|تحریر: روبرٹو سارتی، ترجمہ: سرخا رام|
جولائی کے مہینے میں یونان اور ترکی کے بیچ تصادم کا آغاز ہوا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ تصادم ان دونوں ممالک کے بیچ دہائیوں کا سب سے سنجیدہ بحران ہے۔
جنگ کے لیے جواز تب فراہم ہوا جب ترکی جنوب مشرقی ’ایجین سمندر (Agean Sea)‘ میں یونانی جزیرے ’کاسٹیلوریزو‘ کے قریب سائزمک سروے (تیل اور گیس دریافت کرنے کا سروے) کر رہا تھا، جس کی حفاظت کے لیے ترکی کا بحری بیڑہ بھی ساتھ تھا۔
سروے کے دوران ترکی کے ایک سمندری جنگی جہاز کا یونانی کشتی کے ساتھ تصادم ہوا جس کے بعد صدر اردگان نے یونان کو خبردار کرتے ہوئے کہا: ”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ ہم پر حملہ کریں تو انہیں بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ آج ان کو پہلا جواب موصول ہو گیا۔“ فرانسیسی صدر میکرون، یونان میں فرانسیسی فوج کی موجودگی کو بڑھاتے ہوئے امداد کے لیے پہنچ گیا تاکہ ”خطے کے حالات پر نظر رکھے اور فرانس کے اس عزم کا اظہار کرے کہ وہ بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھے گا۔“ بلاشبہ فرانسیسی حکومت تب تک ”بین الاقوامی قانون کو برقرار“ رکھنا چاہتی ہے جب تک وہ ان کے مفاد کے لیے کارگر ثابت ہو۔
ان ممالک کو بحیرہ روم کے جنوب مشرق میں موجود ہائیڈرو کاربن کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لینے کی جلدی ہے۔ اس خطے میں ان ذخائر کا جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ 1.7 ملین تیل کے بیرل اور تقریباً 227 ٹریلین کیوبک فیٹ کے گیس کا ہے۔ اندازے کے مطابق صرف گیس کے ذخائر کی قیمت 700 بلین ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔
مشرقی بحیرہ روم کو برابر حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے ان دونوں حریفوں اور دیگر ممالک کے بیچ چند مہینوں کے عرصے میں کئی معاہدے ہو چکے ہیں۔ ایک معاہدہ اردگان اور لیبیا کے وزیراعظم فائز السراج کے درمیان نومبر 2019ء میں ہوا تھا۔ اسی طرح جواباً یونان اور مصر کے درمیان 6 اگست کو ایک معاہدہ طے پایا۔
ترکی کی ایڈمرلٹی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بحیرہ روم میں اپنی سمندری خودمختاری (جس کے مطابق ساحلی ممالک کے علاقے میں سمندر کا ایک مخصوص حصہ بھی شامل ہوتا ہے) کے لیے لڑیں، جس کا اظہار لیبیا کے ساتھ کیے گئے معاہدوں میں ہوتا ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ اپنے سمندری حلقہ اختیار کو سو سالہ پرانے نقشے کے مطابق بڑھائے جو 1920ء میں کیے گئے معاہدوں (Sanremo Treaty, Treaty of Sévres) کے نتیجے میں کم ہو گیا تھا۔
بحیرہ روم میں یونان اور سائپرس کے ”مخصوص معاشی علاقے“ (EEZs) موجود ہیں جہاں پر غیر ملکی کمپنیاں جیسا کہ ٹوٹل، اینائی اور ایگزون گیس دریافت کرتی ہیں۔ اردگان یورپ کے نقشوں اور ترکی کے قریب موجود جزیروں پر EEZs سے اختلاف رکھتا ہے، اور اصرار کرتا ہے کہ ترکی کا زیر آب علاقہ مصر اور لیبیا تک پھیلا ہوا ہے۔
اس معاملے میں نہ تو ”قومی خودمختاری“ خطرے میں ہے اور نہ ہی ”چھوٹی اقوام“ کے جمہوری حقوق۔ یونان اور ترکی کا تنازعہ دونوں اطراف سے رجعتی ہے اور مارکس وادی ان میں سے کسی کی بھی حمایت نہیں کرتے۔
ترکی کا نیلا آبائی وطن
اردگان کی حکمتِ عملی کو ”ماوی وطن“ (نیلا آبائی وطن) کہا جاتا ہے۔ جس کا مقصد سمندری قبضے کے ذریعے توانائی کے ذخائر کو ضبط کرنا ہے تاکہ ترکی کی طاقت میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک اہم طریقہ ملک کی عسکری قوت کا استعمال ہے۔ نیٹو میں سب سے زیادہ افرادی قوت رکھنے میں ترکی کی فوج دوسرے نمبر پر ہے۔
توسیع کی یہ منصوبہ بندی نہ صرف یونان کے، بلکہ ترکی کے طاقتور سرپرستوں کے مفادات سے بھی ٹکراتی ہے جس میں فرانس جیسی سامراجی قوت بھی شامل ہے۔
ترکی ایک نیا سلطنتِ عثمانیہ بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس حوالے سے اردگان کے یونان کے ساتھ تصادم کے بعد بولے گئے الفاظ کافی قابلِ ذکر ہیں:
”چھپن چھپائی بہت کھیلی جا چکی۔ ترکی جو کہ خطے کے اندر اور ایک بین الاقوامی قوت ہے، کا ایک ایسی ریاست سے موازنہ کرنا جو اپنے اندرونی معاملات کی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتی، مضحکہ خیز ہے۔ اپنے مظالم چھپانے کے لیے سیاسی قلابازیاں اور سفارت کاری ان ممالک کے لیے کافی نہیں ہے جو خود کو بڑے، مضبوط اور ناقابلِ فتح سمجھتے ہیں۔ چاہے تمام حریف متحد ہی کیوں نہ ہو جائیں مگر وہ ترکی کے عروج کو نہیں روک پائیں گے۔“ (2 ستمبر 2020ء)
اس تناظر میں ہم ’سلطان‘ کے اس فیصلے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جب استنبول میں موجود ’آیا صوفیہ‘ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ 24 جولائی کو کیا گیا جو لاؤسین کے معاہدے (1923ء) کا دن ہے، جس میں ترکی کی موجودہ حدود متعین کی گئیں اور جس سے اردگان اختلاف رکھتا ہے۔
2020ء کی دوسری سہ ماہی میں ترکی کی معیشت 9.9 فیصد سکڑ گئی مگر کورونا وباء سے پہلے بھی ملک کے حالات کچھ بہتر نہیں تھے۔ 2019ء میں جی ڈی پی محض 0.9 فیصد تک بڑھ سکی تھی۔ امریکی ڈالر کی قدر بڑھنے سے ترکی لیرا گراوٹ کا شکار ہو گیا اور سال کے شروع سے اب تک اس میں 20فیصد گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ تجارت بھی شدید عدم توازن کا شکار ہے جس کو کورونا وباء کے ساتھ معاشی سرگرمی میں جمود اور سیاحت کے رک جانے سے نقصان پہنچا اور ملک کے اندر سرمایہ نہیں آ رہا۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے تجارت کی تباہی کا اندازہ ہوتا ہے جس کے مطابق جولائی کے مہینے میں ترکی کو 3 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ مئی کے مہینے سے لے کر یہی صورتحال حالیہ مہینوں کی بھی ہے۔
ترکی کے سامراجی اقدامات یہاں کے حکمران طبقے کی خود کو بڑی طاقت بنانے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے اور اسی طرح یہ اقدامات اس لیے بھی لیے جا رہے ہیں تاکہ عوام کا دھیان ملک کے بڑھتے ہوئے بحران، غربت اور تباہی سے ہٹایا جا سکے۔
انقرہ نے خود کو بین الاقوامی مسابقت کی دوڑ میں بنا سوچے سمجھے دکھیل دیا ہے۔ مزید برآں سائپرس اور شام میں پرانے قبضہ کیے گئے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اس نے البانیا، آذربائیجان، لیبیا، قطر اور حتیٰ کہ سومالیہ میں بھی فوجی اڈے قائم کر لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی سوڈان، یمن، تیونس اور دیگر فرانسیسی زبان بولنے والے مغربی ممالک میں پراکسی گروہوں کے ذریعے مداخلت کرتا آ رہا ہے۔
یہ سب کچھ خطے میں حکومتوں کے بیچ تناؤ کی عکاسی کر رہا ہے۔ اتحادوں میں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اسی تناظر میں ہمیں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے بیچ ”حالات کو معمول پر لانے“ کے معاہدے کو دیکھنا چاہیئے۔ یہ ایک سرکاری فرمان جاری کرنے کے مترادف تھا کہ عرب بورژوازی نے فلسطینیوں کو ان کی اپنی قسمت پر چھوڑ دیا ہے، اور مزید برآں اس سے امریکی ریاست کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی امداد کے ساتھ ایک بلاک بنائے (جس کو کچھ تجزیہ نگاروں نے ”عرب نیٹو“ کا نام دیا ہے)، جس کا مقصد ایران، لبنانی حزب اللہ (ایران کا اتحادی) اور ترکی کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ بلاک امیر خلیجی بادشاہتوں پر مشتمل ہوگا جس میں امارات، سعودیہ عرب اور مصر شامل ہوں گے (قطر کو خارج کرتے ہوئے جو ترکی کا اتحادی بنا ہوا ہے)۔
یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے عرب لیگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
”عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں ترکی کی مداخلت خطے کے اندر ایک مذموم عمل کی مثال ہے۔“
یہ بات بھی بہت واضح ہے کہ امارات اور اسرائیل کے معاہدے سے امن قائم ہونا تو دور کی بات، اس سے پورے خطے کے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا۔
ترکی کے اندر آنے والے عرصے میں عوامی احتجاج اردگان کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیں گے، جو ابھی سے زوال کا شکار ہے، جیسا کہ استنبول میں 2019ء کے میئر الیکشن میں شکست سے ظاہر ہوا تھا۔ ناگزیر عوامی تحریک کو مؤخر کرنے لیے قوم پرستی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب یورپی دارالحکومتوں میں، خصوصاً فرانس میں، اردگان کی توسیع پسند پالیسیوں نے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔ فرانس اور ترکی کے مفادات آپس میں ٹکراتے ہیں۔ یونان کے اندر فرانسیسی سامراج کی مداخلت کی اہم وجہ یہ حقیقت ہے کہ فرانسیسی ملٹی نیشنل کمپنی ٹوٹل نے خطے میں منافع بخش ہائیڈرو کاربن کی کان کنی کے لیے معاہدے کیے ہوئے ہیں، اور EEZs میں تبدیلیاں اسے ان معاہدوں سے محروم سے کر سکتی ہیں۔
البتہ یہ تصادم وسیع تر اہمیت کا حامل ہے۔ ہر ایک ملک کے اندر فرانس اور ترکی ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ میکرون نے یکم ستمبر کو کہا:
”ہمیں بحیرہ روم کا خطہ پر امن بنانا ہوگا کیونکہ ہمیں ایک علاقائی سامراجی قوت اپنی عظمت رفتہ کے خوابوں کا شکار ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ میں ترکی کی بات کر رہا ہوں۔“
میکرون کے بحیرہ روم کے پر امن خطے کا امن پسندی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا مطلب پورے بحیرہ روم پر فرانسیسی غلبے کی خواہش ہے۔ پچھلے ہفتوں میں لبنان کے اندر میکرون کا کردار اس بات کی مزید گواہی دیتا ہے۔
10 ستمبر کو کورسیکا میں ہونے والے اجلاس میں میکرون کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ اس اجلاس کو Med7 کا نام دیا گیا تھا اور اس میں پرتگال کے ساتھ ساتھ 6 دیگر یورپی ممالک شریک ہوئے تھے جو بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہیں۔ کوئی بھی یورپی ملک فرانس کی عظمت کی خاطر قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور اردگان یورپ کو دھمکانے کے لیے ایک اور جواز بھی رکھتا ہے جو ترکی کے اندر موجود مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھول دینے کا ہے جن کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 40 لاکھ تک ہے۔
لیبیا میں مہنگی فتح
موجودہ تناؤ رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ 12 مہینے قبل حفتر (لیبیا کا فیلڈ مارشل) اور اس کی فوج کو فرانس، مصر، امارات اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ ان کو روکنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا اور لیبیا میں ان کی فتح یقینی نظر آ رہی تھی۔ مگر پھر اردگان نے براہ راست مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی پوری قوت السراج کی عبوری حکومت (گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ-GNA) کے پیچھے لگا دی۔
لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں سینکڑوں جنگجو بھیجے گئے۔ یہ ترکی کی باقاعدہ فوج کے نہیں بلکہ شمالی شام کے زر خرید اسلامی بنیاد پرست سپاہی تھے جہاں پر وہ کرد ملیشیا (YPG) سے لڑ رہے تھے۔ اردگان کی کامیابی کی ایک وجہ روس کے رویے میں تبدیلی بھی تھی جو شروع میں حفتر کی حمایت کر رہا تھا۔
شام کے حوالے سے ترکی کے ساتھ معاہدوں اور انقرہ کو روسی S-400 میزائلوں کی فراہمی کی بنیاد پر پیوٹن نے اردگان کو لیبیا میں داخل ہونے کا اشارہ دیا۔ جون کے مہینے میں جب السراج امریکی سفیر سے ملنے ترکی گیا ہوا تھا، لیبیا کا نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ دونوں ماسکو میں موجود تھے۔
اس سے ایک ہفتہ قبل ویگنر گروپ (روس سے تعلق رکھنے والے پیراملٹری دستے) لیبیا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اپریل میں ترھونہ کے مقام پر حکومتی فوج کے ہاتھوں ویگنر گروپ کی پسپائی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ترھونہ حفتر کے لیے طرابلس کے راستے پر نقل و حمل کا نہایت اہم اڈا تھا۔
حفتر پر یہ تلخ حقیقت واضح ہو گئی کہ سامراجی ممالک کے مستقل دوست یا اتحادی نہیں ہوتے، ان کے صرف مستقل مفاد ہوتے ہیں، جیسا کہ لارڈ پالمرسٹن (برطانوی جنگی افسر اور وزیراعظم) نے کہا تھا۔
لیبیا میں اردگان کی کامیابی موجودہ تصادم کا پیش خیمہ تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا تھا، لیبیا کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ترکی نے ایک ایسا EEZ قائم کیا ہے جو ترکی کے ساحل سے لے کر لیبیا کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ اور اب انقرہ یونان اور سائپرس کے غیر ملکی گیس کے وسائل کو لوٹنا چاہتا ہے جو اینائی، ٹوٹل اور کچھ امریکی کمپنیوں کے لیے وسیع تر مفادات کے حامل ہیں۔
یعنی سلطان کی کامیابی حتمی نہیں ہے بلکہ ایک نئے بین الاقوامی بحران کا پیش خیمہ ہے۔
بحیرہ روم کے خطے میں موجود بحران بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت بڑی فوجی جنگیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلے تو حالیہ معاشی کساد بازاری کی مثال نہیں ملتی مگر اس کے علاوہ بھی ایک وجہ ہے۔ امریکی ریاست کی سامراجیت نسبتاً کمزور ہو رہی ہے جس سے مختلف علاقائی قوتوں کے عروج کے لیے خلا پیدا ہو رہا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے لائحہ عمل پر کام کر رہا ہے۔ اس عمل کا سب سے زیادہ واضح اظہار مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں ہو رہا ہے۔
جیسا کہ ہمارے یونانی کامریڈوں نے لکھا ہے:
”اس مرحلے پر ترکی اور یونان کے بیچ کسی بڑی جنگ کا امکان نہیں ہے اور دونوں ممالک کی بورژوازی بھی یہ نہیں چاہتی۔ جنگ دونوں ممالک کے لیے معاشی تباہی لے کر آئے گی مگر اس سے نظام کے استحکام کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ البتہ دونوں بورژوازی کے پر خطر اقدامات کے نتیجے میں کسی چھوٹی یا بڑی جنگ کے امکان کو مکمل رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ خطرہ لازم رہے گا کہ دونوں ممالک جنگ میں مکمل طور پر دکھیلے جائیں۔ دونوں ممالک کی بورژوا حکومتیں جیسے جیسے گہرے ہوتے ہوئے بحران کا شکار ہو رہی ہیں، یہ امکان ہمیشہ رہے گا کہ دونوں حکمران طبقوں میں سے ایک عسکری جنگ کے ذریعے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا۔“
ہر ”امن اجلاس“ میں اور ملٹی نیشنل گروہوں اور اداروں کے ہر اجتماع میں ”بین الاقوامی اتفاق رائے“ اور ”بین الاقوامی متفقہ حل“ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ البتہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں بین الاقوامی تعاون پر قومی مفاد کو برتری حاصل ہے۔
ہر جگہ قوم پرستی عروج پر ہے۔ حکمران طبقہ تجارتی جنگوں اور ممالک کے بیچ سخت مقابلے میں کامیابی کے لیے قوم پرستی کے لبادے اوڑھ رہا ہے۔ امریکی اور چینی ریاست کے بیچ تصادم اس کی واضح مثال ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ امریکی ریاست اور یورپی یونین کے بیچ بھی ایک تصادم جاری ہے؛ اور چین اور یورپ جیسے طاقتور ترین ملکوں کے بیچ بھی۔ اس کے علاوہ چھوٹی جنگیں بھی ہو رہی ہیں جس کے پیچھے عالمی سامراجی قوتوں کی منحوس پرچھائیاں دکھائی دے رہی ہیں، جیسا کہ یونان اور ترکی کے بیچ، اور لیبیا اور شام کے اندر۔
اگر یہ تنازعات جنگ عظیم کے بعد کے دور میں سامنے آتے جب ساری دنیا میں معاشی ترقی زوروں پر تھی، تو ان کو امریکی ریاست اور سوویت یونین کے زیر نگرانی نسبتاً پر امن طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا مگر آج یہ ممکن نہیں رہا۔ اور جن علاقوں میں سامراجیت نے بطورِ وراثت قومی تقسیم اور حریفوں کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں، وہاں پر تجارتی جنگیں اور حلقہ ہائے اثر کو بڑھانے کے مقابلے آخرکار عسکری جنگوں میں مروجہ طور پر تبدیل ہوں گے۔ آنے والے عرصے میں علاقائی اور پراکسی جنگوں کا دور دورہ ہوگا۔
یہ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ممالک، مشرق وسطی اور باقی ممالک کے محنت کشوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک واضح اور بین الاقوامی طبقاتی تناظر کو اپنائیں۔ کارل لبنیخت (جرمن انقلابی) نے سو سال قبل ایک نعرہ لگایا تھا: ”اصل دشمن تو گھر میں ہے!“۔ اسی نعرے کو آج کے تمام باشعور محنت کشوں اور نوجوانوں کو دوبارہ بلند کر کے آنے والے طوفانی واقعات میں روشنی کا مینار بنانا پڑے گا۔