|تحریر: پارس جان|
آج صبح اٹھنے کے کچھ دیر بعد ہی یہ افسوسناک اور دلسوز خبر سننے کو ملی کہ کامریڈ جام ساقی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ چند روز قبل جب کراچی سچل گوٹھ میں کامریڈ رمضان کی رہائش گاہ پر دیگر کامریڈوں کے ہمراہ کامریڈ جام ساقی کی عیادت کے لیے جانا ہوا تھا تو تبھی سے یہ اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ یہ دردناک خبر کسی بھی وقت موصول ہو سکتی ہے۔ ان کی حالت بہت زیادہ خراب تھی اور وہ مجھے اور دیگر ساتھیوں میں سے کسی کو بھی پہچان نہیں پا رہے تھے۔ لیکن ایسی کیفیت میں بھی ان کو محض یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ کچھ انقلابی ساتھی ان سے ملنے آئے ہیں۔ اتنی تکلیف کی شدت میں بھی نہ پہچاننے کے باوجود انہوں نے جسم کی ساری توانائی کو مجتمع کر کے ہمارے لیے چند مسکراہٹیں چہرے پر بکھیر ہی لیں۔ وہ نا قابلِ فراموش با وقار اور پر تپاک مسکراہٹیں ان ر شتوں کی صداقت اور ان جذبوں کی لطافت کی آئینہ دار تھیں جن کا آج کے نام نہاد مابعد جدید عہد کی حاوی ثقافت میں تصور بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔ کامریڈ جام ساقی محض ایک فرد نہیں تھے، بلکہ مظلوموں، لاچاروں اور پسے ہوئے طبقات کی اپنے سیاسی و معاشی حقوق کے لیے جدوجہد کے نشیب وفراز کی طویل داستان کے مرکزی کردار بھی تھے۔ اس نام نہاد مملکتِ خداد اد میں اتنی بھرپور، سنسنی خیز، با مقصد اور قابلِ فخر زندگی شاید ہی کسی نے گزاری ہو۔ ہم ان کی وفات پر ان کے اہلِ خانہ اور بالخصوص ان کے بیٹے کامریڈ سارنگ جام کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ، جنہوں نے کامریڈ جام ساقی کے آخری ایام میں ان کی دیکھ بھال اور تیمارداری کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ کامریڈ جام ساقی طبقات سے پاک معاشرے کے قیام کی امید، لگن اور جستجو بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔
جام ساقی کا انتقال 74 برس کی عمر میں ہوا۔ وہ 31 اکتوبر کو پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے تھرپارکر کی تحصیل چاچھرو کے گاؤں جھنجھنی میں ایک اسکول ماسٹر کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب بھی ترقی پسند سوچ رکھتے تھے۔ اپنے والد اور ان کے دوستوں سے ہی انہیں روس کے انقلاب اور مارکسی نظریات کے بارے میں ابتدائی معلومات میسر آئیں۔ 1961ء میں جام کی ملاقات زیرِ زمین کمیونسٹ پارٹی کے ایک سرگرم رکن استاد عنایت اللہ سے ہوئی اور مارکسی نظریات سے ابتدائی تعارف تجسس اور سماج کی تبدیلی کے عزم میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ حیدر آباد کالج میں داخلہ لینے کے فوری بعد سے ہی عملی طلبہ سیاست کا حصہ بن گئے۔ ان دنوں میں ون یونٹ کے قیام کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ جام ساقی نے ون یونٹ کے خلاف ایک پمفلٹ بھی تحریر کیا جس پر فوجی حکومت کی طرف سے پابندی عائد کر دی گئی۔ 1964ء میں انہوں نے حیدرآباد سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ جام کی انہی سرگرمیوں کے باعث ان کے والد صاحب سے ان کے تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے اور انہیں انتہائی مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی بھی خاندان کے روایتی دباؤ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بھی ایوب آمریت کے خلاف طلبہ کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا۔ حکمران طبقات کے داخلی تضادات کے نتیجے میں جب ذولفقار علی بھٹو نے ایوب کابینہ کو خیر باد کہہ کر ترقی پسند سیاست کا نعرہ لگایا تو حیدر آباد سٹوڈنٹس فیڈریشن نے بھٹو کو اپنے کنونشن میں مدعو کیا لیکن بھٹو نے ون یونٹ کے خلاف کوئی بات نہ کی جس کے باعث جام ساقی بھٹو سے ناراض ہو گئے۔ اس کے بعد بھٹو فیڈریشن کے آئندہ اجلاس کے مہمانِ خصوصی بننے کے خواہشمند تھے مگر جام ساقی نے ان کی شدید مخالفت کی۔ میر رسول بخش تالپور کے اصرار پر بھٹو کو مہمانِ خصوصی بنا دیا گیا۔ تقریب کے بعد رسول بخش پلیجو کے گھر پر بھٹو نے جام ساقی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ’جام میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا ‘۔ بھٹو واقعی جام ساقی کے اس احسان کو بھلا نہیں پائے اور اقتدار میں آتے ہی جام ساقی کو گرفتار کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔
جام ساقی سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ 1966 ء میں پہلی بار جیل گئے اور اس کے بعد یہ سلسلہ کبھی بند ہی نہیں ہوا۔ 60ء کی دہائی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن پر لگنے والی پابندی کے بعد نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جھنڈے تلے ترقی پسند طلبہ کی جدوجہد جنگل کی آگ کی طرح ملک کے طول وعرض میں پھیل چکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی اور مزدور کسان پارٹی کی سماجی بنیادیں دن بدن بڑھتی جا رہی تھیں۔ کسانوں میں فعال ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تھیں اور مزدوروں میں کمیونسٹوں کا سیاسی غلبہ تھا۔ خاص طور پر کراچی اور لائلپور کی مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینوں میں کمیونسٹ قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے۔ جام ساقی بھی اپنی نوعمری میں ہی اس تحریک کے سرگرم رکن بن گئے تھے۔ مگر بدقسمتی سے سوویت بیوروکریسی کے زیرِ اثر یہ تحریک عین اپنے شباب کے دنوں میں نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار ہو کر منتشر ہونا شروع ہو گئی تھی۔ چینی اور سوویت بیوروکریسی کی خارجہ پالیسیوں کے ٹکراؤ نے ماؤ نواز اور ماسکو نواز دھڑے بندی کو جنم دیالیکن دونوں دھڑوں کی نظریاتی اساس ایک ہی تھی جو سٹالن کا ردِ انقلابی مرحلہ وار انقلاب کا نظریہ تھا۔ مزدور، کسان اور طلبہ جب سڑکوں، تعلیمی اداروں، کھلیانوں اور کارخانوں میں سوشلسٹ انقلاب کے نعرے بلند کر رہے تھے تو کمیونسٹ ماسکو اور بیجنگ سے ملنے والے احکامات بجا لاتے ہوئے ’جمہوریت، جمہوریت ‘ کھیل رہے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ کھیل آج بھی جاری ہے اور محنت کشوں کی چوتھی نسل ایک بار پھر اپنے اجداد کی روایت کو دہراتے ہوئے تاریخ کے عملی میدان میں کودنے کی تیاری کر رہی ہے۔ جام ساقی نے بعد ازاں بارہا کمیونسٹ پارٹی کی اس وقت کی پالیسیوں کے کھوکھلے پن اور نظریاتی دیوالیہ پن کو تسلیم کیا اورایک بار IMT کے پاکستانی سیکشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر اس وقت لیون ٹراٹسکی کے عظیم نظریات ہم تک پہنچ جاتے تو اس ملک کی تاریخ یکسر مختلف ہوتی‘۔
جام ساقی کے مذکورہ بالا الفاظ میں کسی قسم کا کوئی مبالغہ شامل نہیں ہے۔ معروض مکمل طور پر انقلابی تھا اور کمیونسٹوں کے پاس اتنی افرادی قوت موجود تھی کہ وہ اس انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے دانستہ طور پر بالکل ویسے ہی تحریک کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دی جیسے ہمسایہ ملک ایران میں 12 سال بعد خمینی کو انقلاب پلیٹ میں رکھ کر دے دیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی انقلابی نعرے بازی سے سیاسی خلا کو پر کیا اورشکست خوردہ ریاست کو از سرِ نو منظم کرتے ہوئے مزدوروں، کمیونسٹوں اور قوم پرستوں پر عسکری چڑھائی شروع کر دی۔ عوام پسپا ہوئے تو اسی ریاست نے بھٹو کو اس ’تاریخی فریضے ‘ کی سرفرازی پر انعام و اکرام سے نوازا اور اپنا ’تاریخی فریضہ ‘ سر انجام دیتے ہوئے بھٹو کو قتل کر دیا۔ بھٹو کے سارے حواری جاگیردار اور سرمایہ دار فوراً بھٹو اور اس کے خاندان کو چھوڑ کر ریاست کے دم چھلہ بن گئے مگر محنت کشوں نے شدید مزاحمت کی اور وہی کمیونسٹ کارکن ، شاعر اور ادیب جو بھٹو کے غیض و غضب کا نشانہ بھی بنے تھے، انہوں نے ہی ضیا ء الحق کی خونی آمریت کے خلاف تحریک میں سرگرام کردار ادا کیا۔ کامریڈ جام ساقی اس مزاحمت کا سب سے زندہ و جاوید کردار بن کر سامنے آئے۔ 10دسمبر 1978ء کو انہیں حیدرآباد میں اقبال میمن کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ حیدر آباد کے فوجی یونٹ میں ان پر بے پناہ تشدد کیا گیااور جب مقامی جلاد ان کو مار پیٹ کر تھک گئے تو انہیں بدنامِ زمانہ شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ 9 دسمبر 1986ء تک قیدِ تنہائی میں رہے۔ یہ شاید اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی عقوبتوں میں سے ایک ہے۔ ان 8 سالوں میں شاید ہی کوئی ایسا تشدد کا طریقہ ہو جو جام ساقی پر آزمایا نہیں گیا مگر وہ اپنے نظریات پر ڈٹے رہے اور غیر متزلزل استقامت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ قید خانے میں جو خواب ان کو حوصلہ اور شکتی دیتا رہا ، جب وہ باہر آئے تو وہ خواب ریزہ ریزہ ہو گیا۔
بہت سے لوگ 90ء کی دہائی میں جام ساقی کی سیاست پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں محنت کشوں کی تحریکیں زوال پذیر ہو گئیں۔ کمیونسٹوں کے پاس چونکہ سوویت یونین کے انہدام کا کوئی واضح تناظر موجود نہیں تھا، اس لیے وہ بھی اس ناگہانی آفت کے بعد منتشر ہو گئے۔ زیادہ تر نے تصوف میں پناہ لی اور دیگر بہت سے این جی اوز کی غلاظت میں غرق ہو گئے۔ ایسے ماحول میں جام ساقی کا دامن ان پر تنقید کرنے والوں کے مقابلے میں کئی درجے صاف اور شفاف رہا۔ انہوں نے بہت سی سیاسی غلطیاں کیں لیکن کبھی بھی سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی فتح کی وکالت نہیں کی اور نہ ہی کبھی کمیونسٹوں کی نوجوان نسل کو مایوس کرنے یا گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ ہمیشہ ہر کسی کو اس نظام کے خلاف لڑنے اور جدوجہد کو جاری رکھنے کا درس دیا۔ انتہائی تکلیف کے دنوں میں بھی جب ہم ان کی رہائش گاہ میں ان کی عیادت کو جاتے تھے تو وہ اپنی جدوجہد کے قصے اور طبقاتی کشمکش کی تاریخ کے غیر معمولی واقعات سنا کر ہمیں گرمانے کی کوشش کرتے تھے۔ گزشتہ برس جب ہم کامریڈ ہریش اورکراچی کے کچھ کامریڈوں کے ہمراہ ان سے ملنے گئے تو وہ تکلیف کی شدت اور ادویہ کی تاثیر کے باعث مکمل ہوش میں نہیں تھے مگر اس بد حواسی کے عالم میں بھی احتجاج اور لانگ مارچ کی بات کر رہے تھے۔ جدو جہد، مزاحمت اور تحریک ان کے جسم میں دوڑنے والے خون کا لازمی جزو بن چکی تھی۔ جب بہت سے نام نہاد انقلابی دھندے میں لگ کر لکھ پتی اور کروڑ پتی ہو گئے، جام ساقی نے اپنی زندگی کے آخری ایام بھی نسیم نگر حیدر آباد کے ایک چھوٹے سے گھر میں گزارے۔
جام ساقی نے اپنی جدوجہد کے کئی مرحلوں پر حکمرانوں اور ان کے دلالوں کی پیشکشوں کو ٹھکرایا اور کبھی اپنے نظریات کا سودا نہیں کیا۔ 90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اور مشاورت لینے کے فیصلے کو درست تو قرار نہیں دیا جا سکتا مگر اسے اس وقت کے مخصوص سیاسی معروض اور خود جام ساقی کے بقول درست نظریات تک نا رسائی کے باعث ایک ایسی غلطی کہا جا سکتا ہے جس سے اجتناب کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ جدوجہد کے عروج کے دنوں میں 1968ء میں جام کی ملاقات اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عثمان علی عیسانی سے ہوئی جس نے جام ساقی کو پیشکش کی کہ اگر تمہیں کلاس ون کی نوکری چاہیے تو حکومت تیار ہے۔ اگر تم سی ایس ایس کا صرف امتحان دو تو حکومت تمہیں ڈپٹی کمشنر بھی بنانے کے لیے تیار ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صالح قریشی نے انہیں کہا کہ اگر تم ڈھاکہ یا پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لینے پر راضی ہو جاؤ تو حکومت تمہیں دس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دینے کے لیے تیار ہے۔ شیخ ایاز نے اپنی ساہیوال جیل کی ڈائری میں لکھا ہے کہ ایک بار میں حیدر آباد میں کسی ادبی تقریب کی صدارت کر رہا تھا ۔ میرے سامنے جام ساقی موجود تھے، انہیں وہاں پیغام ملا کہ انہیں حیدرآباد کا ڈپٹی کمشنر بلا رہا ہے تو جام ساقی نے جواب دیا کہ مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں کہ کسی ڈپٹی کمشنر سے مل سکوں۔ یہ بے نیازی اور تفاخر محنت کش طبقے سے محبت اور ان کے تاریخی کردار پر یقین کی بدولت ہی پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ نام نہاد انقلابی جو سچے نظریات تک رسائی کے باوجود افسر شاہی، وزرا، ستاروں (Celebrities)، صحافیوں، نامور وکلااور بینکاروں وغیرہ کی ’صحبت ‘ میں پھولے نہیں سماتے اور غربا اور ’عام ‘ انسانوں سے مل کر ان کے چہرے پر احساسِ رائیگانی ٹپکنا شروع ہو جاتا ہے، ان کو جام ساقی کی سرکشی اور دیوانہ وار بے نیازی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور جماعتِ اسلامی سے صرف کونسلروں کی نشستوں کے لالچ میں اتحاد کرنے والی پارٹی کے مہان کارکنوں کی جام ساقی پر پیپلز پارٹی میں شمولیت کی وجہ سے لعن طعن یا بہتان تراشی جام ساقی کے تاریخی کردار کو کم کرنے کی بجائے آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔
جام ساقی جس عہد میں فوت ہوئے ہیں یہ 90ء کی دہائی کا رجعتی یا ردِ انقلابی جمود کا عہد نہیں ہے۔ یہ جام ساقی کی نو عمری اور جوانی کے عہد کی ایک دفعہ پھر تمہید کا عہد ہے۔ تاریکی اور مایوسی کے گھنے بادل ٹوٹ رہے ہیں۔ وہی ریاست جو اپنی بھر پور جلالی طاقت کے باوجود جام ساقی کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہی تھی، آج خود اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اسے عوامی غیض و غضب اور نفرت کا سامنا ہے۔ ملائیت ایک تہمت بنتی جا رہی ہے۔ پنجابی اور پشتون مڈل کلاس جن پر ایک لمبے عرصے تک یہ ریاست اکتفا کرتی تھی اور جو درحقیقت ریاستی پالیسیوں کی تکمیل کے لیے خام مال کا کام کرتے تھے، آج ان میں بھی اس ریاست کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ ٹریڈ یونین افسر شاہی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ طلبہ سیاست کا احیا ہو رہا ہے۔ مختصر یہ کہ انقلابی حالات کی طرف معروض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں جام ساقی کی یاد میں بہت سی تقریبات بھی منعقد ہوں گی۔ ضمیر فروشی کرنے والے نام نہاد انقلابی بھی جام ساقی کے ساتھ اپنا نام جوڑ کر اپنے داغ دھونے کی کوشش کریں گے۔ موم بتی مافیا بھی سرگرم ہو گا ۔ تعریفوں کے پل بھی باندھے جائیں گے مختلف اعزازات سے بھی نوازا جائے گا مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ آج انقلابیوں کی اس نسل کے اندر وہ جرات، حوصلہ اور استقامت ہے یا نہیں جو جام ساقی کی ساری زندگی کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ امتحان کی گھڑیاں پھر قریب آ رہی ہیں۔ جام ساقی جو تاریخی فریضہ ادھورا چھوڑ گئے ہیں وہ نئی نسل پر قرض ہے۔ یہ قرض چکائے بغیر نجات ممکن نہیں۔
ہاں بس میں ابھی گردشِ ایام نہیں ہے
رندوں کی مصیبت ہے کہ اب ’جام‘ نہیں ہے