|تحریر: آدم پال|
1883ء میں جب لندن میں کارل مارکس کی وفات ہوئی تو اسے لندن کے ہائی گیٹ قبرستان میں اس کی بیوی کے ساتھ دفن کیا گیا جو دو سال قبل وفات پا گئی تھی۔ اس موقع پر مارکس کے چند قریبی ساتھی موجود تھے جن میں اس کا دیرینہ دوست، نظریاتی ساتھی اور انقلابی دوست فریڈرک اینگلزبھی تھا۔ اس موقع پراپنے مختصر مگر جامع تاریخی خطاب کا اختتام اینگلز نے ان الفاظ پر کیا تھا، ’’اس کا نام اور کام صدیوں تک زندہ رہے گا۔‘‘
آج مارکس کی پیدائش کو دو صدیاں بیت چکی ہیں اور اس کی مشہور زمانہ تصنیف داس کیپیٹل کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی مارکس کی شہرت اور اہمیت دنیا بھر میں کم ہونے کی بجائے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جب اینگلز نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے تھے اس وقت کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کارل مارکس کے نظریات تر و تازہ رہیں گے اور دنیا بھر میں ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کی راہنمائی کرتے رہیں گے۔لیکن آج یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی فلسفی، معیشت دان ، سائنسدان اور انقلابی راہنما کو اتنی مقبولیت اور پذیرائی نہیں ملی جتنی کارل مارکس کے حصے میں آئی۔اس تمام عرصے میں مارکس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے اور اس کی ذات پر الزامات لگانے کی جتنی کوششیں کی گئیں اتنی تاریخ میں کسی نظرئیے کے ساتھ نہیں کی گئیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے پوری قوت سے اس کے نظریات کو رد کرنے کی کوشش کی ۔ ایسے حکمران جن کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی اور دنیا بھر میں ان کے کاسہ لیس دانشور اپنی خدمات سمیت حاضر تھے۔ہزاروں کتابیں لکھی گئیں اور لاکھوں مضامین شائع کیے گئے تا کہ مارکس کو غلط ثابت کیا جا سکے اور تاریخ سے اس کا نام کھرچ دیا جائے لیکن ان تمام تر حملوں کے باوجود مارکس کا نام اور نظریہ پہلے سے زیادہ طاقت سے ابھر کر سامنے آیا اور نہ صر ف سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق اس کی پیش گوئیاں متعدد دفعہ سچ ثابت ہوئیں اور واقعات کی کسوٹی پر پوری اتریں بلکہ اس کا تجزیہ اور اس بحران کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حل بھی آج پہلے کی نسبت زیادہ درست ہے ۔اسی طرح تاریخ اور فلسفے سے لے کر ریاست اور سماج کے متعلق اس کے نظریات آج بھی انسانی تہذیب کے سب سے جدید اور سب سے درست نظریات ہیں۔حکمران طبقات کے دشمن اور مزدور دوست نظریات کو عوام کی وسیع اکثریت سے دور رکھنے کے لیے دنیا بھر کے حکمرانوں نے جھوٹے اور بے بنیاد نظریات کا پوری قوت کے ساتھ پرچار کیا اور طرح طرح کی لفاظی کا استعمال کرتے ہوئے ماضی کے بوسیدہ نظریات کو نیا رنگ و روغن کر کے پیش کرنے کی کوشش کی لیکن ایسی ہر کاوش نہ تو سماج کا درست تجزیہ کر سکی اور نہ ہی کسی اہم واقعے کی پیش گوئی کرتے ہوئے اس کا حل بتا سکی۔
خاص طور پر سوویت یونین کے انہدام کے بعد پوری دنیا میں سامراجی قوتوں نے جھوٹا واویلا کیا کہ سوشلزم ناکام ہو گیا ہے اور مارکس کے نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اس جھوٹ کا بھی اعلان کیا گیا کہ طبقاتی کشمکش ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئی ہے اور اب رہتی دنیا تک سرمایہ دارانہ نظام ہی قائم رہے گا۔انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے بہت سے اعلانات سننے کو ملتے ہیں جو آج تاریخ کی ردی کی ٹوکری کا حصہ بن چکے ہیں۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد بھی سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے یہی کام کیا ۔ اس تمام تر صورتحال میں کمیونسٹ تحریک کے بہت سے کارکن بھی مایوس ہو گئے اور پوری دنیا میں مزدور تحریک اور بائیں بازو کی سیاست کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔گو کہ اس دوران وینزویلا سمیت کچھ ممالک میں انقلابی تحریکیں زندہ تھیں اور بائیں بازو کی سیاست عوام میں مقبول تھی۔لیکن عمومی طور پر دائیں بازو کے نظریات حاوی رہے۔ خود کو مارکسی کہلوانے والے نام نہاد ددانشور بھی ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کے غلیظ پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے اور انقلابات کو ماضی کا قصہ قرار دے دیا۔لیکن 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے ایک دفعہ پھر سرمایہ دارانہ نظام کے تمام تر دانشوروں ، معیشت دانوں، سماجی تجزیہ نگاروں اور ایوارڈ یافتہ پروفیسروں کی قلعی کھول کے رکھ دی اور مارکس کی تصانیف پھر یورپ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہو گئیں۔عرب انقلابات، آکو پائی وال سٹریٹ اور دیگر ایسی تحریکوں نے پھر وقت کا دھارا بائیں بازو کی سیاست کی جانب موڑ دیا اور سوشلزم انٹرنیٹ پر تلاش کیے جانے والے الفاظ میں پہلے نمبر پر آگیا۔آج بھی مارکس کے بد ترین نظریاتی دشمن عالمی معیشت کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اس کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہیں لیکن اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس کے پیش کیے گئے حل کو تسلیم نہیں کرتے۔
جہاں مارکس کے نظریاتی اور سیاسی دشمنوں کی ایک نا ختم ہونے والی فہرست ہے وہاں دنیا بھر میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو خود کو مارکسی کہلواتے ہیں لیکن ان کے نظریات مارکسزم سے منافی ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد مارکس کی کسی بھی تصنیف کا مطالعہ کیے بغیر اس پر ماہرانہ اندازمیں رائے زنی کرتے ہیں بلکہ اس کو ’’جدیدتقاضوں‘‘ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ترامیم کی بھی تجاویز دیتے رہتے ہیں۔بھیڑ کی کھال میں چھپے ان بھیڑیوں کا اصل مقصد بھی محنت کشوں کو مارکس کے نظریات کے خلاف ورغلانا اور انہیں ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کے سرمایہ دارانہ اور غلیظ نظرئیے پر یقین دلوانا ہوتا ہے۔مارکسزم کے بنیادی نظریات کو سمجھنے سے عاری یہ افراد اکثر کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آج کے عہد میں انقلابات نہیں آ سکتے اور مارکسزم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔سرمایہ داروں کے ان دلالوں کا حقیقی مقصد مزدور تحریک سے غداری کر کے کسی اہم ریاستی عہدے کا حصول یا کسی دوسرے طریقے سے مال و دولت اور سماجی رتبے کا حصول ہوتا ہے۔
مارکس کے نظریات پر حملوں کے ساتھ ساتھ خود کو مارکسی کہلوانے والے بے شمار لوگ مارکس کی شخصیت کو بھی انتہائی بھونڈے انداز میں پیش کرتے ہیں۔جہاں مارکس کی ذاتی زندگی پر دائیں بازو کی جانب سے غلیظ حملے کیے جاتے رہے ہیں اور جھوٹ کے ا نبار لگائے گئے ہیں وہاں سٹالنسٹ طریقہ کار کے تحت مارکس کو ایک روحانی پیشوا جیسا درجہ دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔مارکس کی شخصیت اور اس کے سائنسی نظریات کو دنیا بھر میں مقبولیت اور پذیرائی دلوانے میں 1917ء کے انقلابِ روس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں ہونے والے اس عظیم انقلاب کی بنیاد مارکس کے نظریات ہی تھے اور انقلاب کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کی بنیاد بھی مارکسزم کے انقلابی نظریات پر ہی رکھی گئی تھی۔لیکن لینن کی وفات کے بعد سٹالنسٹ زوال پذیری کے تحت اس انقلاب کو مسخ کیا گیا اور سوویت یونین کی مزدور ریاست پر ایک بیوروکریسی مسلط ہو گئی جس کی قیادت سٹالن کر رہا تھا۔اس دوران مارکسزم کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے جہاں’’ایک ملک میں سوشلزم ‘‘ اور ’’مرحلہ واریت‘‘ کے غلط نظریات کو پروان چڑھایا گیا وہاں ان غداریوں پر مارکسزم کا غلاف چڑھا کر کارل مارکس اور اس کے نظریات پر سب سے بڑا حملہ کیا گیا۔سوویت بیوروکریسی کی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ اسٹالن کی شخصیت کے غبارے میں بھی غیر معمولی ہوا بھری گئی اور شخصیت پرستی کو پراپیگنڈہ کا لازمی جزو بنا دیا گیا۔اسی دوران مارکس، اینگلز اور لینن جیسی عظیم شخصیات کو بھی عوام کے سامنے انتہائی غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے انہیں کرشماتی اور غیرحقیقی کرداروں میں تبدیل کر دیا گیا جس کے باعث محنت کش ان سے متاثر ہونے کی بجائے دور ہوتے چلے گئے۔ایسے ہیرو نما جعلی کرداروں سے مزدوروں اور کسانوں کو وقتی طور پر مرعوب تو کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں انقلابی جدوجہد کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے آج مارکس کی زندگی اور نظریات پر لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود مارکس کے ہی دریافت کردہ تاریخی مادیت کے نظرئیے کو بروئے کار لایا جائے۔یہی وہ جدید طریقہ کار ہے جس سے نہ صرف انسانی سماج کی تاریخ کو درست انداز میں سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ماضی کی عظیم شخصیا ت کا حقیقی کردار بھی درست طور پر منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔مارکسزم جہا ں انسانی سماج کے ہزاروں سال پر محیط ترقی کے اس سفر میں محنت کشوں کے کردار اور طبقاتی کشمکش کی کلیدی حیثیت کو بنیاد بناتا ہے وہاں تاریخ میں فرد کے کردار کو بھی فراموش نہیں کرتا۔ بلکہ مارکسی نظریات کے مطابق فرد کا سماج کے ساتھ ایک جدلیاتی تعلق استوار ہوتا ہے۔ یہ باہمی تعلق مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے اور ایک جانب فرد پر گہرے اثرات مرتب کر تے ہوئے اسے تبدیل کرتا ہے جبکہ دوسری جانب اس عمل میں افراد کا منظم کردار سماج پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہوئے اسے تبدیل کرتا ہے ۔لیکن اہم تاریخی لمحات اور مخصوص مراحل میں میں بعض افراد انفرادی حیثیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مارکس نے بھی انسانی تاریخ کے ایک اہم مرحلے پر اپنی ذہانت، انقلابی جوش و جذبے ، ثابت قدمی اور ریاکاری و مفاد پرستی سے پاک جدوجہد کے ذریعے ایسا ہی تاریخی کردار ادا کیا۔ خود مارکس کے ہی الفاظ میں ’’انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں۔ گوکہ جن حالات میں وہ ایسا کرتے ہیں ان کا انتخاب وہ خود نہیں کرتے۔‘‘
ابتدائی زندگی
کارل مارکس کی پیدائش 5مئی 1818ء کو جرمنی کے ایک قصبے ٹرائر میں ہوئی۔اس وقت جرمنی یورپ کے پسماندہ حصوں میں شمار ہوتا تھا جبکہ برطانیہ اور فرانس یورپ سمیت پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے تھے۔ اس وقت کا جرمنی انقلابِ فرانس اور اس کے بعد کے واقعات کے زیر اثر تھا اور سرمایہ داری یہاں اپنے ابتدائی مراحل میں تھی۔ درحقیقت اس وقت کا جرمنی مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا جہاں جاگیر دارانہ طرزِ پیداوار اور مطلق العنان طرزِ حکمرانی کا راج تھا۔مارکس جس قصبے میں پیدا ہوا وہ اس وقت پروشیا کی بادشاہت کا حصہ تھا ۔ مارکس کا والد وکالت کے پیشے سے منسلک تھا اوراسی باعث وہ درمیانے طبقے کی متمول زندگی گزار رہا تھا۔
ابتدائی بارہ سال مارکس کی تعلیم اس کے والد کے زیر سایہ گھر پر ہی ہوئی جس کے بعد اسے ایک مقامی ہائی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔1835ء میں 17سال کی عمر میں مارکس کو بون یونیورسٹی میں داخلہ ملا جہاں وہ فلسفے اور ادب کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے والد کی خواہش تھی کہ وہ قانون کی تعلیم حاصل کر ے۔ایک سال تک یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مارکس کو برلن یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔
برلن جانے سے پہلے کچھ عرصہ مارکس اپنے آبائی قصبے ٹرائر میں رہا جہاں اس کی اپنے مستقبل کی شریک حیات جینی کے ساتھ محبت کا آغاز ہوا۔ جینی کا تعلق پروشیا کے شاہی خاندان سے تھا اور اسی لیے ان کی محبت میں سماج کی دیواریں حائل ہو گئیں۔ جینی مارکس کے لیے سب کچھ ٹھکرانے کو تیار تھی اور مارکس بھی جینی کی محبت میں شاعری پر طبع آزمائی کرنے لگا تھا۔ اس دوران اس نے جینی کے والد اور بھائی سے دوستانہ تعلق استوار کیا اور انہیں اس شادی کے لیے قائل کیا۔ ان دونوں کی شادی سات سال بعد 1843ء میں ہوئی جس کے بعد دونوں زندگی بھر انتہائی مشکل حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ جینی وفا شعار بیوی اور مارکس کی زندگی بھر کی جدوجہد میں اس کی ساتھی رہی۔ دولت مند خاندان میں پلنے کے باوجود اس نے مارکس کے ساتھ انتہائی غربت اور کسمپرسی کی حالت میں اپنی پوری زندگی گزاری لیکن کبھی اس کا شکوہ نہیں کیا۔ جینی اور مارکس کا رشتہ بھی دنیائے محبت کی لازوال داستانوں میں سے ایک ہے۔
نوجوان اور ہیگل
اکتوبر 1836ء میں مارکس برلن پہنچا۔ اس وقت برلن یونیورسٹی سمیت پورا جرمنی ہیگل کے سحر میں گرفتار تھا۔ ہیگل اسی یونیورسٹی میں فلسفے کا استاد رہا تھا۔ 1818ء سے لے کر 1830ء تک ہیگل نے اسی یونیورسٹی میں نہ صرف بڑی تعداد میں طلبہ کو فلسفے کی تعلیم دی تھی بلکہ اپنی بہت سی اہم تصانیف بھی شائع کروائیں تھیں۔ 1831ء میں اپنی وفات سے ایک سال قبل وہ بطور ریکٹر یہاں سے ریٹائر ہوا تھا۔
مارکس جب برلن پہنچا تو اس وقت ہیگل کا فلسفہ نہ صرف ہر جانب زیر بحث تھا بلکہ اسے مکمل ریاستی آشیر باد بھی حاصل تھی۔نوجوان مارکس بھی ہیگل کے فلسفے سے متاثر ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1837ء میں وہ’ ’Young Hegelians‘‘ نامی ایک گروپ کا حصہ بن گیا۔اس گروپ کا روح رواں برونو بائر تھا جبکہ ایڈولف ریٹن برگ بھی اہم کردار ادا کر رہا تھا۔مارکس جب اس گروپ کا حصہ بنا تو اپنی کم عمری کے باوجود اپنی ذہانت کے باعث اس گروپ کا روح رواں بن گیا۔ یہ گروپ بائیں جانب سے ہیگل کے فلسفے پر تنقید کر رہا تھا اور ہیگل کے فلسفیانہ نظام کو اسی کے جدلیاتی طریقہ کار کے ذریعے نشانہ بنا رہا تھا۔اس دوران مارکس نے فلسفے پر اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسس بھی مکمل کر کے جینا یونیورسٹی میں جمع کروایا جہاں اسے ڈگری جاری کی گئی۔ 1842ء میں مارکس نے برونو بائر اورRuge کے ساتھ مل کر ایک نئے اخبار رہائن لینڈ نیوز(Rheinische Zeitung) کی اشاعت میں حصہ لینا شروع کیا اور جلد ہی اس کا ایڈیٹر بن گیا۔ا س اخبار کو اپنی سخت تنقید کے باعث آغاز سے ہی حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا اور سنسر کی جانب سے اس کی سخت نگرانی کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود اخبار نے اپنا تنقیدی انداز ترک نہیں کیا جس کے باعث 1843ء میں اسے بند کر دیا گیا۔
رہائن لینڈ نیوز کے کام کے دوران جہاں مارکس کو پہلی دفعہ روز مرہ کے سیاسی مسائل پر بحثیں کرنے کا موقع ملا وہیں اس نے ان مسائل کو اہمیت بھی دینی شروع کی۔ دیگر فلسفی انہیں غیر اہم اور غیر ضروری قرار دے کر تجریدی گفتگو میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ لیکن مارکس نے ہیگل کے نقطہ نظر کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے ریاست اور سیاست کے متعلق اپنے نظریات کی تشکیل کا آغاز کیا۔ اس دوران اس نے ہیگل کے ریاست اور قانون کے متعلق نظریات پر تنقید لکھنے کا بھی آغاز کیا۔ اس وقت کے جرمنی میں جاگیردارانہ نظام کی باقیات دم توڑ رہی تھیں جبکہ سرمایہ دارانہ رشتے استوار ہو رہے تھے ۔ ایسے میں نجی ملکیت کا تصور ایک نئی شکل اختیار کر رہا تھا۔اس حوالے سے یہ تبدیلی انتہائی ٹھوس انداز میں عدالتی مقدمات میں بھی اپنا اظہار کر رہی تھی جہاں تقریباً نصف مقدمات جنگل سے لکڑی چوری، ناجائز تجاوزات اور نجی ملکیت کے متعلق ایسے ہی مسائل پر تھے۔ رہائن لینڈ نیوز میں ایسے مقدمات کے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے جہاں مارکس خالص فلسفیانہ طریقہ کار سے ان روز مرہ کے مسائل پر اپنا مؤقف رکھتا تھا۔
’’لیکن اس عمل میں مارکس کا طریقہ کار دوسروں سے مختلف تھا جو پروشیا کی ریاست کو ہیگل کی نقالی کرتے ہوئے ایک آئیڈیل ریاست تسلیم کرتے تھے۔مارکس پروشیا کی ریاست کا موازنہ ہیگل کی آئیڈیل ریاست سے کرتا تھا جو ہیگل کے مفروضے کے نتیجے میں ابھرتی ہے۔ اس و قت مارکس کے نزدیک ریاست ایک ایسا ادارہ تھی جہاں قانونی،اخلاقی اور سیاسی آزادی کی تکمیل ہواور ہر شہری کے لیے ریاست کے قوانین اس کی یا انسانی منطق پر پورے اترتے ہوں۔‘‘ (فرانز مہرنگ، کارل مارکس کی زندگی کی کہانی، 1918ء )
اس دوران نوجوان ہیگلیائی گروپ کے دیگر افراد سے مارکس کے نظریاتی اختلافات بھی ابھر کر سامنے آئے جن میں برونو بائر بھی شامل تھا۔ان نظریاتی بحثوں نے مارکس کوہیگل کے فلسفے پر اپنا درست مؤقف استوار کرنے کا موقع فراہم کیا اور اس نے ہیگل کے فلسفے پر اپنی تنقید کو منظم انداز میں لکھنے کا ارادہ کیا۔فلسفے کی یہ بحثیں صرف جرمنی ہی نہیں بلکہ یورپی اور عالمی سطح پر انسانی فکر کے حوالے سے کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔قدیم یونان میں ارسطو کی شکل میں فلسفہ اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکا تھا۔ اس کے دو ہزار سا ل بعد تک فلسفے کے حوالے سے اہم پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔گوکہ ارسطو کے بعد آنے والے قدیم یونان کے فلسفیوں نے اہم اضافے کیے جبکہ یورپ میں پندرہویں صدی کے بعد نشاۃِ ثانیہ میں فلسفے کے احیا کا آغاز ہوا اور مادیت پسندی سے تجربیت تک بہت سے نئے رجحانات ابھر کر سامنے آئے۔ لیکن برطانیہ اور فرانس کے جدید سماجوں کے برعکس حیران کن طور پر جرمنی میں ہی دوبارہ فلسفہ اپنے نقطہ عروج کو پہنچا۔اٹھارویں صدی میں کانٹ نے ارسطو کی منطق کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ انقلابِ فرانس کی فلسفیانہ بنیادیں بھی فراہم کیں۔اس انقلاب نے جہاں پرانے جاگیر دارانہ سماج سمیت تمام پرانی دنیا کا خاتمہ کیا وہاں ادب، موسیقی، سیاست اور ثقافت سمیت ہر شعبے میں ایک نئی دنیا کا بھی آغاز کیا۔ فلسفے میں اس کی معراج ہیگل کا فلسفہ تھا۔یہ فلسفہ انقلابِ فرانس کا نتیجہ اور سرمایہ دارانہ سماج کی معراج تھا۔جدلیاتی طریقہ کار کی دریافت کے باعث یہ فلسفہ سماج اور تاریخ کی حرکت کو درست طور پر بیان کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ اسی طرح خیال اور شے کے تعلق کو بھی جدلیاتی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اس نے کانٹ کے ’شے فی الذات‘ کو نہ جانے جا سکنے کے نتیجے کو مسترد کیا تھا۔ لیکن اس جدلیاتی طریقہ کار کی تمام تر خوبیاں ہیگل کے خیال پرستانہ نظام اور انتہائی ثقیل انداز بیان تلے دبی ہوئیں تھیں جنہیں باہر نکالنے کے لیے ایک عالی دماغ کی ضرورت تھی۔
نوجوان ہیگلیائی دوسروں سے اس لیے مختلف تھے کہ انہوں نے ہیگل کی اندھی تقلید کرنے کی بجائے اس پر تنقید کا آغاز کیا جس کے لیے انقلابی جرات کی ضرورت تھی۔لیکن اس تنقید کے لیے بھی انہوں نے ماضی کے کسی فلسفے کی بجائے ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار کو ہی بنیاد بنایا جو خود اس گروپ کے انتہائی درست طریقہ کار اور آگے کی جانب قدم کی نشان دہی کرتا ہے۔اس گروپ کے قائد برونو بائر کی سٹراس سے نظریاتی بحثیں اس عرصے میں توجہ کا مرکز تھیں۔ سٹراس نے ہیگل کے مذہب کے بارے میں خیالات پر تنقید کی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ مذہبی قصوں کو بھی اسی طرح تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہیے جس طرح کسی بھی دوسرے تاریخی یا سماجی عمل کو بنایا جاتا ہے۔ان نظریاتی بحثوں میں برونو بائر سٹراس پر تنقید کرتا ہوا اس سے کہیں آگے نکل گیا اور عیسائی مذہب کے ماخذ پر تنقید کرتے ہوئے اسے غلط ثابت کیا۔لیکن اس گروپ میں سب سے زیادہ جرات کا مظاہرہ فیور باخ نے کیا جس نے ہیگل کے پورے نظام کو ہی درہم برہم کر کے رکھ دیا۔اس نے ہیگل کے ’Absolute Idea‘کے نظرئیے کو مکمل طور پر غلط اور مذہبی قرار دیتے ہوئے اسے سختی سے مسترد کر دیا۔اینگلز نے بہت عرصے بعد اپنی اہم تحریر ’’ لڈوگ فیور باخ اورکلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ‘‘ میں لکھا تھا کہ فیور باخ کی تحریر کا ہم پر ایک انتہائی خوشگوار اثر ہوا تھا اور ایسا لگتا تھا ہمیں آزادی ملی ہے۔ ’’ جوش و جذبہ عمومی تھا اور ہم فوری طور پر فیور باخ کے پیروکار بن چکے تھے۔‘‘
فیور باخ کے فلسفے نے عینیت پرستی کی بجائے مادیت پسندی کو دوبارہ تخت پر لا کر بٹھایااور فلسفے میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔ لیکن فیور باخ کا فلسفہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکا اور ریاست، سیاست اور تاریخ کے اہم سوالوں کے جواب دینے کی بجائے لفاظی میں اتر گیا۔ مارکس نے فیور باخ کے ساتھ بحثوں میں اسے اس جانب مائل کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ مل سکی۔ اس سے آگے کا سفر مارکس کو خود طے کرنا تھا۔
پہلی جلا وطنی
جرمنی میں سنسر شپ اور لکھنے پر سخت پابندیاں ہونے کے باعث مارکس نے پیرس جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس سے پہلے اس نے جینی کے ساتھ شادی کی اور اس کے گھر میں کچھ وقت گزارا۔ اس سے قبل 1838ء میں مارکس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا جس کے باعث اس کی مالی مشکلات کا آغاز ہو چکا تھا۔وہ یونیورسٹی میں استاد کی نوکری لے کر اپنے کام کو جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن ریاست کی پالیسیوں میں تبدیلی اور اس میں غلیظ سیاست کے عنصر کے باعث اس نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔اخبار کے ذریعے گزارا چل سکتا تھا لیکن اسے بھی بند کر دیا گیا۔اس لیے مارکس نے اب پیرس جا کر ہی اپنے کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ 1844ء میں پیرس منتقل ہو گیا۔
وہاں اس نے اپنے دوست Rugeکے ساتھ مل کر ایک نئے اخبار کی اشاعت کا فیصلہ کیا ۔Rugeکا خیال تھا کہ اس اخبار کا دل فرانسیسی ہو گا جبکہ دماغ جرمن یا یہ کہ اس کی سیاست فرانسیسی ہو گی اور منطق جرمن۔ اس اخبار کے لیے Ruge نے فرانس کے اہم لکھاریوں سے رابطہ کیا جن میں پرودھون، لوئی بلانک اور دیگر شامل تھے لیکن ان میں سے صرف پرودھون کو ہی جرمن فلسفے کا تھوڑا بہت اندازہ تھا۔ یہ اخبار صرف ایک دفعہ ہی شائع ہو سکا۔
مارکس نے پیرس میں تقریباً ایک سال کا عرصہ گزارا جس کے بعد اسے پروشین ریاست کے دباؤ پر ملک بدر کر دیا گیا اور اسے بلجیم کے شہر برسلز میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ لیکن اس دوران مارکس نے فرانس کی سیاست کا قریب سے انتہائی بغور مشاہدہ کیا۔اس نے پرودھون اور دیگر فرانسیسی فلسفیوں کی تصانیف کا تفصیل سے مطالعہ کیا اور انقلابِ فرانس کی تاریخی اہمیت کا از سر نو جائزہ لیا۔اس کے علاوہ یہاں مارکس کو فرانسیسی مادیت پسندوں کو بھی بغور پڑھنے کا موقع ملا۔
پیرس میں مارکس نے ہیگل کے فلسفہ قانون پر تنقید بھی لکھی اور ساتھ ہی یہودی سوال پر برونو بائر کی دو کتابوں کا جائزہ بھی لیا۔ ان کا جواب مارکس نے اپنی تصنیف’’یہودی سوال پر‘‘ میں دیا ہے۔ یہاں پر ہی ہمیں مارکس کا تاریخی مادیت کا نظریہ ابھرتا ہوانظر آتا ہے جب وہ واضح کرتا ہے کہ تاریخی عمل کو سمجھنے کے لیے سماج کا جائزہ لینا پڑے گا نہ کہ ریاست کا۔یہاں مارکس نے برونو اور فیور باخ کے ساتھ اپنے نظریاتی اختلاف کو بھی واضح کیا۔
پیرس میں رہنے کے باعث مارکس کو کمیونزم اور سوشلزم کے متعلق جاری بحثوں کو بھی جاننے کا موقع ملا۔ پیرس میں سوشلزم اور کمیونزم پر نظریاتی بحثیں زور و شور سے جاری تھیں اور مختلف رجحانات ان کی اپنے انداز میں تشریح کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس موقع پر مارکس نے فورئیر کے خیالی سوشلزم کے رجحان پر اپنی تنقید اپنی تصنیف ’’مقدس خاندان ‘‘ میں شائع کروائی۔ 1848ء میں مارکس اور اینگلز کی تاریخی دستاویز ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو ‘‘ میں اس وقت کے یورپ میں سوشلزم کے مختلف رجحانات پر بحث کرتے ہوئے رد کیا گیا ہے اور سوشلزم کو پہلی دفعہ ایک سائنسی انداز میں استوار کیا گیا۔ لیکن اس سے پہلے کے عرصے میں مارکس نے ان تمام رجحانات کا بغور مطالعہ کیا جس کے لیے پیرس کی فضا سازگار تھی۔ اس دوران اس نے ایڈم سمتھ سمیت تمام برطانوی معیشت دانوں کے کام سے بھی تعارف حاصل کیا اور خاص کر ریکارڈو کی تصانیف اور قدر کے متعلق اس کی رائے کا تنقیدی جائزہ لیا۔ پرودھون کے ’’غربت کا فلسفہ ‘‘ کا جواب مارکس نے اس دوران ’’فلسفے کی غربت‘‘ لکھ کر دیا۔ اس تصنیف میں سرمایہ دارانہ معیشت اور تاریخی مادیت پر مارکس کا مؤقف واضح نظر آتا ہے۔ اسی دوران اینگلز نے اپنی کتاب ’’ انگلستان میں محنت کش طبقے کے حالات ‘‘ بھی شائع کروائی جو ایک انتہائی اہم تصنیف ہے۔جبکہ 1844ء میں ہی مارکس نے معیشت اور فلسفے کے اہم موضوعات پر نوٹس لکھے جو مسودات کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔
اس وقت مارکس اور اینگلزجرمن فلسفے کے حوالے سے اہم نتائج اخذ کر چکے تھے اس لیے انہیں ایک مربوط انداز میں تحریر میں لانے کی کوشش کی ۔ اس کا م کا اولین مقصد اپنے شعور ی سفر کو بیان کرتے ہوئے ان نتائج کو واضح کرنا تھا تاکہ سب سے پہلے خود ان کے اپنے سامنے واضح شکل ابھر سکے۔ انہوں نے یہ بھاری بھرکم دستاویز شائع کروانے کے لیے جرمنی بھیجی جہاں مالی مشکلات کی وجہ سے شائع نہ ہو سکی اور ناشر کے پاس چوہوں کی نذر ہو گئی۔ اس کا ایک حصہ ہی محفوظ ہو سکا جو آج ’’جرمن آئیڈیالوجی‘‘ کے نام سے دستیاب ہے۔
مارکس اور اینگلز
پیرس میں مارکس کی نوجوان فریڈرک اینگلز سے پہلی ملاقات ہوئی جو زندگی بھر اس کا دوست، کامریڈ اور اس کی تمام مشکلات کا ساتھی بن کر رہا۔ مارکس کی وفات کے بعد اینگلز نے اپنا تمام تر وقت اس کی نا مکمل تصانیف کو مکمل کرنے میں صرف کر دیا اور اس کی شہرۂ آفاق کتاب داس کیپیٹل کی دوسری اور تیسری جلد کو شائع کروایا۔ مارکس کی زندگی کے دوران بھی فریڈرک اینگلز اس کی ہر ممکن مالی معاونت کرتا رہا۔لیکن اینگلز کا سب سے اہم کردار مارکسزم کی نظریاتی تشکیل میں نظر آتا ہے۔ اینگلز نے انتہائی عاجزی سے کبھی بھی خود کو مارکس کے سامنے امتیازی حیثیت دینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اپنے دوست اور کامریڈ سے بلند مقام حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔بہت سے لوگ اسے مارکس کے دوست کی بجائے مالی مددگار یا سیکرٹری کی حیثیت دینے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک مجرمانہ غلطی ہے۔ مارکس اور اینگلز کے تعلق کی بنیاد ان کی نظریاتی ہم آہنگی تھی اور اسی بنیاد پر ان کی دوستی تمام تر مشکلات، مسائل اور باہمی اختلافات کے باوجود پائیدار اور ثابت قدم رہی۔ ایسی دوستی کی تاریخ سے مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اس میں کسی قسم کا مفاد پوشیدہ نہیں تھا اور نہ ہی آپس میں کسی بھی قسم کی برتری کو ثابت کرنا تھا۔انہی وجوہات کی بنا پر مارکس تمام نظریاتی اور سیاسی بحثوں میں اینگلز کی رائے کو ترجیح دیتا تھا اور کئی مقامات پر اینگلز کے دلائل کے تحت اس نے اپنی رائے میں تبدیلی بھی کی۔اگر اینگلز مارکس کی کسی رائے سے اختلاف کرتا ،خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، مارکس پورا زور لگا کر اسے قائل کرنے کی کوشش کرتا۔ اعدادوشمار یا حقائق کے حوالے سے کوئی اعتراض ہوتا تو مارکس تمام تر حوالوں کا ڈھیر لگا کر اینگلز کا اعتراض دور کرنے کی کوشش کرتا۔
ان دونوں کی دوستی میں سب سے زیادہ تلخی اس وقت آئی تھی جب اینگلز کی زندگی کی ساتھی میری کا 1863ء میں انتقال ہو گیا۔ مارکس اس وقت لندن میں جلاوطنی کے دوران گھریلو پریشانیوں اور مالی مشکلات میں شدت کے ساتھ جکڑا ہوا تھا اور اینگلز کے ساتھ اس صدمے پر خط میں مناسب تعزیت نہیں کر سکا۔ بلکہ اس نے اینگلز کو لکھا کہ میں شدید مالی مشکلات کا شکار ہوں اور اگر کرایہ وقت پر ادا نہ کیا گیا تو ایک دفعہ پھر سڑک پر آ جاؤں گا اس لیے پیسوں کا کچھ انتظام کیا جائے۔ مارکس کی بیوی جینی بھی بچوں اور اپنی بیماری اور مالی مشکلات میں گھری ہونے کے باعث اینگلز سے اظہارِ تعزیت نہیں کر سکی۔ اینگلز کو اس کا دکھ پہنچا اور اس نے مارکس کوچند دن بعد اپنے خط میں اس سرد مہری پر شدید غصے کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی اس کے مالی معاملات کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ مارکس کو جب یہ خط ملا تو اس نے بھی چند دن بعد جواب دیا جس میں سرد مہری کے الزام کو تورد کیا لیکن ساتھ ہی اپنے حالات بیان کیے اور اینگلز کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی میں کبھی کوئی تلخی نہیں آئی۔
ان کی لازوال دوستی اور نظریاتی ہم آہنگی کا سب سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ان کی تحریروں کو ایک دوسرے سے کبھی بھی جدا نہیں کیا جا سکتا اور آج بھی دونوں کی مکمل یا منتخب تصانیف مشترکہ طور پر شائع کی جاتی ہیں۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو
پیرس میں بھی مارکس وہاں کی سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرتا رہا اور جرمنی کی سیاست میں بھی خط و کتابت کے ذریعے پوری طرح شامل رہا ۔ اس کے علاوہ جلاوطنی میں مقیم ہم خیال جرمنوں کو بھی منظم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔اس کے علاوہ مختلف ہم خیال رسالوں میں اپنے مضامین شائع کروانے کے علاوہ اپنا ایک اخبار بھی شائع کرنے کی تگ و دو میں لگا رہا جو مختلف مالی اور انتظامی مشکلات کے باعث جاری نہ ہو سکا۔ اسی باعث پروشین ریاست کے دباؤ کے تحت اسے فرانس چھوڑنا پڑا اور وہ برسلز میں مقیم ہو گیا۔ برسلزمیں بھی مارکس اپنا ایک نظریاتی گروپ بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس کے علاوہ وہ جرمنی ، فرانس اور برطانیہ میں بھی مزدور تحریک میں متحرک افراد سے مسلسل رابطے میں تھا اور مزدوروں کے مسائل پر پمفلٹ شائع کروا رہا تھا۔
اس دوران لندن میں کمیونسٹ لیگ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے اجلاس میں اینگلز کو شرکت کرنے کا موقع ملا۔جنوری 1847ء میں اس لیگ نے اپنا ایک نمائندہ برسلز روانہ کیا تا کہ مارکس اور اینگلز کو شمولیت کی دعوت دی جا سکے۔چند ماہ بعد مارکس اور اینگلز نے اس لیگ کے اجلاس میں شرکت کی۔یہ لیگ جمہوری بنیادوں پر اپنے ادارے تشکیل دے چکی تھی لیکن انہوں نے مارکس اور اینگلز سے درخواست کی کہ وہ اس کے لیے منشور لکھیں۔ اس کے علاوہ مارکس نے برسلز میں لیگ کو منظم کرنے کا بھی آغاز کر دیا۔اس دوران مارکس لندن، برسلز اور مختلف شہروں میں مزدوروں کے اجلاسوں سے خطاب بھی کرتا رہا جس میں پرولتاریہ کے کردار، قدر زائد اور اجرتی غلامی کے نظام پر اپنے خیالات پیش کیے۔ انہی سرگرمیوں کے باعث وہ منشور کی دستاویز کو زیادہ توجہ نہیں دے سکا ا ور اس میں تاخیر ہوئی۔
لیکن بالآخر فروری1848ء میں مینی فیسٹو کا مسودہ کمیونسٹ لیگ کے سامنے پیش کیا گیا جسے منظور کر لیا گیا۔ اس منشور کو جدید عہد کی سب سے اہم تصانیف میں شمار کیا جاتا ہے جس کا دنیا کی بیسیوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ مارکس اور اینگلز کی زندگی میں ہی یہ منشور ایک تاریخی حیثیت حاصل کر گیا تھا اور اس کے کئی ایڈیشن مختلف زبانوں میں شائع ہوئے تھے۔آج 170سال گزرنے کے باوجود اس منشور میں بیان کیے گئے نظریات تر و تازہ ہیں اور سرمایہ دارانہ سماج کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
اس منشور میں مارکس اور اینگلز کی تمام تر نظریاتی بحثوں اور شعور ی سفر کا نچوڑ نظر آتا ہے۔جدلیاتی مادیت، تاریخی مادیت اور مارکسی معیشت کی تمام بنیادیں اس منشور میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح محنت کش طبقے کی انقلابی قوت پر غیر متزلزل یقین اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی عالمگیرجدوجہد کا اعلان بھی واضح ہے۔ اس وقت موجود سوشلزم اور کمیونزم کے متعلق خیالی اور غلط نظریات پر بھی سائنسی تنقید نظر آتی ہے جس کے بعد وہ نظریات بتدریج دم توڑ گئے اور آج ان کا نام و نشان بھی کہیں نظر نہیں آتا۔اس کے علاوہ اس منشور میں مارکس اور اینگلز کا خوبصورت انداز تحریر، موضوع پر ان کی گرفت اور الفاظ کا چناؤ ان کی بصیرت اور علمی وسعت کی بھی گواہی دیتا ہے۔
1848ء کا انقلاب
اس منشور کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے ،’’یورپ پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے،کمیونزم کا بھوت۔‘‘اس منشور کی اشاعت کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ فرانس میں بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا۔اس کے اثرات جرمنی سمیت پورے یورپ پر مرتب ہوئے۔ درحقیقت یہ سال پورے یورپ میں انقلابات کا سال تھا۔کمیونسٹ لیگ یورپ میں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اس لیے ان انقلابات میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکی۔لیکن اس کے باوجود مارکس اور اینگلز نے پیرس میں جرمن محنت کشوں کو منظم کیا اور دباؤ بڑھاتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں افراد کے ساتھ جرمنی واپس پہنچے۔مارکس اور اس کے قریبی دوست رہائن لینڈ گئے جہاں کام کرنے کی نسبتاً آزادی تھی۔وہاں پر پہلے ہی ایک اخبار کی اشاعت کی تیاری کی جا رہی تھی جسے مارکس نے حتمی شکل دی اورجون 1848ء سے روزنامہ’’نیورہائن لینڈ نیوز‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس اخبار کی بنیاد کمیونسٹ مینی فیسٹو کے نظریات ہی تھے جنہیں یہ محنت کشوں کی وسیع پرتوں تک پہنچا رہا تھا۔ 18مارچ کو پروشین حکومت کا تختہ الٹا جا چکا تھا لیکن طاقت سرمایہ دار طبقے کی جھولی میں گری جو انقلاب کا غدار تھا۔ پرولتاریہ کے انقلابی تحرک کو سرمایہ دار طبقے نے بادشاہت کے ساتھ معاہدے کے ذریعے ناکامی میں تبدیل کر دیا۔ اپنے اخبار میں مارکس سرمایہ دار طبقے کے اس کردار کی وضاحت کرتا رہا اور ان کی غداری کا تناظر دیتا رہا لیکن اس کے باوجود اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار نہ کیا جا سکا۔ اپنی تقریروں میں بھی مارکس انہی نظریات کی بنیاد پر پروگرام دیتا رہا۔ اس دوران ایک جگہ تقریر سننے والے ایک نوجوانTechow نے بعد ازاں لکھا کہ مارکس کی تقریروں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔خاص طور پر لفظ ’سرمایہ دار‘ادا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک نفرت کا تاثر ابھرتا تھا اور اس لفظ کی ادائیگی بھی وہ انتہائی تحقیر آمیز لہجے میں کرتا تھا۔
اس دوران مارکس کی تحریریں انقلابی جوش اور ولولے سے بھرپور ہیں اور ریاست کے مظالم کیخلاف محنت کشوں کی جرات اور دلیری کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ لیکن اس انقلابی طرزِ تحریر کے باعث اس اخبار کی مالی معاونت کرنے والے بہت سے افراد کترانا شروع ہوگئے اور کنارہ کشی اختیار کر لی اور مارکس کو اپنی بچی کھچی آمدن سے اسے سہارا دینا پڑا۔اس اخبار نے پولینڈ کے قومی سوال پر بھی اہم بحثیں کیں اور زار روس کے جبر اور سامراجی جنگ کی بھی شدید مذمت کی۔ اس کے مطابق زار روس یورپ کی سب سے رجعتی طاقت تھی اور اس کو اکھاڑنا انقلابیوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔اس دوران روس سے جلاوطن ہونے والے ایک شخص باکونن سے بھی مارکس کی ملاقات ہوئی۔ یہ شخص بعد ازاں انارکزم کا بانی بنا اور 1864ء میں قائم ہونے والی پہلی انٹرنیشنل میں مارکس کے ساتھ اس کے انتہائی سخت نظریاتی اختلافات سامنے آئے۔ اس کے علاوہ اس دوران مارکس کا لاسال سے بھی تعلق استوار ہوا جو1864ء میں لاسال کی موت تک پیچ و خم کھاتا ہوا برقرار رہا۔
مارکس اور اینگلز کی بھرپور کاوشوں اور انقلابی قوتوں کو منظم کرنے کی بھرپور کوششوں کے باوجود پرولتاریہ کامیاب نہ ہو سکااور27ستمبر کو مارشل لاء کے تحت مارکس کے اخبار کو بند کر دیا گیا اور1849ء میں اسے ایک دفعہ پھر جلا وطنی پر مجبور ہونا پڑا۔پیرس واپسی پر بھی وہ زیر عتاب آیا جہاں ردِ انقلاب حاوی ہو چکا تھا۔ اس وقت اس کی بیوی چوتھے بچے کے ساتھ حاملہ تھی اور مالی حالات بھی انتہائی دگر گوں تھے جبکہ وہ واپس جرمنی یا برسلز نہیں جا سکتے تھے۔ اس صورتحال میں مارکس نے لندن جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنی باقی کی زندگی اس نے لندن میں ہی جلا وطنی میں گزاری ۔
مارکس لندن میں
انقلاب کی شکست کے باعث بہت سے انقلابیوں میں مایوسی پھیلی اور بہت سے دلبرداشتہ ہو گئے۔ جبکہ کچھ ایسے تھے جو غلط طور پر دوبارہ ایک انقلابی ابھار کا تناظر پیش کر رہے تھے۔ ایسے میں مارکس اور اینگلز کے نظرئیے اور طریقہ کار کی فوقیت نظر آتی ہے۔جہاں وہ اس انقلاب کے اسباق سے سیکھنے کی کوشش کر رہے تھے وہاں وہ خیالی طور پر اپنے انقلابی جوش و جذبے کو معروض پر مسلط نہیں کرتے تھے۔ بعد کے کچھ سالوں میں وہ انقلابی قوتوں کو منظم کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ان کی یہ خواہش ضرور موجود تھی کہ کسی طرح انقلابی تحریک پسپائی کی بجائے دوبارہ ایک اٹھان کی جانب بڑھے لیکن اس خواہش کو زمین پر موجود صورتحال پر مسلط کرتے ہوئے وہ غلط نتائج اخذ نہیں کرتے تھے۔
یہ عرصہ مارکس کے لیے تکلیفوں اور مصائب سے بھرا ہوا تھا۔ کمیونسٹ لیگ بھی پھوٹ کا شکار ہو کر ختم ہو گئی تھی اور سیاسی سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئیں تھی۔ اس کے علاوہ مارکس کی ذاتی زندگی کی مشکلات میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ چوتھے بچے کی پیدائش لندن میں ہوئی مگر وہ غربت اور بیماری کے باعث زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکا۔ مارکس کو اس کے گھر سے بھی مالک مکان نے نکال دیا۔اس نے اپنا کرایہ ایجنٹ کو تو دیا تھا لیکن اس نے مالک مکان کو نہیں پہنچایا تھا جس کے باعث انہیں یہ اذیت سہنی پڑی۔اسی دوران اس کی بیوی نے جرمنی میں مارکس کے دوست ویڈ مئیر کو خط لکھ کر پیسوں کا انتظام کرنے کا کہا تھا جس میں گھر کی حالت کا تکلیف دہ نقشہ کھینچا گیا ہے۔
اس دوران مارکس برطانیہ کی مزدور تحریک کی نمائندہ چارٹسٹ تنظیم کے اخبار میں بھی لکھتا رہا اور اپنے اخبار کو دوبارہ شروع کرنے کی بھی کوشش کی۔ اسی کوشش کے لیے اس نے اپنی شاندار سیاسی تحریر ’’لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برومئیر‘‘ بھی لکھی جس میں فرانس کی سیاسی صورتحال کا گہرائی میں تجزیہ کیا۔اس تحریر کی فصاحت و بلاغت اور خوبصورت انداز بیان آج بھی پڑھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔سیاسی سرگرمی میں کمی کے باعث لندن میں مارکس نے اپنی توجہ نظریاتی کام پر مرکوز کر دی اور ’’سیاسی معاشیات پر تنقید‘‘کو مکمل کرنے کے لیے سرگرم ہو گیا۔ اس دوران اس نے لندن کی برٹش میوزیم کی لائبریری سے خوب استفادہ کیا جہاں وہ صبح نو بجے پہنچ جاتا تھا اور رات سات بجے واپس آتا تھا۔
اپنے گھر کے اخراجات چلانے کے لیے اسے امریکہ کے اخبار نیو یارک ڈیلی ٹربیون میں لکھنے کا موقع ملا جس کی پالیسی نسبتاً ترقی پسند تھی۔ان مضامین کو لکھنے کا مقصد صرف آمدن کے سلسلے کو قائم رکھنا تھا لیکن آج یہ مضامین بھی انقلابی کارکنوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر 1857ء میں ہندوستان کی جنگِ آزادی پر لکھے جانے والے مضامین اور ہندوستان میں برطانوی راج کا تجزیہ و تناظر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ 1857ء کے معاشی بحران کے اثرات مارکس پر بھی پڑے جب نیو یارک ٹریبیون نے اس کی اجرت نصف کر دی جس کے باعث مارکس کی مالی مشکلات کئی گنا بڑھ گئیں۔ اس دوران 1861ء میں امریکہ میں ہونے والی خانہ جنگی نے بھی مارکس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اس نے اس موضوع پر تفصیلی تجزیہ کیا ۔شمالی امریکہ کی قوتوں کی عسکری کمزوریوں اور ابتدائی شکستوں کے باوجود اسے یقین تھا کہ حتمی فتح انہی کی ہو گی کیونکہ وقت اور تاریخ کا دھارا ان کی حمایت میں تھا۔ پہلی انٹرنیشنل کے قیام کے بعد اس کی مرکزی کونسل کی جانب سے1864ء میں مارکس نے ابراہام لنکن کو مبارکباد کا خط بھی لکھا۔
اس دوران اس نے داس کیپیٹل پر بھی اپنا کام جاری رکھا۔’’سیاسی معاشیات پر تنقید‘‘در حقیقت مارکس کی شہرۂ آفاق تصنیف داس کیپیٹل کی بنیاد تھی۔ اس کتاب کو داس کیپیٹل کے پہلے باب کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔اس کتاب کو مارکس نے 1859ء میں شائع کروایا۔ اس دوران مارکس اپنی ڈائری میں نوٹس بھی بناتا رہا جن کو بنیاد بنا کر اس نے داس کیپیٹل کو لکھا۔ 800صفحات پر مشتمل یہ نوٹس الگ سے ’’گرنڈرس‘‘ کے نام سے 1939ء میں پہلی دفعہ شائع ہوئے۔
’’سیاسی معاشیات پر تنقید‘‘ کی اشاعت کا واقعہ بھی دلچسپ ہے جس کے لیے مارکس کئی سالوں تک اس کے مسودے پر کام کرتا رہا ۔اس کتاب کی اشاعت کے لیے ایک جرمن پبلشر سے معاملات بھی طے پا گئے لیکن جب مارکس نے کتاب کا مسودہ لندن سے جرمنی بھیجنا تھا اس دن اس کے پاس ڈاک کی ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے۔اس نے انتہائی پریشانی کے عالم میں اینگلز کو خط لکھا کہ پیسوں کا فوری طور پر انتظام کرے ۔ اینگلز اس وقت مانچسٹر میں مقیم تھا اور اپنے باپ کے کاروبار میں شامل ہونے کے باعث اسے پیسوں کے انتظام میں مشکلات پیش نہیں آتی تھیں۔ اس نے فوری طور پر مارکس کو ڈاک ٹکٹ کے پیسے بھجوائے جس کے باعث وہ مسودہ اپنی منزل پر پہنچ سکا۔
مارکس کو اس تمام عرصے میں بہت سے دکھ اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں۔ اپنے نومولود بچے کی وفات پر وہ انتہائی غمگین ہو گیا۔ اس نے اینگلز کوخط لکھا کہ میں نے پڑھا تھا کہ عظیم لوگ دنیا اور اس کے مسائل میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ انہیں ذاتی صدمے اور دکھ زیادہ رنج نہیں پہنچاتے۔ لیکن اب مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں بالکل بھی ایک عظیم شخص نہیں ہوں۔ اس بچے کی وفات نے مجھ سمیت پورے گھر میں صف ماتم بچھا دی ہے اور کچھ بھی کرنے کو جی نہیں کرتا۔
مارکس کے بہت کم خطوط ایسے ہیں جن میں اس کے گھر کے حالات کا اندازہ ہو سکے لیکن پھر بھی تھوڑی بہت جھلک نظر آتی ہے۔ ایک موقع پر وہ مناسب لباس اور جوتے نہ ہونے کے باعث گھر سے باہر نہیں نکل سکا اور اندر ہی رہنے پر مجبور تھا۔ ایک اور وقت میں اس کے پاس کاغذ اور قلم خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔اسی طرح دکانداروں سے روز مرہ کی لڑائیاں اور ادھار واپسی کے تقاضے جو سود سمیت چکانے پڑتے تھے۔ اس دوران جینی کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھنا بھی ممکن نہیں تھالیکن وہ سمجھتا تھا کہ اتنے مشکل حالات میں وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے۔ مارکس اپنے بچوں سے بہت پیار کرتا تھا اور اتوار کا دن اس نے بچوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا ۔ بچوں کے ساتھ اس کے تعلقات انتہائی دوستانہ تھے اور وہ انہیں دنیا بھر سے بچوں کی کہانیاں سناتا تھا۔ مارکس کی بیٹیاں اسے ’’Moor‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں جس کی وجہ اس کا نسبتاً سیاہ رنگ اور گہرے کالے گھنے بال تھے۔غربت کے باعث بچیاں روایتی تعلیم تو مناسب طریقے سے حاصل نہ کر سکیں لیکن مارکس کے زیر سایہ پرورش پانے کے باعث ان میں علم کی وسعت اور انقلابی جذبہ موجود تھا۔ اس کی ایک بیٹی ایلی نور نے سب سے زیادہ عمر پائی اور انقلابی تحریک میں سرگرم حصہ بھی لیا۔
داس کیپیٹل
تمام تر مشکلات کے باوجود داس کیپیٹل پر مارکس پوری تندہی کے ساتھ کام کرتا رہا ۔کوئی بھی سائنسدان اپنے موضوع کے ہاتھوں اتنا پریشان نہیں ہوا ہو گا جتنا مارکس ’’سرمایہ ‘‘ لکھتے وقت سرمائے کے ہاتھوں ہوا۔لیکن اس کام کا اولین مقصد اپنے نظریات کو محنت کش طبقے تک پہنچانا تھا تاکہ وہ اپنی جدوجہد میں اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دے سکیں۔لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اس میں تاخیر ہوتی رہی ۔ 1865ء تک مارکس پہلی جلد کا مسودہ تیار کر چکا تھا لیکن اس پر نظر ثانی کے لیے اس نے مزید مہلت مانگی جس میں پھر دو سال لگ گئے۔ اس دوران 1864ء میں پہلی انٹرنیشنل کا قیام عمل میں آ چکا تھا جس میں مارکس اور اینگلز بھرپور انداز میں شریک تھے اور ان کی تمام تر سرگرمی کا محور اس تنظیم کی تعمیر تھی۔لیکن اس کے باوجود اینگلز مسلسل اصرار کر رہا تھا کہ مارکس جلد از جلد پہلی جلد کو مکمل کرے تاکہ اس کی اشاعت کے بعد اسے مزدوروں کی وسیع تر پرتوں تک لیجایا جا سکے۔ ایک خط میں اینگلز نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مارکس سے کہا کہ وہ اس کام پر توجہ نہیں دے رہا۔ جواب میں مارکس نے لکھا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے مجھے ٹانگوں کے درمیان جگہ پر شدید خارش ہو رہی ہے اور جلد اکھڑنے لگی ہے۔ اس لیے اس عرصے میں میری تمام تر توجہ کا مرکز یہی جگہ ہے۔
بالآخر تمام تر تاخیر کے بعد 1867ء میں داس کیپیٹل کی پہلی جلد شائع ہو کر منظر عام پر آ گئی۔ لیکن اس کا کوئی خیرمقدم نہیں کیا گیا بلکہ بورژوا پریس نے خاموشی کے ذریعے اس عظیم تصنیف کو ضائع کرنے کی کوشش کی۔ اینگلز نے اس کا خلاصہ بھی لکھا اور مختلف اخبارات کے لیے کتاب پر تبصرے بھی لکھ کر بھیجے تا کہ کتاب کو محنت کشوں کی وسیع پرتوں تک پھیلایا جا سکے لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔لیکن آہستہ آہستہ اس تاریخی تصنیف کو پذیرائی ملنی شروع ہوئی اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کا آغاز ہوا۔ ان تراجم میں بھی مارکس نے خصوصی دلچسپی لی تا کہ دنیا بھر کے محنت کشوں تک اس نظرئیے کو پھیلایا جا سکے ۔ فرانسیسی ترجمے سے وہ مطمئن نہیں تھا اس لیے اس کا بڑا حصہ اس نے خود دوبارہ ترجمہ کیا۔ روسی زبان میں بھی اس کا ترجمہ کیا گیا اور اس طرح یہ نظریہ پلیخانوف اور دیگر روسی نوجوانوں تک پہنچنا شروع ہوا۔
داس کیپیٹل میں مارکس کی ذہانت اور موضوع پر گرفت اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ فلسفے، تاریخ اور معاشیات جیسے اہم مضامین کی تمام تر تاریخ اور ان میں ہونے والی تمام اہم پیش رفت مارکس کی مٹھی میں تھی اور مارکس نے جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار کے تحت ان کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں ایک نئے نظرئیے کی شکل دی جسے آج مارکسزم کہا جاتا ہے۔یہ نظریہ انسانی شعور اور تہذیب کی معراج ہے اور آج تک کا سب سے جدید سائنسی نظریہ ہے۔بہت سے لوگ داس کیپیٹل کو ادب کا شاہکار بھی کہتے ہیں۔اس میں جس طرح شیکسپیئرسے لے کر دانتے اور گوئٹے سے لے کر ایسیکلیز تک کے ادبی فن پاروں کو استعمال کیا گیا ہے اور تحریر میں جو چاشنی اور انقلابی ولولہ نظر آتا ہے وہ تاریخ میں خود اپنی ایک مثال ہے۔مارکس ادب کا وسیع مطالعہ رکھتا تھا اور بہت سی یورپی زبانوں پر اسے عبور حاصل تھا۔قدیم یونان کے ادیب ایسیکلیز سے وہ بہت متاثر تھا اور سال میں ایک دفعہ اس کی کہانیوں کا مطالعہ ضرور کرتا تھا۔بہت سے ادبی فن پارے اسے زبانی یاد تھے اور وہ ان پر لمبی بحثیں کیا کرتا تھا۔ ہسپانوی ادیب سروینٹیز کے ناول ڈان کیخوٹے کو وہ اپنے بچوں کو پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ فرانسیسی ادیب بالزاک کے متعلق وہ کہتا تھا کہ میں نے انقلاب فرانس کے بعد کے سماج کے متعلق ان ناولوں سے وہ کچھ سیکھا ہے جو میں عمرانیات،معاشیات ، تاریخ اور سیاسیات کی کتابوں سے نہیں جان سکا۔ عربی ادب میں وہ الف لیلیٰ سے متاثر تھا اور اسے اصل میں پڑھنے اور لطف حاصل کرنے کے لیے عربی سیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔
داس کیپیٹل میں مارکس نے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات زندگی کی بھی مثالیں دی ہیں تاکہ سرمایہ دارانہ استحصال کو واضح کیا جا سکے۔ یہ واقعات اور اعداد و شمار زیادہ تر برطانیہ کے فیکٹری انسپکٹروں کی مرتب کی گئی بلیو بکس میں سے لیے گئے ہیں جو لائبریری میں دھول اور مٹی کی نذر ہوجاتی تھیں لیکن مارکس نے انہیں اہم مقصد کے لیے استعمال کیا۔مارکس کے گھر میں بھی کتابوں کا ڈھیر ہوتا تھا اور کسی کو بھی اسے ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ان کی ترتیب بدلنے کی ۔ مارکس کہتا تھا کہ ’’یہ کتابیں میری غلام ہیں ، میں ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لیتا ہوں۔‘‘
پہلی انٹرنیشنل
1864ء میں پہلی انٹرنیشنل کا قیام عالمی مزدور تحریک کے حوالے سے ایک تاریخی قدم اور مینی فیسٹو کے نعرے ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘‘ کا عملی اظہار تھا۔لیکن بعد میں بننے والی دوسری ، تیسری اور چوتھی انٹرنیشنل کی طرح یہ کوئی مارکسی تنظیم نہیں تھی بلکہ اس میں اس وقت کے مختلف رجحانات شامل تھے جن میں سے ایک باکونن کا انارکزم کا انتہائی غلط رجحان تھا۔مارکس اور اینگلز کو جب ایسی تنظیم کے قیام کی تیاریوں کا علم ہوا تو انہوں نے پوری گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا ۔ وہ جانتے تھے کہ اس میں ان کے نظریات سے ہٹ کر مختلف رجحانات شامل ہیں لیکن وہ اس پلیٹ فارم سے اپنے نظریات دنیا بھر میں پھیلا سکتے تھے۔ اس انٹرنیشنل کا مرکز لندن میں تھا لیکن اس کی شاخیں دیگر یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ میں بھی موجود تھیں۔
ماضی کی طرح جب مارکس اور اینگلز نے اس میں حصہ لینا شروع کیا تو اپنی سیاسی اور نظریاتی فوقیت کے باعث تیزی سے اس کی قیادت کا حصہ بن گئے اور اپنے شب و روز اس تنظیم کی تعمیر اور اس میں ہونے والی بحثوں کے لیے وقف کر دئیے۔اس تنظیم کا تاسیسی اجلاس سینٹ مارٹن ہال لندن میں منعقد ہوا۔ اس میں انگلینڈ سے خیالی سوشلسٹ اووین کے پیروکار، فرانس سے پرودھون اور بلانکی کے پیروکار، آئرش اور پولش قوم پرست، اطالوی ریپبلکن اور جرمن سوشلسٹ شامل تھے۔اس کے علاوہ مختلف ٹریڈ یونینوں اور مزدور تنظیموں کے نمائندے بھی شریک تھے۔اس اجلاس میں 21رکنی ایگزیکٹو کمیٹی کو منتخب کیا گیا جس کے ممبران مختلف تنظیموں کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ مارکس کو انفرادی حیثیت میں شامل کیا گیا۔مارکس نے ہی اس تنظیم کی تمام بنیادی دستاویزات کا ڈرافٹ تیار کیاجسے بحث کے بعد منظور کیا گیا۔
اس انٹرنیشنل کے مختلف اجلاسوں میں ہونے والی بحثیں اور مارکس اور اینگلز کا نقطہ نظر عالمی مزدور تحریک کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔اس انٹرنیشنل میں موجود تمام رجحانات پر مارکس نے اپنے سائنسی نقطہ نظر سے تنقید کی اور انہیں سائنسی سوشلزم کے نظریات پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ مارکس کی سب سے زیادہ گرما گرم بحثیں باکونن سے ہوئیں جسے انارکزم کا بانی کہا جاتا ہے۔
اس انٹرنیشنل کا نقطہ عروج 1871ء میں پیرس کمیون کے انقلابی واقعات تھے جس میں اس انٹرنیشنل کا ایک اہم کردار تھا۔پیرس کمیون کا واقعہ انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جب محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کیا اور سماج کو سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی سے چھٹکارا دلایا۔ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اکثریت کی حکمرانی قائم ہوئی جبکہ اس سے قبل کے انقلابات میں ایک اقلیت کی جگہ دوسری اقلیت کی حکمرانی ہی قائم ہوئی تھی۔ یہ کمیون صرف دو ماہ ہی قائم رہ سکی اور اسے خون میں ڈبو دیا گیا۔لیکن ان دو ماہ میں پیرس کے محنت کشوں نے ثابت کر دیا کہ سماج کو ظلم واستحصال اور نجی ملکیت کے بغیر بھی چلایا جا سکتا ہے۔
انٹرنیشنل کے فرانسیسی سیکشن کے ممبران کمیون میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اس کی تمام کاروائیوں میں بھرپور انداز میں شریک رہے اور جرات اور دلیری سے حالات کا مقابلہ کیا۔کمیون کی کونسل میں بلانکی کے حامیوں کی اکثریت تھی جبکہ پرودھون کے پیروکار اقلیت میں تھے۔ مارکس کا کوئی بھی نظریاتی ساتھی پیرس کمیون کی کونسل میں موجود نہیں تھا لیکن اس کے باوجود مارکس مزدوروں کے اس عظیم انقلاب کا ہر ممکن دفاع کرتا رہا اور اس کو آگے بڑھنے اور اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لئے اہم تجاویز بھیجتا رہا اور کمیون کے اہم فرائض کے ذمہ داران کے ساتھ رابطے میں رہا۔اگر مارکس کی تجاویز پر عمل کیا جاتا تو کمیون کو کامیابی سے مزید آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔
کمیون کے خونریز انجام کے فوری بعد مارکس نے انٹرنیشنل کی جنرل کونسل سے خطاب کیا جو ’’فرانس میں خانہ جنگی ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔اس خطاب میں کمیون کے تمام دشمنوں کے خلاف اس کا دفاع کیا گیا اور اس عظیم واقعے سے محنت کشوں کے لیے ضروری اسباق اخذ کیے گئے۔باکونن نے اس موقع پر بھی مارکس پر انارکسٹ نقطہ نظر سے شدید تنقید کی۔ کمیون کی ناکامی کے بعد انٹرنیشنل عملی طور پر ختم ہو گئی تھی۔لیکن اس کا اظہار 1872ء میں ہونے والی ہیگ کانگریس میں ہوا۔ اس میں انٹرنیشنل کا مرکز لندن سے تبدیل کر کے نیویارک منتقل کرنے کی تجویز دی گئی۔ لیکن اس پر عملی جامہ پہنائے جانے سے پہلے ہی انٹرنیشنل تحلیل ہو چکی تھی۔
انٹرنیشنل کے اس انجام سے مارکس اور اینگلز بالکل بھی مایوس نہیں ہوئے تھے اور ان تجربات کو وہ عالمی مزدور تحریک کا قیمتی اثاثہ قرار دیتے تھے۔مارکس کی وفات کے بعد جب دوسری انٹرنیشنل کا قیام 1889ء میں عمل میں آیا تو اینگلز نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی اور اس کے اجلاس میں شرکت بھی کی تھی۔
مارکس کی زندگی کی آخری دہائی بھی شدید مالی مشکلات ، بیماری اور نظریاتی جدوجہد میں گزری۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وہ داس کیپیٹل کی دوسری اور تیسری جلد مکمل نہیں کر سکا اور یہ فریضہ بعد میں اینگلز نے سرانجام دیا۔ اس دوران وہ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی بھرپور مداخلت کرتا رہا۔ جرمنی کی سیاست میں جاری بحثوں پر اس نے ’’گوتھا پروگرام پر تنقید‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں مستقبل کے سوشلسٹ سماج کے حوالے سے اہم بحثیں موجود ہیں۔ پیرس کمیون کے بعد مارکس اور اینگلز اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ بورژوا ریاستی ڈھانچے کو پرولتاریہ اپنے لیے استعمال نہیں کر سکتا بلکہ اس کو اکھاڑ کر اس کی جگہ مزدور ریاست تعمیر کرنی پڑتی ہے۔ لینن نے اسی تجزئیے کو بنیاد بنا کر ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں اس نکتے پر تفصیلی بحث کی تھی۔ انہی اہم نتائج اور اسباق پر روس کے 1917ء کے اکتوبر انقلاب کی بنیاد رکھی گئی جو پیرس کمیون کے بعد انسانی تاریخ کا دوسرا واقعہ ہے جب محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
مارکس کے آخری چند سال بیماریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرے۔ صحت بخش فضا کے لیے اس نے الجزائر کا بھی سفر کیا اور اپنی بیٹیوں کے پاس بھی کچھ عرصے کے لیے مقیم رہا لیکن صحت بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوتی چلی گئی۔2دسمبر 1881ء کو اس کی بیوی اور زندگی بھر کی محبت جینی کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔اینگلز نے اسی دن کہا کہ’’آج Moorبھی مرگیا۔‘‘ اس کے بعد مارکس کے لیے زندگی بے کشش ہو کر رہ گئی تھی اور 14مارچ 1883ء کو وہ کتابوں کے کمرے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے انتقال کر گیا۔
اپنی آخری سانس تک مارکس محنت کش طبقے کے لیے لڑتا رہا اور ایک لمحے کے لیے بھی انسانیت کے سوشلسٹ مستقبل پر اس کا یقین متزلزل نہیں ہوا۔ دنیا کی تمام تر آسائشوں کو ٹھکرا کر عالمی مزدور تحریک کی فیصلہ کن کامیابی کے لیے جدوجہد کرنے والے کارل مارکس کو17مارچ کو لندن کے ہائی گیٹ قبرستان میں اس کی بیوی کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔
Pingback: کارل مارکس کی انقلابی زندگی،اک جہدِ مسلسل - Sohb-e-Haal 1883 لندن میں کارل مارکس کی