|تحریر: ثناء اللہ جلبانی|
اس وقت ایک طرف سماج میں بڑھتی بے روزگاری، لا علاجی، بھوک ننگ، غربت، محرومی اور معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے عوام کا جینا اجیرن ہوچکا ہے۔ لیکن دوسری طرف حکمرانوں، سرمایہ داروں اور امیروں کی ملکیت اور عیاشیوں میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دھرتی امیروں کے لیے جنت اور محنت کش عوام کے لیے جہنم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ پوری دنیا میں اس بڑھتی طبقاتی تفریق کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور محنت کش طبقہ احتجاجوں، تحریکوں، ہڑتالوں، بغاوتوں اور انقلابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔
لہٰذا اس وقت انسانیت کی وسیع اکثریت کو در پیش تمام مسائل سے نجات حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ نجات صرف خواہش رکھنے، محض دعائیں مانگنے یا کسی مسیحا یا نجات دہندہ کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے نہیں ملنی۔ اس کے لیے واضح اور درست سائنسی طریقہ کار کی ضرورت ہے اور ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تعمیر لازمی ہے جو اس تعفن زدہ سماج کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکے اور دنیا کو گلزار میں بدل ڈالے۔
کتاب ”بالشویزم: راہِ انقلاب“ ایک ایسی ہی انقلابی پارٹی کی تعمیر کی تاریخ ہے، جس نے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں 1917ء میں روس میں مزدور طبقے کے عظیم انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں روس سے سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا اور تمام ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے لیا گیا۔ منڈی کے انتشار کی بجائے منصوبہ بند معیشت کو تعمیر کیا گیا، جس کا مقصد سماج کی ضروریات پوری کرنا تھا نہ کہ منافع خوری۔ اس کے نتیجے میں مزدور انقلاب کے بعد ہر شہری کو معیاری تعلیم، صحت، گھر، کھانا اور دیگر تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی مزدور ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی جانے لگیں۔ اسی طرح اس انقلاب کے اثرات صرف روس تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ روس کا محنت کش طبقہ اور انقلاب کے قائدین اسے عالمی سوشلسٹ انقلاب کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھتے تھے۔ اس مزدور راج نے انسانی تاریخ میں پہلی بار تمام محرومیوں اور قلت کا مکمل خاتمہ کرنے کی راہ ہموار کر دی۔
حکمران طبقات تعلیم، میڈیا، روایات، مذاہب و اخلاقیات اور مختلف حربوں سے یہ سوچ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ طبقاتی تفریق، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لا علاجی اور جہالت کو کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عذاب ہمیشہ سے سماج میں موجود تھے اور ہمیشہ رہیں گے، نیز اذیت بھری زندگی محنت کش عوام کا مقدر ہے۔ لیکن یہ کتاب حکمرانوں کے پھیلائے ہوئے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو چیر کر حقیقت کو عیاں کر دیتی ہے اور حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے جابرانہ اقدامات کا توڑ اور محنت کشوں اور محکوموں کی شاندار جدوجہد کی تاریخ کے تمام ضروری اسباق سے قارئین کو روشناس کراتی ہے۔ پڑھنے والا جیسے ہی اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا جاتا ہے، ایک انقلابی دنیا اس کے سامنے کھلتی جاتی ہے۔ سماج میں موجود تماج غلاظتوں کا خاتمہ کرنے کا جذبہ بڑھتا جاتا ہے اور محنت کشوں کا انقلاب ایک لازمی حقیقت بن کر عین ممکن نظر آنے لگتا ہے۔ اس انقلاب کے لیے درکار انقلابی نظریات اور لائحہ عمل و طریقہ کار بھی واضح ہو جاتا ہے۔
انقلابی پارٹی کی تعمیر کیسے کی گئی؟
بالشویک پارٹی کی تعمیر کا طریقہ کار آج بھی دنیا بھر کے حکمرانوں، سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے اور محنت کشوں اور انقلابیوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ یہ کتاب محض اس انقلابی پارٹی کی تاریخ نہیں بتاتی بلکہ دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے آج کے اس فیصلہ کن وقت میں ایک روڈ میپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انقلاب کا کوئی شارٹ کٹ یا آسان راستہ نہیں ہوتا اور نہ ہی انقلابی پارٹی کی تعمیر کا کوئی لگا بندھا فارمولا ہے۔ اس کے لیے کئی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
اس کتاب میں تفصیل سے بالشویک پارٹی کی تعمیر کا میتھڈ اور ارتقاء کے مراحل بیان کیے گئے ہیں۔ چھوٹے سٹڈی سرکلز سے لے کر محنت کشوں کے اس عظیم انقلاب کو کامیاب کرانے تک یہ پارٹی کن پیچیدہ مراحل سے گزری اور کیسے نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی تربیت کی جاتی رہی؟ کب اس پارٹی کا کن حالات یا موضوعی غلطیوں کے کارن اثر و رسوخ کم ہوا اور کس عہد میں اور کیسے شاندار کامیابیاں حاصل کیں؟ انقلابی جدوجہد میں درست نظریات کتنے اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں؟ عملی جدوجہد کر کے احتجاجوں، ہڑتالوں اور تحریکوں میں کس طرح مداخلت کی اور بیک وقت نوجوانوں، طلبہ اور مزدور تحریک کو کمیونزم کے انقلابی نظریات پر کیسے جیتا اور منظم کیا؟ انقلابی پارٹی کی تعمیر میں پیشہ ور یا کل وقتی انقلابی کارکنان کیوں ضروری ہوتے ہیں؟ پابندی کے ادوار میں انڈر گراؤنڈ ہو کر کیسے جدوجہد جاری رکھی اور قدرے بہتر حالات میں کھل کر کام کرتے ہوئے کیا پالیسی و لائحہ عمل بنایا اور کیسے طریقہ کار بدلا جاتا رہا؟ سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ میں کب اور کیوں حصہ لیا اور کن وجوہات پر اس کا بائیکاٹ کیا؟ مرکزی انقلابی سیاسی اخبار کیوں ضروری ہوتا ہے؟ اس وقت کے دوسرے سیاسی رجحانات (جیسے کہ اصلاح پسندی، معیشت پسندی، انارکزم، انفرادی دہشتگردی وغیرہ) یا پارٹیوں سے بالشویکوں کے کیا اختلافات تھے اور ان پارٹیوں کے نظریات کیوں انقلاب کو کامیاب نہیں کروا سکتے تھے؟ پارٹی کی ممبر شپ کے لوازمات کیا معین کیے گئے اور پارٹی کے سٹرکچر میں جمہوری مرکزیت کو کیوں ضروری قرار دیا گیا؟ پارٹی کے لیے درکار فنڈ کیسے اور کس سے اکٹھا کیا جاتا تھا اور اس عمل کا پارٹی کی تعمیر میں کیا حصہ تھا؟ 1905ء کے انقلاب، اس کی ناکامی اور انقلاب کے بعد رد انقلاب کے سالوں سے کیا اسباق حاصل کیے گئے؟
انقلابی تحریک میں طلبہ، کسانوں اور محنت کشوں کا آپس میں کیا تعلق بنتا ہے اور کیا کردار ادا کرتا ہے؟ محنت کشوں کی انقلابی سوویتیں (کمیٹیاں) اور مزدور یونینز کیا ہوتی ہیں اور وہاں کیسے انقلابی نظریات پہنچائے جاتے ہیں؟ مزدور اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کیسے کی جاتی ہے؟ محنت کشوں کے فوری مسائل کے حل کی جدوجہد کو کیسے استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے جوڑنا ہے؟ مظلوم قومیتوں اور خواتین پر جبر سے مکمل نجات کیسے ممکن ہے؟ پہلی عالمی جنگ کے دوران قومی شاونزم اور نری امن پسندی کا مقابلہ کر کے مزدوروں کے بطور طبقہ عالمی جدوجہد (مزدور انٹرنیشنل) کا پروگرام کس طریقے سے پھیلایا گیا؟ لینن اور ٹراٹسکی کے اختلافات کی حقیقت کیا تھی اور پھر کیسے دونوں عظیم قائدین نے 1917ء میں سیاسی و تنظیمی طور پر متحد ہو کر انقلاب کی قیادت کی؟ کون سے اقدامات اٹھا کر 1917ء میں فروری انقلاب اور پھر اکتوبر انقلاب تک عوام کی اکثریت کو انقلابی نظریات پر جیتا گیا اور پھر کس طرح انسانی تاریخ میں پہلی بار مزدور راج قائم کیا گیا؟ کیسے انقلابی سرخ فوج تشکیل دے کر انقلاب کے دشمن 21 سامراجی ممالک کو شکست فاش دی گئی؟ یہ تمام اور دیگر کئی ایسے سوالات کے جواب اور اسباق اس کتاب کو ایک زندگی بدل دینے والا شاہکار بنا دیتے ہیں۔
اپنی زندگی کا آدھی صدی سے زائد عرصہ انقلابی جدوجہد میں صرف کرنے والے کامریڈ ایلن ووڈز کی اس کتاب نے دنیا بھر کے بے شمار انقلابیوں کی طرح میری زندگی میں بھی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس دور میں انقلابی جدوجہد کرنے والوں کی رہنمائی کے لیے یہ کتاب اس پارٹی کے انقلابی قائدین لینن اور ٹراٹسکی سمیت دیگر رہنماؤں کی تقاریر و کتابوں کے اقتباسات کے ذریعے قیمتی اسباق کے خزانے سے مالا مال ہے۔ بالخصوص مختلف ادوار میں ان انقلابیوں کی مختلف نظریاتی و لائحہ عمل کے موضوعات پر مباحث، پارٹی اجلاسوں اور کانگریسوں میں ہونے والی ڈسکشنز اور کاروائیاں دلچسپی سے خالی نہیں۔ یہاں کامریڈ یاسر ارشاد کی کاوشوں کو سراہنا بھی لازم ہے، جنہوں نے انتہائی محنت کے ساتھ اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے۔
آج کے انقلابیوں کے لیے بالشویزم کی تاریخ پڑھنا کیوں ضروری ہے؟
یقینا اس پارٹی کے مختلف مواقع پر کیے جانے والے فیصلوں یا حکمت عملیوں کو ویسے ہی جوں کا توں ایک فارمولے کے طور پر آج کے حالات و واقعات پر لاگو کر کے پارٹی نہیں بنائی جا سکتی لیکن بالشویزم کی تاریخ سے عمومی اصول اور میتھڈ اخذ کر کے کمیونزم کے انقلابی نظریات پر گرفت رکھنے والی ایک لڑاکا نئی نسل کھڑی کی جا سکتی ہے۔ جو موجودہ معروضی حالات اور مزدور تحریک کا درست تجزیہ کر سکتی ہو اور اس کو آگے کا انقلابی راستہ بھی فراہم کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ ایسے انقلابی کیڈرز جوبیک وقت مزدور تحریک میں عملی مداخلت کرتے ہوئے اس کو آگے بھی بڑھا رہے ہوں اور مسلسل بڑی سے بڑی تعداد کو منظم کر رہے ہوں، ان کی سیاسی و نظریاتی تربیت کر رہے ہوں، ان میں قائدانہ صلاحیتیں پروان چڑھانے میں مدد کر رہے ہوں اور اس طرح کے اپنے سے بہتر نئے انقلابی کیڈرز بنانے کے قابلیت بھی رکھتے ہوں۔ بالشویزم کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار کامیابی سے طبقاتی سماج کا خاتمہ کر کے مزدور ریاست قائم کی گئی تھی، اب پوری دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کے لیے اس پارٹی سے لازمی اسباق حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے تمام انقلابیوں کو یہ کتاب ”بالشویزم: راہِ انقلاب“ ضرور پڑھنی چاہئے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی امیروں کے نظام سرمایہ داری سے تنگ آ چکا ہے اور جدوجہد کے میدان میں اتر چکا ہے۔ اس نظام کے خلاف اس وقت ملک میں شاندار عوامی تحریکیں جاری ہیں اور آنے والے عرصے میں اس سے بلند معیار کی محنت کش عوام کی عظیم الشان انقلابی بغاوتیں ہوں گی۔ جن کے تحت سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کر کے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے 1917ء میں روس میں محنت کشوں کے عظیم انقلاب کو کامیاب کرنے والی انقلابی پارٹی کے جیسی انقلابی پارٹی کی تعمیر اس وقت انقلابیوں کا اہم فریضہ ہے۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بن کر اس تاریخی جدوجہد کا حصہ بنیں۔