رپورٹ: |راب سیول|
23مارچ 2015ء
آج صبح میں نے 150 سال پیچھے کا سفر کیا۔بالکل ایسا لگا کہ چارلس ڈکنز کے دور میں پہنچ گیا ہوں۔میں نے آج لاہور میں ریلوے انجینئرنگ ورکشاپ کا دورہ کیا۔
لوہے کے بڑے بڑے دیو ہیکل دروازوں سے گزر کر، جو برطانوی دور کے بنے ہوئے لگتے تھے، میں ریلوے کی انجن شیڈ میں داخل ہوا۔ہر جگہ زمین پر ڈیزل بکھرا ہواتھا جو سورج کی حدت کے باعث جم چکا تھا۔
ریلوے کے پرانے بوسیدہ انجن جس جگہ مرمت کیے جارہے تھے اسی کے قریب ہی ایک چھوٹے سے کیبن میں ریلوے لیبر یونین کا مرکزی آفس تھا۔وہاں مجھے مقامی مزدور لیڈروں سے ملنے کا موقع ملا جنہوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ لیبر یونین کے جنرل سیکرٹری سرفراز خان، چئیر مین عنایت گجر اور سلامت خان کے ساتھ مزدوروں کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔
سرکاری چھٹی کے باوجود انہوں نے جلدی میں کچھ مزدوروں کو وہاں اکٹھا کیا اور مجھ پر زور دیا کہ میں ان سے خطاب کروں۔ایک دوسرے شیڈ میں مجھے لیجایا گیا جہاں مزدور کام چھوڑ کر مجھے سننے کے لیے اکٹھے ہو گئے ۔ مزدوروں نے کام کے لیے مخصوص وردی نہیں پہن رکھی تھی اور سادہ کپڑوں میں ہی کام کر رہے تھے جو گریس اور ڈیزل سے بھرے ہوے تھے۔
تقریباً 40لوگ وہاں موجود تھے جو مجھے دلچسپی سے سن رہے تھے۔نوجوان اور بوڑھے اس ’’جلسہ گاہ‘‘ میں اکٹھے ہو گئے۔میں نے انہیں کہا کہ مجھے یہاں آ کر خوشی ہوئی ہے اور میں یہاں کے تجربات برطانیہ کے ریلوے کے محنت کشوں تک پہنچاؤں گا۔میں نے کہا کہ،
’’ محنت کش ہر جگہ ایک جیسے ہی حالات میں ہیں۔ کم تنخواہ اور استحصال یہاں بھی ہے اور برطانیہ میں بھی اور ہر جگ پر‘‘۔ اس پر محنت کشوں نے متفق ہو کر تالیاں بجائیں۔ میں نے مزید کہا کہ،’’مزدور دولت پیدا کرتے ہیں لیکن مالکان تمام منافع ہڑپ کر جاتے ہیں‘‘۔اس پر پھر مزدوروں نے اتفاق کیا۔
میں نے وضاحت کی کہ کس طرح 1947ء میں برطانیہ میں ریلوے کو نیشنلائز کر لیاگیا تھا کیونکہ نجی مالکان نے اس کو تباہ کر دیا تھا۔ سرکاری خرچے سے ریلوے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا گیا لیکن اس کا کنٹرول محنت کشوں کے پاس نہیں بلکہ اوپر بیٹھے ہوئے بیوروکریٹوں کے پاس تھا۔اس پر ’’شیم‘‘ کا نعرہ لگا۔ پھر کنزرویٹو پارٹی کی دائیں بازو کی حکومت میں اس کی دوبارہ نجکاری کی گئی اور منافع خور سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا۔اس پر پھر ’’شیم‘‘ کا نعرہ لگا۔میں نے کہا کہ،’’نجکاری کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔مزدوروں پر دباؤ،سفر کا مہنگا ہونا اور نئے مالکان کے بہت بڑے منافع اس کے اچند اثرات ہیں‘‘۔
میں نے انہیں بتایا کہ ان کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے اور ہماری جدوجہد ان کی جدوجہد ہے۔میں برطانیہ واپس جا کر برطانیہ کے ریل کے مزدوروں اور پاکستان کے ریل مزدوروں میں تعلق بنانے کی کوشش کروں گا۔میٹنگ کے اختتام سے پہلے سیکرٹری نے اجرتوں (اور پرانی اجرتوں) کے لیے ان کی حالیہ جدوجہد کے متعلق آگاہ کیا۔اسی طرح انہوں نے بتایا کہ کئی دہائیوں سے انہیں سی بی اے(CBA) کے اجتماعی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔میٹنگ سے تمام شرکا سب بہت خوش تھے اور اختتام پر نعرے لگائے گئے۔
اس کے بعد میں نے وہاں ورکشاپوں کو دیکھا کہ کس طرح مزدورانتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔حکومت کی جانب سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی اور مزدوروں کے ساتھ جانوروں والا سلوک کیا جاتا ہے۔پرانے آلات کے باعث مزدوروں کی صحت اور زندگی خطرے میں ہے۔اس ورکشاپ کا کمپریسر لمبے عرصے سے کام نہیں کر رہا اور وہاں پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔گرمیوں میں درجہ حرارت 45ڈگری تک پہنچ جاتا ہے لیکن مزدوروں کے لیے صرف ٹوٹے پھوٹے گلاسوں ، جنہیں زنجیروں سے باندھا گیا تھامیں پینے کا پانی ملتا ہے۔ تمام مزدورانتہائی دوستانہ انداز میں ملے اور ہاتھ ملاتے رہے اور جب ہاتھ ڈیزل سے بھرے تھے اس وقت انہوں نے ہاتھ لمبا کر کے بازو آگے کیا۔
چائے پر مختصر ہونے والی مختلف گفتگو میں مزدوروں نے بہت سے سوالات پوچھے جن میں برطانیہ، مشرقِ وسطیٰ ، امریکی سامراج کے کردار،یورپ میں مہاجرین کے مسئلے اور یہاں تک کہ امریکہ میں برنی سینڈرز کی انتخابی مہم کے متعلق سوالات شامل ہیں۔اس سے نظریات کی شدید پیاس نظر آئی اور میری وضاحتوں کو انہوں نے دلچسپی سے سنا۔میں نے تمام صورتحال کو سرمایہ داری کے بحران اور عالمی انقلاب کی صورتحال سے جوڑا۔
جب میں وہاں سے نکل رہا تھا تو وہ بہت معذرت خواہ تھے کہ ایک بڑا جلسہ منعقد نہیں کر سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم سردیوں میں ریلوے کے 5ہزار محنت کشوں کے جلسے سے خطاب کے لیے آپ کو بلائیں گے۔میرے لیے یہ بہت بڑا اعزازہو گا۔ہم ایک دوسرے سے گلے ملے اور ہاتھ لہرائے اور دوبارہ ان لوہے کے دروازوں سے باہر نکل گئے۔