کتاب ”روحِ عصر اور لینن ازم“ پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

|تحریر: شعیب اختر|

دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ غربت اور امارت کے درمیان جو تفریق آج موجود ہے وہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ایک طرف سرمایہ دار طبقے کے منافعے اور ان کی عیاشیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں تو دوسری جانب محنت کشوں کے اوپر مصائب و ظلمت کے پہاڑ گرائے جا رہے ہیں۔

محنت کشوں کا معیارِ زندگی مسلسل گر رہا ہے۔ دو دو شفٹوں پر کام کرنے کے باوجود روزمرہ کی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہیں۔ حکمرانوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس کے خلاف محنت کش طبقے میں غصہ پنپ رہا ہے اور وہ سرمایہ دار حکمران طبقے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں، جس کا اظہار پوری دنیا میں تحریکوں، انقلابات اور بغاوتوں کی شکل میں ہو رہا ہے۔ ان تحریکوں میں نوجوان محنت کشوں نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کیا ہے، ریاستی جبر اور موت کے خوف کو شکست فاش دی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سفاک سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے جرات مندی و بہادری درکار ہے لیکن محض جذبات سے یہ طبقاتی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ لینن کا مشہور زمانہ قول ہے کہ، ”انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک ممکن نہیں۔“ جس طرح زندہ رہنے کے لیے خوراک اہم ہے۔ اسی طرح استحصال اور ظلمت و بربریت کے خلاف جدوجہد میں شامل ہونے والے نئے نوجوان انقلابیوں کے لیے انقلابی نظریاتی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے۔

اس ضمن میں بالشویک پارٹی کے رہنما اور 1917ء میں روس کے مزدور انقلاب کی قیادت کرنے والے عظیم قائد لینن کے نظریات و سیاسی جدوجہد میں سیکھنے کے لیے بہترین اسباق موجود ہیں۔ حال ہی میں لال سلام پبلیکیشنز کی شائع کردہ کتاب ”روحِ عصر اور لینن ازم“ ایک ایسی کتاب ہے جس میں لینن کے نظریات اور عملی جدوجہد کا ایک نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 194 صفحات پر مشتمل ہے۔ لینن کی تین دہائیوں پر مشتمل انقلابی جدوجہد کو اتنے جامع انداز میں پیش کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

اس کتاب کے مصنف کامریڈ پارس جان ہیں۔ واقعی یہ کام ایک ایسا شخص ہی کر سکتا تھا جو خود مارکسزم اور لینن ازم کے نظریات اور انقلابی جدوجہد کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ اس نے جواں عمری میں ہی ایک پیشہ ور انقلابی کی زندگی کا انتخاب کیا اور جو ایک لمبے عرصے سے پاکستان میں انقلابی پارٹی کی تعمیر کا کام کر رہے ہیں۔

لینن کی شخصیت کو نام نہاد اکیڈمک مارکسسٹوں کی جانب سے جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے یہ کتاب اس کو مسترد کرتی ہے۔ اسی طرح لینن کے متعلق سٹالنسٹوں کی تصنیف کردہ کتابوں میں لینن کو غلطیوں سے پاک ایک پر اسرار مسیحا یا فرشتہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے مذہبی پیشوا یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ کوئی مسیحا دھرتی پر جنم لے گا اور پوری انسانیت کو مکتی دلوائے گا۔ جس کا مقصد اس بات کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ عام انسان اپنی تقدیر کا فیصلہ خود نہیں کر سکتے۔

اس کتاب میں لینن کی زندگی کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے اور یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ لینن بھی باقی انسانوں کی طرح غلطیوں اور زندگی سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتا تھا۔ لیکن لینن کی غلطیاں اس کے دیگر ہم عصروں سے کہیں کم تھیں۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے مؤقف اور تجزیے کو جذبات اور حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا تھا بلکہ مارکسزم کے درست سائنسی میتھڈ جدلیاتی مادیت کو اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔

اس کتاب میں لینن کی زندگی اور اس کے نظریات کے تمام اہم پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ جو سوالات آج کی نسل کو درپیش ہیں لینن کو بھی اپنی زندگی میں بڑی حد تک انہی سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے ان کا جواب دے کر آج کی نسل کے لیے راہ ہموار کی۔ اس کتاب میں لینن ازم کے مختلف پہلوؤں جیسے کہ انقلابی پارٹی کی تعمیر کیسے ممکن ہے اور پارٹی کے اخبار کی کیا اہمیت ہوتی ہے، محنت کش طبقے کی تحریکوں میں کیسے مداخلت کرنی ہے، محنت کش طبقے کا طبقاتی شعور کیا ہوتا ہے، سے لے کر مارکسزم کے فلسفے جدلیاتی مادیت پر کیسے عبور حاصل کیا جا سکتا ہے، قومی جبر سے چھٹکارا اور قومی نجات کیسے ممکن ہے، سامراج کا کردار کیا ہے اور اس کا ارتقا کیسے ہوا، محنت کش طبقے کی آمریت اور مزدور بین الاقوامیت سے کیا مراد ہے، جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس کتاب کو لکھنے کا مقصد محض علم میں اضافہ کرنا یا لینن نے جو لکھا اور کیا اس کی اندھی تقلید کرنا نہیں بلکہ لینن کے سائنسی میتھڈ کو جاننا ہے، جس کا استعمال کرتے ہوئے آج کے حالات کا درست تناظر پیش کیا جا سکتا اور کامیاب جدوجہد کی جا سکتی ہے۔

اس کتاب کے حوالے سے ایک اور پہلو اس کی ادبی تاثیر ہے۔ کتاب کو شاعری کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ لینن بذاتِ خود قاری سے ہم کلام ہے اور پڑھتے وقت لینن کی شخصیت اور اس کے نظریات قاری کے اندر جذب ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے خود اس کتاب کو پڑھتے وقت اپنے اندر تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد کفایت شعاری نہیں بلکہ لینن کے نظریات کو مزید جاننے کی پیاس بڑھتی ہے۔

آج ہم تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جس میں محنت کش طبقہ طبقاتی شعور حاصل کرتے ہوئے امیروں کے نظام سرمایہ داری کو للکار رہا ہے۔ پورے کرۂ ارض پر محنت کشوں کی ایسی تحریکیں ہیں جو اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا پوٹینشل رکھتی ہیں۔ جس طرح ایک بیج کو درخت بننے کے لیے مناسب ہوا، پانی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی ان تحریکوں میں سوشلسٹ انقلاب کا نظریہ پہنچانے کے لیے انقلابی پارٹی کا ہونا لازمی ہے۔

اس کے لیے بالشویک پارٹی کے رہنما لینن کی زندگی پر لکھی گئی کتاب ”روحِ عصر اور لینن ازم“ پڑھنا ہر سچے انقلابی کے لیے لازمی ہے تاکہ بالشویک پارٹی کے طرز کی پارٹی بنا کر اس انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور ریاست و منصوبہ بند معیشت کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

Comments are closed.