تحریر: | عدیل زیدی |
سٹالنزم دنیا میں بائیں بازو کی سیاست میں ایک اہم موضوع ہے جس پر لاتعدا د مضامین لکھے جا چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ انقلابی سیاست میں ایک سلگتا ہوا سوال ہے۔ بورژوا تبصرہ نگاروں کی نظر میں سٹالنزم صرف ایک ظلم کی داستان ہے اور سٹالنسٹ اکثر اس کے حق میں جواز تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد سٹالنزم کو اخلاقی بنیادوں پر پرکھنا نہیں بلکہ مارکسی طریقہ کار سے سائنسی بنیادوں پر اس کے ابھار کو سمجھناہے کیونکہ ایک مارکسی کا تاریخ کا مطالعہ کرنے کا مقصد اس پر رونا دھونا نہیں بلکہ اس کا تجزیہ کر کے اس سے سبق حاصل کرنا ہوتا ہے۔
سٹالنزم کو انقلابِ روس کے بعد ابھرنے والے ایک مخصوص ریاستی ڈھانچے کے نظریہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اس وجہ سے اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے مارکسزم میں ریاست کے نظریے کو سمجھنا فائدہ مندہو گا۔ یوٹوپیائی سوشلزم، مارکس اور اینگلز سے پہلے ہنری دی سینٹ، سائمن، فوریئر اور رابرٹ اووین کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جس کی بنیادیں اخلاقیات پر مبنی تھیں جو کہ کسی بھی وقت لاگو کیا جا سکتا تھا۔ مارکسزم ،اس کے برخلاف، انسانی سماج کی ترقی کی بنیادیں پیداواری قوتوں کی ترقی میں دیکھتا ہے۔ انسان ابتدا میں قدیم اشتراکی معاشروں میں رہتا تھا جہاں روز کی حاصلات کو روز ہی ختم کیا جانا مجبوری تھی کیونکہ پیداواری قوت بہت پسماندگی میں تھی۔ اور اس قلت کے سماج میں تھوڑی سی فاضل پیداوار نے فوراً ایک طبقاتی نظام کے وجود میں آنے کو ممکن کیا۔ انسانی سماج نے کئی ہزار سال اس استحصالی اور ظالمانہ طبقاتی نظام میں گزارے ہیں جو ارتقاکے مختلف مراحل جس میں غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری سے گزر کر آج کے عہد میں پہنچا ہے۔ اپنے بے انتہا جبر اور ظلم کے باوجود ان تمام طبقاتی نظاموں نے انسانی سماج کو بحیثیت مجموعی آگے لے کر جانے کا کام کیا اور اپنی اپنی حدود تک پیداواری قوتوں کو ترقی دی۔ تاریخ میں کوئی بھی نظام اس وقت تک ختم نہیں ہوا جب تک اس میں پیداواری صلاحیتوں کو آگے بڑھانے کی گنجائش تھی اور کوئی نیا نظام اس وقت تک نہیں آیا جب تک اس کے وجود کے لیے مادی بنیادیں نہ ہوں۔
اسی طرح سائنسی بنیادوں پر ایک غیرطبقاتی نظام میں اعلیٰ سطح پر واپس جانے کے لیے ضروری مادی بنیادوں کا ہونا ناگزیر ہے، جیسا کہ طبقاتی نظام کی بنیاد قلت تھی تو ناگزیر طور پر غیرطبقاتی نظام میں جانے کے لیے قلت کا خاتمہ ضروری ہے۔ سرمایہ داری نے تاریخی طور پر پیداواری قوتوں کو بے پناہ ترقی دی لیکن جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے پیش گوئی کی تھی کہ آج وہ مزید ترقی دینے کے بجائے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکی ہے۔ ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماج بھی یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ سیدھا غیر طبقاتی سماج میں چلا جائے۔ اسی وجہ سے مارکس ایک عبوری دور کا ذکر کرتا ہے جو کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد منصوبہ بندی کے ذریعے قلت اور طبقاتی نظام کی باقیات کو ختم کرے۔ مارکس اس عبوری دور کو ’’کمیونزم کا نچلا مرحلہ‘‘ کہتا ہے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’یہاں ہمارا واسطہ ایک ایسے کمیونسٹ سماج سے ہے جو اپنی بنیادوں پر استوار نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس یہ ابھی ابھی سرمایہ دارانہ سماج کے بطن سے پیدا ہوا ہے اور اس طرح ہر حوالے سے یعنی معاشی،اخلاقی اور ذہنی حوالے سے ا س پر اس پرانے سماج کے جنم کے نشانات موجود ہیں جس کی کوکھ سے اس نے جنم لیا‘‘۔
ان ہی وجوہات سے مارکس عبوری دور میں ایک عبوری ریاست کی بھی بات کرتا ہے جو کہ ’’پرولتاریہ کی آمریت‘‘ پر مبنی ایک مزدور ریاست ہو۔ یہاں ’’آمریت‘‘ کا مطلب آج کے دور کی آمریت نہیں ہے کیونکہ آج آمریت کا مطلب پچھلی صدی میں رہنے والی خوفناک آمریتوں کی وجہ سے بدل چکا ہے، جنہیں مارکس نے نہیں دیکھا تھا۔ مارکس کے مفہوم میں ’’پرولتاریہ کی آمریت‘‘ کا سادہ سا مطلب اکثریت کا اقلیت پر غلبہ یا اکثریت کی جمہوری حکمرانی ہے۔ مزید یہ کہ ریاست کا کردار ایک طبقاتی سماج میں جبر کے ایک آلہ کا ہوتا ہے جو کہ حکمران اقلیت کے مفاد میں کام کرتی ہے، لیکن ایسی ریاست جو اکثریت کے قابو میں ہو تو اس کا کردار یکسر تبدیل ہو جاتا ہے، کیونکہ اب وہ اکثریت کے مفاد کا تحفظ کرے گی۔ اور جیسے جیسے ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت سماج میں سے قلت کا خاتمہ کر ے گی نابرابری کا خاتمہ بھی خود ہو جائے گا، اور یہ ریاست خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔
غیر طبقاتی سماج میں ہر انسان کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام اور ضرورت کے مطابق صلہ دیا جا سکے گا، لیکن ایک عبوری دور میں سماجی ضرورت کے مطابق کام اور کام کے مطابق ہی صلہ دیا جا سکے گا۔ مارکس اس معاملے میں کہتا ہے:
’’لیکن کمیونسٹ سماج کے پہلے مرحلے میں یہ خرابیاں ناگزیر ہیں کیونکہ یہ وہ وقت ہے کہ اس سماج نے ایک تکلیف دہ عمل کے بعد ابھی ابھی سرمایہ دارانہ سماج کے بطن سے جنم لیا ہے۔ قانون کبھی بھی سماج کے معاشی ڈھانچے اور اس سے مشروط ثقافتی ترقی سے بالاتر نہیں ہو سکتا‘‘۔
ٹیڈ گرانٹ نے اپنی کتاب ’’روس: انقلاب سے ردِانقلاب تک‘‘ میں لکھا ہے:
’’دوسرے الفاظ میں کمیونزم کا پہلامرحلہ (سوشلزم) ابھی مکمل انصاف اور مساوات فراہم نہیں کر سکتا، دولت اور آمدنی میں فرق(غیر منصفانہ فرق) کچھ عرصہ کیلئے پھر بھی موجود رہے گا اگرچہ عام معیارِزندگی میں بہت زیادہ بہتری آجائے گی۔ اس وقت سماج ہر کسی کو ’’اپنی صلاحیتوں کے مطابق، کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور نہ ہی ہر ایک کو ’’اس کی ضرورت کے مطابق‘‘ اس کے کام کا صلہ دے سکتا ہے۔ مزدوروں کی ریاست ان مخاصمانہ خصوصیات کے باہمی رشتے پر نظر رکھے گی اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ سوشلسٹ رجحانات کو حتمی غلبہ حاصل ہو اور رفتہ رفتہ ریاست کا خاتمہ ہو جائے‘‘۔
مختصر یہ کہ کمیونزم کا پہلا حصہ ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت (سوشلسٹ رجحان) اور اجرتی محنت کے طریقہ کے ذریعے اشیاء اور خدمات کی تقسیم (سرمایہ دارانہ رجحان) کا ایک امتزاج ہو گی، لیکن بقول لینن کے انسان کا انسان کے ہاتھوں استحصال ختم ہو جائے گا۔ کمیونزم کا اعلیٰ مرحلہ صرف افراط کی صورت میں اور ایک انتہائی ترقی یافتہ انسانی سماج میں ہی ممکن ہو گا۔
مارکس کے خیال میں سوشلسٹ انقلاب پہلے ایک ترقی یافتہ ملک میں آنے کا زیادہ امکان تھا اور ضروری بھی تھا۔ ایک چیز واضح ہے کہ سماج کی پسماندگی عبوری دور کی شکل پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مزدوروں کے ہاتھ سے اقتدار نکل بھی سکتا ہے۔ روس جیسے پسماندہ ملک میں لینن ان خطرات سے بخوبی آگاہ تھا جہاں انقلاب کے فوراً بعد 21 ملکوں نے روس پر حملہ کردیا اور ایک خوفناک خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا، اسی وجہ سے بیوروکریسی کے خلاف اقدامات کیے جن میں سے اہم یہ تھے:
1۔ اوقاتِ کار میں کمی تاکہ لوگ کام کے بعد ریاست کے امور کو چلانے میں بھی حصہ ڈال سکیں۔
2۔ تمام افسران کا انتخاب اور انہیں واپس بلائے جانے کا اختیار۔
3۔ کسی افسر کو ہنرمند مزدور سے زیادہ تنخواہ کا نہ دینا۔
4۔ ذمہ داریاں سب کو باری باری دیناتا کہ باورچی وزیر اعظم بن سکے اور وزیر اعظم باورچی۔
لیکن روس کی پسماندگی ان کو نافذ کرنے میں مستقل رکاوٹ کا باعث بنتی رہی۔ لینن ہمیشہ ایمانداری سے حالات کو بیان کرتا اور اپنے تمام تناظرات کو عالمی انقلاب سے جوڑتا۔ لینن نے ایک دفعہ یہاں تک کہا کہ جرمنی کے انقلاب کے لیے روس کا انقلاب قربان بھی کرنا پڑا تو کر دیں گے۔ ایک ترقی یافتہ ملک میں سوشلزم کی تعمیر پسماندہ روس میں سوشلزم کی تعمیر سے بہت مختلف ہوتی۔ روس کی ناخواندگی کی انتہائی اونچی سطح یعنی 60 فیصد سے زیادہ اور مزدورطبقہ کمزورر تھا۔ انقلاب کے بعد ریاستی نظام چلانے کے لیے پرانی زارشاہی بیوروکریسی کی خدمات لینا مجبوری بن گیا۔ شروع میں کم ازکم اجرت اور زیادہ سے زیادہ اجرت کا تناسب 1:2.1 اور1919ء کے آغاز میں یہ تناسب 1:1.75 تھا۔ 1921ء کی نئی اکنامک پالیسی آنے پر آفس سٹاف، درمیانے درجہ کے ہنرمند اور اعلیٰ انتظامی عہدیداران کو تنخواہ کی پابندیوں سے آزاد کر دیا گیا اور سٹاف کو چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا:
1۔ نئے سیکھنے والے
2۔مختلف ہنرمند مزدور
3۔ اکاؤنٹنٹ اور آفس ورکرز
4۔ انتظامیہ اور ٹیکنیکل سٹاف
اور ان اقدامات کے بعد کم ازکم اجرت اور زیادہ سے زیادہ اجرت کا تناسب 1:8 تک جا پہنچا۔ ماہرین کی شدید قلت کی وجہ سے بورژوا ماہرین کو بھرتی کرنا پڑا جن کی تنخواہ زیادہ رکھنا مجبوری تھی۔ لینن کی ان اقدامات پر شدید تنقید رہی۔ لینن تنخواہوں میں نا برابری کا شدید مخالف تھا خاص طور پر پارٹی ممبران کی تنخواہوں کے معاملے میں۔1921ء تک پارٹی کی لیڈرشپ کے حالات میں اور عام مزدور کے حالات میں زیادہ فرق نہ تھا،لینن اور ٹراٹسکی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔
فروری 1917ء میں بالشویک پارٹی کے ارکان کی تعداد 8000 سے زیادہ نہیں تھی۔ خانہ جنگی کے عروج پر پارٹی کو مزدوروں کے لیے کھولا گیاجس سے یہ تعداد 2لاکھ ہو گئی۔ خانہ جنگی کے اختتام تک یہ تعداد اس سے 3 گنا بڑھ گئی، جس میں لاتعداد ردِانقلابی اور موقع پرستوں کو داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ ان حالات میں انقلاب کو بذاتِ خود شدید خطرہ لاحق ہو گیا جس وجہ سے پارٹی میں تطہیر کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکن اس کا طریقہ سٹالن کے پولیسی اور مقدماتی شکل میں نہیں تھا۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لیئے رابکرن نامی ادارہ بنایا گیا، سٹالن کو اپنی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے اس کا سربراہ بنا دیا گیا، سٹالن نے اپنے وسیع تر اختیارات استعمال کرتے ہوئے بے پناہ ریاستی اہلکاروں اور پارٹی عہدیدارں کی بھرتی کی اور بیوروکریسی میں اپنی بنیادیں مضبوط کر لیں۔ دوسری جانب سرخ فوج کے لیے لڑنے کی اہلیت رکھنے والوں کی تعداد شدید کم تھی اور ادھر بھی پرانی زار شاہی کے لا تعداد افسران کو بھرتی کرنا پڑا۔ 1920ء سے پہلے ریاستی اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہ تھی، لیکن سٹالن کی بھرتیوں کے نتیجے میں 58لاکھ 80ہزار تک پہنچ گئی، یعنی صنعتی مزدوروں کی تعداد سے پانچ گنا زیادہ۔ یہاں ہمیں مخصوص معروضی حالات میں فرد کے کردار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس اثنا میں سامراجی طاقتوں کی طرف سے روس پر مسلط کردہ خانہ جنگی کے اثرات پر اگر نظر ڈالی جایئے تو حالات کچھ یوں تھے۔ شہروں اور دیہات میں رابطہ ٹوٹ گیا اور شہروں اور قصبوں میں شدید قحط پڑ گیا۔ ان حالات میں صنعتی مزدوروں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہوئی۔ 1917ء میں صنعتی مزدوروں کی تعداد 30لاکھ تھی جو کہ 1920ء کے وسط تک 5لاکھ 70 ہزار تک گر گئی۔ اس اثنا میں پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی اور 1913ء کی پیداوارکے مقابلے میں 1920 ء میں خام لوہے کی پیدا وار1.6 فیصد، کاسٹ آئرن 2.4 فیصد، تیل 41فیصد، کوئلہ 17فیصد اور مکمل تیار اشیا کی پیدا وار 12.9فیصد تک گر گئی۔ 1917ء سے 1919ء کے درمیان زرعی پیداوار میں 16فیصد کمی ہوئی اور 1917ء سے 1921ء تک فصل کی پیدا وار 43فیصد رہ گئی تھی۔ ان حالات میں وباؤں پر بھی قابو پانا انتہائی مشکل امر تھا اور وبائیں عام معمول بن گیا۔ 1918 ء کے آخر سے 1920ء کے آخر تک وباؤں، بھوک اور سردی کی وجہ سے 75 لاکھ روسی مارے گئے جب کہ عالمی جنگ میں 40لاکھ روسی مارے گئے تھے۔ ان حالات پر لینن لکھتا ہے:
’’جنگ، غربت اور تباہی کے باعث صنعتی پرولتاریہ غیرطبقاتی ہو گیا ہے یعنی اپنی طبقاتی پٹڑی سے اتر گیا ہے اور پرولتاریہ کی حیثیت سے اپنا وجود کھو چکا ہے۔ پرولتاریہ وہ طبقہ ہے جو بڑے پیمانے کی سرمایہ دارانہ صنعت میں مادی اقدار پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ بڑے پیمانے کی سرمایہ دارانہ صنعت تباہ ہوچکی ہے اور فیکٹریاں بیکار کھڑی ہیں اس لئے پرولتاریہ غائب ہوگیا ہے۔ اس کے بارے میں بعض اوقات اعداد و شمار تو دیئے گئے ہیں مگر یہ معاشی حوالے سے اکھٹا نہیں رہا ہے‘‘۔
روس میں بیوروکریسی کے ابھار کی وجہ انقلاب کا ایک پسماندہ، ان پڑھ، جنگوں سے تباہ حال اور کسان ملک میں محدود ہو جانا تھا۔ جدلیاتی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار والی بالشویک اقلیت ایک زارشاہی بیوروکریسی کی اکثریت کے اندر اپنا وجود کب تک قائم رکھ سکتی تھی۔ اس کے علاوہ روس میں ایک عمومی مایوسی اور سیاست سے عوام کی دوری نے بیوروکریسی کے لئے مزید ساز گار حالات پیدا کر دیئے۔ دنیا بھر میں محنت کشوں کی شکستیں ،جن میں 1918 ء اور 1923 ء کی جرمن محنت کشوں کی شکستیں قابلِ ذکر ہیں، نے بیوروکریسی کے ہاتھ مزید مضبوط کئے۔ لینن نے بیوروکریسی کے خلاف 1924 ء میں اپنی وفات تک مسلسل جدوجہد کی۔ لینن کی وفات کے بعد سٹالن، زینوویف اور کامینیف نے ٹراٹسکی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے اتحاد کیا اور کمیساریت سے بھی نکال کر دیا۔ اس پر ٹراٹسکی نے انقلاب کا دفاع کرنے کے لیے لیفٹ اپوزیشن کی بنیاد رکھی جس نے بیوروکریسی کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد زینوویف اور کامینیف سٹالن کی طرز سے تنگ آ کر اپوزیشن سے مل گئے اور متحدہ اپوزیشن بنائی۔ پارٹی کا دایاں بازو بخارن اور ٹامسکی پر مبنی تھا، جن کا مؤقف زراعت پر مبنی معیشت بنانے کا تھا جبکہ اپوزیشن کا مؤقف ایک جدید صنعتی معیشت کا قیام تھا، نتیجتاً اپوزیشن کے اسرار پر 1927ء میں پانچ سالہ منصوبے شروع ہوئے، جن کی بنیاد پر مستقبل کا جدید روس تخلیق ہوا۔
7 نومبر 1927ء میں روس کے انقلاب کی 10سالہ تقریبات کے موقع پر طلبہ اور مزدوروں کے مارچوں میں اپوزیشن نے مداخلت کی جس کے نتیجے میں بیوروکریسی کے خلاف نعرے بینروں پر لکھے گئے۔ جس کے بعد سٹالنسٹ بیوروکریسی نے ٹراٹسکی، زینوویف اور کامینیف کے گروپ کے خلاف تطہیرکا سلسلہ شروع کیا اور ٹراٹسکی کو پہلے الماتا (قازقستان) میں بے دخل کیا اور اس کے بعد ترکی میں جلا وطن کر دیا گیا۔ ٹراٹسکی نے تطہیری مقدمات کے موقع پر کہا:
’’اگر سٹالن کو اس امر کا ادراک ہوتا کہ ٹراٹسکی ازم کے خلاف جدوجہد اس کو کہاں لے جائے گی تو وہ بلاشبہ اس سے ہاتھ کھینچ لیتا باوجود اس بات کے کہ اسے اپنے مخالفین کی شکست کا امکان نظر آرہا تھا۔ لیکن وہ کسی پیش بینی سے قاصر تھا‘‘۔
سٹالنسٹ بیوروکریسی کے لیے ضروری تھا کہ پرولتاریہ سیاست سے دور رہے اور اسی وجہ سے وہ پرولتاریہ پر بے یقینی بھی رکھتے تھے۔ ان کے لیے ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ بھی ضروری تھا کیونکہ ایک ملک میں سوشلزم ہونے سے ہی ان کا اقتدار قائم رہ سکتا تھا۔ لیکن مارکسی بنیادوں پر ہم سٹالنسٹ بیوروکریسی کو ایک حکمران طبقہ نہیں کہیں گے کیونکہ حکمران طبقے کے پاس ذرائع پیداوار کی ملکیت اور وراثت کے حقوق کا ہونا ضروری ہے جو کہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کے پاس نہیں تھے۔ سٹالنسٹ سوویت یونین ایک منصوبہ بندسوشلسٹ معیشت پر مبنی ایک مزدور ریاست تھی لیکن ایک بگڑی ہوئی شکل میں۔ سٹالنزم تاریخ کے ان مخصوص حالات میں نمودار ہوا تھاجس کی بنیادیں اس وقت کے روس اور دنیا کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات میں تھیں۔ لیکن آج کی دنیا میں وہ حالات موجود نہیں جن میں سٹالنزم نمودار ہوا۔ آج کا پرولتاریہ اور انقلابی اس وقت کی نسبت زیادہ تجربہ کار ہیں۔ آج کے انقلابی، سٹالنزم سے کافی اچھی طرح واقف ہیں جس کا 1917ء کے روس میں صرف ا ندازہ ہی لگایا جا سکتا تھا۔ آج دنیا میں ٹیکنالوجی اور مواصلات اس وقت سے کئی گنا زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور ایک عالمی انقلاب کے لئے حالات 100 سال پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ سازگار ہیں۔ آج ہمارا مقصد نہ صرف عالمی سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد کرنا ہے بلکہ صحت مند بنیادوں پر ایک سوشلسٹ سماج کو تعمیر کرنا بھی ہے۔
Tags: Bureaucracy × Communism × Left Opposition × Leon Trotsky × Planned Economy × Socialism × Soviet Union × Stalinism × State and Revolution