|رپورٹ: لال سلام|
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ریٹائرڈ جرنیل اعجاز اعوان نے اپنی گفتگو کے دوران محنت کش عوام کے خلاف انتہائی زہریلی گفتگو کی اور بنیادی حقوق کو ایک مذاق بنا کر پیش کیا۔ اس نے کہا کہ غریب لوگوں کو اچھی تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی وہ اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اسی طرح اس عوام دشمن شخص نے زہر اگلتے ہوئے کہا کہ محنت کش لوگ بھیک مانگنے کے لیے سڑکوں پر آتے ہیں ورنہ ملک میں خوراک اور دیگر سہولیات کا کوئی فقدان نہیں۔
یہ گفتگو درحقیقت اس ملک کے حکمرانوں کی عمومی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں اور ان کی زندگی اور موت کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اس ملک کے جرنیل، جج، سیاستدان اور بیوروکریٹ آج بھی برطانوی سامراج کی نو آبادیاتی سوچ کے رکھوالے ہیں اور اسی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اس ملک کو چلا رہے ہیں۔ غیر ملکی آقاؤں کی جوتیاں چاٹنے والے یہ حکمران اپنے ملک کے عوام پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑتے چلے آ رہے ہیں اور انہیں غلاظت، بھوک اور بیماری میں دھکیل چلے ہیں اور اب پنی گفتگو سے ان کے زخموں پر نمک بھی چھڑکتے ہیں۔ عوام کی کھال کھینچنے والے یہ جلاد عوام کی نفرت کا نشانہ بھی بن رہے ہیں جس کا اظہار اس گفتگو کے بعد سوشل میڈیا پر عوامی رد عمل میں نظر آیا۔
ذیل میں کچھ بیانات پیش خدمت ہیں جن میں اس بیان پر عوام کی نفرت اور غم و غصہ نظر آتا ہے۔
پارس جان، کراچی میں مقیم ایک انقلابی شاعر ہیں اور حال ہی میں ان کی کتاب”لبرلزم پر مارکسی تنقید“ کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا ہے۔ فیس بک پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ:
”جنرل اعجاز اعوان نامی بھڑوے کو جتنی بھی گالیاں نکال لیں، اصل بات یہ ہے کہ اس نے جمہوری لبادہ تار تار کر کے معاشرے کی طبقاتی بنتر کو اس کی تمام تر غلاظت سمیت عریاں کر دیا ہے اور شرفا کی کھال میں چھپے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ججوں، عسکری و سول اشرافیہ یعنی حکمران طبقے کے تمام بھیڑیوں کی حقیقی ثقافت اور اخلاقیات کی بالکل درست ترجمانی کی ہے۔“
مظہر حسین سید واہ کینٹ سے تعلق رکھنے والے ایک انقلابی شاعر ہیں۔ حالیہ عرصے میں ”سکوت“ نامی کتاب کی صورت میں ان کا کلام شائع ہوا، جسے ملک بھر میں بہت پزیرائی ملی۔ فیس بک پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا:
”جنرل (ر) اعجاز اعوان نے وہی غلاظت اگلی ہے جو ہر سرمایہ دار اور بالادست طبقے کے فرد کے دل و دماغ میں موجود ہوتی ہے۔ لیکن وہ منافقت سے کام لیتے ہوئے اس کا اظہار نہیں کرتا۔ جنرل اعجاز اعوان اس گھٹیا پن اور بے غیرتی کو سامنے لے آیا ہے کہ اچھی تعلیم اچھا معیار زندگی عام آدمی اور محنت کش کا حق نہیں ہے، اور نہ ہی اسے ملے گا۔ یہ صرف حکمران طبقے کا حق ہے اور اسے ہی یہ تمام سہولیات ملیں گی۔ اچھے معیار زندگی کے خواب نہ دیکھیں، نہ انھیں حقیقت بنانے کی جدوجہد کریں، اور نہ ہی حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار پر توجہ دیں، اور نہ ہی یہ سوچیں کہ استحصال کیسے ہو رہا ہے۔ اور پھر انتہائی بے غیرتی اور ڈھٹائی سے یہ کہتا ہے کہ یہ غریب امیر کی تفریق خدا کی بنائی ہوئی ہے۔ اس میں نہ تو نظام کا قصور ہے نہ ہی کہیں بدعنوانی ہے اور نہ ہی استحصال ہے۔ کیا عام آدمی اتنا ہی بے وقوف ہے کہ ان دلالوں کی باتوں کو درست سمجھ لے گا۔ یہ لوٹ مار، استحصال اور عالمی طاقتوں کی گماشتگی کر کے ارب پتی بنتے ہیں اور پھر عوام کو بھکاری کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا گینتی اور بیلچہ بھکاری ہونے کی علامت ہے۔ کل کسی محنت کش نے کہہ دیا کہ نام کے ساتھ جنرل لگا ہونا بے غیرت ہونے کی علامت ہے تو بہت سے لوگوں کو تکلیف ہو گی۔ میرے خیال میں محنت کش طبقے کو آگے بڑھ کر ان بھڑؤوں کو لگام ڈالنی چاہئیے۔ اگر آپ عام آدمی ہیں، محنت کش ہیں، تو اس دلال کی گفتگو آپ کا خون کھولانے کے لیے کافی ہے۔
ایسے ہی کمینوں کے بارے میں حبیب جالب نے کہا تھا۔
لوگ اُٹھتے ہیں جب تیرے غریبوں کو جگانے
سب شہر کے زردار پہنچ جاتے ہیں تھانے
کہتے ہیں یہ دولت ہمیں بخشی ہے خدا نے
فرسودہ بہانے وہی افسانے پرانے
اے شاعرِ مشرق! یہی جھوٹے یہی بد ذات
پیتے ہیں لہو بندہ مزدور کا دن رات!!!“
صبغت وائیں گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مارکسی دانشور ہیں۔ فیس بک پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا:
”اینکر صاحب نے پوری کوشش سے جنرل صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی بھی کہ جنرل صاحب یہ سب کے سامنے کرنے کی باتیں نہیں ہیں، انہی باتوں نے ان ”بھکاری بیلچے والوں“ کو ”تنقید کا لقمہ“ دیا ہے، لیکن جنرل صاحب ایک سچے اور کھرے انسان ہیں، انہوں نے وہ بات کی جس پر ہر فوجی و سول افسر کا ایمان ہے، جو بات ان کو اکیڈمیوں میں یاد کروائی جاتی ہے، کہ عام لوگوں سے فاصلہ رکھنا ہے، وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ”افسر“ سے بات کریں۔ افسر کی میز کا سائز انگریز دور سے اتنا بڑا رکھا گیا تھا کہ کوئی آ کر مصافحہ کرنے کی جرات نہ کر پائے۔ اینکر نے کہا کہ وہ غریبوں کو افسروں والی مراعات دینے کی بات نہیں کر رہے، غریب عوام کی اتنی سوچ نہیں کہ فوجی افسر، بیورو کریٹ، جج اور دیگر حکمران طبقے کے لوگوں کی کیا خواہشات ہوتی ہیں، اور وہ ان کو کیسے پورا کرتے ہیں، وہ تو بس کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا اور رہنے کو چھت کے خواہاں ہیں، اور وہ بھی مفت میں نہیں مانگتے بلکہ باعزت روزگار مانگتے ہیں، جس سے کما کر وہ خود بھی کھائیں گے اور وہ ٹیکس بھی دیتے ہیں، جن سے حکمران طبقہ اپنی خواہشات پوری کرتا ہے، کوئی انگلینڈ، کوئی دوبئی، کوئی سویتزرلینڈ، کوئی امریکہ اور کوئی آسٹریلیا جائدادیں خرید کے رہتا ہے۔ لیکن جنرل صاحب کو یہی لگا کہ اگر یہ لوگ آج اتنے ”حق“ کی بات کر رہے ہیں، تو کل کو مزید مانگیں گے۔ انگریزی بولنے لگ گئے تعلیم یافتہ ہو گئے، تو کمیشن سسٹم کے خاتمے کی بات کریں گے۔ افسروں میں یہ تفریق کیسی؟ ایک عام سرکاری ملازم کون سی تعلیم حاصل کرے کہ افسر بن جائے؟ عمران خان، بلاول، نواز شریف، شاہ محمود، شیخ رشید، زرتاج گُل اور مراد سعید ہم پر حکومت کر سکتے ہیں، کس بنیاد پر؟ ایسی باتیں ذہنوں میں فتور ڈالتی ہیں، اس لیے غریبوں کے حقوق ہی پر سوال ختم کر دو۔ کہ اگر خدا تعالیٰ چاہتا کہ ان کی زندگی اچھی ہو، تو کیا ان کو امیروں کے گھر پیدا نہ فرما دیتا؟“
آصف لاشاری کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے یہ استاد ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں۔ جنرل اعجاز اعوان کے بیان پر آصف کا کہنا تھا کہ:
”جنرل اعجاز اعوان نامی ایک بے غیرت جرنیل نے محنت کشوں اور غریب عوام کی جو توہین کی ہے اس کا بدلہ محنت کش عوام ان پیٹو جرنیلوں سے بہت جلد لیں گے اور انہی بیلچوں سے ان کی طاقت و رعونت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے۔ صرف یہی ایک جرنیل نہیں بلکہ تمام جرنیل عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں اور ان سے ایسی ہی نفرت کرتے ہیں۔“
کامونکی سے تعلق رکھنے والے گلزادہ صافی جو پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور پنجاب ٹیچرز یونین کے سرگرم کارکن ہیں، کا کہنا تھا:
”جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کی زبان سے سچ نکل، آیا سما ٹی وی کے پروگرام ”سوال“ میں ان کا کہنا ہے ”جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو رکشہ چلارہا ہے اس کے وہی حقوق ہیں یا اس کے بچوں کو اسی معیار پر ہونا چاہئیے جو ایم این اے، ایم پی اے اور دیگر مراعات یافتہ طبقات کے بچوں کا ہوتا ہے یہ سراسر غلط ہے، ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا ہے۔ دنیا میں طبقات ہوتے ہیں، طبقات کے اپنے اپنے معیار ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کی وجہ سے ہر شخص کے منہ میں تنقید کا لقمہ چلا گیا ہے ہر آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ رکشہ چلانے والے کے بھی وہی حقوق ہیں جو ان صاحب (ریٹائرڈ جنرل اعجاز اعوان کے) اور ان کے طبقہ امراء کے ہیں۔“
ڈاکٹر یاسر ارشاد بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں شعبہ قلب کے ماہر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر بھی مشہور ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر یاسر کا کہنا تھا کہ:
”جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے ہم شکر گزار ہیں کہ انہوں نے منافقت کو ایک طرف رکھتے ہوئے محنت کش عوام کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس طبقاتی نظام کی اصل حقیقت کو عریاں کیا جس میں امیر دولت کے ڈھیروں پر بیٹھے ہوتے ہیں اور عوام کی اکثریت مفلوک الحال ہوتی ہے۔۔جنرل صاحب کا محنت کش عوام کے لیے یہ تعصب صرف ان تک محدود نہیں۔۔یہ اس ارب کھرب ہتی طبقے کی سوچ ہے، جس سے یہ تعلق رکھتے ہیں۔۔پاکستان کا یہ ارب کھرب پتی حکمران طبقہ ناجائز منافع خوری، ٹیکس چوری، محنت کش طبقے کے بدترین استحصال اور کرپشن سے دولت جمع کرتا ہے۔۔ پھر یہ لوگ اسی ملک کے عوام کو کیڑا مکوڑہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔“
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے شعیب کیانی معروف شاعر اور سیاسی کارکن ہیں۔ شعیب، جنرل اعجاز اعوان کے بیان پر شدید غصے میں تھے، جس کا اظہار ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر موجود ان کی پوسٹس سے ہوتا ہے۔ ایک فیس بک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا:
”سر!
اس دنیا میں سے بیلچے، درانتی، ہتھوڑے والے محنت کشوں کی محنت نکال دیں تو آپ کسی غار میں تنکوں سے اٹے میلے بال اور داڑھی کے ساتھ کھڑے جووئیں نکال نکال کر کھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کیونکہ غار کے دور سے اب تک دنیا میں جو کچھ بھی بنایا گیا ہے یہ سب انہی محنت کشوں کا بنایا ہوا ہے جنہیں آپ بھکاری کہہ رہے ہیں۔
یہ دنیا بندوقوں سے نہیں بلکہ بیلچے والے محنت کشوں کے اوزاروں اور محنت سے یہاں تک پہنچی ہے۔ آپ کی گاڑی، مکان، کپڑے، جوتے، کھانا، کنگھا، شیمپو، صابن، کنڈوم، ویاگرہ، بندوق وغیرہ ہر چیز یہی بیلچے والے بھکاری بناتے ہیں۔
آپ ہمارے اوزاروں سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کو ہتھوڑے اور درانتی کا نشان اپنی موت نظر آتا ہے۔ آپ پہلے نہیں ہیں آپ سے پہلے روس، چین اور فرانس کے بادشاہ اور آپ کا پیٹی بھائی کیوبا کا جنرل بتیستا سب کی ایسی ہی سوچ تھی۔ کہاں گئے وہ؟؟
یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ ان بیلچے والوں کو آپ کے کرتوت پتا نہیں ہیں۔ یہ آپ سے بخوبی واقف ہیں بس اس وقت کا انتظار کریں جب یہ آپ کو اسی بیلچے کے ساتھ گندے نالے سے نکالی ہوئی کالی مٹی کی طرح ٹھکانے لگا دیں گے۔
میں اپنی طرف سے اور تمام بیلچے والوں کی طرف سے آپ کی گھٹیا سوچ پر لعنت بھیجتا ہوں۔“