1968-69ء کے انقلاب کی نصف صدی کے موقع پر پاکستان میں اصلاح پسند ی یا ریفارم ازم کے نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔فراڈ انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والا عمران خان ایک دائیں بازو کے ریفارم اسٹ پروگرام کے ذریعے عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔انتخابات سے قبل اس نے پہلے سو دن کے پروگرام کا اعلان کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرے گا جبکہ غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کرپشن کے خاتمے کا واویلا کیا جا رہا ہے جبکہ حکمرانوں کی جانب سے سادہ زندگی گزارنے کے ناٹک کی بھی میڈیا پر زور و شور سے تشہیر جاری ہے۔ درمیانے طبقے کے ایک مخصوص حصے نے اس پروگرام سے امیدیں بھی وابستہ کر لی ہیں اور تبدیلی کے نعروں پر یقین کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں اصلاح پسندی کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاح پسندی کا نعرہ بالکل بھی نیا نہیں اور ایک صدی سے زائد عرصے سے دنیا بھر میں اس نعرے کو متعدد دفعہ استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے غیر معمولی معاشی عروج کے باعث اس نعرے کو سماجی بنیادیں ملنی شروع ہوئیں ۔ مغربی دنیا میں سوشلزم کے نظریات کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور مزدور تحریک کے دباؤ کے نتیجے میں جب فلاحی ریاست کا آغاز ہوا تو پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں نے زیادہ بڑے پیمانے پر اصلاح پسندی کو اپنانے کا درس دینا شروع کر دیا۔ اس نظریے کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے اور اس کی جگہ سوشلسٹ مزدور ریاست قائم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ایسی اصلاحات کی جا سکتی ہیں جن سے عوام کے معیار زندگی کو بہتر کیا جا سکے اورانہیں بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی استواری کے بعد ان نظریات کو زیادہ شدت سے مسلط کیا گیا اور ترقی پذیر ممالک کے سابقہ بائیں بازو کو این جی اوز کی غلاظت میں دھکیل دیا گیا۔اس عمل کے ذریعے بھی اصلاح پسندی کے نظریات کو سماج کے مختلف شعبوں میں سرایت کرنے کا موقع ملا اور افق پر موجود تمام تر حاوی سیاست ان نظریات کی پیروکار بن گئی۔ لیکن اس دوران اصلاحات کے نام پر رد اصلاحات کا آغاز کیا گیااور عوام کی ماضی میں حکمران طبقے سے چھینی گئی سہولیات جبراً واپس لینے کے عمل کا آغاز ہوا۔ نجکاری ، ڈاؤن سائزنگ، لبرلائزیشن اور دوسرے ایسے ناموں کے ذریعے اصلاحات کے نام پر محنت کش طبقے پر بد ترین حملے کیے گئے اور ان کے یونین سازی اور ہڑتال جیسے بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی کی گئی۔
پاکستان میں بھی یہ عمل پوری شدت کے ساتھ جاری رہا۔ 69-1968ء کے انقلاب کے بعد پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں جوحقیقی اصلاحات کی گئیں تھیں وہ ایک ایک کر کے واپس لی جانے لگیں اور محنت کش طبقے کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا گیا۔ طلبہ یونین پر بھی ضیا دور میں عائد پابندی کو جاری رکھا گیا اور دیگر عوام دشمن اقدامات کو پوری قوت سے مسلط کیا گیا۔
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بھی سرمایہ داری کے گھناؤنے چہرے سے فلاحی ریاست کا نقاب تیزی سے اترنا شروع ہوا اور محنت کش طبقے پر کٹوتیوں کے بد ترین حملے کیے گئے۔ ان ممالک میں بھی تعلیم ، صحت اور عوام کے لیے دیگر بنیادی سہولیات چھیننے کے عمل کا آغاز ہوا اور اصلاح پسندی کے نظریات کی عوامی حمایت کا خاتمہ ہوتا ہوا نظر آیا۔وہ تمام سیاسی ڈھانچہ جس کا مرکز اصلاح پسند نظریات رکھنے والی پارٹیاں تھیں وہ ڈھانچہ ہی زمین بوس ہوتے ہوئے نظر آیا اور اس کی جگہ ایسی سیاسی پارٹیاں لیتی ہوئی نظر آئیں جو دائیں یا بائیں جانب انتہائی اقدامات کا پروگرام دے رہی تھیں۔
آج اس مالیاتی بحران کی ایک دہائی گزرنے کے باوجود اس کی شدت میں کمی نہیں آئی بلکہ ایک نئے عالمی معاشی بحران کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ایسے میں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے عوام کی بہتری کے لیے اصلاحات کی گنجائش مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے بلکہ اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے حکمرانوں کوعوام کے معیار زندگی پر ہر جگہ مزید حملے کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارملک کی صورتحال کئی گنا زیادہ بد تر ہے اور یہاں معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر لڑکھڑا رہی ہے۔ملک کا تجارتی، کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارہ انتہاؤں کو چھو رہا ہے جبکہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں۔ سامراجی قرضوں کے بوجھ تلے پسی ہوئی معیشت میں بہتری کا خواب دکھانا ایک بہت بڑا فریب اور دھوکہ ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر اقتدار سنبھالتے ہی نجکاری کے بہت بڑے حملے کی نوید سنا چکا ہے جس کے مطابق دو سو اداروں کی تیز ترین نجکاری کی جائے گی۔پہلے بھی اس پالیسی سے لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے ہیں اور آنے والے عرصے میں اس سے بھی زیادہ بیروزگار ہوں گے۔ ایسے میں موجودہ حکومت روزگار فراہم کرنے کی بجائے ایک کروڑ روزگار چھینتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح سامراجی مالیاتی اداروں سے بھیک نہ مانگنے کا نمائشی اعلان کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے سخت شرائط پرسودی قرضوں کے حصول کی تیاری کی جا رہی ہے۔ چین سے مزید بھاری شرح سود پر قرضوں کا حصول بھی جاری رہے گا۔ان سامراجی قرضوں کی شرائط پوری کرنے کے لیے مہنگائی کے مزید حملے کیے جائیں گے اور صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی پر بڑے پیمانے پر مزید کٹوتی لگائی جائے گی۔فوج کی بیساکھیوں پر قائم حکومت کو فوجی اخراجات میں ناگزیر طور پر اضافہ کرنا پڑے گا جس سے خسارے کم ہونے کی بجائے بڑھیں گے۔ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بھی محض ایک فریب ہے ۔زوال پذیر معیشت اور ریاستی بحران میں اس نعرے کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا اورصرف سیاسی مخالفین کیخلاف انتقامی کاروائی کے لیے اور ان کی وفاداریاں اپنی جانب تبدیل کروانے کے لیے اس کو استعمال کیا جائے گا ۔ کرپشن اس ریاست کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اوراسے ختم کرنے کے لیے اس ریاست کو ختم کرنا پڑے گا جو کہ نہ تو ان حکمرانوں کا مقصد ہے اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔
ایسے میں اصلاح پسندی کے حامی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عوام کو صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے اور تبدیلی ایک طویل وقت میں بتدریج اپنے اثرات مرتب کرے گی۔جبکہ عوام تو کئی نسلوں سے اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں جو مسلسل ان سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔لیکن اس کے باوجودعوام اپنے معیار زندگی میں ہونے والی معمولی سی بھی بہتری کو خوش آمدید کہیں گے اور اس کی حمایت کریں گے۔حکمران اگر واقعی سادہ زندگی گزارنا شروع کرتے ہیں تو یہ بھی علامتی طور پر ہی سہی لیکن ایک بہتر اقدام ہو گا۔لیکن اس نظام کی بوسیدگی اور ماضی کے تجربات سے واضح ہے کہ آج اس طرح کے اقدامات کی بھی گنجائش موجود نہیں۔ ماضی کے کرپٹ ترین افراد پھر اہم وزارتوں پر براجمان ہیں اور عنان اقتدار محنت کشوں کے حقیقی نمائندوں کی بجائے حکمران طبقے کے ہی مختلف افراد یا ان کے دلالوں کے پاس ہے۔ایسے میں کسی قسم کی حقیقی اصلاحات کی معمولی سی بھی گنجائش موجود نہیں۔
مارکسی نظریات کے حامل افراد کبھی بھی حقیقی اصلاحات کی مخالفت نہیں کرتے لیکن اصلاح پسندی کے نظریات کیخلاف ان کی ناقابل مصالحت جنگ ہے۔آج اس سماج میں اصلاح پسندی کے نظریات کو دیر پا عوامی حمایت نہیں مل سکتی اور جلد یا بدیر عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے انتہائی اقدام اٹھانے کی جانب بڑھیں گے۔ایسے میں ایک انقلاب کے ذریعے سماج کی مکمل سوشلسٹ تبدیلی ہی ان کو غربت، بیروزگاری، بیماری اور جہالت کی زندگی سے نجات دلا کر ان کا دامن خوشیوں سے بھر سکتی ہے۔