|تحریر: فضیل اصغر|
آج کل انڈیا کی ترقی کے بہت گُن گائے جا رہے ہیں۔ اس وقت انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ 2030ء تک وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ مگر اس نام نہاد ترقی کی حقیقت وہ نہیں جو ہمیں دکھائی جا رہی ہے۔ اس ترقی کا سارا فائدہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کو ہی ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی انہیں ہی ہوگا، جبکہ مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور نوجوانوں کیلئے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
دراصل سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی ہوتی ہی ناہموار ہے۔ اس ترقی میں ہمیشہ امیر، امیر تر ہوتے جاتے ہیں اور غریب، غریب تر۔ ’دی اکنامک ٹائمز آف انڈیا‘ نامی اخبار کی 2022ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کی 90 فیصد آبادی 25 ہزار روپے (انڈین) ماہانہ سے کم کماتی ہے۔ حتیٰ کہ 15 فیصد آبادی یعنی 21 کروڑ آبادی تو 5 ہزار روپے ماہانہ سے بھی کم کماتی ہے۔ یہ ہے ترقی کرتے انڈیا کا حقیقی چہرہ۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کا معیار یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کے سرمایہ داروں کی دولت میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے۔ اور پھر جب ان سرمایہ داروں کے پیالے بھر جائیں تو چند سکے ان سے نیچے عوام کی طرف بھی گرتے ہیں۔ محنت کش عوام تک انہی چند سکوں کے پہنچنے کو بنیاد بنا کر کہا جاتا ہے کہ ’دیکھو، جب کسی ملک کے سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافہ ہوگا تو پھر عوام کو بھی کچھ نہ کچھ ملے گا‘۔ دراصل یہ سکے بھی سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی اُبھار کے وقتوں میں ہی نیچے گرا کرتے تھے، بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عرصے کے طویل معاشی اُبھار میں محنت کش عوام کو بھی کچھ نہ کچھ ملامگر وہ بھی بڑی زبردست جدوجہد کے بعد۔ مگر آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بدترین عالمی معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس کیفیت میں آج انڈیا کا معاشی اُبھار دیکھنے میں آرہا ہے۔ لہٰذا اس معاشی اُبھار کی جہاں بنیادیں بہت کمزور ہیں وہیں اس کے نتیجے میں طلبہ، نوجوانوں اور محنت کش طبقے کو کچھ ملنے کی بجائے اُلٹا ان سے چھینا جا رہا ہے۔
اس وقت مودی حکومت ٹیکسوں میں اضافہ، تنخواہوں میں کٹوتیاں، فیسوں میں اضافہ، عوامی اداروں کی نجکاری سمیت ہر عوام دشمن قدم اٹھا رہی ہے۔ اگرچہ اس مزدور دشمن عمل کو مودی نے بہت زیادہ تیز کر دیا ہے مگر مودی کی جگہ کوئی بھی حکمران ہوتا تو وہ بھی یہی کچھ کرتا۔ کیونکہ یہی سرمایہ دارانہ نظام کا قانون ہے۔
بڑھتی بیروزگاری
اس وقت انڈیا میں بیروزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بالخصوص نوجوانوں میں اس کی شرح بہت ہی زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی جانب سے شائع کردہ ’انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ 2024ء‘ کے مطابق ’ملک میں ہر تین میں سے ایک نوجوان بیروزگار بیٹھا ہے‘۔ حتیٰ کہ 15 فیصد گریجوایٹس بھی بیروزگار ہیں۔ جبکہ سیکنڈری اور 12 ویں پاس نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 65.7 فیصد ہے۔
دوسری طرف نیا روزگار بھی نہیں پیدا ہو رہا۔ ’سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کی جولائی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے مینو فیکچرنگ سیکٹر میں 2016ء میں 5 کروڑ 10 لاکھ کے قریب نوکریاں ہوا کرتی تھیں جو 2023ء میں کم ہو کر 3 کروڑ 60 لاکھ رہ گئی ہیں۔ ایسے میں انڈین حکمرانوں کی جانب سے یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ا’نڈیا کا فوکس دراصل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے پر ہے، اور جدید دور میں یہی شعبہ کسی معیشت کو ترقی دے سکتا ہے‘۔ بالخصوص پاکستانی نوجوانوں میں یہ بات بہت مقبول ہے کہ انڈیا کا آئی ٹی سیکٹر جلد ہی پوری دنیا پر چھا جائے گا۔ مگر یہ بھی تصویر کا ایک ہی رُخ ہے۔ پوری تصویر یہ ہے کہ اس سیکٹر میں بھی اُلٹا لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ ’دی اکنامک ٹائمز‘ کی مارچ 2023ء کی رپورٹ کے مطابق، ”تقریباً 6 فیصد آئی ٹی سے جڑے کنٹریکٹ ورکرز اپنی نوکریاں کھو چکے تھے۔ اسی طرح اگست 2023ء تک ٹیک کمپنیوں (Technology Companies) نے 2 لاکھ 26 ہزار ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا۔ اور اس وقت بڑی ٹیک کمپنیوں نے نئی بھرتیاں کرنا بھی بند کی ہوئی ہیں۔
مودی حکومت بیروزگاری کا کیا حل پیش کر رہی ہے؟
مودی حکومت کا یہ پلان ہے کہ جتنا ہو سکے عوامی اداروں کو پرائیویٹائز کیا جائے اور پرائیویٹ سیکٹر کو لایا جائے۔ اور پرائیویٹ سیکٹر خود نئی نوکریاں پیدا کرے۔ یعنی کہ ریاست نئی نوکریاں پیدا کرنے کی ذمہ دار نہ ہو۔ یہ وہی مودی ہے جو اپنی سابقہ الیکشن کمپین میں کہہ رہا تھا کہ وہ ایک ارب نوکریاں پیدا کرے گا۔ اور اب وہ کہہ رہا ہے کہ سرکار کا کام نوکریاں پیدا کرنا نہیں ہے۔ ایک انٹرویو میں تو مودی نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی پکوڑے کی ریڑھی لگاتا ہے تو وہ بھی برسر روزگار ہے، لہٰذا بیروزگار نوجوان پکوڑے بیچنا شروع کر دیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو عمران خان بھی کہتا تھا کہ مرغیاں پالیں اور ارب پتی بن جائیں۔
کیا پرائیویٹ سیکٹر بیروزگاری ختم کر سکتا ہے؟
یہاں پرائیویٹ سیکٹر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دیکھنا ہوگا۔ ایک: بڑی کمپنیاں، اور دوسرا: چھوٹا کاروبار اور سٹارٹ اپس (Start Ups) وغیرہ۔
بڑی کمپنیوں میں تو روزگار بہت ہی کم پیدا ہوتا ہے جبکہ انکا سائز اور منافعوں کا حجم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہمیشہ سرمایہ دار مقابلے بازی میں سبقت لے جانے اور اپنے منافع کو بڑھانے کیلئے جدید مشینری متعارف کروا کر کم مزدوروں سے زیادہ کام لینے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور اس عمل میں ہمیشہ بڑی کمپنیاں ہی آگے ہوتی ہیں۔ مثلاً اڈانی گروپ کی مارکیٹ کیپیٹالائزیشن (کل مالیت) 11 لاکھ کروڑ رانڈین روپے ہے جبکہ اس کے پاس صرف 43 ہزار ملازمین ہیں۔ اسی طرح ایک اور بڑی کمپنی ITC جو کہ 25 سے زائد بڑے برانڈز کی ملکیت رکھتی ہے، کی مارکیٹ کیپ 5 لاکھ 40 ہزار کروڑ انڈین روپے ہے جبکہ ان کے ملازمین کی تعداد صرف 23ہزار ہے۔ لہٰذا یہ نتیجہ نکالنا کہ اگر ملک کے بڑے سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ ہوگا تو ساتھ ہی نیا روزگار بھی پیدا ہوگا، سراسر غلط ہے۔
اگر چھوٹے کاروبار اور سٹارٹ اپس کی بات کی جائے تو ان کے حوالے سے یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ سیکڑ چونکہ بڑی کمپنیوں کی نسبت زیادہ روزگار پیدا کرتا ہے لہٰذا سرکار اس پر فوکس کرے۔ مگر بیروزگاری کو ختم کرنے کیلئے یہ بھی کوئی مستقل اور قابل عمل حل نہیں ہے۔ در حقیقت اس سیکٹر میں تنخواہیں بہت ہی کم ہیں۔ اسی طرح مزدوروں کو دیگر حقوق بھی دستیاب نہیں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022ء میں رجسٹر شدہ چھوٹے کاروبار جسے ’مائیکرو، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (MSME)‘ بھی کہا جاتا ہے، میں تقریباً 9.3 کروڑلوگ کام کرتیہیں۔ جبکہ ہر سال تقریباً 3 کروڑ سے زائد نوجوان روزگار کی منڈی میں شامل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اپنی دیگر خامیوں کے ساتھ ساتھ اس حساب سے اس سیکٹر میں روزگار پیدا کرنے کی قطعاً سکت ہی نہیں۔
اگر سٹارٹ اپس کی بات جائے تو وہاں بھی صورت حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔ ویسے تو انڈین اور پاکستانی موٹی ویشنل سپیکرز انڈین سٹارٹ اپس کی کئی کامیاب کہانیاں سناتے ہیں مگر حقیقت اس کے اُلٹ ہے۔ کاروبار پر لکھنے والے مشہور جریدے ’منٹ‘ کے مطابق 2023ء میں سو سے زائد سٹارٹ اپس نے 15 ہزار ملازمین کو نوکریوں سے نکالا۔ موجودہ سال میں بھی کئی سٹارٹ اپس بند ہو رہے ہیں، کئی کو بڑی کمپنیوں نے خرید لیا ہے اور وہ کئی لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں۔
جدید دور کے تقاضے اور بوسیدہ تعلیمی نظام
ایک طرف انڈیا میں بڑی بیرونی انویسٹمنٹ آرہی ہے، بالخصوص آئی ٹی سیکٹر میں جبکہ دوسری جانب ہنر مند لیبر کا بہت زیادہ فقدان ہے۔ جس کی بنیادی وجہ انڈیا کے نظام تعلیم کی بوسیدگی ہے۔ ایک طرف آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب آج بھی پورا نظام تعلیم رٹا سسٹم اور ڈگریوں پر منحصر ہے۔ چند پرائیویٹ یونیورسٹیاں ایسی ہیں جہاں کسی حد تک جدید تعلیم دی جا رہی ہے مگر اُن کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا جدید تقاضوں کے مطابق ہنر نئی نوجوان نسل تک نہیں پہنچ پارہا۔ حتیٰ کہ سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں بھی بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ 2019ء کی ’نیشنل ایمپلائے ایبیلیٹی رپورٹ‘ کے مطابق صرف 3 فیصد انجینئرز کے پاس جدید تعلیم (آرٹیفیشل انٹیلی جنس وغیرہ) ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کو تو چاہیے کہ تعلیم پر زیادہ خرچ کرے مگر یہاں بھی پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لایا جا رہا ہے۔
سرمایہ داری بمقابلہ طلبہ، نوجوان، مزدور اور کسان
اس وقت الیکشن جاری ہیں۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ مودی 400 سیٹیں لے کر مکمل طاقت کے ساتھ اقتدار میں آئے گا اور اپنی مرضی کی آئینی ترامیم کرے گا۔ مگر اس وقت کی اطلاعات کے مطابق ایسا ہوتا تو دکھائی نہیں دیتا، مگر کانگریس اور دیگر سرمایہ دارانہ پارٹیوں سمیت نام نہاد بائیں بازو کے خصی پن کی وجہ سے الیکشن مودی ہی جیتے گا۔ بہر حال، الیکشن کا نتیجہ جو بھی ہو طلبہ، مزدور اور کسان دشمن سرمایہ دارانہ پالیسیاں ایسے ہی جاری رہیں گی۔ نتیجتاً بیروزگاری اور مہنگائی بھی بڑھتی ہی جائے گی۔
انڈیا میں وقتی معاشی اُبھار کی وجہ بھی یہی ہے کہ باقی ممالک کی نسبت انڈیا میں بڑی تعداد میں سستی لیبر دستیاب ہے جس سے پوری دنیا کے سرمایہ دار فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح انڈیا میں ایک بڑی منڈی بھی موجود ہے جو عالمی کمپنیوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ انڈیا کے اپنے سرمایہ داروں کو بھی کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے مزدوروں کا خوب استحصال کریں۔ 2023ء میں اڈانی گروپ کی کرپشن اور مودی سرکار کی جانب سے اس کی کھلی سپورٹ کے چرچے زبان زد عام رہے۔ اس استحصال کے خلاف مزدوروں نے متعدد ملک گیر عام ہڑتالیں بھی کی ہیں۔
اسی طرح زراعت کے حوالے سے مودی سرکار نے 2020ء میں جو کسان دشمن قوانین بنائے، ان کا مقصد بھی پرائیویٹ سیکٹر کو زراعت میں لوٹ مار کرنے کا کھلا موقع فراہم کرنا تھا۔ اس کے خلاف کسانوں نے زبردست تحریک چلائی اور مودی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔
مودی کی مسلمان دشمنی اور ہندوتوا کے چورن بیچنے کے پیچھے اصل مقصد محنت کش عوام کو تقسیم کرنا اور ڈنڈے کے زور پر بڑے ملکی و بیرونی سرمایہ داروں کو مزدوروں کا کھلا استحصال کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
حل کیا ہے؟
2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے امیر ترین 10 فیصد افراد کے پاس ملک کی 50 فیصد دولت ہے جبکہ 50 فیصد غریب ترین آبادی کے پاس محض 13 فیصد۔ انڈین مزدوروں کا شدید ترین استحصال کر کے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بنانے والے انڈین سرمایہ داروں کے پاس اس وقت بہت زیادہ دولت اور وسائل اکٹھے ہو چکے ہیں۔ اگر ان تمام وسائل کو مٹھی بھر سرمایہ داروں سے چھین کر پورے سماج کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے تو چند دنوں میں انڈیا سے غربت، مہنگائی، بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہے۔
سوشلزم میں تمام بڑی ملکی و ملٹی نیشنل کمپنیوں، صنعتوں، بینکوں، جاگیروں کو ان کے مالکان سے چھین کر مزدور ریاست کے جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے گا۔ اس طرح اربوں، کھربوں ڈالر کی مالیت کے وسائل اور پیداواری ذرائع پورے سماج کی فلاح کیلئے استعمال میں لائے جا سکیں گے۔ اگر انڈیا کی 10 سب سے بڑی کمپنیوں کی کل مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کو جمع کیا جائے تو وہ تقریباً 1000 ارب ڈالر بنتی ہے۔ زرا سوچیں کہ اگر یہ دولت ان 10 کمپنیوں کے مالکان کے پاس جانے کی بجائے مزدور ریاست کے پاس آجائے تو اس سے کتنے نئے اور جدید تعلیمی ادارے، ہسپتال اور انفراسٹرکچر بن سکتا ہے، کتنی نئی نوکریاں پیدا کی جاسکتی ہیں!