|احسان علی ایڈووکیٹ، امیدوار برائے گلگت بلتستان اسمبلی، حلقہ ہنزہ|
زر زمیں کی حیثیت۔۔۔اجتماعی ملکیت!
اجتماعی ملکیت، خود ارادیت، معاشی خودمختاری۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے لیے 15نومبر کو انتخابات کو اعلان کیا گیا ہے۔ ان انتخابات میں موجودہ ارب پتی نودولتیوں کی حکمران پارٹی اور سابقہ حکمران پارٹیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ 1970ء سے اب تک گلگت بلتستان میں ہونے والے یہ تیرہویں انتخابات ہیں۔ 1994ء سے اب تک جماعتی بنیاد پر انتخابات ہو رہے ہیں جبکہ اس سے قبل 1970ء میں ایک مشاورتی کونسل قائم کی گئی تھی جس کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے تھے۔
ایک سرمایہ دارانہ ریاست میں عوام کے ووٹوں سے منتخب اسمبلیوں کی حیثیت محض نمائشی ہوتی ہے جبکہ عوام کی قسمت کے فیصلے کہیں اورہوتے ہیں۔ یہی تماشہ 1970ء سے اب تک پاکستان میں نظر آ رہاہے جبکہ گلگت بلتستان میں قائم اسمبلی یہاں کی عوام کے منتخب نمائندوں کے مرتب کردہ کسی آئین کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک صدارتی حکم نامے جی بی گورنمنٹ آرڈر 2018ء کی بنیاد پر قائم ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو اس آرڈر میں ترمیم کا بھی اختیار حاصل نہیں نیز ان پارٹیوں کے نمائندوں نے آج تک عوامی حقوق سے متعلق فیصلے اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔ اس لئے جی بی کی عوام کے تمام معاشی، سیاسی، تعلیم، صحتِ عامہ، روزگار اور بنیادی ضروریات زندگی سے متعلق سارے فیصلے منتخب اسمبلی میں نہیں بلکہ کہیں اور غیر منتخب اداروں میں ہوتے ہیں جبکہ ان اداروں کا عوامی مسائل کے حل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایسے میں پھر سوال پیداہوتاہے کہ ان بے اختیار اسمبلیوں کے انتخابات میں کیوں حصہ لیا جائے؟
ایسی صورت حال میں ایک صورت تو یہی بنتی ہے کہ ان بے معنی انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ مگر محنت کش عوام جبر و استحصال اور لوٹ مار کے اس نظام کے خلاف اور اس وحشی نظام کے محافظ بدعنوان، نااہل، عوام دشمن حکمرانوں کے خلاف سخت غم اور نفرت کے باوجود ابھی بھی اس کٹھ پتلی اسمبلی کی طرف دیکھنے پر مجبور شاید اس لیے ہیں کہ کچلے ہوئے طبقوں کو آپس میں جوڑ کر اس جبر و استحصال اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی سرمایہ داری نظام سے نجات دلانے والی کوئی متبادل انقلابی قوت سامنے نہیں آئی ہے۔ ایسی صورت حال میں محنت کش طبقے اور تمام کچلے ہوئے طبقوں کی حق حکمرانی پر یقین رکھنے والی انقلابی تنظیم اور اس کے کارکنوں کو اپنے انقلابی نظریات پھیلانے کیلئے جہاں جہاں موقع ملے انہیں اس میں بھرپور شرکت کرنی چاہیے۔ گوکہ انتخابات میں حصہ لینا یا نہ لینا کوئی آفاقی اصول نہیں لیکن وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے اور بالخصوص عوام کی اس عمل میں دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے اگر آج گلگت بلتستان کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو محنت کش طبقہ بد ترین کیفیت میں نظر آتا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور محنت کش مسلسل موت کی وادی کی جانب سرکتے چلے جا رہے ہیں۔ علاج کی سہولیات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ تعلیم کا حصول اکثریت کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ جو لوگ تھوڑی بہت جمع پونجی خرچ کر کے یہ بنیادی سہولت حاصل کر بھی لیتے تھے، اب ان سے بھی یہ حق چھینا جا رہا ہے اور فیسوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں حکمران طبقے کی لوٹ مار بھی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے جبکہ اس پورے علاقے کی محرومی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستانی ریاست نے گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو ہمیشہ اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اور عالمی سطح پر اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے اس خطے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح، چین کے حکمران طبقے کے ساتھ حالیہ منصوبوں خصوصاً سی پیک میں بھی اس خطے کے وسائل کی بولی لگائی گئی ہے جس کے تحت اربوں ڈالر کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ سی پیک، جسے گیم چینجر قرار دیا جا رہا تھا، درحقیقت ایک سامراجی منصوبہ ہے جس کا مقصد ترقی اورخوشحالی کے جھوٹے نعروں کی آڑ میں خطے کے وسائل کی لوٹ مار ہے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعووں کے برعکس اس سارے عمل میں اس خطے کی قومی محرومی، غربت، لاعلاجی اور بیروزگاری ختم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے دعوے بھی ایک طویل عرصے سے کیے جاتے رہے ہیں اور اب انتخابات سے قبل ایک بار پھر سے عبوری صوبے کا لالی پوپ دے دیا گیا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سرمایہ د ارانہ نظام کے تحت اگر عبوری صوبہ بنا بھی دیا جائے تو بھی اس خطے کی قومی محرومی کم ہونے کی بجائے بڑھے گی اوریہاں کے عوام کوروزگار ملے گا اور نہ ہی مہنگائی میں کمی آئے گی۔ علاج اور تعلیم کی بنیادی سہولیات کا حصول بھی بدستور ایک خواب ہی رہے گا۔
ایسے میں پورے خطے کی صورتحال بھی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ لداخ میں چین اور ہندوستان کی جنگ کے سائے منڈلارہے ہیں جو یہاں پر براہ راست تباہی اور بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح، کشمیر کے حوالے سے بھارت کے حالیہ اقدامات نے اس مسئلے کی نوعیت کو حتمی طور پر تبدیل کر دیا ہے اور پاکستانی ریاست کی جانب سے بھی اسی طرز پر منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ لیکن مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ اس میں گلگت بلتستان یا کشمیر کے عوام سے کسی بھی سطح پر کوئی رائے طلب نہیں کی گئی اور نہ ہی حکمرانوں اور سامراجی طاقتوں کے لیے یہاں کی عوام کی رائے کو کسی بھی قسم کی کوئی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن دوسری طرف حکمران طبقے کی تمام تر پالیسیوں کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا خواہ وہ سامراجی جنگیں ہوں یا تعمیر و ترقی کی آڑ میں لوٹ مار کے منصوبے۔
اس حوالے سے گلگت بلتستان کی کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کے پاس کوئی درست سائنسی تجزیہ و تناظر موجود نہیں، اس کا حل پیش کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ موجودہ انتخابات نے اس بحث کو عوامی سطح پر لانے کا کردار ادا کیا ہے اور ایک حل کی جستجو بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے میں موجودہ حالات کا درست سائنسی تجزیہ صرف مزدور نظریات کے تحت ہی کیا جا سکتا ہے اور حکمران طبقے کی سیاسی جماعتوں کے تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے امیر اور غریب، حاکم اور محکوم کے بنیادی تضاد کی بنا پر ہی درست تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکمران طبقے کے تمام دھڑوں کے خلاف ایک منظم جدوجہد کی جائے۔ اس میں امریکہ سے لے کر بھارت اور چین تک تمام سامراجی طاقتوں کے حقیقی کردار کو ایکسپوز کرنے کے ساتھ مقامی حکمرانوں کی عوام دشمن حقیقت کو بھی بے نقاب کیا جائے۔ اس میں پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر اور گلگت بلتستان کے حکمرانوں کے غدارانہ اور عوام دشمن غلیظ کردار کے خلاف جدوجہد کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت یہاں کی کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں اور وہ حکمران طبقے کے ایک یا دوسرے دھڑے کے نمائندے کے طور پر موجود ہیں۔ ان کے تمام امیدوار بھی ماضی کی طرح اس دفعہ بھی جھوٹے وعدے کر رہے ہیں اور اپنی ذاتی تشہیر اور دولت اور اقتدار کی ہوس کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ عوام کے مسائل کے حل سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس نظام کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ تاریخی طور پر متروک ہو چکا ہے اور کوئی بھی مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہے۔
آج واضح ہو چکا ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی بھی قسم کی کوئی بہتری ممکن نہیں اور اس کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی تمام مسائل کو حتمی طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے موجودہ انتخابات میں انقلابی قوتوں کا حصہ لینے کا مقصد یہ پیغام عوام کی وسیع تر پرتوں تک پہنچاتے ہوئے انہیں منظم کرنا ہے تاکہ اس پورے نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔
اس کے علاوہ انقلابیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ انتخابات کے دوران جہاں موقع ملے وہاں محنت کش عوام کو نچلی سطح پر گاؤں، قصبے، تحصیل، ضلع اور شہر کی سطح پر محنت کش عوام کی کونسلیں قائم کرکے تمام انتظامی، معاشی سماجی، تعلیم، صحت عامہ کی منصوبہ بندی کے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے منظم کریں اور اس کے ذریعے ریاست پر اپنے حقوق کے حصول کے لیے مسلسل دباؤ ڈالتے رہیں۔
اس ریڈیکل نقطہ نظر کے تحت مارکسی قوتوں نے بھی انقلابی کارکنوں کے عملی تعاون سے جی بی اسمبلی کے انتخابی حلقے ہنزہ سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ گلگت بلتستان کے انقلابی نوجوان اور محنت کش درج ذیل مقاصد اور مطالبات کے لئے عملی جدوجہد کریں گے:
1۔ موجودہ بے اختیار گلگت بلتستان اسمبلی کی جگہ محنت کش عوام کی منتخب کونسلوں کی بنیاد پر ایک آئین ساز اسمبلی کے قیام کے لیے عوام کو منظم و متحرک کرنا۔
2۔ سرمایہ کار کمپنیوں اور سرمایہ داروں کی طرف سے گلگت بلتستان میں پائے جانے والے وسائل دولت، عوامی اراضی اور معدنیات کے ذخائر پر جی بی انتظامیہ اور تبدیلی سرکار کی مدد سے جبری قبضوں کے خلاف مقامی عوام کی مزاحمت کے ذریعے انہیں دوبارہ عوامی ملکیت میں دے کر اسے محنت کش عوام کی اجتماعی ترقی و خوشحالی کیلئے استعمال میں لانا۔
3۔ سی پیک ایک سامراجی منصوبہ ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی قسم کی سماجی بہتری کی بجائے قرضوں کے انبار لگ رہے ہیں۔ یہ قرضے مستقبل میں یہاں کی عوام کو ہی ادا کرنے پڑیں گے۔ اس منصوبے کا واحد فائدہ اس ملک کے حکمرانوں کو ہو رہا ہے جو کمیشنوں کی صورت میں خوب مال بٹور رہے ہیں۔ اس منصوبے کی وجہ سے مقامی وسائل کی لوٹ مار، استحصال، قومی محرومی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے اور دودھ اور شہر کی نہریں بہانے کے برعکس اس نےنئے تضادات کو جنم دیا ہے۔
4۔ گلگت بلتستان سے خالصہ سرکار جیسے نوآبادیاتی قانون کو ختم کر کے علاقے کی ساری زمین، بشمول پہاڑ اور گلیشیئر، کو گاؤں اور ضلع کے حوالے سے لوگوں میں تقسیم اور اس کو عوام کی ملکیت میں منتقل کرانے کے لیے جد و جہد کی جائے گی۔ مقامی خاندان، جن کی ملکیت میں زمین یا مکان موجود نہ ہو، ان کو غیر آباد زمین کی تقسیم اور پبلک ہاؤسنگ کے ذریعے ان کو کرائے کے مکانوں اور زمین کی کمی کی وجہ سے درپیش مسائل سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ گلگت بلتستان میں باہر سے آنے والے سرمایہ داروں پر سخت ریگولیشن عائد کرانے کے لیے جدوجہد کی جائے گی تاکہ مقامی کاروباری و تجارتی افراد ان کے سرمایہ کے زور سے کچلے نہ جائیں۔
5۔ ضلع ہنزہ میں کام کرنے والے حکمران پارٹیوں کے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کی غداریوں کی وجہ سے آج بھی ہنزہ کے غریب محنت کش عوام بجلی، صاف پانی، صحت عامہ، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں، لہٰذا عوام کی ان بنیادی ضروریات کی فوری فراہمی کیلئے مقامی وسائل دولت اور معدنیات کو استعمال میں لانے کیلئے حکمت عملی تیار کرنا۔
6۔ ہنزہ سمیت پورے گلگت بلتستان سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کا کالا قانون فی الفور ختم کیا جائے۔ اور اس وحشی قانون کی وجہ سے جھوٹے مقدمات کے شکار اور اس کالے قانون کی وجہ سے طویل قیدوبند اور جبر کے شکار اسیرانِ ہنزہ کے خلاف تمام جھوٹے مقدمات واپس لے کر انہیں فی الفور باعزت بری کرانے کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔
7۔ ہنزہ کے سابق موقع پرست اور مفاد پرست نمائندوں اور ریاست کی عمومی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے سرکاری و نیم سرکاری ملازمتوں میں ہنزہ کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے بند ہیں جبکہ سرکاری یا پرائیویٹ شعبے میں روزگار کے مواقع ہی موجود نہیں جس کے باعث صرف ضلع ہنزہ میں ہی 10 ہزار سے زیادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے روزگاری کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کو منظم کرکے حکومت کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ جی بی کی سرکاری ملازمتوں میں نئی بھرتیوں کو یقینی بنائے۔ نیز ہنزہ میں موجود معدنیات کی پروسیسنگ کے لیے مقامی سطح پر پلانٹ لگائے جائیں۔ نیز بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرنے کے لیے یہاں موجود انڈسٹریل خام مال کی بنیاد پر صنعتیں اور کارخانے لگائے جائیں۔ خواتین کو روزگار دینے کے لیے بڑے پیمانے پر ہر گاؤں میں گھریلو صنعتیں لگائی جائیں۔ ان منصوبوں میں خواتین کی شرکت کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں بیروزگار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو حکومتی سطح پر بلا سود قرضے آسان شرائط پر فراہم کیے جائیں۔
9۔ مذکورہ بالا عوامی قانون ساز اسمبلی میں کم از کم ایک تہائی نمائندگی خواتین کی ہوگی۔ اس کے علاوہ خواتین کے خلاف تمام تر امتیازی قوانین کے خاتمے کی جدوجہد کی جائے گی اور انہیں تمام بنیادی حقوق فراہم کرنے کے لیے احتجاجی تحریک منظم کی جائے گی تاکہ ان پر روا رکھے جانے والے تمام تر مظالم کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ زچگی کے دوران اور اس کے بعد ایک سال تک کے لیے حکومت کی جانب سے ا دویات اور علاج کی مفت خصوصی سہولیات اور خصوصی الاؤنس کی فراہمی کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔
10۔ ہنزہ سمیت گلگت بلتستان کے تمام تر اضلاع میں کم از کم تنخواہ ماہانہ40 ہزارروپے تک بڑھانے اور بیروزگار افراد کے لیے ماہانہ20 ہزار روپے کے الاؤنس کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ چونکہ بیروزگاری سرمایہ داری کی پیدا وار ہے اور محنت کش طبقے کو سرمایہ کے بدترین جبر سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نیز گلگت بلتستان میں سرکاری اور نجی اداروں میں ٹریڈ یونینز کی مکمل اور فوری بحالی کے لیے جدوجہد کی جائے گی تاکہ مزدور اور کسان اپنے معاشی حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے منظم ہو سکیں۔ گلگت بلتستان میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں کنٹریکٹ اور دیہاڑی کی بنیاد پر کام کرنے والے سارے ملازمین کو فوری طورپر مستقل سٹیٹس اور ماہانہ تنخواہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت سے مطالبہ اور جد و جہدکی جائے گی۔ ضلع ہنزہ کی سطح پر موجود سرکاری دفاتر اور محکموں میں خالی پوسٹوں کو جلد از جلد اور میرٹ کی بنیاد پر مقامی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بھرتی کیا جائے۔
11۔ چھوٹے کسانوں کی فصلوں اور پھلدار درختوں کی حفاظت کیلئے جراثیم کش ادویات اور کھاد پر سبسڈی دی جائے۔ اور کسانوں کی پیداوار کو قومی اور عالمی منڈیوں تک پہنچانے کیلئے حکومتی سطح پر سہولت دی جائے۔ ہنزہ میں کاشت کیے جانے والے پھل، سبزیوں اور دیگر فصلوں سے بہترین معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے فوڈ پراسیسنگ انڈسٹریز قائم کی جائیں۔
12۔ ہنزہ سمیت پورے گلگت بلتستان کے طلبہ کو سرکاری سطح پر مفت، جدید اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے جدوجہد۔ ہنزہ میں اعلیٰ تعلیم کی بڑھتی ضروریات کے پیش نظر الگ یونیورسٹی قائم کی جائے۔ گلگت بلتستان کی سطح پر کم از کم ایک انجینئرنگ اور ایک میڈیکل کالج کی تعمیر کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ اور یونیورسٹی اور کالجوں کے ساتھ طلبہ کے لیے ہاسٹلز قائم کیے جائیں۔ طلبہ کے لیے فری ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے نیز غریب گھرانوں کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کیلئے سکالرشپس دئیے جائیں۔ اور طلبہ یونینز کی فوری بحالی کے لیے جد و جہد کریں گے۔
13۔ پورے گلگت بلتستان میں ہر گاؤں اور گھرانے کو تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کیا جائے گا تا کہ یہاں کے طلبہ اور پیشہ ور افراد جدید دور کے مواقعوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔
14۔ گلگت بلتستان میں صحت کی سہولیات اور موجودہ سہولیات کے معیار کا بہت فقدان ہے۔ ہنزہ علی آباد میں موجود سرکاری ہسپتال کو تمام جدیدسہولیات سے لیس ڈی ایچ کیو کا جامہ پہنایا جائے اور یہاں کم از کم 100 بیڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ نیز ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک 30 بیڈ کاہسپتال تعمیر کیا جائے۔ ہنزہ کے ہر ایک گاؤں میں فیملی ہیلتھ سنٹرز قائم کیے جائیں اور دور دراز علاقوں میں بیسک ہیلتھ یونٹ تعمیر کیے جائیں اور ایمبولنس کی سہولت کو یقینی بنایا جائے۔ گلگت بلتستان کی سطح پر کم از کم ایک سرکاری ٹیچنگ ہسپتال کے مطالبے پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، پیرا میڈیکس اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر پر زور جدوجہد کی جائے گی۔
15۔ سپیشل یا ڈفرنٹلی ایبلڈ افراد کے لیے تعلیم، صحت، روزگار، کھیل اور تفریحی سرگرمیوں کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ گلگت بلتستان میں ناقص خوراک اور طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے معذور افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اس لیے ہر ضلع میں خصوصی افراد کے لیے بحالی سنٹرز قائم کیے جائیں۔
16۔ ہنزہ میں بجلی کے شدید بحران کے خاتمے اور گھریلو ایندھن کی ضروریات کو موجودہ نالہ جات پر قائم فرسودہ منی پاور ہاؤسز سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔بین الاقوامی ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان کے دریاؤں سے کم خرچے سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو گلگت بلتستان اور پاکستان کو سستی ترین بجلی میں خودکفیل کرنے کے بعد زائد بجلی ہمسایہ ممالک کو بھی بیچی جا سکتی ہے۔ جبکہ ہنزہ میں بجلی کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کم از کم ایک ہزار میگا واٹ کا پاور پلانٹ لگایا جائے۔ پانی سے چلنے والے بجلی گھروں اور ان سے متعلق ڈیم کی تعمیرات سے متاثرہ افراد کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے معاوضہ اور متبادل جگہ منتقلی کے پیش نظر ریلیف پیکج دیے جائیں۔ اس کے علاوہ شمسی و ونڈ انرجی سے بجلی بنانے کے لیے گاؤں اور ضلعی سطح کے پراجیکٹس تشکیل دیے جائیں۔
17۔ ہنزہ سمیت پورے گلگت بلتستان میں سیاسی و جمہوری آزادیوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں ختم کی جائیں۔
18۔ گلگت بلتستان میں گلوبل وارمنگ کے اثرات کی وجہ سے یہاں کے گلیشئروں میں تغیرات اور اس کے نتیجے میں مقامی آبادیوں میں تباہ کاریوں کے بارے میں ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔ اورمتاثرہ علاقوں میں لینڈ سلائڈنگ جیسی دیگر قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے انتظامات کیے جائیں۔
19۔ سنٹرل ہنزہ میں پینے اور آبپاشی کے پانی کی شدید قلت کو ختم کرنے کے لیے عطا آباد جھیل سے پائپ لائن کے ذریعے پانی کی فوری فراہمی شروع کی جائے۔ اور پانی کی فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے کمرشل و ریزیڈنشل تعمیرات کے لئے قانون سازی کی جائے۔
20۔ نوجوانوں کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں، صحت مند تفریح اور کھیلوں کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہر تحصیل میں لائبریریاں، آئی ٹی سنٹرز اور کھیلوں کے میدان تعمیر کئے جائیں۔
21۔ چیپرسن میں مولبیڈینیم اور شمشال میں سونے کے ذخائر کے لئے درپردہ بڑی کمپنیوں کو جاری کردہ لیز ختم کرکے مقامی آبادی کے نام پر اجتماعی ملکیت کے تحت لیز جاری کرنے کے لیے جی بی حکومت کو مجبور کیا جائے گا تاکہ مقامی لوگ اپنے اجتماعی مفادات کو تحفظ دے سکیں۔
22۔ ہنزہ کے مختلف دیہاتوں میں ماربل کی کانوں پر بڑی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ انہیں مقامی سطح پر ماربل کٹنگ، پروسیسنگ اور ماربل کی مصنوعات بنانے کے کارخانے بنانے کا پابند کیا جائے تاکہ مقامی افراد کو روزگار مہیا ہو سکے۔
23۔ سرکاری محکموں میں بدعنوانی، کرپشن اور ترقیاتی بجٹ میں خورد برد کی روک تھام کے لیے کرپٹ افسران کا محاسبہ کیا جائے۔
24۔ ہنزہ میں ہر ایک گاؤں تک پہنچنے والا سستا اور معیاری سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام فراہم کیا جائے۔
25۔ گلگت بلتستان کی قومی محرومی کا خاتمہ کرنے کے لیے جدوجہد کو منظم کیا جائے گا جس کا حصول سوشلسٹ انقلاب کے بعد بننے والی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن میں ہی ممکن ہے۔ اس لیے اس جدوجہد کو بھی ہنزہ سمیت پورے گلگت بلتستان میں منظم کرنے کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔اس انقلاب کے ذریعے نہ صرف قومی محرومی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگی بلکہ امیر اور غریب کی تفریق پر مبنی طبقاتی نظام سے بھی چھٹکارا ملے گا اور انسان حقیقی معنوں میں آزاد ہوگا۔موجودہ انتخابی مہم انقلاب کے اس سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔
یہ منشور گلگت بلتستان اور خصوصاً ضلع ہنزہ میں محنت کش، نچلے طبقے اور کچلے ہوئے عوام کے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کے تحفظ اور بہتری کے لیے ضروری اقدامات کی فہرست ہے۔ مگر اس میں درج تمام نکات گلگت بلتستان کے محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے میں اہم ثابت ہوں گے۔ اور ہنزہ سے شروع ہونے والایہ سلسلہ پورے گلگت بلتستان کے محنت کشوں کو ایک متبادل راستہ دکھائے گا۔ تمام انقلابی ساتھی خطے کے سارے اضلاع میں اس پروگرام کے تحت عوام کومنظم کرنے کے لئے جدوجہد کریں گے حتیٰ کہ گلگت بلتستان سطح کی ایک عوامی قانون ساز اسمبلی کی بنیاد رکھی جائے گی۔ اس اسمبلی کا کنٹرول محنت کشوں کے ہاتھ ہی رہے گا، جو کہ اس کے ذریعے منظم ہوکر طبقاتی جنگ کو تیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے سرمائے کی طاقت کو ختم یعنی دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ جڑ کر سوشلسٹ انقلاب برپاکریں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا اور ایک سوشلسٹ نظام کا قیام ہی تمام مسائل کو حتمی طور پر حل کر سکتا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کش جب تک ایسے ہی انقلابات کے ذریعے سیاسی و معاشی طاقت اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے سرمایہ دارانہ نظام محنت کشوں پر جبر کو ہر گز ختم نہیں کرسکتا۔