ری ویو: میکسم گورکی کا ناول ”ماں“

|تبصرہ: سلمیٰ ناظر|

ناول ”ماں“ کے لکھاری میکسم گورکی کا تعلق روس سے تھا اور وہ انقلابی نظریات رکھنے والے سوشلسٹ تھے۔ میکسم گورکی اور انقلاب ِروس کے رہنما لینن کے خیالات ابتدا ہی سے کافی میل کھاتے تھے، لہٰذا انقلابی کام اور انقلابی خیالات میں اور ذاتی طور پر بھی لینن ان کے قریبی دوست، معلم اور رہنما بن گئے۔

میکسم گورگی نے یہ ناول 1906ء میں لکھا اور یہ 1907ء میں روسی زبان میں شائع ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک یہ 38 غیر ملکی زبانوں میں سینکڑوں بار شائع ہو چکا ہے۔ سوویت یونین میں اس کے 197 ایڈیشنوں کی 64 لاکھ 54 ہزار کاپیاں شائع ہوئیں۔

آج کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ ناول عالمی ادب میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ روس میں 1905ء میں رونما ہونے والے انقلاب نے میکسم گورگی کو یہ عظیم ناول لکھنے کی تحریک بخشی۔ یہ کہنا شاید مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ گورکی کا یہ ناول روس کے محنت کشوں کے دلوں میں 1917ء کے عظیم اکتوبر انقلاب کی امنگیں جگانے میں اپنی ایک تاریخی اور سماجی اہمیت رکھتا ہے۔

اپنی ایک گفتگو میں لینن نے گورکی سے ناول ”ماں“ کے بارے میں کہا، ”یہ کتاب ضروری ہے، بہت سے مزدور بلا سمجھے بوجھے، فطری طور پر انقلابی تحریک میں حصہ لے رہے تھے اور اب وہ ”ماں“ پڑھیں گے جو ان کے لیے بہت مفید ہے۔ بہت ہی بروقت کتاب ہے۔“

گورکی کے ڈرامے ”پاتال“ (The Lower Depths)کی طرح اس ناول کو بھی اس قدر پذیرائی ملی کہ عالمی ادب کی ساری تاریخ میں ایسا کوئی ادبی شاہکار نہیں ملتا جس کے قارئین کی اتنی کثیر تعددا ہو اور جس نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر اتنا گہرا اور زبردست اثر ڈالا ہو جتنا کہ گورکی کے اس ناول نے ڈالا ہے۔

یہ ناول روس کے محنت کش طبقے اور کسانوں کی گھٹن زدہ زندگیوں اور اسے بدلنے کے لیے روس کے انقلابیوں اور محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔ محنت کش اور کسان جو دن رات محنت کرنے کے بعد بھی مفلسی، لاچارگی اور بیماریوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے مالکان اور آقا ان کی محنت کو لوٹ کر عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

ناول کے انقلابی نوجوانوں کے کردار اپنی ذلت آمیز زندگی سے تنگ آ کر اور زندگی سے سیکھ کر اسے بدلنے کی خاطر انقلابی جدوجہد کا راستہ اپناتے ہیں۔ اس ناول کا کردار پاویل ولاسوف اور اس کے دوسرے نوجوان انقلابی ساتھی محنت کش طبقے کے نظریات اور ان کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، محنت کش طبقے کے نظریات ان کے پاس لے کر جاتے ہیں، انہیں منظم کرتے ہیں، ان نظریات کے ذریعے ان کا اعتماد جیتتے ہیں، محنت کشوں اور کسانوں اور باقی نوجوانوں کو اس طبقاتی لڑائی کے لیے تیار کرتے ہیں اور انقلابی نظریات سے ان کے دماغوں کو مسلح کرتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان انقلابیوں نے بنی نوع انسان کے دکھ درد کے اصل سبب کا پتہ چلا لیا ہو اور اس سبب کے خاتمے کے لیے جدوجہد اور محنت کشوں پر ان کا اعتماد اتنا پُر جوش اور دل آویز نظر آتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اس عظیم مقصد کے لیے زار حکومت کے مظالم، ریاستی جبر، قید و بند کی صعوبتیں، جلا وطنی اور کسی بھی قسم کے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

گورکی نے اپنے ناول کا بنیادی کردار نیلوونا یعنی ماں (جسے ناول کے کردار محبت میں ننکو کہہ کر بھی پکارتے ہیں) کو سونپا ہے۔ ایک معمولی مزدور عورت جو آغاز میں بے حد کمزور اور لاچار نظر آتی ہے۔ جو گھریلو جبر کی ماری ہے اور اس کا شرابی خاوند روز نشے میں دھت ہو کر اسے پیٹتا ہے۔

ماں اسی زندگی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیتی ہے۔ وہ روس میں خواتین کی حالت زار کی عکاسی کرتی ہے جو زار شاہی کے تسلط میں بھیانک جبر و تشدد کا شکار تھیں۔ لیکن جب اس کا بیٹا پاویل اس طریقہئ زندگی کو ٹھکرا کر انقلابی بن جاتا ہے تو اس کی ماں بھی بیٹے کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی ہے۔

ناول میں ماں کی راہ مزدور طبقے کی انقلاب کی راہ ہے۔ صرف انقلابی جدوجہد میں قدم رکھنے کے بعد ہی ناول کے اختتام میں ”ماں“ یہ نعرہ لگانے کا حق حاصل کر لیتی ہے، ”تم میری زندہ روح کو قتل نہیں کر سکتے! خون کا ساگر بھی صداقت کو نہیں ڈبو سکتا!“

آج بھی محنت کش طبقہ سرمایہ داری میں پس رہا ہے اور پوری دنیا میں طبقاتی جنگ کا نقارہ بج چکا ہے۔ اس انقلابی عہد میں ہر مزدور اور نوجوان جو اپنی زندگی سے تنگ آ چکا ہے اور اس نظام کے خاتمے کا انقلابی عزم اپنے اندر رکھتا ہے اسے گورکی کے اس عظیم ناول کا لازمی مطالعہ کرنا چاہیے۔

محنت کش طبقہ، جس کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور پانے کو سارا جہاں ہے، پوری دنیا میں تیزی کے ساتھ متحرک ہو رہا ہے۔ اس ناول کو پڑھنے والا ہر قاری اس مسلمہ حقیقت کی صداقت کو اپنے دل میں لازماً محسوس کرتا ہے کہ اگر انسان کے پاس جینے کے لیے کوئی بڑا مقصد ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکنے، تھکے اور رکنے پہ مجبور نہیں کر سکتی۔

دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

سچے جذبوں کی قسم آخری فتح ہماری ہی ہو گی!

Comments are closed.