|تحریر: خالد نادر جان|
اخلاقیات کے متعلق سماج میں پھیلی بہت سی تشریحات ملتی ہیں۔ یہ تمام تشریحات اپنا اختتام ’’ذاتی اخلاقی کاملیت‘‘ کے وعظ ونصیحت کے گرد کرتی ہیں۔ یعنی انسانی نجات و بقا اور ترقی ہر انسان کی ذاتی حیثیت میں اخلاقی ٹوٹکوں پر عمل کرنے میں ہے۔ لیکن یہ تشریحات تاریخی عنصر سے خالی ہیں، اگر آج دنیاکے تمام انسان سچ بولنا شروع کریں، وقت کی پابندی کریں یا صفائی کا خیال رکھیں تو یہ چیزیں سرمایہ دار کو استحصال سے نہیں روک سکتیں۔ یا پھر ذرائع پیداوار کو ترقی دئیے بغیر انسانیت آج کے ایٹمی دور میں کبھی بھی داخل نہیں ہوسکتی تھی چاہے وہ ہزاروں سال ایسے اخلاقی اصولوں کی مکمل پابندی ہی کیوں نہ کرتی۔ ان اخلاقی ٹوٹکوں کا بھی ایک تاریخی ارتقاء ہے۔ تجریدی اخلاقیات سماج میں طبقات کے جنم لینے سے ابھرنے والے سماجی تضادات کے گرد تخلیق ہوئیں اور طبقات کو ختم کئے بغیر ان اخلاقیات پر مکمل عمل کرنے سے بھی تاریخی دھارے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تاریخ میں انسانوں کی ار تقائی ظہور پذیر ی کے بعد لاکھوں سال تک ہمیں ایسے کسی ابدی اخلاقی فلسفے کا وجود نہیں ملتا۔ سماج میں پھیلی زندہ اخلاقیات کا عملی اظہار انسانوں کے مابین پیداواری رشتوں میں ہوتا ہے۔ ہر عہد کے نئے پیداواری رشتے ایک نئے طرز پیداوار کے تحت عمل میں آتے ہیں اور انھی پیداواری رشتوں کے گرد جنم لینے والی اخلاقی قدریں حتمی تجزیے میں اس طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتی ہیں جس کے پاس ذرائع پیداوار کی ملکیت ہوتی ہے۔ یہی وہ حکمران طبقے کی اخلاقیات ہوتی ہیں جو عام حالات میں سماجی اخلاقیات بن جاتی ہیں۔
مذہبی اخلاق پرستوں کا یہ خیال ہے کہ اخلاقیات کی بنیادیں مذہب میں پنہاں ہیں۔ اصل میں خود مذاہب کاآغازایک مخصوص عہد میں مظاہر فطرت کی سائنسی مادی تشریحات نہ ہوسکنے کی وجہ سے بننے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش سے ہواتھا۔ یعنی یہ اخلاق پرست جھاگ ہی کو دودھ سمجھ رہے ہیں۔ آج سائنس بھی یہی بتاتی ہے کہ خلا، خالی نہیں رہ سکتا، لیبارٹری میں جب بھی قطعی خلا بنانے کی کوشش کی گئی ہے تو ’’عدم‘‘ سے ذرے اور ان کے ضد ذرے اس خلا کو گھیرنے کیلئے ’’خودبخود‘‘ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مظہر ایک حقیقت ہے۔ کچھ نہ کچھ نے توجگہ گھیرناہی تھی، اور اسی کچھ نہ کچھ کے چکر میں ایسے نظریات(مذاہب) کا جنم تاریخی ناگزیریت کا اظہار ہے۔
بہت سے اخلاق پرستوں نے اخلاقیات کے سماجی ارتقا کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان کی رائے میں اخلاقیات انسان کے عمومی شعور یا ضمیر کی آواز کا نتیجہ ہیں۔ پھر وہ اخلاقیات کوقطعی چیز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اخلاقیات ہر عہد میں بدلتی رہی ہیں۔ وہ یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اخلاقیات کی مادی بنیادیں بناتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ حتمی تجزیہ میں آسمانی طاقت کے بغیر اپنا وجودبرقرار نہیں رکھ سکتی۔
کچھ( برائے نام سائنسی) اخلاق پرستوں کے مطابق اخلاقیات انسانی حیاتیاتی ارتقا سے وجود میں آئی ہے اور یہ آپس میں مل جل کر رہنے والے جانوروں کی خصوصیات کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ لیکن پھر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اخلاقیات کا وجود ہمیں صرف اور صرف ایک ’’انسانی طبقاتی‘‘ سماج میں ہی کیوں ملتا ہے؟ اس سے باہر جانوروں کے کسی بھی گروہ میں ہمیں اخلاقیات کا وجو د کیوں نہیں ملتا؟ اور نہ ہی ہمیں ایک غیر طبقاتی سماج ( قدیم اشتراکیت ) میں ایسی اخلاقیات کا وجود ملتا ہے۔ اور جب ہم مستقبل کے غیر طبقاتی سماج کا خاکہ بناتے ہیں تو بھی ہمیں ایسی تجریدی اور آفاقی اخلاقیات کی ضرورت کیوں نہیں پڑتی؟
کچھ اخلاق پرست دائمی اخلاقیات کا وعظ کرتے ہیں کہ کچھ چیزیں انسان کے وجود کے ساتھ اٹوٹ انگ ہیں اور ان کے بغیر انسان کا وجود ممکن نہیں۔ مثلاً سچ بولنا ہمیشہ سے ایک اخلاقی عمل ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اصل میں سچ اور جھوٹ انسان کے مادی حالات کے تضادات سے جنم لینے والے خیالات ہیں۔ اگر دنیا کے تمام انسان مرد ہوں، تو مردانہ شناخت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ’’مرد ‘‘ شناخت عورت کے تضادکی وجہ سے قائم ہے۔ جب جھوٹ بولنے کی مادی بنیادیں ختم ہوں گی تو سچ کی شناخت بطور ’’اخلاقی قدر‘‘ ختم ہوجائے گی۔
ایک عام تاثر یہ بھی دیا جاتا ہے کہ اخلاقیات سماج کے تمام افراد پر یکساں لاگو ہوتی ہیں اور یہ کسی سماجی وجود، معرو ضی دباؤ یا طبقاتی مفاد سے ماورا ہیں۔ مثلاً قتل نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا قطعی اخلاقی ٹوٹکے ہیں۔ لیکن فیصلہ کن حالات میں ان اخلاقی ٹوٹکوں سے روگردانی ہی کو عین اخلاقی عمل سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جنگ میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کے قاتل کو انعام سے نوازا جاتا ہے۔ کسی کی جان بچانے کے لئے بولے جانے والے جھوٹ، کوغلط نہیں کہا جا تا۔ یا اپنے دفاع میں کیے گئے قتل کو عدالت کی طرف سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ خود عدالتوں اوراداروں کا وجود اس بات کا اظہار ہے کہ انسانی سماجی تضادات ان ’’عالمی یکساں لاگو اخلاقیات‘‘ سے روگردانی کا موجب بنتے ہیں۔ اور یہ کہ اخلاقی ٹوٹکے حتمی نہیں اور انسان پر معروضی ا ور سماجی دباؤ کو اس کے عمل کا تعین کرتے وقت ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ اسی لئے یہ یکساں لاگو اخلاقیات کا فلسفہ بھی حقیقت میں کھوکھلا ہے۔
اخلاقیات کے ٹوٹکے دینے والا ایک اور گروہ ہر اس عمل کو اخلاقی گردانتا ہے جو انسان کے ’’ضمیر‘‘ کو مطمئن کرے یا روحانی سکون پہنچائے۔ مثلاً کسی کا وزن اٹھانا، کسی کو کھانا کھلانا۔ ایسی اخلاقیات کے پرچار کیلئے پہلے سماج میں ذلت، فاقہ کشی اور افلاس کا ہونا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف ایک استحصال زدہ معاشرے میں ہی اپنی اخلاقیات کا پرچار کرنے کے لیے مادی بنیادیں مل سکتی ہیں۔ عام لوگوں کے پاس جب دن بھر کی مشقت اور ذلت کے بعد اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی تو یہ اخلاق پرست انہیں اس ذلت اور مشقت میں روحانی سکون تلاش کرنے کا درس دیتے ہیں۔
لبرل جمہوری اخلاقیات (سیاسی انصاف، ووٹ دینے کا حق اور نئے سماجی تعلقات وغیرہ) تاریخی طبقاتی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئے تھے۔ بقول ٹراٹسکی:
’’جمہوریت، دنیا میں جمہوری راستے سے نہیں آئی۔ ‘‘
یہ سب سرمایہ داری کے ترقی پسند عہد کی باتیں تھیں۔ لبرل دانشوروں کو یہ چیزیں مستقل دکھائی دیتی تھیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ تاریخ اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے اور اب سرمایہ دارانہ اخلاقیات ہی انسان کا حال اور مستقبل ہیں اور مابعدتاریخ دور کا آغازہوچکاہے۔ (مارکسسٹ تاریخ کے خاتمے کے اس نام نہاد نظرئیے کے جواب میں کہتے ہیں کہ ابھی تو حقیقی ’’انسانی ‘‘تاریخ کا آغاز بھی نہیں ہوا) لیکن سرمایہ داری کے زوال کے ساتھ ہی اس کی اخلاقیات بھی شدید بحران کا شکار ہوچکی ہیں۔ جہاں ایک طرف سماج میں ہر گئے دن کے ساتھ رشوت، فریب، چوری، استحصا ل، اور نو دولتیہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے وہاں طبقاتی جدوجہد بھی تیز ہورہی ہے۔ یعنی سماج میں ہر گئے دن کے ساتھ ایک طرف بربریت کی اخلاقیات جنم لے رہی ہیں تو دوسری طرف پرولتاری انقلاب کی۔ سرمایہ داری کے زوال کے ساتھ ہی اس کی ترقی پسند اخلاقیات کی جگہ رجعتی اخلاقیات نے لے لی ہے جس کی سب سے شاندار مثال ہمیں سامراجی اخلاقیات کی صورت میں ملتی ہے۔ آج کے عہد میں سامراجی لوٹ مار (ورلڈ بینک، آئی ایم ایف وغیرہ ) کی راہ میں صحت مند جمہوری ریاستیں رکاوٹ ہیں اور گماشتہ، غیر مستحکم اور مصنوعی ریاستیں اس کی ضرورت ہیں۔ عام حالات میں تشدد نہ کرنے، چوری نہ کرنے اور جھوٹ نہ بولنے کا درس ملتا ہے۔ لیکن فیصلہ کن مرحلوں میں بورژوازی اپنی ہی اخلاقیات کے خلاف جاتی ہے۔ مثلاً ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے تحت ڈاکٹروں اور تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق کے لئے اٹھنے والی تحریکوں کے خلاف بورژوا میڈیا میں بالکل جھو ٹا اور منفی پروپیگنڈا کیا گیا۔ چین اور مغربی’’ جمہوری‘‘ سامراج ہر سال ایسے کئی معاہدے طے کر رہے ہیں جن کا مقصد چین میں ہونے والے انسانی جمہوری حقوق کی خلاف ورزیوں کی مغربی سامراج کی طرف سے سرکاری مذمت کو روکنا ہے اور اسے خفیہ لین دین کے طریقوں سے حل کرنا ہے۔ لبرل امریکہ اپنی تمام تر وحشیانہ سامراجی غنڈہ گردی کو جائز اور اخلاقی تصور کرتا ہے۔ لیکن وہ دنیا بھر میں سامراج کے خلاف اپنی زندگی کیلئے لڑنے کو غیر اخلاقی قرار دیتا ہے۔
سرمایہ داری نے لبرل اخلاقیات کے علاوہ ان تمام اخلاقیات، جو کہ مذہب، قلت وغیرہ کی دین ہیں، کو ختم نہیں کیا۔ یہ تمام اخلاقیات اپنے جوہر میں زمین اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے ابھری ہیں اور اسی کی محافظ ہیں۔ سماجی اخلاقیات، نجی ملکیت کی بدولت سماج میں جنم لینے والے تضادات کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ ان اخلاقیات کی بقا کیلئے نجی ملکیت، اس سے جنم لینے والے رشتے اور قلت کا ہونا ضروری ہے۔ چونکہ سرمایہ داری بذات خود نجی ملکیت اور طبقاتی استحصال پر مبنی نظام ہے، اسی نسبت سے یہ ماضی کی طبقاتی اخلاقیات کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، کیونکہ وہ مادی بنیادیں آج بھی باقی ہیں جن کے گرد یہ اخلاقیات ابھری تھیں۔ کیونکہ حتمی تجزئیے میں سماجی اخلاقیات نجی ملکیت کی محافظ ہیں اور سرمایہ دار کو ان اخلاقیات سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج میں ان مادی بنیادوں (قلت، نجی ملکیت) کا خاتمہ کیا جائے گا اور ساتھ ہی اس پر مبنی اخلاقیات کا وجود بھی مٹ جائے گا۔
بورژوا اخلاق پرستوں کو سماج میں اٹھنے وا لے سوالوں کے جواب میں کامن سینس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کامن سینس روز مرہ زندگی کے تجربات کو بنیاد بنا کر سوالوں کے جوابات دیتی ہے۔ عام حالات میں تو یہ کسی حد تک ٹھیک ہوتا ہے۔ لیکن پیچیدہ تاریخی عوامل اور فطرت کا بارک بینی، مزید گہرائی اور زیادہ غور سے مشاہدہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت اور انسانی سماج کامن سینس سے نہیں بلکہ جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے تحت حرکت کرتے ہیں۔ بقول کامریڈ لیون ٹراٹسکی:
’’انقلاب کے سامنے کامن سینس سب سے بڑی بیوقوف ہے!‘‘
یہ سماج کو جامد دیکھتی ہے۔ کامن سینس اخلاقیات کو ایک ایسی دنیا میں مستقل چیز سمجھتی ہے، جہاں صرف تبدیلی ہی مستقل ہے۔ لبرل کامن سینس، (اکتوبر انقلاب کے بعد سے) انقلاب کو ایک پر تشدد اور خونی چیز کہتی رہی اور اس سے بچنے کی نصیحتیں کرتی رہی، حتیٰ کہ دنیا کے سٹیج پر لبرل سامراج نے دوسری عالمی جنگ سے انسانی خون کی وہ ہولی کھیلی کہ اگر شیکسپئر زندہ ہوتا تو اسے شاید ’’دنیا کے سٹیج‘‘کی دوبارہ تشریح کرنا پڑتی۔ کامن سینس کو یہ بات سمجھ نہیںآتی کہ سماجی انقلاب، طبقاتی سماج کی ہی دین ہے۔ پیچیدہ تاریخی حرکت میں کامن سینس کا کردار ایسا ہے جیسے انتڑیوں کے ’’درد‘‘ کیلئے پیراسٹامول اس نسبت تجویز کی جائے کہ پیراسٹامول سے سر’’ درد‘‘ کا بھی تو علاج ہوتا ہے۔
لبرل دانشور طبقہ ان اخلاقیات کو کچھ عقلمند لوگوں کی علمی خدمات کا نچوڑ سمجھتا ہے۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ سماج طبقات میں منقسم ہے اور ان کے طبقاتی مفادات تضاد میں ہیں۔ ایسے میں ایک اخلاقیات پر مبنی اصول دو متضاد عناصر کے مفادات کایکساں تحفظ کیسے کر سکتا ہے؟ حکمران طبقہ اپنے مفادات کو سماج پر مسلط کرتا ہے اور ان ذرائع کو غیر اخلاقی قرار دیتا ہے جو اس کے مفادات سے متصادم ہوں۔ حکمران طبقہ طاقت کے زور پر زیادہ دیر حکومت نہیں کرسکتا۔ اسے اخلاقیات پر مبنی فولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہی اخلاقیات کی تشریح سے پیٹی بورژوا دانشوروں کا قبیلہ وجود میں آتا ہے اور اس کی ترویج سے ان کی دال روٹی چلتی ہے۔ یہ ہر رنگ میں چہکتے ہیں لیکن حتمی تجزیہ میں غلامی اور اطاعت کے داعی ہوتے ہیں۔ یہ پیٹی بورژوا دانشور قسطوں یا ٹکڑوں میں بات کرتے ہیں۔ تاریخ کے عظیم واقعات سے بیگانگی اس پیٹی بورژوا دانشورکو سماجی حرکت کے اصل عامل (طبقاتی جدوجہد) کو دیکھنے سے روکتی ہے۔ اس کا درمیانہ سماجی وجود اسے سر مایہ اور محنت کے بیچ تضاد کے تھپیڑوں سے ہلکان کرتا ہے اور اسی نسبت سے اس کی دقیانوسیت عیاں ہو جاتی ہے۔ وہ ان مادی بنیادوں کو جانے بغیر، (جن پرمتضاد طبقات قائم ہیں)ثانوی خصوصیات کے لحاظ سے زندہ رجحانات کا تجزیہ کرتے ہیں اور اسی میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ لبرل پیٹی بورژوا اخلاق پرست، لوگوں کے عمل کو ایک ایسی خیالی دنیا کے ترازو میں تولتے ہیں جہاں لوگوں پر کوئی معروضی مادی دباؤ نہیں اور وہ اپنے ہر عمل میں مو ضوعی اعتبار سے آزاد ہیں۔ مثلاً ایک انسان اگر دی جانے والی اجرت سے زیادہ ہاتھ مارتا ہے تو وہ ا سے چوری اور غیر اخلاقی گردانتا ہے۔ وہ ان مادی بنیادوں کو نظر انداز کرتا ہے جو اس کے عمل میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں۔ 12گھنٹے کام کرنے کے بعد دی جانے والی اجرت بھی ایک خاندان کو زندہ رہنے کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتی۔ یہ وہ مادی بنیادیں ہیں جنہیں اس شخص کے اخلاقی پیمانوں کا تعین کرتے وقت ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ ان کے خیال میں انسان سماجی، معاشی دباؤسے آزاد ہے اور اسے صرف وہی کام کرنے چاہئیں جو مروجہ اخلاقیات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ لبرلز محکوموں سے جتنی بھی ہمدردی رکھیں لیکن وہ حتمی تجزیہ میں محنت کشوں کی بقاکو حکمران طبقے کی اخلاقیات اپنانے میں تجویز کرتے ہیں، نہ کہ بغاوت کی اخلاقیات میں۔
سٹالنزم کے مظہر اور اس کے تاریخی ابھار پر دنیا بھر میں قلم کے دلالوں نے طبع آزمائی کی۔ سٹالنزم کا مظہر ایک پسماندہ ملک میں انقلاب کے تنہا رہ جانے اور بیرونی سامراجی دباؤ کے نتیجے میں ابھراتھا۔ اخلاق پرستوں نے رد انقلاب کی وجوہات کو ایک اخلاقی بحران میں تلاش کیا اور اس کے تدارک کیلئے انفرادی اخلاقی ٹوٹکے بھی تجویز کئے۔ ان اخلاق پرستوں کا ہدف رد انقلابیوں سے زیادہ وہ انقلابی تھے جو اس ردانقلاب میں ہلاک کئے جارہے تھے۔ ان اخلاق پرستوں کے خیال میں سٹالنزم کاابھار اس لیے ہوا کیونکہ مارکسی فلسفہ ’’اخلاقیات‘‘ سے ماورا بنیادوں پر قائم ہے۔ سٹالنزم مغرب میں اٹھنے والی نئی انقلابی لہرسے شدید خوفزدہ تھا۔ اسی لیے خون کا بازار گرم کیا گیا۔ انقلابِ سپین(1936ء) کے روسی مزدوروں اور روسی کمیونسٹ پارٹی پر پڑنے والے اثرات سے بوکھلا کر تطہیری مقدمات کو منظم کیا گیا۔ ان تطہیری مقدمات نے واضح طور پر ثابت کیا کہ ’’بالشویزم اور سٹالنزم سیاسی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے‘‘۔ انقلاب سے رد انقلاب کی طرف سفر جس قدر تیز ہوگا، رد انقلاب پر انقلابی روایات کا ڈر اسی قدر زیادہ ہوگا(یعنی محنت کشوں کی شمولیت کا)۔ اسی باعث انقلابیوں کا قلع قمع کرنے کی غرض سے خونریز تطہیرات کو منظم کیا گیا۔ بقول کامریڈ ٹیڈ گرانٹ:
’’اکتوبر انقلاب سے تعلق حقیقت میں موت کا پروانہ بن گیا۔ ‘‘
ان دانشوروں کا تجزیہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا۔ لبرل اخلاق پرست ( سٹالن اور مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کے سامراجی معاہدوں کی وجہ سے) سٹالن کے جرائم پر پردہ ڈالتے تھے اور ٹراٹسکائٹس کواخلاقیات سے بیگانہ گردانتے تھے۔ بعد میں سامراجی مفادات کے تحت انہی اخلاق پرستوں نے انقلاب روس کو بدنام کرنے کی خاطر بالشویزم اور سٹالنزم کو ایک ہی چیز کے دو نام قرار دیا۔ آخر کار لبرل پیٹی بورژوا دانشوروں نے ماسکو ٹرائلز کے جھوٹا ہونے کا اعتراف کیا بھی تو اس وقت جب وہ یہ جانتے تھے کہ ان کے اعتراف کر لینے سے نہ تو کمیونسٹ پارٹی کو کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ ہی سوشلزم کو۔ انہی جمہوریت کے دوستوں کو آمرانہ حکومتوں کی تعریف کرتے ہوئے شرم نہیں آتی تھی، جب ان کے مفادات کے لئے وہ سود مند ہوتی تھیں۔ برطانیہ کا برسر اقتدار طبقہ ہٹلر کو اقتدار میں آتا دیکھ کر اس وقت تک خوش تھا جب تک وہ جرمن مزدوروں کو دباتا رہا۔ انہی لوگوں نے مسولینی اور فرانکو کیلئے 1939ء تک زبردست تعریف و توصیف کا اظہار کیا۔ 1945ء کے بعد کے دور میں مغربی جمہوریتوں، جن میں امریکہ سر فہرست تھا، سرگرمی سے سوموزا اور پنوشے سے لے کر ارجنٹائن کی جنتا اور سوہارتو اور پاکستان میں جنرل ضیاء الباطل سمیت ہر خو نی آمر یت کا ساتھ دیا۔ وہ سٹالن کی آمریت پر اعتراض نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا اعتراض قومیائی گئی ملکیت اور منصوبہ بند معیشت پر تھا۔ مغربی جمہوریتوں کی سوویت یونین کے خلاف نفرت اس کی خرابیوں(افسر شاہانہ آمریت) کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس چیز کے خلاف تھی جو اس میں مثبت، ترقی پسند اور محنت کشوں کے مفاد میں تھی۔ سٹالن کے جرائم سے تو وہ مغرب میں سوشلزم کو بدنام کرتے تھے۔
یہ اخلاق پرست مختلف رجحانات کی ثانوی خصوصیات کی بنا پر ان میں مماثلت تلاش کرتے ہیں۔ مثلاً ان کی نظر میں ڈارونسٹ، کمیونسٹ اور انارکسٹ ایک ہیں کیونکہ یہ سب آسمانی طاقتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ سٹالنسٹ سوویت یونین اور نازی جرمنی ان کے نزدیک ایک ہی چیز تھی کیونکہ دونوں میں آمریت تھی۔ اور پھر انہوں نے انقلاب اور رد انقلاب، سٹالنزم اور بالشویزم کو ایک ہی مظہر کے دو نام قرار دے دیا۔ یہ بات ممکن ہے کہ مختلف مفاد رکھنے والے طبقات مختلف مقاصد کیلئے ایک سا طریقہ کار اختیار کریں۔ اصل جوہر جو ان رجحانات کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے، وہ ٹھوس مادی بنیادیں ہیں جن پر ان کی طبقاتی ساخت و مفادات متعین ہوتے ہیں اور اسی سے ان کا معروضی تاریخی فریضہ طے ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ کا ارتقا نہ تو ووٹ نہ دینے سے رک جاتا ہے اور نہ ہی کسی عقیدے پر عمل نہ کرنے سے رک جاتا ہے، بلکہ یہ چیزیں بذات خود تاریخ کے ارتقا کا نتیجہ ہیں۔
فلسفیانہ مادیت پسندی نے اخلاقیات کی بنیادوں میں سے مذہبی تشریحات کو نکال باہر کیا۔ اب ان کی تشریح کے لیے ان کی مادی بنیاد ڈھونڈناضروری تھا۔ اخلاقیات کا مادی سائنسی تجزیہ نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ استحصال کیوں غلط ہے بلکہ سب سے پہلے کہ سرمایہ دار استحصال کرتا کیوں ہے ؟اور اسے ختم کیسے کیا جاسکتا ہے؟ دنیا کو بہتر بنانے کے تمام وسائل اپنی دسترس میں رکھنے کے باوجود بھی یہ طبقہ کیوں انسانوں کے لئے ایک بہتر دنیا تخلیق نہیں کررہا؟ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ مذہب اور تجریدی اخلاقیات ہزاروں سال کی ’’انفرادی اخلاقی کاملیت ‘‘کے وعظ و نصیحت کے بعد بھی مسئلے کوحل نہیں کر پائے ہیں۔ تجریدی اخلاقیات طبقاتی سماج کے ارتقائی عمل میں ظہور پذیر ہوئیں لیکن ایک دفعہ جب یہ معرضِ وجود میں آ گئیں تو پھر ان کا استعمال طبقاتی شعور کو گمراہ رکھنے کیلئے ایک دانستہ فارمولے کے طور پر بھی ہوا۔ سرمایہ دار، پرولتاریہ کو طبقاتی شعور حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنی اخلاقیات کو پرولتاریہ پر مسلط کرتا ہے۔ محنت کشوں کو تجریدی اخلاقیات کادرس دینا ایسا ہے جیسے کسی شخص سے ہتھیار چھین کر اسے دشمن کے آگے پھینک دیا جائے۔ پرولتاری پارٹی کا ایک اہم فریضہ اس فریب کا قلع قمع کرنا ہے۔
اخلاقیات کا ظہور سماجی مفادات کے گرد ہوا ہے۔ چو نکہ اب تک سماج طبقات پر مشتمل رہا ہے، اسی لئے اخلاقیات کی نوعیت بھی طبقاتی ہے۔ یعنی سماج کے حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ اخلاقیات کی آہنی ڈھال سے کیا گیا ہے اور مذہب، فلسفہ، قومی ثقافت اور دیگر ذرائع سے ان اخلاقیات کا دفاع کیا گیا ہے۔ اسی لئے سماج پر حاوی اخلاقیات اور نظریات حکمران طبقہ ہی کے ہوتے ہیں۔ بقول کامریڈ لینن:
’’بورژوا قومی ثقافت ایک حقیقت ہے ( اور میں اپنی بات دہراؤں گا کہ بورژوازی ہر جگہ جاگیرداروں اور کلیسا کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتی ہے)۔ جارحانہ بورژوا قوم پرستی محنت کشوں کے دماغوں کو ماؤف کر دیتی ہے اور ان کو بیکار و بے اثر بنانے اور پھوٹ ڈالنے کا کام کرتی ہے تاکہ بورژوازی ان کے گلے میں پٹا ڈالے جہاں چاہے ہانک لے جائے۔ آج کے زمانے کی بنیادی حقیقت یہی ہے۔ [۔ ۔ ۔ ]بورژوا لبرل قوم پرستی محنت کشوں کے مابین فساد پھیلانے میں سب سے کارگر ہے اور آزادی اور پرولتاری طبقاتی جدوجہد کے مقصد کو ناقابل یقین نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ بورژوا اور بورژواجاگیردارانہ رجحان اس لیے بھی انتہائی تباہ کن ہے کہ یہ ’’قومی ثقافت‘‘ کے نعرے کے پیچھے پوشیدہ ہوتا ہے۔ قومی ثقافت کے پردے میں ہی عظیم روسی، پولش، یہودی، یوکرائنی وغیرہ وغیرہ بھی اور سیاہ صد اور ملاں بھی اور تمام اقوام کی بورژوازی بھی اپنا غلیظ اور رجعتی کھیل کھیلتے ہیں۔ ‘‘ (لینن۔ قومی سوال پر تنقیدی رائے)
انسانی تاریخ کی قوت محرکہ ذرائع پیداوار کی ترقی ہے اور اسی سے طبقات اور طبقاتی جدوجہد نے جنم لیا۔ تاریخ ان اخلاقیات سے نہیں چلتی بلکہ یہ اخلاقیات طبقاتی تضادات کا ہی ایک عکس ہیں۔ تاریخ میں طبقاتی کشمکش ذات پات، مذہب، اور دوسری اخلاقیات کے پس پردہ جاری رہی ہے۔ یہ سرمایہ داری تھی جس نے ان تمام پردوں کے پیچھے چھپے طبقاتی محرک کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ تاریخی واقعات ( انقلابات) کے وقت یہ طبقاتی کشمکش عام حالات کی نسبت زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ انہی عظیم انقلابات سے بیگانگی ہی ان پیٹی بورژوا دانشوروں کو سماجی حرکت کے ا صل عامل کو سمجھنے سے باز رکھتی ہے۔ اخلاقیات سماجی ارتقا کا نتیجہ ہیں۔ اخلاقیات ایک طبقاتی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کا کام طبقاتی مفادات کا تحفظ ہے۔ تمام فیصلہ کن لمحوں میں لوگ اپنی طبقاتی حیثیت کو سماجی وجود پر فوقیت دیتے ہیں۔ عام حالات میں لوگوں کا طبقاتی شعور نا پختہ ہوتا ہے اور وہ سماجی تضادات سے جنم لینے والی اخلاقیات او ر حکمران طبقے کی اخلاقیات تلے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ جس قدر طبقاتی کشمکش شدید ہوتی جاتی ہے، لوگ ان مسلط اخلاقیات پر عمل کم کرتے ہیں اور سوالات زیادہ کرتے ہیں۔
مارکسی طریقۂ تجزیہ اخلاقیات کو بھی ٹھوس مادی بنیادوں پر پرکھتا ہے۔ یہ طریقہ کار محض واقعات کی تشریح پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ تاریخ کے دھارے کو شعوری کاوش سے بدلنے کیلئے ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر کا فریضہ بھی سرانجام دیتا ہے۔ اس عمل کے آغاز کیلئے رائج الوقت حکمران طبقے کی اخلاقیات اور نام نہاد سماجی رائے سے خود کو آزاد کرنا ضروری ہے۔ یہی چیز بورژوازی کی نیندیں حرام کرتی ہے۔ اسی لئے وہ مارکس وادیوں کیلئے غیر اخلاقی، اخلاق سے مبرا کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ ارتقا اور انقلاب سے ترقی کرتی ہے۔ تاریخی عمل کے پیچھے طبقاتی جدوجہد ہی کار فرما رہی ہے، لیکن سرمایہ داری سے پہلے انسانوں کو اس کا شعور نہیں ہوسکتا تھا۔ جیسے پرانے زمانے میں لوگ پہیہ استعمال کرتے تھے، جڑی بوٹیوں سے علاج کرتے تھے، کشتیاں استعمال کرتے تھے، لیکن و ہ ان چیزوں کے پیچھے کار فرما سائنسی اصولوں سے ناواقف تھے۔ ایک بار جب انسان نے ان سائنسی اصولوں کو دریافت کیا تو ان کے بہتر اطلاق سے شاندار نتائج حاصل کئے۔ اسی طرح (سرمایہ داری میں) طبقاتی جدوجہد کے سماجی اصول کو بھی انسان نے دریافت کیا ہے اور اب اس کے سائنسی طریقہ کار کے تحت اطلاق (ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر) سے انسان کو ذلت سے آزادی ملے گی۔ انسان اسی طبقاتی جدوجہد کے ذ ریعے ہی غیر طبقاتی سماج تشکیل دے گا۔
سائنسی اصولوں کی طرح طبقاتی جدوجہد کا اصول بھی مطلق اصول نہیں بلکہ یہ صرف طبقاتی دنیا کو بدلنے کیلئے کارگر ہے۔ یہ تاریخی اصول (طبقاتی جدوجہد)سماج کی اندرونی ساخت میں چھپے اس جوہر (پرولتاریہ) کو ڈھونڈنکالتا ہے، جس میں سماج اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سوشلزم کا یہ سائنسی دعویٰ ہے کہ آج کرۂ ارض پر پہلی بار سماج کو سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سود خوروں کے بغیر چلانا ممکن ہے۔ اسی لئے ہم تاریخ کے سٹیج پر ہزاروں سال کے اجتماعی انسانی عمل سے حاصل کردہ نتائج ( طبقاتی جدوجہد) کو استعمال کرکے، اس کے تابع وہ اخلاقیات مرتب کر سکتے ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف انقلاب ہو۔ ایک سماجی طبقے کی حرکت اور اخلاقیات کا تعین اس کے مادی مفادات سے ہوتا ہے۔ ان مفادات کا تعین ان کے سماجی پیداوار میں کردار سے ہوتا ہے۔ طبقاتی جدوجہد میں پرولتاریہ کیلئے بوقت ضرورت ہر ہتھیار اٹھانا اخلاقی اور جائز ہے۔ یہ ہتھیار یونین سازی، عام ہڑتال سے لیکر مسلح سر کشی تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
لبرلز کا دعویٰ ہے کہ طبقاتی جدوجہد ایک تجرباتی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی رائے میں انسانی بقا کو طبقاتی جدوجہد سے مشروط نہیں کیا جاسکتا، ایک بار جب اسے استعمال کیا جائے گا تبھی یہ پتہ چلے گا کہ یہ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتی ہے یا نہیں، اسی لئے طبقاتی جدوجہد کی اخلاقیات کی حیثیت بھی معلق ہے۔ لیکن سائنسی طریقہ کار ہمیں مشاہدات کی روشنی میں تجربات اور تجربات کی روشنی میں پیش گوئی اور درست پیش گوئی کی روشنی میں وہ اصول اور قوانین دریافت کر نے کی قوت بخشتا ہے، جن سے ہم سماج کی حرکت کا تعین کرسکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ استحصال سے جنم لینے والی مادی حقیقت اور اس سے نجات (سوشلزم)، اس بات کا تعین خاصی حد تک پہلے ہی کر دیتے ہیں کہ کون سے راستے استعمال کئے جائیں۔ ایک فیکٹری میں مزدوروں کی جانب سے اجرت بڑھانے کے لئے کی جانے والی ہڑتال محض ایک اندھا تجربہ نہیں ہوتی۔ محنت کش کو سرمایہ دار اور اپنے بیچ تضاد کا علم سالہا سال کے پیداواری رشتے سے ہوتا ہے۔ اپنی اجرت بڑھانے(مطلوبہ نتیجہ) کے لئے کی جانے والی جدوجہد کے راستوں کاتعین کرنے کیلئے مزدوروں کو اندھے تجربوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے طبقاتی جدوجہد ایک حادثاتی نہیں بلکہ ایک ٹھوس اور مسلمہ حقیقت کی حیثیت رکھتی ہے۔ لبر لز مختلف مظاہر اور واقعات کو سماجی تسلسل میں نہیں دیکھ سکتے۔ یعنی ان کی سوچ کے مطابق، سفر کیلئے بنائی جانے والی کوئی’’ نئی چیز‘‘ ایک قطعی تجرباتی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نئی چیز کو بنانے کی سوچ میں پہلے سے ایجاد شدہ کار، ٹرین، یا جہاز اور ان کے قوانین اور نمونے کوئی بنیاد فراہم نہیں کرسکتے۔ یہ ہے وہ تجریدی اور میکانکی سوچ جو حقیقت سے ماورا ہے۔
لبرل اخلاق پسند ان مادی بنیادوں کو جانے بغیر جن پر متضاد طبقے قائم ہیں، ثانوی خصوصیات پر سیاسی رجحانات کو پرکھتے ہیں اور اسی میں ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ وہ محنت اور سرمایہ کے بیچ تضاد کو نظر انداز کرکے اس (تضاد) سے سماج میں پھیلے انتشار کو تجریدی فلسفوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان اور فطرت کے تضاد کا نتیجہ سائنسی ایجادات ہیں۔ انسان اور رات کے تضاد کا نتیجہ ٹارچ، انسان اور فطرت میں پھیلے لمبی مسافتوں کے بیچ تضادکا نتیجہ جہاز، وغیرہ۔ فطرت اور انسان کے تضاد نے تکنیک اور سائنس کو جنم دیا اور سائنس کے ذریعے انسان نے دنیا کو تسخیر کیا۔ بورژوا سماج میں طبقاتی جدوجہد’’ محنت اور سرمایہ‘‘ کے تضاد کا نتیجہ ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے ذریعے سماج کی تبدیلی کو نہ ماننا، ایسا ہے کہ جیسے سائنسی ایجادات کو رد کیا جائے اور نہ مانا جائے۔ اس معاملے میں لبرلز اور مذہبی حضرات کا رویہ ایک ہی جیسا ہے۔
انقلاب طبقاتی سماج کی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور اس سے جنم لینے والے واقعات و محرکات اور اخلاقیات کورائج الوقت اخلاقیات سے نہیں سمجھاجاسکتا۔ کیونکہ انقلاب کا کام رائج الوقت اخلاقیات کی فرسودگی، تنگی اور استحصال کو عیاں کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا ہے۔ لہٰذا ایک انقلابی تنظیم کی اخلاقیات کبھی بھی رائج ا لوقت سماجی اخلاقیات نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی رائج الوقت اخلاقیات کی روشنی میں بالشویک انقلابی تنظیم کی اخلاقیات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک عمارت کی تعمیر میں انجینئرنگ، آرکیٹکچر اور ڈیزائن کے جو اصول اور قانون استعمال ہوئے ہیں، عمارت کو تباہ کرنے کیلئے استعمال ہونے والے اصول اس کے تعمیری اصول و قانون سے بالکل مختلف ہوں گے۔ عمارت کے محافظ ان اصولوں کو ہمیشہ غلط اور غیر اخلاقی گردانیں گے۔
طبقاتی جدوجہد مخالف طبقات کے ٹکراؤ کا نا گزیر اظہار ہے۔ اسی کی جھلک ہمیں ہڑتالوں میں ملتی ہے۔ کسی بھی ہڑتال میں سرمایہ دار اور محنت کش اپنے اپنے طبقاتی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ سرمایہ داربورژوا میڈیا میں تحریک کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے اور آخری حربے کے طور پر طاقت کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اگر طبقاتی جدوجہد پر تشدد نہ ہوتی، طاقت کا ننگا استعمال نہ ہوتا اور ارتقا رائج الوقت اخلاقیات کے زیر تحت ہی ہوتا تو تاریخ انقلاب کے لفظ سے ناواقف ہوتی۔ بورژوازی اگر طاقت اور تشدد کو انسانوں کی غلامی اور استحصال کیلئے استعمال کرسکتی ہے توپرولتاریہ اپنی آزادی کی جدوجہد میں اپنے دفاع کی خاطر طاقت کا استعمال کیوں نہ کرے؟ بورژوازی کے نزدیک بالشویکوں کا سب سے بڑا غیر اخلاقی قدم یہ تھا کہ انہوں نے محنت کشوں کو سچ سے آگاہ کیا۔ مارکس وادیوں پر غیر اخلاقی ہونے کا الزام پرولتاریہ کی نظر میں ایک تعریفی کلمہ ہے۔ وہ(پرولتاریہ) سمجھتے ہیں کہ اس غیر اخلاقی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مارکس وادیوں نے محنت کش طبقہ کو گمراہ رکھنے کی اخلاقیات کو چیلنج کیا ہے۔ بقول ٹراٹسکی:
’’دشمن کے احکامات پر عمل کرکے دشمن کو نہیں ہرایا جا سکتا۔ ‘‘
مارکس وادیوں پر لگائی گئی غیر اخلاقی کی اسٹیمپ کا ا صل مقصد بورژوازی کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ ایک انقلابی اخلاقیات میں ہر عمل کی حیثیت کا تعین صحیح اور غلط، سیا ہ اور سفید کے طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ انقلابی اخلاقیات ایک انقلابی لائحہ عمل، انقلابی پراپیگنڈہ اور انقلابی تنظیم سازی کے مسئلوں کے ساتھ باہم ضم ہے۔ انقلابی اخلاقیات کے مسئلوں کے جوابات ایک واضح تھیوری کے ساتھ زندہ تحریکوں میں پوشیدہ ہیں۔ رائج الوقت اخلاقیات پر عمل کرنے کا مطلب تاریخ کے ٹھکرائے ہوئے عہد کو مزید طول دینا ہے۔ تاریخ کی تال میل اور حرکت کسی مجرد اخلاقیات کے تابع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ اخلاقیات ہیں جو کہ تاریخی تقاضوں کے تابع ہوتی ہیں۔
بورژواری اگر اپنی تجریدی اخلاقیات کے ذریعے محنت کش طبقے کو گمراہ کرکے دوبارہ اکتوبرانقلاب برپا کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرے گے تو محنت کشوں کی انقلابی پارٹی بھی ان تمام نام نہاد اخلاقیات کا پردہ چاک کرتے ہوئے محنت کشوں کو ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے منظم کرنے کی کوشش پوری شدومد کے ساتھ جاری رکھے گی۔
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
اس آرٹیکل کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے:
Their Morals and Ours by Leon Trotsky.
The Moralists and Sycophants Against Marxism by Leon Trotsky.
Russia: From Revolution to Counter Revolution by Ted Grant.
The Communist Manifesto.