|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
6مئی بروز سوموار سروسز ہسپتال لاہور میں شعبۂ صحت پنجاب کے ملازمین کی نما ئندہ تنظیموں پر مشتمل نجکاری مخالف اتحاد، ”گرینڈ ہیلتھ الائنس“ کا پہلا باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، درجہ چہارم پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن، ہیلتھ پروفیشنلز الائنس، ینگ نرسز ایسوسی ایشن اور ہیلتھ سپورٹ سٹاف ایسوسی ایشن سمیت شعبۂ صحت کی تقریباً تمام تنظیمیں اس اتحاد یعنی جی ایچ اے کا حصہ ہیں۔ اس الائنس کا قیام ’ایم ٹی آئی ایکٹ،نامنظور!‘کے ون پوائنٹ ایجنڈے کے گرد ہوا ہے اور اپنے پہلے اجلاس میں الائنس میں شامل تمام تنظیموں نے سو فیصد اتفاق رائے کیساتھ نجکاری مخالف تحریک کو آگے بڑھانے کا مشترکہ اعلان کیا ہے۔ اس اجلاس کے بعد اگلے دو دنوں میں صوبے بھر کے تمام بڑے ہسپتالوں میں ہسپتال کی سطح پر جی ایچ اے کے مقامی اجلاس بھی ہوئے جن میں لاہور میں ہونے والے مرکزی اجلاس کے ایجنڈے اور نجکاری مخالف تحریک کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا گیا۔
ہم اس الائنس کے قیام پر شعبۂ صحت کے تمام ملازمین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ایک نہایت ہی خوش آئند، اہم اور ترقی پسندانہ قدم ہے۔ اس الائنس کے تشکیل پاتے ہی حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی جس کا واضح اظہار الائنس کے مرکزی اجلاس کے دوران ہی حکومت کی طرف سے موصول ہونے والی مذاکرات کی دعوت ہے۔ مگر مذاکرات کی اس دعوت کے اند ر ہی مستقبل کے خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔ مزدور تحریک کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قیادتوں نے کئی مرتبہ محنت کشوں کی جرأت وقربانیوں کی بدولت زمین پر جیتی ہوئی لڑائیاں مذاکرات کی میز پر اپنی غداریوں، مفاد پرستی، بزدلی اور حماقتوں کے باعث ہاری ہیں۔ پاکستان میں بھی پی ٹی سی ایل کی نجکاری مخالف تحریک سمیت دیگر کئی تحریکوں کیساتھ یہی ظلم ہوا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ گرینڈ ہیلتھ لائنس کی قیادت اس تمام تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے شعبۂ صحت کے ملازمین کیساتھ مخلص رہے گی اور اس نجکاری مخالف تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرے گی۔
اس حوالے سے ایک نہایت اہم امر خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ یقینی طور پر حکومت کی طرف سے آنے والی مذاکرات کی دعوت کا مقصد قیادتوں کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ ایم ٹی آئی ایکٹ کو چند ترامیم کیساتھ قبول کر لیں۔ غالب امکانات تو یہ ہیں کہ یہ ترامیم نہایت کاسمیٹک نوعیت کی ہوں گی لیکن ہو سکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی تحریک کے دباؤ کے تحت حکومت واقعی چند ایک ٹھوس ترامیم کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت تحریک سے خوفزدہ ہو کر وقتی طور پر ایکٹ میں شامل سرکاری ملازمت کے خاتمے والی شقوں سے پیچھے ہٹ جائے تا کہ اسے قابل قبول بنایا جا سکے۔ ان ترامیم کے ساتھ حکومت الائنس کی قیادت پر ایکٹ کو قبول کرنے کے حوالے سے زبردست مذاکراتی دباؤ ڈال سکتی ہے اور یہی مرحلہ قیادت کا اصل امتحان ہو گا۔ قیادت کو بالکل واضح طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب نام نہاد ترامیم وغیرہ ایک دھوکے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ ایک دفعہ اگر ترمیم شدہ ایکٹ منظور ہو کر لاگو ہو گیا تو حکومت خاموشی سے کچھ عرصہ تحریک کے ٹھنڈے پڑنے اور حالات کے معمول پر آنے کا انتظار کرے گی اور پھر کسی دن اچانک شب خون مارے گی۔ ایکٹ تو پہلے ہی نافذ العمل ہو گا، قانون سازی کے اختیارات بھی بورڈ آف گورنرز کے پاس ہوں گے، لہٰذا ایکٹ میں دوبارہ ترامیم کر کے کسی بھی قسم کی ملازم یا عوام دشمن تبدیلیاں کرنا حکومت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔
یاد رہے کہ تحریکیں روز روز نہیں بنا کرتیں اور ہو سکتا ہے کہ ملازمین اس اچانک حکومتی حملے کے مقابلے میں دوبارہ ایک نجکاری مخالف تحریک برپا نہ کر سکیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جی ایچ اے کی قیادت موجودہ تحریک کو ہی فیصلہ کن انجام تک پہنچائے اور اس مقصد کے لئے لازمی ہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کو یکسر اور مکمل طور پر مسترد کرنے کا مؤقف دو ٹوک انداز میں پیش کیا جائے۔اس سلسلے میں معمولی سا ابہام بھی تحریک کے لئے زہر قاتل ثابت ہو گا۔
اس کے علاوہ لازمی ہے کہ جی ایچ اے کی قیادت ایک طرف تو عوام میں ایم ٹی آئی ایکٹ کے حوالے سے ایک بھر پور آگہی مہم چلائے اور دوسری طرف نجکاری کے نشانے پر موجود دیگر سرکاری اداروں کی مزدور تنظیموں اور یونینوں کیساتھ رابطے میں آتے ہوئے ایک وسیع تر نجکاری مخالف اتحاد تشکیل دینے کی طرف قدم بڑھائے تا کہ ایک مشترکہ جدوجہد کا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہوئے نجکاری کی اس مزدور دشمن پالیسی کامکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکے۔ریڈ ورکرز فرنٹ اس نجکاری مخالف جدوجہد میں شعبہ صحت کے ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔