انقلابی کمیونسٹ پارٹی: تاریخ اور تناظر

|تحریر: آدم پال|

پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا قیام ایک تاریخی سنگ میل ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ داری کے زوال اور دنیا بھر میں اس نظام کے خلاف ابھرتی عوامی بغاوتوں کے عہد میں اس پارٹی کا قیام پاکستان اور پورے خطے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ مزدور تحریک کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے اور اسے آگے کا درست لائحہ عمل پیش کرنے کا اہم فریضہ نبھانے کے لیے قائم کی گئی یہ پارٹی اگر اپنی ذمہ داریاں پوری دیانتداری سے نبھاتی ہے تو آنے والے عرصے کی انقلابی تحریکوں کو نہ صرف کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے بلکہ سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کو بھی فیصلہ کن مرحلے تک لے جاتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

انقلاب کی منزل تک یہ سفر بہت سے کٹھن مراحل سے گزر کر ہی آگے بڑھے گا اور اس میں بہت سے اتار چڑھاؤ بھی آئیں گے۔ اس دوران جہاں پارٹی کے کارکنان کے عزم اور حوصلے کا کئی دفعہ امتحان ہو گا وہاں سب سے فیصلہ کن کردار اس پارٹی کی نظریاتی بنیادوں اور اس کے کارکنان کی ان نظریات پر کی گئی تربیت کا ہی ہو گا جن پر مضبوطی سے قائم رہنے کے باعث ہی یہ پارٹی حتمی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ عالمی و ملکی صورتحال دیکھتے ہوئے یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ طبقاتی توازن کی موجودہ کیفیت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی اور اس سماج کی کوکھ میں ایک بہت بڑی انقلابی بغاوت پنپ رہی ہے جو کسی بھی وقت سطح پر پھٹ کر اپنا اظہار کر سکتی ہے۔

بنگلہ دیش میں 2024ء کے جولائی اور اگست میں ہونے والے واقعات کی طرز پر انقلابی تحریک کا سلسلہ یہاں بھی شروع ہو سکتا ہے اور دیمک زدہ ریاست اور عوام دشمن حکمرانوں کو طوفانی واقعات کا سلسلہ تنکوں کی طرح بہا لے جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں جہاں ہمیں طلبہ کی لازوال جرأت اور قربانیوں کی داستان رقم ہوتی نظر آتی ہے جنہوں نے پولیس، پیرا ملٹری اور فوج کے بد ترین جبر کا دلیری کے ساتھ سامنا کیا اور اپنی جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا، وہاں ہمیں سیاسی اور نظریاتی حوالے سے کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ ایک طرف عوامی لیگ کے غنڈے ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر عوام پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑ رہے تھے وہیں دیگر سیاسی پارٹیاں بھی بری طرح ایکسپوز ہو چکی تھیں اور عوامی لیگ سے شدید نفرت کے باوجود ان پارٹیوں کی حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس دوران بنگلہ دیش کی کمیونسٹ پارٹی اور دیگر بایاں بازو بھی انقلابی تحریک کا ساتھ دینے کی بجائے عوامی لیگ کا دم چھلا بنا ہوا تھا اور طلبہ تحریک کو امریکی سازش قرار دے رہا تھا۔

یہ صورتحال صرف بنگلہ دیش کی نہیں بلکہ سری لنکا میں بھی ہمیں بائیں بازو کی پارٹیوں کی عوامی تحریک سے غداری نظر آتی ہے۔ 2022ء میں وہاں بھی لاکھوں لوگوں نے صدارتی محل میں گھس کر صدر راجا پکشا کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا اور پوری ریاست کو اس عوامی تحریک نے شکست دے دی تھی لیکن اس کے باوجود بائیں بازو کی قوتیں فیصلہ کن وقت پر اپنا کردار ادا نہیں کر سکیں۔ اب ہونے والے الیکشنوں میں ایک سابقہ ماؤاسٹ پارٹی کو اقتدار ملا ہے جو ماضی میں دو دفعہ مسلح جدوجہد کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی کوششیں بھی کر چکی ہے۔ لیکن اب اس پارٹی کی قیادت سرمایہ دارانہ نظام سے مکمل طور پر مصالحت کر چکی ہے اور الیکشنوں میں پہلی دفعہ بھاری اکثریت اور اقتدار حاصل کرنے کے باوجود اس نظام سے تعلق ختم کرنے کے لیے تیار نہیں اور دوبارہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔

یہ صورتحال عمومی طور پر دنیا بھر میں نظر آتی ہے اور انڈیا سمیت پوری دنیا کی کمیونسٹ پارٹیاں زوال پذیری میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑتی نظر آتی ہیں۔ سوویت یونین کے انہدا م کے بعد اس زوال پذیری میں شدت آئی ہے اور چین سے لے کر کیوبا تک ہر جگہ کمیونسٹ پارٹیاں جہاں کمیونزم کے انقلابی نظریات سے غداری کرتی گئیں اور عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کو اپناتی گئیں وہیں وہ عوامی تحریکوں اور انقلابات کی قیادت کرنے کی بجائے ان کے رستے کی رکاوٹ بنتی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور لاطینی امریکہ تک جہاں بھی عوام اس نظام اور اس کو مسلط کرنے والے حکمران طبقے کے خلاف انقلابی بغاوت کرتے ہیں تو وہ ان پارٹیوں کی جانب رجوع کرنے کی بجائے آزادانہ طور پر آگے بڑھتے ہیں اور اپنے نئے پلیٹ فارم اور سیاسی پارٹیاں تخلیق کرتے ہیں۔ موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں وینزویلا میں صدر شاویز کی قیادت میں ابھرنے والی تحریک سے لے کر بنگلہ دیش کی حالیہ انقلابی بغاوت تک یہی صورتحال نظر آتی ہے۔

اس عمل میں جہاں یہ تحریکیں ہمیں شاندار کامیابیاں حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں وہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ کمیونزم کے درست نظریات پر منظم انقلابی قوت کی عدم موجودگی کے باعث یہ تحریکیں تمام تر قربانیاں دینے کے بعد بھی سرمایہ دارانہ نظام کو ختم نہیں کر پاتیں اور نئے حکمران کسی نہ کسی شکل میں اس نظام کی جکڑ بندی کا شکار ہو کر دوبارہ انہی عوام دشمن پالیسیوں کو لاگو کرنے لگتے ہیں جس سے نہ صرف ان نئی قیادتوں کے خلاف عوامی غم و غصہ شدید ہو جاتا ہے بلکہ عوامی تحریکوں کے لاحاصل ہونے کا نقطہ نظر بھی پروان چڑھتا ہے۔ یونان میں سائریزا کی قیادت میں بننے والی حکومت سے لے کر عرب انقلابات تک یہ سلسلہ ہمیں پوری دنیا میں جاری نظر آتا ہے۔

آنے والے عرصے میں اس نظام کی زوال پذیری میں مزید شدت آئے گی اور ایک کے بعد دوسرے ملک کے عوام دوبارہ انقلابی تحریکیں برپا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ خاص طور پر امریکہ میں ٹرمپ کا دوبارہ اقتدار میں آنے کا عمل پوری دنیا میں اس نظام کی زوال پذیری کے نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ ٹرمپ کی الیکشن میں کامیابی جہاں امریکی عوام کی اس نظام اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کا اظہار ہے وہاں بائیں جانب متبادل نہ ہونے اور ایک بہت بڑے خلا کی موجودگی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ جہاں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا کھلا دشمن ہے اور اپنے دور اقتدار میں وہ اس اسٹیبلشمنٹ اور لبرل دھڑے کی گرفت کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا وہاں وہ حکمران طبقے میں ایک نیا دھڑا بھی تعمیر کر رہا ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں وہ اس سماج میں موجود تضادات کو حل کرنے کی بجائے ان کو پھاڑنے کا موجب بنے گا۔ وہ بیروزگاری اور مہنگائی سمیت کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کر سکے گا اور نہ ہی دنیا بھر میں جنگوں کو مکمل طور پر کنٹرول کر سکے گا۔ در حقیقت ٹرمپ کا دورِ اقتدار پوری دنیا میں عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دے گا اور اس کی مسلط کی گئی تجارتی جنگیں نئے تنازعات کی بنیاد بنیں گی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی اور انقلابی تحریکیں پہلے کی نسبت زیادہ بڑے پیمانے پر ابھریں گی۔ اس دوران پھر انقلابی نظریات اور درست لائحہ عمل کی ضرورت اور اہمیت کئی گنا زیادہ بڑھ جائے گی اور ان نظریات پر کسی بھی پارٹی کی عدم موجودگی پھر نئے بحرانات کو جنم دے گی۔ اسی لیے آج کمیونسٹوں کے لیے ضرورری ہو گیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی قوتوں کو تیزی سے تعمیر کریں بلکہ ماضی میں کمیونزم کے نام پر کی گئی غداریوں اور دھوکوں کا بھی ادراک حاصل کریں تاکہ آنے والے عرصے کے زلزلہ خیز واقعات میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں۔

سری لنکا اور بنگلہ دیش میں انقلاب کرنے کے تمام لوازمات موجود تھے۔ حکمرانوں کے ایوانوں پر قبضے ہو چکے تھے، ریاستی اداروں کو شکست ہو چکی تھی اور عوام اپنی خود رو کمیٹیوں کے ذریعے پورے ملک پر قابض تھے لیکن اس کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کو شکست نہیں دی جا سکی۔ اگر اس وقت اعلان کر دیا جاتا کہ تمام ذرائع پیداوار مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں ہوں گے، تمام نجی بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مالیاتی اور تجارتی اداروں پر عوام کا کنٹرول ہو گا تو اس پر فوری عملدر آمد کروایا جا سکتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں مزدور ریاست تخلیق کی جا سکتی تھی۔ لیکن چند منٹوں کے دورانیے پر مشتمل یہ اعلان کرنے کے لیے دہائیوں کی ریاضت کی ضروری ہوتی ہے اور بہت سے کٹھن نظریات اور سیاسی مراحل عبور کر کے ہی اس فیصلہ کن وقت پر نہ صرف یہ اعلان کیے جا سکتے ہیں بلکہ انقلابی پارٹی کی شکل میں اس قوت کی موجودگی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے جو محنت کش عوام کے ساتھ مل کر ان اعلانات پر عملدر آمد کو یقینی بنائے۔

آج پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے سامنے یہی تاریخی فرائض موجود ہیں جن کو ادا کرنے کے لیے یہ ملک بھر میں سرگرم ہے۔ لیکن جہاں آنے والے عرصے کے ان واقعات کے لیے اسے خود کو تیار کرنا ہے وہاں اس پارٹی اور کمیونسٹ تحریک کی تاریخ سے واقفیت رکھنا اور اس سے ضروری اسباق حاصل کرنا بھی ہر کارکن کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

کمیونسٹ نظریات اور ہندوستان

اس خطے میں کمیونسٹ نظریات اور تحریک کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ حکمران طبقے کی مسلط کردہ تاریخ اور میڈیا اور یونیورسٹیوں میں بیٹھے ان حکمرانوں کے گماشتوں کے ذریعے اس جھوٹی تاریخ کو ہی سچ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور عوام کی بھاری اکثریت سے ان کی حقیقی تاریخ کو چھپایا جاتا ہے۔ حکمرانوں کے مرتب کردہ نصاب اور تاریخ کے مطابق یہاں کبھی بھی کمیونسٹ تحریک کی عوامی بنیادیں نہیں رہیں بلکہ ان کے مطابق تو یہاں کبھی عوامی تحریکیں اور انقلابات برپا ہی نہیں ہوئے۔ حکمرانوں کے نظریے کے مطابق جہاں سماج میں کوئی تضاد موجود نہیں اور سب کچھ ایسا ہی چلتا آیا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔ وہ عوام کے احتجاجوں یا حکومتوں کی اچانک تبدیلی کو وقتی خرابی بنا کر پیش کرتے ہیں جس کی ذمہ داری چند ”برے“ افراد پر ڈال دی جاتی ہے اور اسے درست کرنے کے لیے بھی چند ”اچھے“ افراد اپنا کردار ادا کر کے صورتحال کو سنبھال لیتے ہیں۔ ان کی تاریخ میں ہمیشہ بادشاہ، شہزادے، صدر اور وزیر ہی سرگرم نظر آتے ہیں اور عوام کا سرے سے ہی کوئی کردار نہیں اور وہ اس میلے میں محض تماشائی ہی دکھائے جاتے ہیں۔

لیکن تاریخی حقائق کا سطحی سا بھی مطالعہ کرنے پر نظر آتا ہے کہ اس خطے میں انقلابی بغاوتوں اور تحریکوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور ہر اہم موقع پر عوام نے لاکھوں کی تعداد میں باہر نکل کر حکمران طبقے کے مظالم کے خلاف بغاوتیں کی ہیں اور جبر کا طوق اتار پھینکنے کی کوششیں کی ہیں۔ اسی طرح کمیونسٹ نظریات کی اس خطے میں مقبولیت کی تاریخ کو بھی ایک صدی کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ یہ نظریات عوام کی وسیع تر پرتوں تک نہ صرف پہنچے ہیں بلکہ انہیں بہت بڑے پیمانے پر پذیرائی بھی ملی ہے۔ اس دوران ماضی میں کمیونسٹ پارٹیوں کے کارکنان کی لازوال جدوجہد اور قربانیاں بھی موجود ہیں اور یہاں پر سرمایہ دارانہ نظام کو ختم نہ کر سکنے میں ان کی قیادتوں کی غداریاں اور جرائم بھی موجود ہیں۔ ایسے میں کمیونسٹوں کا فریضہ بنتا ہے کہ اس خطے کی حقیقی تاریخ کو جانیں، سمجھیں او ر اس سے ضروری نتائج اخذ کرتے ہوئے اپنی قوتوں کو تعمیر کریں تاکہ آئندہ وہ غلطیاں نہ دہرائی جا سکیں۔

مارکس اور ہندوستان

اس خطے کے کمیونسٹ بنیادوں پر درست تجزیے اور تناظر کی تخلیق کا عمل مارکس نے اپنی زندگی میں ہی شروع کر دیا تھا اور برطانوی سامراج کی ہندوستان میں موجودگی کی وجوہات کو سائنسی انداز میں بیان کیا تھا۔ اس سامراجی غلبے کے مستقبل کے بارے میں اس کی پیش گوئیاں مکمل طور پر درست بھی ثابت ہوئی تھیں۔ مارکس اس وقت لندن میں مقیم تھا اور ہندوستان پر اس کے مضامین امریکی اخبار نیو یارک ڈیلی ٹربیون میں شائع ہوتے تھے۔ بعد ازاں ان مضامین کو الگ کتاب کی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ مضامین اس خطے کی تاریخ اور اس کے درست سائنسی تجزیے کے لیے کمیونسٹوں کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے ہیں۔ ان مضامین میں مارکس نے برطانوی سامراج کی آمد سے پہلے اس سماج کے عمومی کردار کو ایشیائی طرزِ پیداوار قرار دیا تھا جو یورپ کے سماج کے تاریخی مراحل غلام داری اور جاگیر داری سے الگ تھا۔ اس نظام میں گاؤں کی معیشت کے کردار کو بھی اس نے واضح کیا تھا کہ کیسے گاؤں ایک خود مختار یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس میں ضروریاتِ زندگی کے تمام شعبے موجود ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا سے اس کا رابطہ محدود ہوتا ہے۔ اسی طرح مارکس نے انگریزوں سے پہلے کی مرتب شدہ تاریخ کو محض حملہ آوروں کی تاریخ قرار دیا تھا جو یہاں آنے کے بعد اسی سماج کا حصہ بن گئے اور اسی میں رچ بس گئے۔

برطانوی سامراج اپنے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے کردار کو بھی لے کر آئے اور سامراجی جبر کے ذریعے اپنی لوٹ مار کے لیے اس نظام کو یہاں مسلط کیا گیا۔ اس طرح یہاں پر سرمایہ داری کی آمد یورپ سے مختلف تھی جہاں سرمایہ داری انقلابات کے ذریعے جاگیر داری کو اکھاڑ کر آئی تھی۔ لیکن مارکس نے واضح کیا تھا کہ برطانوی سامراج کی یہاں اپنی لوٹ مار کی غرض سے بچھائی گئی ریل کی پٹری اس کے خلاف انقلابی بغاوتوں کو بھی ابھارے گی اور جتنی زیادہ یہ پٹری بڑھتی جائے گی اتنی ہی اس کے خلاف آزادی کی تحریک مضبوط ہوتی جائے گی۔ اس ریل کی پٹری کے ساتھ لوہے کی صنعت اور دیگر انڈسٹری لانا بھی ناگزیر تھا اور اس طرح سرمایہ داری اپنا گورکن پرولتاریہ کی شکل میں خود پیدا کر رہی تھی۔ مارکس کے مطابق یہاں پر سرمایہ داری سامراجی جبر کے تحت جہاں قدیم سماجی طرزِ زندگی کو اکھاڑ رہی تھی وہاں نئے انقلابات کے بیج بھی بو رہی تھی۔

مارکس اور اینگلز نے جب 1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو لکھا اس وقت انگریز سامراج یہاں ہندوستان پر قبضے کا آخری مرحلہ طے کر رہا تھا اور پنجاب میں جنگیں کرتے ہوئے لاہور پر اپنا جھنڈا گاڑ رہا تھا۔ 1848ء میں ہی انگریز نے لاہور اور ملتان پر قبضہ کرتے ہوئے ہندوستان پر اپنا قبضہ مکمل کیا تھا اور پورے ہندوستان کو اپنے سامراجی جبر کے تحت یکجا کیا تھا۔ اس دور میں پہلی دفعہ یہاں پر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت سماجی رشتے استوار ہوئے تھے اور پورا سماج اتھل پتھل کا شکار تھا۔ اسی سامراجی قبضے نے 1857ء کی جنگِ آزادی کی بنیاد رکھی تھی جس میں پہلی دفعہ یہاں پر ہندوستانی قوم کا تصور ابھرا تھا اور یہاں کے مقامی افراد نے مل کر برطانوی سامراج کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور ابتدا میں بڑی کامیابیاں بھی حاصل کر لی تھیں اور دہلی سمیت بڑے علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ لیکن اس جنگِ آزادی کی قیادت کے پاس انقلابی نظریہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی وہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت موجود سامراجی طاقت کا سائنسی ادراک رکھتے تھے۔ جنگِ آزادی کی قیادت ماضی کا بادشاہت کا نظام لانا چاہتی تھی اور اسی مقصد کے لیے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو دوبارہ اقتدار سونپنے کی کوشش کی گئی۔ برطانوی سامراج پر بھی ملکہ کی حکمرانی تھی اور وہاں بھی بادشاہت ہی تھی لیکن وہاں کا نظام مکمل طور پر مختلف تھا اور وہاں پر سماجی معاشی رشتے سرمایہ داری کے تحت استوار ہو چکے تھے جن کی وضاحت مارکس اور اینگلز نے مینی فیسٹو میں کی تھی۔ یہاں کے انقلابیوں کے پاس یہ درست تجزیہ اور نظریہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس ایسی کوئی پارٹی تھی جو ان نظریات کے تحت منظم ہو کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لیتی اور برطانوی سامراج کے خاتمے کے ساتھ ساتھ یہاں پر پرانے بادشاہت اور نوابوں، راجوں اور مہاراجوں کے ظالمانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے جمہوری ادارے تعمیر کرتے ہوئے آگے بڑھتی۔ مارکس نے 1857ء کی جنگ کو جنگِ آزادی کا نام دیا تھا جبکہ انگریز میڈیا اسے غدر قرار دے رہا تھا۔ اس جنگ کے حوالے سے بھی مارکس مسلسل درست تجزیہ پیش کرتا رہا اور باغیوں کی کامیابیوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ حالات کا درست تجزیہ بھی کرتا رہا۔

اس دور کی ایک قدآور علمی شخصیت ہمیں مرزا غالب کی شکل میں نظر آتی ہے جو اس دور میں دہلی میں ہی رہتے تھے اور ان تمام واقعات کے عینی شاہد تھے۔ مرزا غالب یقینا اردو کے عظیم ترین شاعر ہیں اور انیسویں صدی میں ان سے بڑا کوئی شاعر بھی نہیں ہوا۔ اپنے فن کے ذریعے وہ اس نقطے تک پہنچ گئے تھے کہ یہ سماج مکمل طور پر تبدیل ہو رہا ہے اور پرانے سماجی رشتے ختم ہو رہے ہیں۔ اس کا اظہار ان کی شاعری میں انتہائی خوبصورتی سے ہوتا نظر بھی آتا ہے۔ مرزا غالب انگریز کے سرمایہ دارانہ نظام کی دی گئی ترقی کے بھی معترف تھے اور خاص طور پر اپنے کلکتہ کے دورے کے دوران جب انہوں نے یہ جدید شہر دیکھا تو دنگ رہ گئے تھے۔ دوسری جانب وہ اس نئے نظام کی قباحتوں کو بھی محسوس کر سکتے تھے اور خود بچپن شاہانہ طور پر گزارنے کے باوجود اس نظام کے باعث انہیں باقی کی زندگی کسمپرسی اور غربت میں گزارنی پڑی۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں غالب بڑھاپے کے باعث مضمحل ہو چکے تھے اور اپنے تمام تر علم اور آدرش کے باوجود سماج کے ان تضادات کا حل پیش نہیں کر سکے۔ ان کی ہمدردیاں دونوں طرف جھول کھاتی ہی نظر آتی ہیں اور انگریز کی کامیابی کے بعد وہ اپنے آپ کو کوستے ہوئے اس کی خدمت میں مگن ہو گئے۔ غالب کا کردار اس دور کے عمومی تضادات کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس کے بعد انگریز کو جہاں اپنا تسلط مضبوط کرنے کا موقع ملا وہاں اس نے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ریاست بنانے کا بھی آغاز کیا۔ لیکن یہ ریاست یورپ میں انقلابات کے بننے والی ریاستوں جیسی نہیں تھی بلکہ نو آبادیاتی جبر اور ظلم کے خون سے رنگی ہوئی تھی جو اس وقت کے وضع کیے گئے عدالتی نظام اور قوانین میں بھی نظر آتی ہے جو آج تک اس خطے میں رائج ہیں اور اسی کے تحت کروڑوں افراد کو ”انصاف“ فراہم کیا جاتا ہے۔

تحریکِ آزادی

اس دوران یہاں پر آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کا بھی آغاز ہوا اور 1870ء میں ہی آل انڈیا سطح کی سیاسی پارٹی بنانے کی کاوشوں کا آغاز ہوا۔

کلکتہ یونیورسٹی کے طلبہ نے اس میں ہر اوّل کردار ادا کیا جبکہ ایک ریٹائرڈ انگریز سول سرونٹ اے او ہیوم نے اس کے لیے سرگرم کردار ادا کیا جو انڈیا کے عوام سے ہمدردی رکھتا تھا اور یہاں پر سیاسی پلیٹ فارم بنانے کا خواہشمند تھا۔ دسمبر 1885ء میں بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد بھی رکھی گئی جس کے پہلے اجلاس میں 72 مندوبین نے شرکت کی۔ یہ پورے ایشیا اور افریقہ میں پھیلی برطانوی سلطنت میں جدید بنیادوں پر قائم ہونے والی پہلی سیاسی پارٹی تھی۔ اس دوران اینگلز کی سرپرستی اور کارل کاؤتسکی کی قیادت میں دوسری انٹرنیشنل بھی قائم ہوئی جس کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہونے لگے۔ ان اجلاسوں میں ہندوستان سے بھی نمائندگان شرکت کرتے رہے۔ ان اجلاسوں میں روس سے لینن اور ٹراٹسکی بھی شریک ہوتے تھے اور عالمی سطح پر سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد اور نو آبادیات پر اہم بحثیں بھی موجود تھی۔ یہ بحثیں کسی نہ کسی شکل میں ہندوستان بھی پہنچتی رہیں اور یہاں پر موجود سیاسی قائدین ان نظریات تک محدود ہی سہی مگر رسائی رکھتے تھے اور روس میں زار شاہی کے خلاف کمیونسٹوں کی جدوجہد سے بھی متعارف تھے۔ لیکن ان نظریات پر ایک منظم پارٹی تشکیل نہیں دی جا سکی۔

1917ء کے روس کے انقلاب نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا اور پورے ہندوستان میں نوجوانوں اور مزدور لیڈروں کی ایک بڑی تعداد اس انقلاب اور اس کی بنیاد میں موجود کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوئی اور اس بنیادوں پر جدوجہد کا آغاز کیا۔ روس میں انقلاب کے بعد لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں کمیونسٹ انٹرنیشنل بھی قائم کی گئی جس نے پوری دنیا میں انقلابی قوتوں کی تعمیر کا عمل تیز کر دیا۔ اس دوران پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیوں کے قیام کا آغاز ہوا اور انٹرنیشنل کے ہر سال باقاعدگی سے ہونے والے اجلاسوں میں نو آبادیات، قومی سوال اور دیگر مسائل پر تفصیلی مباحثے ہوئے اور ایک واضح لائحہ عمل تخلیق کیا گیا۔ اس انٹرنیشنل کے پہلے پانچ سال آج بھی دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس دوران چین میں بھی کمیونسٹ پارٹی قائم ہوئی جس نے قیام کے چند سال بعد ہی 1925-27ء کے انقلاب کے دوران عوامی بنیادیں حاصل کر لیں۔

اسی طرح ہندوستان میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا عمل شروع ہوا۔ برطانوی سامراج اس حوالے سے بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا اور انہیں لگتا تھا کہ یہ انقلابی نظریات یہاں پھیل گئے تو ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو سکتا ہے اس لیے شروع سے ہی ان نظریات کے حامل افراد کو گرفتار کر کے ان پر غداری کے مقدمات بنائے گئے۔ ان میں پشاور سازش کیس اور بالشویک سازش کیس مشہور ہیں۔ اس وقت پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریاں یہاں پر بھی موجود تھیں اور یہاں سے دس لاکھ کے قریب فوجیوں نے برطانوی فوج کے تحت اس جنگ میں حصہ لیا تھا اور اب ان میں بغاوت پنپ رہی تھی۔ یہاں پر قحط اور بھوک بھی پھیل چکی تھی اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ اس دوران سامراجی جبر بھی انتہاؤں کو پہنچ گیا اور 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں قتلِ عام جیسا تاریخی ظلم ہوتا نظر آتا ہے۔ یہاں سے ملک گیر سطح پر بغاوت پھوٹ پڑی اور لاکھوں لوگ برطانوی سامراج سے آزادی لینے کے لیے باہر نکل پڑے۔ اس تحریک کو آج عدم تعاون کی تحریک کہا جاتا ہے لیکن اس کا کردار اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اُس وقت کمیونسٹ نظریات پر موجود قوت نہ ہونے کے باعث کانگریس اور گاندھی کو لیڈر بننے کا موقع ملا اور آزادی کی تحریک کی قیادت مقامی سرمایہ دار طبقے اور اس کی پارٹی کانگریس کے پاس آ گئی۔ اس طبقے کے انقلاب دشمن کردار کے متعلق ٹراٹسکی 1905ء میں ہی وضاحت کر چکا تھا اور مسلسل انقلاب کا نظریہ باقاعدہ طور پر پیش کر چکا تھا۔ 1917ء میں روس کا سوشلسٹ انقلاب انہیں نظریات کے تحت برپا ہوا تھا اور ٹراٹسکی نے لینن کے ساتھ اس انقلاب میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہندوستان میں یہ بحثیں موجود نہیں تھیں اور نہ ہی کوئی منظم پارٹی یہاں کے مزدور طبقے کے نمائندے کے طور پر موجود تھی۔ یہاں کے سرمایہ دار طبقے اور ان کے لیڈر گاندھی نے بھی اس عوامی تحریک کے ساتھ غداری کی اور وہ تحریک آزادی حاصل کرنے کی بجائے کچھ حاصلات لے کر ختم کر دی گئی۔

کمیونسٹ انٹرنیشنل کے تحت کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی جدوجہد 1919ء میں ہی شروع ہو گئی تھی اور یہاں کی صورتحال پر تجزیے اور رپورٹیں برطانیہ کے کمیونسٹوں کے اخباروں میں شائع ہو رہے تھے لیکن ابتدا میں پارٹی جلا وطن افراد کے چھوٹے سے گروہ پر ہی مشتمل تھی جس کا مرکز تاشقند میں تھا۔ یہاں پر کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ قیام 26 دسمبر 1925ء کو کانپور میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں مولانا حسرت موہانی کو پارٹی کا پہلا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ یہ پارٹی مختلف چھوٹے گروپوں کا ادغام تھی اور اس کے تاسیسی اجلاس میں ملک بھر سے 300 مندوبین نے شرکت کی تھی۔ ان مندوبین میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو تحریک عدم تعاون اور تحریک خلافت کی ناکامیوں سے اسباق حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور روس کے انقلاب کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر ایک نیا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ ان میں اکالی دل کی تحریک خاص طور پر ببر اکالی گروپ کے کچھ لوگ بھی شامل ہوئے۔

بھگت سنگھ

اس پورے عہد میں سب سے بلند نظریات اور کردار بھگت سنگھ کا نظر آتا ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود اپنے عہد کے تمام بڑے لیڈروں، آزادی پسندوں اور انقلابیوں سے زیادہ باشعور تھا۔ عمومی طور پر بھگت سنگھ کو جرأت اور بہادری کے استعارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور پھانسی کے پھندے کو چوم کر اپنے نظریات کے لیے جان قربان کر دینے والا اس کا کردار آج بھی کروڑوں دلوں کو گرماتا ہے اور ان میں انقلاب کا جذبہ ابھارتا ہے۔ لیکن بھگت سنگھ کے نظریات اور تحریکِ آزادی کو درست نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کی اس کی کاوشیں اکثر فراموش کر دی جاتی ہیں جو درحقیقت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ بھگت سنگھ نو عمری میں ہی عدم تعاون کی تحریک میں شامل تھا اور جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام نے اس کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ اس واقعے کے وقت وہ لاہور میں سکول کا طالبعلم تھا اور واقعے کا علم ہوتے ہی وہ لاہور سے امرتسر پہنچا اور اس ظلم اور جبر کی باقیات کو خود دیکھا۔ اس کے بعد گاندھی کی غداری نے ا س کو دیگر نوجوانوں سمیت بہت زیادہ دھچکا لگایا تھا۔ گاندھی نے تحریک سے غداری کرتے وقت تحریک پر تشدد کا راستہ اپنانے کا الزام لگایا تھا اور اپنے عدم تشدد کے مکارانہ اور غلیظ نظریے کو اعلیٰ اور ارفع بنا کر پیش کیا اور تحریک کو انگریز حکمرانوں کے قدموں میں ڈال دیا۔ اس غداری پر ان نوجوانوں نے مشتعل ہو کر تشدد کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان ریپبلکن آرمی بنانے کا فیصلہ کیا جن میں بھگت سنگھ کے ساتھ چندر شیکھر آزاد اور دیگر انقلابی بھی شامل تھے۔

اپنی اس جدوجہد میں بھگت سنگھ ہر مرحلے پر اہم نتائج اخذ کرتا گیا اور ساتھ ہی کمیونسٹ نظریات کا مطالعہ بھی کرتا رہا جو اس کی تحریروں میں واضح نظر آتا ہے۔ اپنی پارٹی کے 1927ء کے ایک اجلاس میں بھگت سنگھ نے قرار داد پیش کی کہ پارٹی کے نام میں سوشلسٹ لفظ واضح طور پر آنا چاہیے کیونکہ ہم صرف برطانوی سامراج سے آزادی کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کو بھی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر ہمیں روس کے انقلاب کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ سٹالنسٹ زوال پذیری کے تحت مرحلہ وار انقلاب کا غلط نظریہ ابھی پروان نہیں چڑھا تھا اور ہندوستان جیسے پسماندہ اور نو آبادیاتی خطے میں بھی نوجوان ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو ختم کرنے کی بحث کر رہے تھے۔

اسی طرح بھگت سنگھ ہندوستان میں برطانوی سامراج کی مسلط کردہ مذہبی منافرت پر بھی واضح مؤقف رکھنے کے حوالے سے اپنے تمام ہم عصر انقلابیوں سے آگے کھڑا نظر آتا ہے۔ اپنے مذہبی نظریات کے حوالے سے اس کا مضمون آج بھی سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے جس میں اس نے ٹراٹسکی کا ذکر بھی کیا ہے۔ بھگت سنگھ کے انقلابی نظریات میں جہاں اس کی اپنی زندگی اور تجربات سے درست نتائج اخذ کرنے کا اہم کردار ہے وہاں ہمیں غدر پارٹی کی تاریخ اور اس میں اس کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کا اہم کردار بھی نظر آتا ہے جنہوں نے ان واقعات سے اہم نتائج اخذ کیے۔ غدر پارٹی 1914ء میں امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہندوستانیوں نے تشکیل دی تھی اور وہ مسلح جدوجہد کے ذریعے برطانوی سامراج کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی نظریاتی بنیادیں کمیونسٹ نظریات پر نہیں تھیں اور وہ 1861ء کے دوسرے امریکی انقلاب یا جسے امریکی خانہ جنگی بھی کہا جاتا ہے، سے متاثر تھے۔ اس پارٹی کی ناکامی نے بھی یہاں کے انقلابیوں کو درست نتائج اخذ کرنے پر مجبور کیا۔

بھگت سنگھ کی آخری تحریر ”نوجوان انقلابیوں کے نام“ اہمیت کی حامل ہے جس میں وہ مسلح جدوجہد کی بجائے انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لیے سیاسی جدوجہد، تنظیم کاری اور مزدوروں اور کسانوں کی وسیع پرتوں سے جڑت بنانے کا پیغام دیتا ہے اور نوجوانوں کو واضح کرتا ہے کہ اس عمل میں دو دہائی کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ پھانسی پر چڑھنے سے قبل وہ لینن کی کتاب ”ریاست اور انقلاب“ کا مطالعہ کر رہا تھا اور اس کی آخری خواہش بھی یہی تھی کہ اسے یہ کتاب مکمل کرنے دی جائے۔

بھگت سنگھ کی 1931ء میں صرف چوبیس سال کی عمر میں اپنے دو کامریڈز کے ہمراہ پھانسی نے پورے ہندوستان کو ایک دفعہ پھر ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس کے بعد کے عرصے میں دوبارہ عوامی تحریکیں ابھرنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس دوران ریلوے سمیت دیگر شعبوں کے مزدوروں کی ملک گیر سطح کی ہڑتالیں بھی شروع ہو گئی تھیں جنہیں کچلنے کے لیے برطانوی سامراج نے اپنے جبر میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا تھا جبکہ دوسری جانب کچھ مراعات دینے کے لیے آئینی اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا گیا جو 1935ء کے آئین پر منتج ہوا۔ اس دوران یہاں کی کمیونسٹ پارٹی کو پہلی دفعہ ملک گیر سطح پر عوامی بنیادیں ملیں اور وہ پورے ہندوستان میں ایک بہت بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھری۔ اُس وقت ریلوے کی یونین سمیت تمام اہم یونینوں کی قیادتیں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تھیں اور یہ پارٹی اپنی برانچیں ملک کے طول و عرض میں قائم کر رہی تھی۔ لیکن دوسری طرف عالمی سطح پر کمیونسٹ تحریک میں سٹالنسٹ زوال پذیری کا عمل بھی شروع ہو گیا تھا جس کے خلاف ٹراٹسکی الگ سے جدوجہد کر رہا تھا۔ اس عمل میں یہاں کی پارٹی کی قیادت نے لینن اور ٹراٹسکی کے درست کمیونسٹ نظریات اپنانے کی بجائے سٹالنزم کے تحت مسخ شدہ نظریات اپنا لیے جس کے باعث ایک کے بعد دوسرے موقع پر غلط فیصلے کیے گئے جن سے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ آزادی کی تحریک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے ان جرائم کی فہرست طویل ہے جس میں لاکھوں کارکنان کی حمایت اور سرگرمی کے باوجود مطلوبہ منزل حاصل نہیں کی جا سکی اور ہر موقع پر سامراجی طاقتوں اور سرمایہ دار طبقے کو غلبہ حاصل کرنے کا موقع دیا گیا۔ در حقیقت سٹالنسٹ زوال پذیری کے تحت مرحلہ وار انقلاب کا غلط نظریہ اپنا لیا گیا اور یہ کہہ دیا گیا کہ یہاں پر سوشلسٹ انقلاب ممکن ہی نہیں اس لیے ابھی کئی صدیوں تک سرمایہ داری کو ہی جدید بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا جس کے لیے ”ترقی پسند“ سرمایہ دار طبقے کی حمایت کرنا پارٹی کا فرض ہے۔ یہ انقلاب دشمن نظریہ اس وقت سے لے کر آج تک اس خطے کی انقلابی تحریکوں کو زائل کرتا آیا ہے اور بنگلہ دیش میں نام نہاد کمیونسٹوں کے حالیہ انقلابی دشمن کردار کی بنیاد میں بھی یہی غلط نظریہ ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے سٹالن کی ہدایت پر برطانوی سامراج کی حمایت کا اعلان کر دیا اور برطانوی فوجی کاوشوں کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اس وقت پورے ہندوستان میں انگریز سامراج کے خلاف بغاوت موجود تھی اور ہزاروں آزادی پسند قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ لیکن اس وقت انقلاب کے لیے حالات بھی موجود تھے جبکہ کمیونسٹ پارٹی سٹالن کی ہدایات پر برطانوی سامراج کی کاسہ لیسی کر رہی تھی۔ اسی طرح ہندوستان کے مذہبی بنیادوں پر بٹوارے کے سامراجی منصوبے کی بھی کمیونسٹ پارٹی نے کھل کر حمایت کی تھی اور اسے نظریاتی جواز بھی فراہم کیا تھا۔ اس حمایت کی بنیاد قومی مسئلے پر سٹالن اور اس کے تحت سوویت یونین کے غلط مؤقف میں موجود ہے۔ سامراجی حکمرانوں اور ان کے مقامی کاسہ لیسوں کے مذہبی منافرت کو ہوا دینے والے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کے قتل کے اس منصوبے کو اس بنیاد پر حمایت دی گئی کہ اس طرح مذہبی تفریق کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سامراج کی بنائی گئی قوم کی تعریف کو بھی من و عن قبول کر لیا گیا اور مذہب کی بنیاد پر قوم کے تصور کے غیر سائنسی اور عوام دشمن نظریے کی حمایت کی گئی۔

اس دوران ٹراٹسکی کے نظریات بھی کسی نہ کسی شکل میں اس خطے میں پہنچتے رہے اور ان کے تحت کچھ پارٹیاں بھی تعمیر ہوئیں لیکن اس وقت عالمی سطح پر چوتھی انٹرنیشنل کے بحران اور دیگر مسائل کی وجہ سے وہ بڑی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے۔ ٹراٹسکی کے نظریات کے تحت دنیا کی سب سے بڑی پارٹی سری لنکا میں 1935ء میں تعمیر ہوئی جس کا نام لنکا سما سماجا پارٹی (LSSP) رکھا گیا۔ اس پارٹی کی ایک الگ تاریخ ہے جس میں ابتدائی کامیابیاں اور پھر نظریاتی غداریاں بھی شامل ہیں۔ حالیہ تحریک میں سری لنکا کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ہی اس پارٹی کا بھی غدارانہ کردار ایک دفعہ پھر واضح ہوا۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں ابھر رہی تھیں۔ چین اور مشرقِ بعید سمیت افریقہ اور لاطینی امریکہ سمیت ہر طرف نو آبادیات میں آزادی کی جدوجہد تیز ہو چکی تھی اور کمیونسٹ نظریات دنیا بھر کے مزدوروں اور کسانوں میں تیز ترین مقبولیت حاصل کر رہے تھے۔ ہندوستان میں بھی آزادی کی تحریک زوروں پر تھی، خاص طور پر ریلوے اور دیگر شعبوں کے منظم مزدور ہڑتالوں اور احتجاجوں کے ذریعے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے تھے۔ اس دوران 1945ء اور 1946ء میں ہونے والے یوم مئی کے احتجاج اور ہڑتالیں قابل ذکر ہیں جن میں لاکھوں محنت کشوں نے شرکت کی اور ملک گیر سطح پر مزدور تحریک کی نئی اٹھان نظر آئی۔ اسی کے تسلسل میں فروری 1946ء میں ہمیں جہازیوں کی بغاوت نظر آتی ہے جب رائل انڈین نیوی کے سپاہیوں نے اعلانِ بغاوت کر دیا اور کمیونسٹ پارٹی اور دیگر سے حمایت کی اپیل کرتے ہوئے انقلاب کا پیغام دیا۔ یہ بغاوت بمبئی، کلکتہ اور کراچی سمیت ساحلی شہروں میں پھیل رہی تھی اور عام لوگ بھی اس میں شامل ہو رہے تھے۔ لیکن اس وقت کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کوئی واضح نظریاتی لائحہ عمل نہیں دے سکی اور اس بغاوت کو بھی خون میں ڈبو دیا گیا۔ اس وقت یہ واضح ہو چکا تھا کہ برطانوی سامراج سے آزادی اب یہاں کے لوگوں کا مقدر بن چکی ہے لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ اس تحریکِ آزادی کی حتمی قیادت سرمایہ دار طبقہ کرے گا یا مزدور طبقہ۔ اگر کمیونسٹ پارٹی اس وقت اپنا درست کردار ادا کرتی تو چین کی طرح یہاں بھی مزدور طبقہ انقلاب کے لیے تیار تھا اور سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دی جا سکتی تھی۔ اس انقلاب سے نہ صرف آزادی حاصل کر لی جاتی بلکہ بٹوارے کی قتل و غارت سے یہاں کے سماج کو برباد ہونے سے بھی بچا لیا جاتا۔ امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق ختم ہو جاتی اور ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے تعمیر و ترقی کے دور کا آغاز کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہ کیا جا سکا اور سرمایہ دار طبقہ اپنی حاکمیت مسلط کرنے میں کامیاب رہا۔ آج سات دہائیوں بعد بھی اس بٹوارے کے زخم رِس رہے ہیں اور مذہبی منافرت ختم ہونے کی بجائے شدت اختیار کر رہی ہے اور یہاں کا سرمایہ دار طبقہ اور سامراجی طاقتیں اس خطے میں رہنے والی دو ارب آبادی کا بد ترین استحصال بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا میں نہرو اور کانگریس کی تمام تر کاوشوں کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پسماندگی اور جہالت کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکا اور نہ ہی یورپ طرز کی سرمایہ داری استوار ہو سکی ہے۔ یہی مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کی نظریاتی سچائی کی دلیل ہے۔

بٹوارے کے بعد

اس خون کے دھبوں سے داغدار آزادی کے بعد بھی کمیونسٹ پارٹی کی عوامی بنیادیں پورے خطے میں موجود رہیں اور بعد کے عرصے کی تحریکوں میں یہ پارٹیاں اہم کردار ادا کرتی رہیں۔ آزادی کے بعد 1951-52ء میں انڈیا میں ہونے والے پہلے انتخابات میں کمیونسٹ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرے اور پورے ملک میں ان کے کارکنان موجود تھے۔ اس وقت بھی پارٹی کا مؤقف ”ترقی پسند“ سرمایہ دار طبقے کی حمایت کے نام پر کانگریس کی سپورٹ کرنا ہی تھا۔ اگر اس وقت کانگریس اور سرمایہ داری کے خلاف واضح مؤقف اپنایا جاتا تو یہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن سکتے تھے۔

پاکستان کا حکمران طبقہ آغاز میں ہی امریکی سامراج کی گود میں جا بیٹھا اور برطانوی سامراج کے بعد امریکی غلامی کا طوق خوشی خوشی اپنے گلے میں پہن لیا۔ اسی نئے آقا کے احکامات کے تحت ملک میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی قیادت کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود یہ پارٹی NAP (نیشنل عوامی پارٹی) اور دیگر مختلف ناموں اور فرنٹس کے تحت کام کرتی رہی اور طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کی وسیع پرتوں کو منظم کرتی رہی۔ اس دوران ملک کے سماج اور معاشی حالات پر تجزیے اور تناظر بھی باقاعدگی سے آتے رہے لیکن سٹالنسٹ نظریات کے تحت موجود ہونے کے باعث یہ تمام تر تجزیے اور تناظر درست لائحہ عمل اور طریقہ کار دینے سے قاصر رہے اور ایک کے بعد دوسری تحریک ناکامی سے دوچار ہوتی رہی۔ 1950ء کی دہائی کی مزدور تحریکیں ہوں یا مشرقی پاکستان میں قومی مسئلے کے گرد ابھرنے والی تحریک ہو، کمیونسٹ پارٹی مسائل کا حل نہیں دے سکی۔ اس کے علاوہ بٹوارے کے تحت بننے والی مصنوعی ریاست کی بنیادوں کو رد کرنے کی بجائے اسے مکمل طور پر قبول کر لیا گیا اور بٹوارے سے پہلے وضع کیے جانے والے قومی مسئلے پر مجرمانہ تھیسس کو واقعات کے تھپیڑوں میں غلط ثابت ہو جانے کے باوجود سینے سے لگائے رکھا گیا جس کا خمیازہ یہاں کی عوامی تحریکوں کو بھگتنا پڑا۔

فیض احمد فیضؔ

اس دوران فیض احمد فیضؔ کی شخصیت اس عہد کی نمائندہ کے طور پر ابھرتی ہے جس میں اس دور کے تضادات کا بھرپور مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ فیض اپنی نوجوانی سے لے کر 1984ء میں زندگی کی آخری سانس تک کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے اور اسی کے تحت عملی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔

فیض کو بلاشبہ بیسویں صدی میں اردو زبان کا سب سے بڑا شاعر کہا جا سکتا ہے اور ان کی شاعری انقلابی جذبات کے ساتھ ساتھ سماجی تضادات کی بھی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں سچائی اور حقیقت کا ادراک واضح طور پر نظر آتا ہے لیکن عملی سیاست میں فیض کی سیاسی زندگی ان کی شاعری کے برعکس سٹالنزم کے زوال پذیر نظریات کا شکار ہوتی نظر آتی ہے جن کے تحت یہاں کی تحریکیں تمام تر قربانیوں کے باوجود اپنی منزل حاصل نہیں کر سکیں۔

جس وقت بھگت سنگھ لاہور میں اپنی سیاسی زندگی میں متحرک تھا اور انقلابی نتائج اخذ کر رہا تھا اس وقت فیض گورنمنٹ کالج لاہور میں طالبعلم تھے اور روس کے انقلاب سے زیادہ وہاں کے ادب کے مداح تھے۔ اپنا زیادہ وقت ناول اور افسانے پڑھنے میں گزارتے تھے لیکن ان کے ہاسٹل کے کمرے میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے سٹڈی سرکل باقاعدگی سے ہوتے تھے اور ان کے انقلابی لٹریچر کا ایک گودام ان کا کمرہ بھی تھا۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد منٹو پارک لاہور میں دس سے بیس ہزار افراد کا احتجاجی مظاہرہ ہوا اور لاہور سمیت پورے ہندوستان میں عوامی سطح پر غم و غصے کا اظہار بھی ہوا۔ فیض اسے عرصے میں کمیونسٹ نظریات کی جانب راغب ہوئے اور بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ممبر بھی بن گئے۔ ان کی شادی بھی برطانوی کمیونسٹ پارٹی کی ممبر ایلس سے ہوئی جنہوں نے ساری زندگی فیض کا ساتھ نبھایا۔

دوسری عالمی جنگ میں فیض برطانوی فوج میں ڈیوٹی کرتے رہے اور بٹوارے سے پہلے ہی پاکستان ٹائمز کے نام سے شروع ہونے والے اخبار کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دینے لگے۔ یہ اخبار بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے افراد کا نمائندہ تھا اور اس کے اداریے میں فیض اپنی پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرتے تھے۔ بٹوارے کے فوری بعد پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے فیض اور ایم ڈی تاثیر کو کشمیر کے عوامی راہنما شیخ عبداللہ سے مذاکرات کے لیے بھی بھیجا گیا جو ناکامی سے دوچار ہوئے۔ بعدازاں 1948ء کی پاک بھارت جنگ بھی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے حکمرانوں کے زیر عتاب آئی تو راولپنڈی سازش کیس میں اس پارٹی کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا جس میں فیض بھی شامل تھے۔ اس دوران انہوں نے قید تنہائی سمیت قید و بند کی سخت صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن اپنے نظریات پر ڈٹے رہے۔

1968-69ء کا انقلاب

پاکستان کی تاریخ میں اس انقلاب کا کلیدی کردار ہے۔ اس انقلاب کے دوران مشرقی اور مغربی حصے کے محنت کشوں نے عام ہڑتال کے ذریعے ملک کو جام کر دیا تھا اور صنعتوں میں مزدوروں نے قبضے شروع کر دیے تھے۔ کرایہ داروں نے کرایے دینے سے انکار کر دیا تھا اور سماج میں ملکیت کے رشتے ہوا میں معلق ہو گئے تھے۔ مزدور یونینوں اور طلبہ میں کمیونسٹ نظریات کی مقبولیت عروج پر تھی اور پورا ملک سوشلزم کے نعروں سے گونج رہا تھا۔

اس وقت کی انقلابی تحریک صرف جنرل ایوب کی آمریت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ سرمایہ داری کو بھی ختم کرنا چاہتی تھی لیکن اس وقت کی کمیونسٹ پارٹیوں نے سٹالنسٹ اور ماؤاسٹ نظریات (ان دونوں میں جوہری طور پر کوئی فرق نہیں ہے) کے باعث ایک دفعہ پھر تحریک کو زائل کرنے کا ہی کردار ادا کیا اور سوشلسٹ کردار کی حامل اس تحریک کو پہلے تو ماننے سے ہی انکار کر دیا اور پھر اسے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ہی قید کر دیا۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کا کردار ابھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بھٹو ذاتی طور پر دائیں بازو کے نظریات کا حامل تھا لیکن عالمی اور ملکی سطح پر ہواؤں کا رخ دیکھتے ہوئے اس نے سوشلزم کے نعرے کو کھل کر اپنایا جس کے باعث اسے تاریخی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تحریک کے دباؤ کے تحت اس کے نظریات اور شخصیت میں بھی معیاری تبدیلی آئی اور وہ سوشلسٹ نظریات کے قریب بھی پہنچا۔ لیکن اس نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے اتنا کافی نہیں تھا اور نہ ہی حادثاتی کردار اتنے وسیع اور گہرے تاریخی عمل کا رخ فیصلہ کن انداز میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس تحریک کا انجام بھی یہی ہوا اور مزدور طبقہ تاریخ کی سب سے بڑی حاصلات جیتنے کے باوجود اس نظام اور اس ریاست کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

اس وقت لندن میں مقیم انقلابی ٹیڈ گرانٹ اور ایلن ووڈز تحریک کا درست تجزیہ کر رہے تھے اور اسے سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچنے کا لائحہ عمل دے رہے تھے۔ لیکن یہاں پر ان نظریات پر مبنی کوئی قوت موجود نہیں تھی جس کے باعث یہ تحریک پیپلز پارٹی کی قیادت کے جرائم کی بھینٹ چڑھ گئی۔ بعد ازاں ٹیڈ اور ایلن کے نظریات کے گرد ہی 1980ء کی دہائی میں یہاں پر انقلابی قوتیں تعمیر کرنے کے عمل کا آغاز ہوا جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے مشکل ترین حالات کے باوجود اس ملک میں بائیں بازو کی سب سے بڑی قوت بن گیا۔ یہاں پر قومی سوال پر بھی کمیونسٹ پارٹیوں کے غلط مؤقف نے تحریکوں کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور قومی آزادی کی یہ تحریکیں جو آغاز میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو اپنی منزل مانتی تھیں وہ سٹالنزم کے ان غلط نظریات کی بھول بھلیوں میں غرق ہو کر قوم پرستی کے فرسودہ نظریات کو اپنا کر زائل ہو گئیں۔ آج ان تحریکوں کی قیادتیں نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کی پاسدار ہیں بلکہ امریکہ سمیت مختلف سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتیں۔ ماضی میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے وقت بھی یہاں کی کمیونسٹ پارٹی قومی مسئلے پر درست مؤقف نہ دے سکی جس کے بعد مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہونے اور عوامی بنیادیں رکھنے کے باوجود مولانا بھاشانی اور ان کی پارٹی (NAP) تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن گئی اور شیخ مجیب اپنے قوم پرست نظریات مسلط کرنے میں کامیاب رہا۔ اس وقت ٹیڈ گرانٹ کا ان واقعات پر تجزیہ آج بھی راہنمائی فراہم کرتا ہے جس نے یہاں کے حکمرانوں اور امریکی سامراج کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی منصوبہ بند معیشتوں پر مسلط بیوروکریسی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ سلامتی کونسل کے اس موضوع پر ہونے والے اجلاس میں ان کے نمائندوں کی مسکراہٹیں دیکھ کے قے آتی ہے۔ بعد ازاں سوویت فوج کے افغانستان میں داخل ہونے پر بھی ٹیڈ گرانٹ کا کمیونسٹ نظریات کے تحت کیا گیا تجزیہ درست ثابت ہوا جبکہ اس وقت پشاور اور کابل میں موجود تمام تر سیاسی قیادتیں غلط نتائج اخذ کرتی رہیں۔

1980ء کی دہائی میں جب ان نظریات کے تحت پاکستان میں کام کا آغاز ہوا تو یہاں کی سیاست کا پہلی دفعہ درست انداز میں سائنسی تجزیہ کیا گیا اور پیپلز پارٹی کے کردار پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے تجزیہ اور تناظر تخلیق کیا گیا۔ جہاں اس پارٹی کے لیفٹ پاپولسٹ کردار کا جائزہ لیا گیا وہاں ملک کے مزدوروں اور کسانوں میں اس پارٹی کی حمایت کا بھی ادراک کیا گیا اور ان کو کمیونسٹ نظریات پر جیتنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔ ضیاالباطل کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی یہاں کے بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں نے عظیم الشان قربانیاں دیں اور پھانسیاں، کوڑے اور آمریت کے بد ترین جبر کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ لیکن اس وقت بھی قیادت نے تحریک کا نصب العین جمہوریت کی بحالی بنا دیا تھا اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد اور کمیونزم کے نظریات کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔ بعد ازاں گیارہ سال کی طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت بحال بھی ہو گئی لیکن اس جمہوریت نے عوام سے انتقام لیتے ہوئے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور عوام دشمن پالیسیوں کے اتنے بڑے حملے کیے کہ عوام ان تمام سیاسی قیادتوں سے ہی بدظن ہو گئے۔

سوویت یونین کے انہدام نے دنیا بھر میں کمیونسٹ تحریک کو بہت بڑا نقصان پہنچایا جس کے اثرات اس خطے میں بھی نظر آئے۔ ایسے میں انقلابی کمیونسٹوں اور آئی ایم ٹی کے بینر تلے موجود کارکنوں نے اس تاریخی واقعے کی سائنسی بنیادوں کو آشکار کیا اور اسے سٹالنزم کے جرائم کا نتیجہ قرار دیا۔ انہی بنیادوں پر حقیقی کمیونسٹ قوتوں کی تعمیر کا عمل ایک نئے انداز میں شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلے چوتھائی میں وقت اور حالات کے تحت کمیونسٹوں کا سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور تناظر آگے بڑھتا رہا اور اسی کے تحت انقلابی قوتیں اپنی تعمیر کے عمل کو آگے بڑھاتی رہیں۔ اس دوران اتار چڑھاؤ بھی آئے، غداریاں بھی ہوئیں اور بہت سے لوگ اس تحریک سے بھگوڑے بھی ہوئے لیکن یہ تحریک آگے بڑھتی رہی۔

2025ء کے آغاز میں یہ قوتیں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم کے تحت کام کر رہی ہیں اور ملک کے تمام حصوں میں ان کی نہ صرف برانچیں موجود ہیں بلکہ دفاتر اور اخبارات و رسائل کا ابتدائی ڈھانچہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہ پارٹی عالمی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا بھی حصہ ہے جو دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک میں سرگرم ہے اور پوری دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ آنے والے عرصے کے واقعات میں اگر یہ پارٹی درست انداز میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ مداخلت کرتی ہے تو ایک دفعہ پھر عوامی بنیادیں حاصل کر سکتی ہے اور مزدور طبقے کی وسیع پرتوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکتی ہے۔ ایسے میں اگر اس پارٹی کے کارکنان ثابت قدمی سے کمیونزم کے حقیقی نظریات پر قائم رہے تو یہاں سے سرمایہ داری کا خاتمہ فیصلہ کن طور پر کیا جا سکتا ہے جو جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا کے سوشلسٹ انقلاب کا نقطہئ آغاز ہو گا۔ اس انقلاب کے بعد نہ صرف طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو گا بلکہ تمام مصنوعی سرحدیں بھی ختم کر دی جائیں گی اور جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرتے ہوئے عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب بڑھا جائے گا جو پوری انسانیت کو کمیونزم کے عظیم مرحلے تک لے جائے گا۔

Comments are closed.