|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس ملتان کے مرکزی رہنما راول اسد کی بغاوت اور غداری کے جھوٹے مقدمات میں گرفتاری اور جیل بھیجے جانے کے خلاف لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں پنجاب یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ساتھ دیگر ترقی پسند تنظیموں کے وفود اور سماجی کارکنان نے بھی شرکت کی جن میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو، این ایس ایف آزاد، ریوولوشنری سوشلسٹ موومنٹ، مزدور کسان پارٹی اور دیگر شامل تھے۔ مظاہرین نے راول اسد کی جھوٹے مقدمات میں گرفتاری اور ضمانت میں تاخیری حربوں کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ راول کو فی الفور رہاکیا جائے۔ مظاہرین نے ریاستی غنڈہ گردی کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور کہاکہ ریاستی جبر ہمیں اپنے حقوق کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکتا۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے رہنما رائے اسد نے کہا کہ راول اسد کو 5فروری کو پروفیسر ارمان لونی کے بہیمانہ قتل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی پاداش میں گرفتارکیا گیا تھا جس کے بعد مجسٹریٹ نے قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ جبکہ اسی کیس میں نامزد دیگر افراد کو ضمانت قبل از گرفتاری دے دی گئی۔ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ پرامن سیاسی کارکن اور طلبہ اور مزدوروں کےحقوق کے لیے آواز بلند کرنےوالوں کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر راول کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ۔ اگلے روز مجسٹریٹ نے درخواست ضمانت کی سماعت سے انکار کردیا۔ اس کے بعد سے راول اسد جیل میں ہے اور تاحال ضمانت کی درخواست منظور نہیں کی گئی۔ پروگریسو یوتھ لائنس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ راول اسد کو فی الفور رہا کیا جائے اور جھوٹے مقدمات کا خاتمہ کیا جائے۔
حیدر بٹ، احمد خان اور شہزاد ارشد نے اپنے خطاب میں کہا کہ راول اسد کی گرفتاری اس امر کا واضح اظہار ہے کہ ریاست جمہوری آئینی حقوق سلب کرنا چاہتی ہے۔ راول اسد کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ فیسوں میں اضافے کے خلاف اور طلبہ یونین بحالی کے لیے طلبہ کو منظم کررہا تھا۔ راول کا جرم یہ تھا کہ وہ عوامی اداروں کی نجکاری کے خلاف آواز بلند کرتا تھا اور مزدوروں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ لڑتا اور ایک ادارے کے مزدوروں کی بات دوسرے ادارے کے مزدوروں تک لے کر جاتا تھا۔ وہ مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، نجکاری، دہشت گردی کے خلاف طلبہ اور محنت کشوں کو منظم کر رہا تھا ۔ اسی بنیاد پر راول کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا کر ریاست یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس ملک میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا جرم بن چکا ہے۔ جس آئین اور قانون کی بالادستی کا راگ یہ حکمران دن رات الاپتے ہیں خود ہی اس کی دھجیاں بھی اڑاتے ہیں۔ سینکڑوںمعصوم لوگوں کا قاتل راؤ انوار آزاد ہے اور اس کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے جبکہ پرامن سیاسی کارکنان کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ یہ اس قانون اور آئین کی بالادستی بات کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
ریاست پاکستان کے آئین کے مطابق پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے۔مگر یہ ریاست اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے جہاں ایک طرف نہتے شہریوں کو دن دیہاڑے گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں تو دوسری جانب جب محنت کش عوام اور طلبہ درپیش مسائل کے خلاف اپنے پر امن احتجاج کے بنیادی آئینی حق کو استعمال کرتے ہیں توان پر جھوٹی اور بے بنیاد دفعات لگا کر مقدمات درج کردیے جاتے ہیں۔ عوام کی ایک بھاری اکثریت روٹی، کپڑے ، مکان، علاج ، تعلیم، بجلی، پانی اور دیگر بنیادی انسانی سہولیات سے ویسے ہی محروم کردی گئی ہے اور جب وہ حالات سے مجبور ہو کر اپنے جائز حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں تو ان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات میں اندر کر دیا جاتا ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ پروگریسو یوتھ الائنس پورے پاکستان میں مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے رہنما کی جھوٹے مقدمات میں گرفتاری ملک بھر کے نوجوانوں اور محنت کش عوام کے جمہوری حقوق پر حملے کے مترادف ہے ۔ راول اسد کی رہائی اور جھوٹے مقدمات کے خاتمے تک احتجاجی تحریک جاری رہے گی اور اس تحریک کو طلبہ اور محنت کشوں کی وسیع اکثریت تک لے کر جائیں گے۔