رپورٹ: ( ولید خان )
گزشتہ عرصے میں پی آئی اے کے محنت کشوں نے نجکاری کے خلاف جنگ میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ آٹھ دن تک پورے ملک میں تمام پروازیں بند کر کے انہوں نے اس ریاست اور حکمران طبقے کو چتاونی دی کہ اگر محنت کش طبقے پر حملے کیے جائیں گے تو وہ اس کا جواب دینا بھی جانتا ہے۔نجکاری کیخلاف یہ جدوجہد ابھی بھی جاری ہے اور بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔
ان محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کرنے اور ان تک برطانیہ کے محنت کش طبقے کا پیغام پہنچانے کے لیے برطانیہ میں شائع ہونے والے جریدے ’’سوشلسٹ اپیل ‘‘ کے ایڈیٹرکامریڈ راب سیول نے لاہور میں آئی ایم ٹی (IMT) کے کامریڈز کے ہمراہ 24مارچ کو پی آئی اے لاہور کے یونین آفس کا دورہ کیا اور مزدور راہنماؤں سے ملاقات کی۔جب انہوں نے ائیر لیگ (سی بی اے )کے جنرل سیکرٹری محمود بخاری سے صورتحال کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا،’’پی آئی اے کی نجکاری کے مظاہرے کے دوران ریاستی اداروں نے 2فروری کو گولی چلائی جس میں دو مزدور شہید ہو گئے۔اس کے بعد پی آئی اے کے محنت کشوں کی ایک ملک گیر بغاوت کا آغاز ہو گیا جو ایک ہڑتال پر منتج ہوئی۔ایسی ہڑتال پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوئی‘‘۔
محنت کشوں کے قتل اور اس کے بعد ہڑتال نے دوسرے اداروں کے محنت کشوں میں بھی تحرک پیدا کیاجس کے باعث ریلوے اور واپڈا کے محنت کشوں کی جانب سے اظہار یکجہتی دیکھنے میں آیا۔پوری صورتحال ایک عام ہڑتال سے حاملہ تھی۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ تمام اداروں کی مزدور قیادتیں اس صورتحال سے پریشان ہو گئیں اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ اس کو عام ہڑتال کی جانب بڑھنے سے روکا جائے۔ہڑتال کا یہ عظیم فیصلہ محنت کشوں نے خود کیا تھا اور یونینوں کے اختلافات کو پس پشت ڈال کرمتحد ہو گئے تھے۔
حکومت نے نجکاری کے خلاف ان مظاہروں کو پہلے ہی لازمی سروس ایکٹ کے کالے قانون کے ذریعے دبانے کی کوشش کی تھی۔مزدوروں کے قتل کے بعد انہوں نے معطلیوں اور برطرفیوں سے دھمکا کر ہڑتال کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اس سارے حملے میں پی آئی اے کے ٹریڈ یونین لیڈروں نے ریاست کا ساتھ دیا اور حکمرانوں کو اس صورتحال میں سنبھلنے کا موقع فراہم کیا۔اس دوران لیڈروں اور عام کارکنان میں خلیج بڑھتی چلی گئی۔
حکومت اور یونین راہنماؤں کی سازشوں کے باوجود ،محنت کشوں نے لازمی سروسز ایکٹ کی خلاف ورزی جاری رکھی اور پورے آٹھ دن تک ہڑتال کو کامیاب کیا۔ پورے ملک میں پی آئی اے کی ایک بھی پرواز فضا میں بلند نہ ہو سکی، جو اس ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔اس ہڑتال کے ایک عام ہڑتال میں تبدیل نہ ہونے کی وجہ قیادت کا نہ ہونا تھا۔محمود بخاری نے اپنی گفتگو میں کہا ،
’’ہڑتال کے دوران ریاست نے اپنے اہلکاروں اور پولیس کے ذریعے ملازمین کو ہراساں کیا او ران کے گھروں میں جا کر ان کو دھمکایا تا کہ ان کو زبردستی کام پر واپس لایا جا سکے۔اس دوران ہڑتال بھی طوالت اختیار کر گئی جس سے ملازمین کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔‘‘حکومت نے ظاہر ہے، جھوٹے وعدے کیے۔یونین قیادتوں نے بغیر کسی ٹھوس ضمانت اور معاہدے کے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا۔
ہڑتال کے خاتمے کے بعد انتظامیہ اور حکومت نے محنت کشوں کے خلاف ایک خوفناک مہم کا آغاز کر دیاجس میں عام کارکنان کو نشانہ بنایا گیا۔اب تک 305ملازمین کو شو کاز نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں جس کے باعث انہیں قانونی چارہ جوئی کرنا پڑ رہی ہے۔عارضی طور پر محنت کشوں کو دبایا گیا ہے لیکن ہڑتال نے واضح کیا ہے کہ جدوجہد کے لیے کس قسم کے مواقع موجود ہیں۔حکومت نے قومی اسمبلی میں بھی پی آئی اے کی نجکاری کا بل پیش کر دیا ہے جس پر آنے والے دنوں میں بحث کی جائے گی۔
ٹریڈیونین کے متحرک کارکنان پی آئی اے کے محنت کشوں کے آئندہ اقدام پر بحث کر رہے ہیں۔اس وقت سب سے اہم ہے کہ اس وقت مختلف اداروں میں جاری جدوجہد کو جوڑناکلیدی اہمیت کا حامل ہے۔پی آئی اے سمیت 68اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ضرورت ہے کہ ان تمام اداروں کے محنت کشوں کو اکٹھا کیا جائے جو اپنے اداروں میں نجکاری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ عام ہڑتال کی تیاری کرنی چاہیے جس میں نجکاری کمیشن اور وزارت نجکاری کے خاتمے کا مطالبہ شامل ہونا چاہیے۔
دو محنت کشوں کے قتل کے بعد صورتحال کبھی بھی پہلی جیسی نہیں رہے گی۔اب بہت ہو چکی ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی قوتوں کو اکٹھا کریں اور ایک حتمی جدوجہد کے لیے تیار ہوں!