دنیا بھر میں کمیونسٹ نظریات کی مقبولیت اور انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا قیام

|رپورٹ: لال سلام|

اس وقت پوری دنیا ایک ہنگامہ خیز عہد سے گزر رہی ہے اور عالمی سطح پر سیاست، معیشت اور سفارت کاری میں بہت بڑے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ فلسطین پر جاری اسرائیلی بربریت نے پوری دنیا کے حکمرانوں کی انسان دشمنی کو ہر خاص و عام پر عیاں کر دیا ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں لوگ حکمران طبقے کے ان مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اسی طرح یوکرائن جنگ کی تباہ کاریوں نے بھی امریکہ سمیت تمام مغربی سامراجی طاقتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور یوکرائن میں کے لاکھوں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے اور بڑی تعداد میں آبادی کو ہجرت پر مجبور کر دینے والی اس جنگ نے تمام مغربی ممالک میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ اس سب کی بنیاد عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور اس کے ختم ہونے کے کوئی امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔

امریکہ سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک اس وقت بد ترین مالیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں اور برطانیہ اور جرمنی سمیت بہت سی معیشتیں کساد بازاری میں باقاعدہ داخل ہو چکی ہیں جبکہ دیگر بہت سی معیشتیں اسی جانب بڑھ رہی ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس کساد بازاری کے ایک بہت بڑے معاشی انہدام کی جانب بڑھنے کی بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے ان ممالک کے حکمران جتنے بھی اقدامات کر رہے ہیں وہ معیشت کو بہتر کرنے کی بجائے مزید بدتر کرتے چلے جا رہے ہیں اور بحران گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافے کا رجحان نظر آتا ہے جس کا مقصد افراطِ زر کو کنٹرول کرنا ہے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجو دبھی افراطِ زر میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو رہی۔ اگر کہیں سرکاری اعدادو شمار میں ہیر پھیر کر کے کمی دکھائی بھی جاتی ہے تو ان ممالک میں رہنے والے محنت کشوں کی زندگیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ حالات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہو رہے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کے بحرانوں میں موجودہ حالات سب سے بد ترحالات کی نشاندہی کر رہے ہیں اور معیشت دان آنے والے عرصے میں اس سے بھی بد تر حالات کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے ان ممالک میں رہنے والے کروڑوں محنت کشوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور وہ انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس تمام صورتحال نے ان محنت کشوں اور بالخصوص نوجوانوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ تیزی سے انقلابی نتائج اخذ کر رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام اور اس پر براجمان حکمرانوں کے خلاف نفرت انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور نوجوان نسل میں ایک انقلابی بغاوت کا جذبہ پنپ رہا ہے۔ ان ممالک کی سیاست بھی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور دہائیوں پرانی سیاسی پارٹیاں اوپر سے نیچے تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور انہدام کی جانب بڑھ رہی ہیں جبکہ بہت سے ممالک میں نئی پارٹیاں انتہائی دائیں جانب یا پھر بائیں جانب ابھر رہی ہیں یا پہلے سے ابھر چکی ہیں اور نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کر رہی ہیں۔ اس عمل میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبہ اور غم و غصہ واضح طور پر حاوی ہے۔ دائیں اور بائیں جانب ابھرنے والی تمام سیاسی تحریکوں اور پارٹیوں میں یہ عنصر مشترک نظر آتا ہے اور وہی نئی پارٹی مقبولیت حاصل کر پاتی ہے جو ہر ملک پر براجمان حکمران طبقے پر کڑی تنقید کرے اور سماج میں بنیادی تبدیلیوں کا پروگرام پیش کرے۔

یہ تمام صورتحال دنیا بھر میں انقلاب کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے بھی غور طلب ہے اور وہ بھی عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے اس بحران کے حوالے سے اپنا لائحہ عمل از سر نو ترتیب دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی مارکسی رجحان نے بھی اہم اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے انہیں دنیا میں ہر جگہ بڑے پیمانے پر کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں ابھی ابتدائی سطح پر ہیں لیکن آنے والے عرصے میں بہت بڑی سطح کی کامیابیوں اور فتوحات کے دروازے کھول رہی ہیں۔

کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تاریخ

عالمی مارکسی رجحان یا جسے آئی ایم ٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے دنیا بھر میں ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کا کام کئی دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ درحقیقت لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں قائم کی جانے والی تیسری انٹرنیشنل جسے کمیونسٹ انٹرنیشنل بھی کہا جاتا ہے، کا ہی تسلسل ہے۔



1917ء کے انقلاب روس کے بعد قائم کی جانے والی اس کمیونسٹ انٹرنیشنل کا مقصد یہی تھا کہ پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے اور پوری دنیا کے ذرائع پیداوار مزدور طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں آ جائیں۔

ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کے بعد نہ صرف ہر قسم کی جنگوں، خونریزی اور قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا بلکہ پوری دنیا کے وسائل کو منصفانہ منصوبہ بند طریقے سے استعمال کر کے دنیا بھر سے بھوک، بیماری، محرومی اور ذلت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے گا۔

اسی مقصد کے تحت اس عالمی تنظیم کے پہلے پانچ سالوں میں باقاعدگی سے اجلاس منعقد کیے گئے اور پوری دنیا میں مزدور طبقے کو منظم کرنے کے لیے اور انقلابی پارٹیوں کی تعمیر کے لیے اہم بحثیں اور فیصلے کیے گئے۔انٹرنیشنل کی قیادت نے پہلی عالمی جنگ یا روس کی خانہ جنگی سمیت کسی بھی مشکل کو آڑے نہیں آنے دیا اور ہر قسم کی مالی و دیگر مشکلات کے باوجود اس تنظیم کے اجلاس انقلابی ذمہ داری کے ساتھ منظم کیے۔اس دوران دنیا کے درجنوں ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں نے وسیع عوامی بنیادیں بھی حاصل کیں اور ان ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کے حوالے سے اہم پیش رفت بھی کی۔خاص طور پر چین میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام اور پھر 1925-27ء کے انقلاب کے دوران اس انٹرنیشنل کے فیصلوں نے اہم اثرات مرتب کیے۔اسی طرح دنیا بھر میں نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

لینن اور ٹراٹسکی

لیکن لینن کی وفات کے بعد سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث جہاں روس میں ایک سیاسی ردِانقلاب کا آغاز ہو گیا وہاں پر محنت کشوں کی اس عالمی تنظیم کی بھی زوال پذیری کا آغاز ہو گیا۔سٹالن کی قیادت میں ”ایک ملک میں سوشلزم“ کا مزدور دشمن نظریہ پروان چڑھایا گیا اور کمیونزم کے حقیقی نظریات سے کھلی غداری کی گئی۔چین میں سوشلسٹ انقلاب کا موقع بھی گنوا دیا گیا اور مزدوروں کے دشمن چیانگ کائی شیک کے ساتھ نہ صرف معاہدہ کر لیا گیا بلکہ اسے عالمی تنظیم کا حصہ بننے کی دعوت بھی دی گئی جس پر ٹراٹسکی نے احتجاج بھی کیا۔ اس دوران ٹراٹسکی کو بھی جلاوطن کر دیا گیا جبکہ 1940ء میں میکسیکو میں اس کا قتل کروا دیا گیا۔ اسی عرصے میں سٹالن نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کو پہلے غیر فعال کیا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے دوران اسے باقاعدہ تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد امریکی صدر روزویلٹ اور برطانوی وزیراعظم چرچل کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد دنیا کی بندر بانٹ پر اتفاق رائے کیا اور اقوام متحدہ جیسے سامراجی ادارے کی بنیاد رکھی۔یہ تمام عمل کمیونزم کے نظریات سے کھلی غداری تھی۔

اس صورتحال میں ٹراٹسکی نے چوتھی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی لیکن اس کے قتل کے بعد یہ انٹرنیشنل بہت سی مشکلات سے دوچار ہو گئی۔ دوسری جانب سوویت یونین کی مسخ شدہ مزدور ریاست پر سٹالن اور اس کی بیوروکریسی کی حاکمیت کی وجہ سے دنیا بھر میں سٹالنزم کے مزدور دشمن نظریات کو ہی کمیونزم کے نام پر فروغ دیا گیا۔ یہ نظریات مارکس، اینگلز اور لینن کے نظریات کے بالکل الٹ تھے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں پر براجمان بیوروکریسی کے ذریعے ان نظریات کو مسلط کیا گیا جبکہ کمیونزم کے حقیقی انقلابی نظریات کو دنیا بھر کی مزدور تحریک اور کمیونسٹوں سے دور رکھا گیا۔ انہی غلط سٹالنسٹ نظریات کے باعث 1991ء میں سوویت یونین کا انہدام ہوا جو انتہائی تکلیف دہ عمل تھا جب منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کا انہدام ہوا۔ دنیا بھر کی سامراجی طاقتوں نے اسے کمیونزم کی ناکامی بنا کر پیش کیا اور پوری دنیا میں کمیونسٹوں اور مزدور تحریکوں میں بد گمانی پھیلانے کے لیے بھرپور پراپیگنڈا کیا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں مزدور تحریکوں پر نئے حملوں کا بھی آغاز ہو گیا اور جو مراعات انہوں نے ماضی میں ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی تھیں وہ واپس لینے کا عمل شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔

ٹیڈ گرانٹ

نوجوان نسل اور ابھرتی تحریکیں

آج سوویت یونین کے انہدام ہوئے تین دہائی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہر جگہ ایک نئی نوجوان نسل پروان چڑھ چکی ہے۔اس دوران سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے بد ترین بحران میں داخل ہو چکا ہے اور اب اس عالمی معاشی نظام کے انہدام کی پیش گوئیاں بھی دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ اس دوران نوجوانوں کی زندگیاں مسلسل برباد ہورہی ہیں اور ان کے پاس روشن مستقبل کی امید دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ ایسے میں کمیونزم کے نظریات پوری دنیا میں دوبارہ مقبول ہو رہے ہیں اور سرمایہ داری کو ایک انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکے کا جذبہ نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے۔

حال ہی میں ایک مغربی ادارے فریزر انسٹی ٹیوٹ نے اپنا ایک سروے شائع کیا ہے جس کے مطابق برطانیہ کے 18 سے 34سال تک کے تقریباً ایک تہائی نوجوان کمیونزم کو ایک آئیڈیل نظام مانتے ہیں۔ اگر آبادی کا حجم دیکھا جائے تو برطانیہ میں ان نوجوانوں کی تعداد 45 لاکھ بنتی ہے۔ اسی سروے کے مطابق امریکہ، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا میں بھی یہی صورتحال ہے اور ان ممالک کے لاکھوں نوجوان بھی کمیونزم کے نظریات کی جانب تیزی سے راغب ہو رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ملتی جلتی ہی صورتحال ہے اور ان ممالک کے سماجی و معاشی حالات کی گراوٹ بھی واضح کرتی ہے کہ اس رجحان کی وجوہات کیا ہیں۔ جنوبی یورپ کے ممالک کے اعداد و شمار کے مطابق اٹلی میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 32 فیصد، سپین میں 34 فیصد اور یونان میں 40 فیصد ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ، جو دنیا میں سونے اور ہیرے کی کانوں کے لیے مشہور ہے وہاں پر 53 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔

اس تمام صورتحال میں اسرائیل کی فلسطین پر مسلط کردہ بربریت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور پوری دنیا میں لاکھوں نوجوان اور محنت کش سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کی تمام سامراجی طاقتوں کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ امریکہ کے سینکڑوں شہروں میں لاکھوں افراد نے ہر ہفتے باقاعدگی سے احتجاج کیے ہیں۔واشنگٹن میں لاکھوں افراد کے احتجاج ہوئے ہیں اور مظاہرین نے امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں گھسنے کی بھی کوشش کی تاکہ ہزاروں فلسطینیوں کا خون بہانے کی پاداش میں اس مجرم کو موقع پر ہی سزا دے دی جائے۔ اسی طرح نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس سمیت تمام بڑے اور چھوٹے امریکی شہروں میں احتجاج ہوئے۔ امریکہ میں صدر بائیڈن کو اب عام طور پر فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والا بائیڈن کے نام سے پکارا جاتا ہے اور وہ جہاں بھی اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں جاتا ہے وہاں اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے خلاف شدید نعرے بازی کی جاتی ہے۔

کینیڈا، فرانس، برطانیہ سمیت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جس میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نہ نکلے ہوں۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں دس لاکھ سے زائد افراد نے احتجاج کیا اور اپنے ملک کے حکمرانوں کو اس قتل عام کا نہ صرف ذمہ دار قرار دیا بلکہ انہیں قرار واقعی سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ اسی عوامی دباؤ کے باعث اب مغربی سامراجی حکمران اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ان لاکھوں کے احتجاجوں کی قیادت کوئی بھی پارٹی نہیں کر رہی اور عوام خود رو انداز میں انہیں منظم کر رہے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ سامراجی طاقتوں کا نقاب اتر چکا ہے اور مغربی ممالک میں عوامی رائے عامہ تیزی سے اس نظام کے رکھوالوں کے خلاف ہموار ہو رہی ہے۔ اس سے قبل یوکرائن کی جنگ میں بھی نیٹو کا سامراجی کردار واضح ہوا تھا اور امریکہ اور یورپی یونین کے سامراجی عزائم ننگے ہو کر منظر عام پر آئے تھے۔ اس موقع پر بھی بائیں بازو کی کسی بھی بڑی پارٹی نے ان سامراجی عزائم کی مخالفت نہیں کی تھی جس کے باعث ان کی حمایت میں بھی تیزی سے کمی ہوئی تھی۔

بائیں بازو کی اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کا بحران

اس جنگ سے قبل ان ممالک میں بائیں بازو کے اصلاح پسند لیڈروں کو بڑے پیمانے پر بھی مقبولیت حاصل ہوئی تھی لیکن وہ بھی عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو نجات کا رستہ نہیں دکھا سکے جس کے باعث اب وہ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ ان میں برطانیہ میں کوربن، امریکہ میں برنی سینڈرز، یونان میں سائریزا، سپین میں پوڈیموس اور دیگر ایسے افراد اور تنظیمیں شامل ہیں۔

جیریمی کاربن

ان تمام تحریکوں میں سوشلزم کے نظریات کا کھل کر پرچار کیا گیا لیکن بد قسمتی سے اس کی بنیاد مارکسزم کے انقلابی سوشلزم کے نظریات نہیں تھے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے بائیں بازو کی اصلاح پسندی کے نظریات تھے جنہیں سوشلزم کا نام دے کر پرچار کیا گیا۔ اور جب ان قیادتوں کو ابھرنے یا اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو انہوں نے حکمران طبقات سے بدترین مفاہمت کی اور پوری تحریک کو سرمایہ داروں کی چوکھٹ پر قربان کر دیا۔ اس کی بنیاد ان کا فرسودہ اور بیہودہ اصلاح پسندی کا نظریہ ہی تھا جس کی آج کی بحران زدہ سرمایہ داری میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری کے وقتی عروج میں یہ گنجائش موجود تھی اور اسی لیے اصلاح پسند پارٹیوں جنہیں سوشل ڈیموکریسی بھی کہا جاتا ہے، کو عوامی بنیادیں ملی تھیں اور وہ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے عوام کے لیے کچھ حاصلات لینے میں کامیاب بھی ہوئے تھے۔ لیکن اب وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ ماضی کا وہ دور کبھی واپس نہیں آ سکتا اور نہ ہی سرمایہ دار طبقہ عوام کے لیے معمولی سے بھی گنجائش نکالنے کے لیے تیار ہے۔ اسی لیے واحد رستہ اس نظام کو اکھاڑ کر تبدیل کرنے کا ہی ہے جو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اس صورتحال میں عالمی مارکسی رجحان نے بھی اپنی کمیونسٹ شناخت کو کھل کر واضح کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اس سال جون کے مہینے میں ’ورلڈ سکول آف کمیونزم‘ نامی ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں ”انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل“ کے قیام کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کانفرنس میں دنیا کے چالیس سے زائد ممالک سے مندوبین شرکت کریں گے اور اپنے اپنے ملک میں کمیونزم کے نظریات کی ترویج کا لائحہ عمل پیش کریں گے اور سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب کرنے کی جدوجہد کا تجدید عہد کریں گے۔

عالمی مارکسی رجحان پہلے ہی ایک طویل عرصے سے اس موقع کی تیار ی کر رہا تھا اور دنیا بھر میں اپنی قوتوں کو منظم کرنے کے لیے سرگرم تھا۔ٹراٹسکی کی شہادت کے بعد ٹیڈ گرانٹ نے اس فریضے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور چھ دہائیوں تک انقلابی انٹرنیشنل کی تعمیر میں سرگرم رہا۔ اس کے بعد ایلن ووڈز اور راب سیول جیسے انقلابی قائدین اپنے دیگر رفقا کے ساتھ اس سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس دوران آئی ایم ٹی چالیس کے قریب ممالک میں منظم اندازمیں کام کر رہی ہے جبکہ بیس دیگر ممالک میں منظم کام ابتدائی مراحل میں داخل ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں آئی ایم ٹی کے زیر انتظام منعقد ہونے والے آن لائن انٹرنیشنل مارکسی سکولوں میں 140 سے زائد ممالک سے ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے اور اس تنظیم کے نظریات سے اتفاق کیا ہے۔

نوجوانوں اور محنت کشوں کی اسی دلچسپی اور جوش و ولولے کو دیکھتے ہوئے مختلف ممالک میں آئی ایم ٹی نے نئی پارٹیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سوشل میڈیا پر اب تک لاکھوں افراد نے پذیرائی کی ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ان پارٹیوں میں شامل ہونے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے برطانیہ میں ”انقلابی کمیونسٹ پارٹی“ کے قیام کا اعلان گزشتہ سال اکتوبر میں کیا گیا اور مئی کے مہینے میں اس پارٹی کا تاسیسی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ اس وقت برطانیہ کے درجنوں شہروں میں اس پارٹی کی برانچز موجود ہیں جبکہ صرف لندن شہر میں تیس سے زائد برانچز موجود ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کی ساٹھ سے زائد یونیورسٹیوں میں اس پارٹی کے کارکنان سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ تمام بڑی مزدور یونینز میں بھی سرگرمی موجود ہے اور اس وقت پورٹ ٹالبوٹ میں ایک سٹیل مل کی بندش کے خلاف چلنے والی تحریک میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔پارٹی کے قیام کے بعد بہت جلد پانچ سے دس ہزار ممبر شپ کا ہدف حاصل کرنے کا ٹارگٹ ہے جو آئندہ ایک سے دو سالوں میں حاصل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔

اسی طرح امریکہ میں بھی RCA یا ’ریوولوشنری کمیونسٹس آف امریکا‘ کے نام سے پارٹی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس سال امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں ابھی تک ٹرمپ کی کامیابی کے واضح امکانات موجود ہیں۔ ٹرمپ انتہائی دائیں بازو سے امریکی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کر رہا ہے۔ گو کہ وہ خود بھی سرمایہ دار ہے اور اسی طبقے کا نمائندہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ سرمایہ داروں اور وال سٹریٹ کے بینکوں پر کڑی تنقید کر رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ بائیڈن حکومت نے اس پر اکانوے مقدمات قائم کر دیے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ابھی تک کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس صورتحال میں بائیڈن یا کوئی بھی دوسری پارٹی ٹرمپ کا رستہ روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ دوسری جانب امریکی نوجوانوں میں ٹرمپ کے خلاف شدید نفرت موجود ہے اور وہاں کمیونزم کے نظریات بھی مقبول ہورہے ہیں۔ ایسے میں جب امریکہ میں ایک نئی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا اور اس سلسلے میں نیویارک میں ایک ریلی نکالی گئی تو اسے سوشل میڈیا پر حیران کن طور پر بہت زیادہ مقبولیت ملی۔ اس ریلی کی ویڈیو پہلے دن پندرہ سے بیس لاکھ لوگوں نے دیکھی لیکن چند دن بعد تک یہ بیس سے چالیس کروڑ لوگوں تک پہنچ چکی تھی اور اس پارٹی کے حق اور مخالفت میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔اس دوران پورے امریکہ سے ہزاروں لوگ اس پارٹی میں شامل ہونے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح کینیڈا میں آئی ایم ٹی بائیں بازو کی سب سے بڑی قوت کے طور پر موجود ہے اور اب انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا اعلان ان کی قوتوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ سویڈن، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ میں بھی ایسے ہی اقدامات کیے گئے ہیں جن کے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں اوران ممالک کے مین سٹریم میڈیا اور لاکھوں لوگوں میں ان نظریات پر بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔

جرمنی، آسٹریا، سپین، میکسیکو، برازیل، ایران، عرب ممالک اور چین سمیت دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں انقلابی کمیونسٹوں کی شناخت کو پذیرائی مل رہی ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان رابطہ کرتے ہوئے ممبر شپ لے رہے ہیں۔ اسی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جون میں ہونے والی کانفرنس اور ”انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل RCI“ کا قیام عالمی سطح پر کمیونسٹ تحریک میں ایک اہم سنگ میل ہوگا۔

دنیا بھر کے کمیونسٹ اپنی کھوئی ہوئی میراث کو زندہ کرنے کے لیے بیتاب ہیں جبکہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس نظام کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہے لیکن انہیں منظم کرنے والی کوئی قوت موجود نہیں۔ RCI کے پلیٹ فارم سے ان لاکھوں انقلابی نوجوانوں کی دنیا بھر میں صف بندی کی جائے گی اور انہیں دنیا بھر میں جاری مزدور تحریکوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی ایک فوج تیار کی جائے گی۔

پاکستان سمیت جنوبی ایشا میں بھی آئی ایم ٹی گزشتہ چار دہائیوں سے سرگرم عمل ہے اور اس عرصے میں اس خطے کے کونے کونے تک کمیونزم کا انقلابی پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ انقلابی کمیونسٹوں کی ایک بالشویک ڈسپلن کی حامل تنظیم بھی تعمیر کی گئی ہے۔ گو کہ اس کی تعداد ابھی سینکڑوں میں ہے لیکن اس کے باوجود اس تنظیم کے کارکنان گلگت بلتستان سے لے کر کشمیر اور کراچی تک مختلف تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور کمیونزم کا نظریہ مزدوروں اور نوجوانوں تک لے کر جا رہے ہیں۔ ان تمام کارکنان نے بھی ”انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل“ کے قیام کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور اب اس کے تاسیسی اجلاس میں آن لائن شرکت کے حوالے سے تیاری بھی کر رہے ہیں۔

آنے والے عرصے میں یہاں بھی سماج کی انقلابی تبدیلیوں کا تناظر موجود ہے اور یہاں بھی روایتی سیاست کے خلاف موجود نفرت اور غم و غصہ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹے گا اور کمیونزم کے نظریات کی پیاس یہاں کے عوام میں بڑھتی ہوئی نظر آئے گی۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک میں پہلے بھی یہاں پر کمیونزم کے نظریات عوامی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن اب اس سے بھی بڑے پیمانے پر لاوا پک چکا ہے اور کوئی بھی ایک چنگاری اس کو ابلنے کی جانب مائل کر سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں پر ہونے والی اہم سیاسی تبدیلیوں اور تحریکوں کے ابھار میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل یہاں کے کمیونسٹوں کا سب سے پہلا اقدام ہوگا۔

لیکن اس سے پہلے اپنی انٹرنیشنل کی تعمیر و ترقی اور اس کے نظریات کے تحت انقلابی قوتوں کی تعمیر کا سلسلہ پہلے کی نسبت زیادہ مستعدی سے آگے بڑھانے کا کام آج کے انقلابیوں کا سب سے اہم فریضہ ہے۔انہی نظریات کے تحت انقلابی لٹریچر کی پہلے کی نسبت زیادہ فروخت، زیادہ سے زیادہ افراد کو منظم کرنا، ان تک کمیونسٹ نظریات کی ترویج، وسائل کی فراہمی اور تعمیر ا ور ایک اجتماعی قیادت کی تشکیل کا عمل پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنے کمیونسٹ نظریات اور انقلابی جوش و جذبے پر یقین کے باعث ہم کہہ سکتے ہیں کہ RCI کا قیام پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی انقلابی قوتوں کے آگے بڑھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گا اور یہاں پر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کی کامیابی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہی ہوگی!

Comments are closed.