن دکھائی نہیں دیتا۔ نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت نے برما کے محنت کش عوام کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا بلکہ گھٹیا مفاہمت کی پالیسی کے تحت فوج کے طرز حکومت کو ہی برقرار رکھا جس کی وجہ سے مستقبل میں برما ایک سامراجی اکھاڑا بننے کی طرف جا رہا ہے۔ اس سامراجی لڑائی کے بڑے کھلاڑی چین، امریکہ اور ہندوستان خطے میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں سٹرٹیجک اہمیت کے لحاظ سے برما خاص طور پر ہندوستان اور چین کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور آنے والے دنوں میں ہم ان دونوں ممالک کے میانمارمیں اپنے کر دار کو بڑھانے کیلئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ خاص طور پر جب ان دونوں ممالک کے آپس میں تعلقات اچھے نہیں اور جنوب مشرقی ایشیا میں دونوں ممالک کے مفادات موجود ہیں۔ اسی طرح ان دونوں ممالک کی نظریں میانمار کے معدنی وسائل پر بھی ہیں اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کیلئے بھی میانمار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر راخائن ریاست میں خلیج بنگال کے ساتھ موجود کیوفیو (Kyaukphyu) سمندری بندرگاہ پر چین کی نظریں ہیں جس میں چین نے 85 فیصد تک حصہ داری کی بات کی ہے۔ اسی طرح اگر نسلی اور مذہبی لڑائیوں کو دیکھا جائے تو اپنی بنیاد میں وہ سہولیات کی عدم فراہمی، غیر ہموار تقسیم، شہروں اور دیہاتوں میں سہولیات میں فرق اور معاشی تنگدستی کی وجہ سے ہورہی ہیں اور معاشی گراوٹ کیساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ تعلیم اور صحت کا حال انتہائی خستہ ہے اور ان پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح پرائیوٹ کمپنیوں کے کاروبار کیلئے لاکھوں لوگوں (جن میں برمن بھی شامل ہیں ) سے جبری ان کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔ ان تمام مسائل کو حل نہ کر پانے کی وجہ سے برمی حکمران طبقے کے پاس حکومت قائم رکھنے کیلئے جبر کا آلہ ہی بچتا ہے جسے وہ آج تک استعمال کرتا آیا ہے مگر اس کے حد زیادہ استعمال کی وجہ سے اب اسکی افادیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے برمی حکمران طبقہ اب نسلی اور خاص طور پر مذہبی تقسیم کو ہوا دے رہا ہے اور محنت کشوں کو نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی مکروہ کوششوں میں مصروف ہے جس کی سب سے بڑی مثال روہنگیا مسلمانوں کیخلاف برمن لوگوں کو ابھارنا ہے اور معاملے کو مذہبی رنگ دینا ہے۔
اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ روہنگیا کی آزادی اسلامی بنیاد پرستی پر قائم مسلح جدوجہد کے ذریعے تو کسی بھی صورت ممکن نہیں کیونکہ اسکی وجہ سے روہنگیا برما کی دیگر عوام سے کٹ جاتے ہیں اور انکی ہمدردی حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح برما میں صرف روہنگیا کیساتھ ہی ظلم نہیں ہورہا بلکہ دیگر قومیتوں کیساتھ بھی ہو رہا ہے اور دیگر قومی لڑائیاں بھی موجود ہیں جیسے شان اور کیچن وغیرہ اور اسی طرح برما ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک دولت والوں اور حکمران طبقے کا برما اور ایک محنت کشوں کا برما۔ دونوں میں تضاد ہے۔ ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہے اور جتنی بھی قومیتوں کیساتھ ظلم ہو رہا ہے وہ برمن حکمران طبقہ کر رہا ہے نہ کہ محنت کش طبقہ بلکہ برمن محنت کش طبقہ بھی اسی جبر کا شکار ہے۔
روہنگیا اور دیگر مظلوم قومیتوں کا مسئلہ برما کے تمام محنت کشوں کے مسئلے کیساتھ جڑا ہوا ہے اور برما کی صورتحال پر تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ برما میں سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی بنیاد پر جدید صنعتی ریاست قائم نہیں کی جاسکتی اوریہ فرائض اب صرف اور صرف برمی محنت کش طبقہ ہی انجام دے سکتا ہے مگر اس کے لیے اسے ایک ایسی مارکسی قوت کی ضرورت ہوگی جو سٹالنسٹ غداریوں جیسے قومیت پرستی وغیرہ سے پاک ہو اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو۔ اسی طرح صرف طبقاتی بنیادوں پر جڑت اور جدوجہد ہی کامیابی کی راہ ہے اور تمام مصنوعی اور حکمران طبقے کی جانب سے تخلیق کی گئی تقسیموں کو چیرتے ہوئے ایک بہت بڑی تعداد کو منظم کرتے ہوئے ان تمام مسائل کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام جو پوری دنیا میں محنت کشوں کو منافع کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑنے اور سمندروں میں ڈوبنے پر مجبور کر رہا ہے کیخلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور اس گلتے سڑتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کوایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ کر پھینکتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کا قیام کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے برما میں موجود بے بہا معدنی وسائل کو انسانی ضروریات کیلئے استعمال کرتے ہوئے برما سے ہمیشہ کیلئے نا صرف قومی محرومیوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ ہر قسم کی تقسیم کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ صرف اسی صورت میں برمی حکمران طبقے اور اسکے سامراجی آقاؤں کو شکست دی جا سکتی ہے۔