|تحریر: پارس جان|
آج کل وزیراعظم عمران خان کے ایک بیان کو لے کر سوشل میڈیا پر بہت شور مچایا جا رہا ہے جس میں موصوف یہ فرماتے ہیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے حکومت کو بھرپور تیاری کرنی یا کروائی جانی چاہیے۔ اسی گفتگو میں وزیر اعظم یہ اعتراف کرتے ہوئے پائے گئے کہ جب وہ برسراقتدار آئے تو وہ حکومت کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ حتیٰ کہ اوائل کے چند ماہ میں تو ان کو معاملات کی رتی برابر بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ یہ بلاشبہ ایک ملک کی حکومتی کابینہ کے سربراہ کے طور پر نہ صرف اپنی بلکہ اپنی پوری ٹیم کی نا اہلی کا کھلا اعتراف ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ان درپردہ غیر جمہوری قوتوں سے کھلی شکایت بھی ہے جو چور دروازے سے اس نا اہل کو اقتدار میں لائے تھے، کہ اسے اتنی نا اہل، غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار ٹیم کیوں سونپ دی گئی۔ بیان کی گئی منطق کی رو سے اب حکومتیں گرانے کے لیے جلسوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کی ’عسکری‘ یونیورسٹیوں میں وزارت عظمیٰ، وزارت عالیہ اور وزارت خزانہ سمیت تمام دیگر وزارتوں کے باقاعدہ ڈپلومے اور کورسز کروائے جانے چاہئیں تاکہ جونہی گزشتہ حکومت کا بوریا بسترا گول ہو جائے تو ’ریڈی میڈ‘ ہنر مند اور ڈگری یافتہ حکومتی مشینری سے اسے فوری طور پر ری پلیس کر دیا جائے۔ یہ بظاہر انتہائی حماقت پر مبنی بیانیہ دکھائی دے رہا ہے مگر حقیقت میں یہ آج کے عہد میں حکمران طبقے کی اجتماعی سیاسی بلوغت اور فہم و فراست کی درست عکاسی کر رہا ہے۔ اور عمران خان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے تمام رسمی اور آفیشل تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نظام کی لایعنیت کو بڑے اعتماد اور وثوق کے ساتھ عریاں کر دیا ہے۔ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے اس کے ناقدین کو بھی یہی تشویش لاحق ہے کہ وہ ابھی عمران خان کے کسی ایک سیاسی مضحکے کے صحافتی و سفارتی دفاع سے فارغ نہیں ہوئے ہوتے کہ اس سے بھی بڑا چٹکلہ پہلے سے ذرائع ابلاغ کی منڈی میں گردش کر رہا ہوتا ہے۔ کچھ صاحبان عقل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے بیوقوف کو مسندِاقتدار کی نکیل تھما دینا بندر کے ہاتھ میں ماچس دینے کے مترادف ہے اور اس طرح کی مہم جوئی سے سارے نظام کے ہی جل کر خاکستر ہو جانے کے امکانات ابھر رہے ہیں۔ دوسرے معنوں میں رواں دور میں رائج کی گئی سامراجی پالیسیوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، اعتراض عمران خان کی ان پالیسیوں کے دفاع کرنے کی نا اہلیت پر ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حکمران طبقے کے سنجیدہ حلقے اور ان کے پالتو درمیانے طبقے کے دانشوروں کے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے لیے جس پائے کی مکاری، جعلسازی اور منافقت درکار ہوتی ہے، عمران خان ابھی اس سے کوسوں دور ہے۔ اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی حکمران طبقے کی آزمودہ، زیادہ مکار قیادتوں کی اقتدار کے ایوانوں میں واپسی کے علاوہ ’ملکی سالمیت‘ اور ’جمہوریت‘ کی بقا کے لیے کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا۔ا گر زمینی حقائق پر روشنی ڈالی جائے تو یہ درست ہے کہ عمران خان پہلی دفعہ اس ملک کا وزیراعظم بنا، لیکن اب وہ کوئی نیا سیاستدان ہرگز نہیں ہے بلکہ گزشتہ 25 سال سے سیاسی عمل کا حصہ رہا ہے۔ جہاں تک حکومت کرنے کے تجربے کا تعلق ہے تو وزیراعظم کی لگ بھگ ساری ہی کابینہ اس سے پہلے کی حکومتوں میں کلیدی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر کیا عسکری یونیورسٹی میں ایسا کوئی ’پروفیسر‘ موجود ہے جو حفیظ شیخ یا رضا باقر کی معاشی املا کی غلطیاں درست کر سکے؟ ہر گز نہیں۔ یہ درست ہے کہ جنرل باجوہ صاحب کئی بار چیمبر آف کامرس میں خطاب بھی کر چکے ہیں اور تاجر برادری سے مستقل رابطے میں بھی رہتے ہیں مگر حفیظ شیخ اور رضا باقر ان سامراجی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں جہاں سے عالمی معیشت کی ڈوریں ہلائی اور حکومتیں چلائی جا رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے کم از کم معیشت کے معاملے میں ناتجربہ کاری کا ’جواز‘ سراسر ناقابل قبول ہے۔ اور حقیقت میں نام نہاد منتخب حکومت تو درکنار خود عسکری ماہرین کو بھی معاشی امور میں معینہ حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سامراجی گدھ خود براہ راست پاکستانی معیشت کی پرورش اور دیکھ بھال کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ تمام وزرائے خزانہ انہی کے نامزد کردہ ہوتے ہیں اور حلف چاہے وہ کسی کا بھی لیں مگر وہ صرف سامراجی اداروں کے وفادار ہی ہوتے ہیں۔ اور موجودہ وزیرخزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کو اس سامراجی چابک کے استعمال پر خوب دسترس حاصل ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر صرف اور صرف اسی طریقے سے ہی چلایا جا سکتا ہے۔ نجکاری، بیرونی سرمایہ کاری، سبسڈیز کا خاتمہ، قرضے اور ٹیکس یہ ہے بیمار معیشتوں کو چلانے کا واحد سامراجی نسخہ۔ اور ان پالیسیوں کے سماجی اثرات اس بات سے یکسر بے نیاز ہوتے ہیں کہ ان کو لاگو کون کر رہا ہے۔ سیاسی اخلاقیات کے رومانوی مبلغین کی تنقید کے برعکس ان پالیسیوں کو کرپشن کے بغیر بالکل شفاف طریقے سے دیانتداری سے بھی اگر لاگو کر لیا جائے تو تب بھی یہ مٹھی بھر سرمایہ دار جونکوں کی تجوریوں کے وزن کو بڑھانے اور غربت اور افلاس کے سمندر کو اور گہرا اور متلاطم کرنے کا فریضہ ہی سرانجام دیں گی۔ اس لیے پاکستانی معیشت کی موجودہ حالت اور اس کے سماجی مضمرات کسی نااہل حکومت کے مرہون منت نہیں ہیں بلکہ پہلے سے تباہ حال معیشت کے ارتقا کی لازمی اور ناگزیر کڑیاں ہیں۔ اب وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں براہ راست مختلف سامراجی اداروں سے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے بے پناہ قرضے لے رہی ہیں۔ اب اس لولی لنگڑی معیشت کو ہر دور میں قرضوں کی پہلے سے زیادہ بیساکھیاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ عمل بھی اب اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ سامراجی گدھ اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے جہاں ایک طرف اس دم چھلہ حکومت سے عوام کا وحشیانہ معاشی قتل عام کروا رہے ہیں وہیں دوسری طرف مقامی حکمران طبقے پر بھی قناعت اور کفایت شعاری کے لیے دباو بڑھا رہے ہیں تاکہ ریاستی اخراجات کو کنٹرول کیا جا سکے۔ غیر پیداواری اخراجات میں کٹوتی کا دباو جہاں ایک طرف سول سپرمیسی اور عسکری ضروریات کے مابین تناو کو مسلسل بڑھا رہا ہے وہیں، وفاق اور صوبوں کے مابین رسہ کشی بھی بے قابو ہوتی جا رہی ہے، طبقاتی کے ساتھ ساتھ قومی جبر بھی انتہاوں کو پہنچ رہا ہے۔ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ نے جہاں مظلوم اقوام اور چھوٹے صوبوں کے مفلوک الحال عوام کے معیارزندگی میں معمولی سی بھی بہتری نہیں کی ہے وہیں ان کا خاتمہ بھی وفاقی خساروں کو کم کرنے اور ملکی معیشت کی بحالی کا معجزہ سرانجام نہیں دے سکتا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر سمیت ویلفیئر کا جو بھی بظاہر یوٹوپیائی پروگرام پیش کیا تھا، اس کو سرمایہ دارانہ حدود و قیود اور سامراجی شکنجے سے نکلے بغیر جزوی طور پر بھی بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔ جتنے بھی وزرائے خزانہ تبدیل کر دیئے جائیں اور اگر آئی ایم ایف کی سربراہ کو خود براہ راست بھی پاکستانی معیشت کی لگام تھما دی جائے تب بھی یہاں کوئی بہتری ممکن نہیں۔ محض پالیسیاں نہیں خود سرمایہ داری ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج سارے سماج کی جراحی کے بغیر ممکن نہیں رہا۔
وزیراعظم کی طرف سے اپنی ناکامی کا کھلا اعتراف جہاں درمیانے طبقے کے خوش فہموں کو ایک بہت بڑا دھچکا ہے وہیں محنت کش طبقے کے لئے بھی واضح پیغام ہے کہ ہمارے پاس نہ صرف یہ کہ تمہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں بلکہ ہم مجبور ہیں کہ آپ کے پاس جو کچھ بچا کھچا ہے وہ بھی آپ سے چھین لیں تاکہ نظام کو بحران سے نکالا جا سکے۔ وزیراعظم کے مذکورہ بالا بیان پر جہاں بہت شورو غل ہوا ہے وہیں انہی دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیراعظم نے ایک اور انتہائی مضحکہ خیز بیان بھی دیا ہے، وہ محنت کش طبقے کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس انٹرویو میں وزیراعظم سے جب پوچھا گیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ آپ کا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا تو ایک عام شہری 17 ہزار میں کیسے گزارا کر سکتا ہے؟ تو وزیر اعظم نے جواب دیا کہ تبھی تو ہم چاہتے ہیں کہ غریب عوام سماجی دولت میں اضافہ کرنے میں ہماری مدد کرے اور اپنا کردار بخوبی نبھائے۔ ٹی وی اینکر نے پھر سوال کیا کہ جب تک سماجی دولت میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ کیا کریں؟ پہلے ہی بہت زیادہ خودکشیاں ہو رہی ہیں؟ خود کشیوں پر کیے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا تو اور کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ یہ سیدھی سیدھی کلاسیکل سرمایہ دارانہ طرزمعیشت کے وحشیانہ تسلط کی طرف اشارہ ہے جسے ٹریکل ڈاؤن اکانومی بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی جب سرمایہ داروں کا جام زر بھر جائے گا تو اس کے جھلکنے سے ٹپکنے والے چند قطروں سے ہی سماج میں ترقی ممکن ہو گی۔ وزیراعظم نے انتہائی ڈھٹائی سے بتایا کہ اس کا اور اسکی ٹیم کا بنیادی فریضہ سرمایہ داروں کے جام زر کو جلد از جلد بھرنا ہے تاکہ اس کے بعد تحریک انصاف کے ’فلاحی پروگرام‘ پر عملدرآمد ممکن ہو سکے۔ اپنے اس ٹاسک کے حوالے سے وزیراعظم ناکام نہیں ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ پیداواری معیشت کی گروتھ کے ذریعے سرمایہ دار جونکوں کے شرح منافع میں اضافہ نہیں کر سکے ہیں تو انہوں نے ایک طرف اربوں روپے کے بیل آوٹس اور ٹیکسوں کی چھوٹ کے ذریعے اور دوسری طرف چینی، آٹے اور ادویات کے مصنوعی بحران کے ذریعے سرمایہ داروں کے جام زر کو لبالب بھر دیا ہے۔ مگر وزیراعظم کی تھیوری کے برخلاف سرمایہ داروں نے بھرے ہوئے جام زر کو اٹھا کر اسکی جگہ نیا، پہلے سے بھی گہرا اور بڑا مگر خالی جام زر رکھ دیا ہے اور اب وزیراعظم کو یہ فریضہ سونپ دیا ہے کہ اب اس نئے جام زر کو اس سے بھی کم وقت میں بھرنا چاہیے۔ اس عمل میں اگر چند ہزار یا کچھ لاکھ لوگ خود کشیاں کر بھی لیتے ہیں تو یہ تو اس سماجی ترقی کی لازمی قیمت ہے جو ہمیں ہر صورت میں چکانی ہو گی۔ یہ محنت کش طبقے کے خلاف دو ٹوک اعلان جنگ ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس جنگ میں بظاہر حکومت مخالفت کا ناٹک کر رہی ہیں مگر درحقیقت طریقہ کار اور سانجھے داری کے فروعی اختلافات کے باوجود وہ حکومت کے نامیاتی اتحادی ہیں اور وہ محنت کش طبقے کو ایک ایسی لڑائی میں تھکا دینا چاہتے ہیں جس میں کامیابی یا ناکامی سے ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اور پھر تھکے ہارے محنت کش طبقے میں اس جنگ کو لڑنے کی صلاحیت ہی نہ رہے جو ان کی اپنی بقا کی جنگ ہے۔ لیکن اس سارے کھلواڑ کے بالکل الٹ نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور محنت کش طبقہ بار بار ان سیاسی مداریوں کو مسترد کر رہا ہے۔ اب موجودہ کابینہ میں شامل سب سے تجربہ کار وزیر کو داخلہ امور کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔ شیخ رشید نے اپنے پہلے ہی بیان میں اپوزیشن کو خبردار کیا کہ اس سیاسی کھلواڑ سے عوام اگر واقعی سیاسی طور پر بیدار ہو گئے تو پھر آنے والا عوامی ریلا تمہیں اور ہمیں سب کو ہی بہا کر لے جائے گا۔ ساتھ ہی درپردہ قوتوں میں زیادہ سنجیدہ لوگ بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو طبقاتی اتحاد کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ وہ خود بھی کرپشن مخالف بیانیے سے اکتا چکے ہیں۔ اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے اور بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور جرنیلوں کی اپنی کرپشن کے قصے بھی زبان زدعام ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ان کے پاس بھی سیاسی آپشنز سکڑتے چلے جا رہے ہیں۔
کیا عسکری یونیورسٹیوں کے منتظمین وزیراعظم کی شکایات کا ازالہ کر سکتے ہیں؟ کیا ان کے پاس موجودہ ٹیم سے زیادہ تجربہ کار متبادل ٹیم موجود ہے، جو انہوں نے وزیراعظم کو ابھی تک میسر نہیں کی؟ ہر گز نہیں۔ اگر موجودہ بحران کی شدت کے باعث یہ حکومتی سیٹ اپ منہدم ہو بھی جاتا ہے تو اس کی جگہ لینے والوں کی جتنی بھی تیاری کروا لی جائے اس بحران سے نکلنے کا اب کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ متبادل کے طور پر خود انہی کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کی بدعنوانی پر پہلے ہی مہرتصدیق ثبت کی جا چکی۔ اب بھلے ہی یہ کرپشن کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ان لٹیروں کو این آر او دے بھی دیں عوام ان دونوں کو این آر او دینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ یہ طبقاتی جنگ جو حکمران طبقہ مسلط کر رہا ہے، ایک تاریخی لازمے کی شکل اختیار کر چکی ہے جسے موخر تو کیا جا سکتا ہے لا امتناعی طور پر ٹالا نہیں جا سکتا۔ اہم سوال محنت کش طبقے کی تیاری کا ہے۔ حکمران طبقے نے بھلے ہی معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے تیاری نہ کی ہو لیکن وہ اس طبقاتی جنگ کے لیے تیار ہیں۔ وہ جبر کی ہر حد عبور کر سکتے ہیں۔ محنت کش عوام کو بھی اس کے لیے تیاری کرنی ہے۔ حکمران طبقے کا ہتھیار ریاستی مشینری، جیلیں اور بکاؤ قیادتیں ہوں گی تو اس کے مدمقابل محنت کش طبقے کا ہتھیار اتحاد اور مارکسی نظریات ہوں گے۔ درمیانے طبقے کو اپنے زرخرید دانشوروں، قائدین اور اخلاقی مبلغین کے غیر جانبداری کے ڈھگوسلے سے نکل کر اس لڑائی میں اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے محنت کش طبقے کا اتحادی بننا ہو گا۔ انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ اس طبقاتی جنگ سے جتنی بھی لاتعلقی کر لیں ان کی اپنی بقا اور بہبود کا انحصار اسی طبقاتی جنگ کے نتائج پر ہو گا۔ اس اتحاد کو ایک مارکسی پروگرام ہی ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس طبقاتی جنگ کے حتمی نتیجے کا انحصار مارکسی قوتوں کی تیاری پر ہی ہو گا۔