|تحریر: انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل|
اس وقت پورے مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جہاں اسرائیل مغربی سامراجی قوتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ خطے کو مسلسل کُل علاقائی جنگ میں دھکیل رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر انسانیت کے سامنے سوال شدت سے موجود ہے؛ سوشلزم یا بربریت۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
لبنان کے خلاف دو ہفتوں کی جارحیت کے دوران اسرائیلی فوج پورے ملک میں 3 ہزار 600 سے زائد مقامات پر بمباری کر چکی ہے، کم از کم 1 ہزار 800 افراد قتل ہو چکے ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ ان میں بھاری تعداد ان مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہے جن کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب تک 60 لاکھ کی آبادی میں سے تقریباً 10 لاکھ افراد مہاجر بن چکے ہیں، جس نے پہلے سے سماجی اور معاشی طور پر تباہ حال ملک کی مشکلات میں دیوہیکل مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ایک سال کی مسلسل اور وسیع تر بمباری نے غزہ پٹی کو ملبے کی ڈھیری بنا دیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی قتل ہو چکے ہیں، سینکڑوں ہزاروں اپاہج ہیں اور لاکھوں مہاجر بن چکے ہیں۔ صیہونی ریاست اعلانیہ دھمکیاں دے رہی ہے کہ اب لبنان کا بھی یہی حال ہو گا۔
انہوں نے فلسطینی اور لبنانی عوام پر بے مثال جبر و تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ انہوں نے لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی کے ذریعے دہشت گرد حملے کیے جس کے نتیجے میں درجنوں اموات ہوئیں اور ہزاروں زخمی ہو گئے۔ انہوں نے اس وقت لبنان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو بیروت میں قتل کیا۔ تہران میں انہوں نے غزہ میں حکمران پارٹی حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو قتل کیا۔
یہ اہم نکتہ ہے کہ اپنی موت کے وقت یہ دونوں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کی سربراہی کر رہے تھے۔ شام میں اسرائیل مسلسل حکومتی علاقوں پر بمباری کر رہا ہے جس میں کئی سو افراد ہلاک اور ایرانی، لبنانی اور شامی اہلکار قتل ہوئے ہیں۔ انہوں نے یمن پر بھی بمباری کی ہے اور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ پورے خطے میں کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کا حق رکھتے ہیں۔
ان سارے اقدامات کو سفاک غرور سے اسرائیلی جارح ”حقِ دفاع“ کہتے ہیں۔ ان کا یہ پیغام مغربی میڈیا اور سیاست دان طوطے کی طرح مسلسل دہراتے رہتے ہیں۔ یقینا کوئی بھی ایماندار انسان اس فریب میں نہیں آئے گا۔ اسرائیل کے اقدامات پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں شدید غم و غصے اور ردعمل کا باعث بن رہے ہیں۔
ایک طرف جدید ترین عسکری قوتیں ہیں جن کی دنیا کی سب سے طاقتور عسکری قوت، امریکی سامراج مکمل حمایت کر رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی اور لبنانی عوام ہے جن کی، اسرائیلی حکمت کار بھی مسلسل اس بات کی نشاندہی کرتے آئے ہیں، فوجی صلاحیتیں اور عددی قوت کئی گنا کم ہے۔
لبنان اور غزہ پر موت اور تباہ و بربادی کا اسرائیلی راج حماس اور حزب اللہ کے کسی ایک ردعمل سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ لیکن اسرائیلی بربریت کی بے حیائی سے ہر لمحہ حمایت کرنے والا مغربی میڈیا ہر وقت فلسطینیوں، لبنان میں حزب اللہ یا ایران کے ہر قدم کی نشاندہی اور شدید مذمت کرتا ہے۔ پوری حقیقت کو الٹا کر وہ جابر کو مظلوم اور مظلوم کو جابر بنا کر پیش کرتے ہیں۔
وہ مسلسل اس لڑائی کی بنیادوں کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو دہائیوں سے کچلا جا رہا ہے، انہیں جبراً اپنے گھروں سے نکالا جا رہا ہے اور وہ مہاجرین کیمپوں میں لٹی پٹی زندگیاں گزارنے ہر مجبور ہیں اور مسلسل ایک منصوبہ بندی کے تحت ان کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح لبنان پر اسرائیل کی سابقہ جارحیتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور 2000ء تک 15 سال ملک پر اسرائیلی قبضے کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں ہوتا۔
کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ انقلابی کمیونسٹوں کی کیا پوزیشن ہے۔ ہم ثابت قدمی سے اسرائیلی اور امریکی سامراجیت کے خلاف مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم غزہ، مغربی کنارے اور پورے خطے میں فلسطینی عوام کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اسرائیلی جارحیت کے شکار لبنانی، ایرانی، عراقی، شامی اور یمنی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کا ہر حق حاصل ہے۔
اسرائیلی ریاست اور اس کی حامی مغربی قوتیں مشرق وسطیٰ میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے دشمن ہیں۔ انہیں اس خطے کی عوام کو تباہ و برباد کرتے ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور ابھی بھی بربریت زدہ سامراجی جبر انہیں کچل رہا ہے۔
”قوانین کے تحت“ نظام
اسرائیلی افواج جنوبی لبنان میں داخل ہو رہی ہیں اور واضح ہو رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر فوج کشی کا آغاز ہو گیا ہے۔ لیکن میڈیا ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ ایک قوم کی فوج کا دوسری قوم کی زمین پر فوج کشی کرنا جارحیت نہیں ہے! ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ”محدود زمینی دخل اندازی“ ہے اور ”حقِ دفاع“ کا استعمال ہے۔
جب روس یوکرین میں فوج کشی کر رہا تھا تو مغربی قوتیں اس قدم کی مذمت کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششیں کر رہی تھیں اور جھوٹ بول رہی تھیں کہ یہ ایک ”کوئی اشتعال دلائے بغیر کی گئی فوج کشی“ ہے۔ انہوں نے روس کے خلاف NATO کی دہائیوں سے جاری مسلسل اشتعال انگیزی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ لیکن جب اسرائیل ایک سال کے عرصے میں ایک نہیں دو اقوام پر فوج کشی کرتا ہے اور تیسری پر حملہ آور ہو کر بمباری کرتا ہے، یہاں تک کہ دہشت گرد اقدامات کرتا ہے، تو اس وقت مذمت کہاں ہوتی ہے؟
جب یوکرین میں شہری علاقوں پر روسی بم گرتے ہیں تو روس اور ولادیمیر پیوٹن پر مغربی میڈیا شدید مذمت کا سیلاب جاری کر دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ اسرائیل نے ایک سال کی جنگ میں دو سال کی روسی جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ شہریوں کو قتل کر دیا ہے۔
جب اسرائیل نے حسن نصراللہ کو قتل کیا تو اس کے بموں کو پہلے ایک چھ سے آٹھ منزلہ رہائشی عمارت میں سے گزرنا تھا جسے ملبے میں تبدیل کر کے ہی زیر زمین گہرائی میں حزب اللہ ہیڈکوارٹر تک پہنچا جا سکتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک فٹ بال کھیل کے میدان سے زیادہ بڑا رہائشی علاقہ مکمل طور پر تباہ برباد ہو گیا اور کئی سو خاندان اس ملبے تلے دب گئے۔ انہیں آدھی رات کو بموں کی برسات میں بچ نکلنے کا ایک لمحہ بھی نہیں ملا۔ ظاہر ہے مغربی میڈیا نے ان میں سے کوئی ایک بات کہیں بھی نہیں بتائی۔ در حقیقت اس قدم پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جشن کے شادیانے بجائے!
اب تک اسرائیلی بموں سے تقریباً 2 ہزار لبنانی شہری قتل ہو چکے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس قتل عام کے ذمہ دار اس ہولناکی پر اپنی خوشی بھی نہیں چھپاتے۔ پچھلے سال دسمبر میں نتن یاہو نے خود دھمکی دی کہ اسرائیل ”خود ہی بیروت اور جنوبی لبنان کو، جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہیں، غزہ اور خان یونس بنا دے گا“۔ اس وقت سے اب تک وہ اور چوٹی کے اسرائیلی نمائندے مسلسل یہ دھمکی دے رہے ہیں۔
پوری دنیا کے محنت کش اور نوجوان یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس ساری صورتحال پر کسی غم و غصے کا کوئی اظہار کیوں نہیں؟ سرکاری مذمت کہاں ہے؟ میڈیا کہاں ہے؟ قومی خود مختاری اور شہریوں کی زندگیوں کے آفاقی اور ناقابل خلافی حقوق پر گرما گرم اداریے اور شعلہ بیان تقریریں کہاں ہیں؟
اگر یوکرین جنگ کو ہی معیار بنایا جائے تو پھر حسن نصراللہ اور دیگر چوٹی کے لبنانی نمائندوں کو قومی ہیرو سمجھنا چاہیے تھا جو ایک بیرونی جارح کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کر رہے تھے۔ ان کو یورپ اور امریکہ لا کر یکے بعد دیگرے پارلیمنٹس کی سیر کرانی چاہیے تھی، اربوں ڈالر کی عسکری اور مالیاتی امداد نچھاور کرنی چاہیے تھی تاکہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف لڑ سکیں، ”اس کے لیے چاہے جتنا بھی وقت درکار ہوتا“۔
ہم سب کو پتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نصراللہ اور حزب اللہ ہیڈکوارٹرز کے اوپر رہنے والے کئی سو معصوم شہریوں کو سفاکی سے 80 امریکی فراہم کردہ JDAM بنکر بسٹر بموں کے ذریعے سفاکی سے قتل کیا گیا۔ غم و غصے کے اظہار کی بجائے تمام مغربی قائدین نے حزب اللہ پر شدید تنقید کی کہ وہ شہریوں کو ”انسانی ڈھال“ بنا رہے ہیں۔ یعنی انہوں نے حزب اللہ کو مورد الزام ٹھہرایا کہ ان کی وجہ سے اسرائیل مغرب کے فراہم کردہ ہتھیاروں سے شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔
اس وقت کیا ہوتا ہے جب حماس، حزب اللہ یا ایران اسرائیل پر جوابی حملہ کرتے ہیں؟ کیا اسے حق دفاع بنا کر پیش کیا جاتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ میڈیا کی اشتعال انگیز مشینری پاگل ہو جاتی ہے اور ایرانی، حزب اللہ اور دیگر نام نہاد جابروں پر چڑھ دوڑتی ہے۔
در حقیقت پچھلے ایک سال میں اسرائیل پر بمباری کے نتیجے میں انتہائی کم افراد قتل ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق موجودہ بمباری کے آغاز سے پہلے ہی لبنان میں مسلسل راکٹ بمباری کے نتیجے میں 589 افراد قتل ہو چکے تھے۔ اس کے مقابلے میں ابھی تک حزب اللہ کی بمباری سے اسرائیل میں صرف 34 افراد قتل ہوئے ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے میں لبنانی قتل و غارت کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ اسرائیل میں گنتی کے افراد قتل ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے مقابلے میں، جو مسلسل دانستہ طور پر شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے، ایرانی میزائیل ابھی تک کسی شہری آبادی پر نہیں گرے ہیں۔ لیکن اب بات کی جا رہی ہے کہ ایران پر مزید مغربی پابندیاں لگائی جائیں گی کیونکہ اس نے اسرائیل پر جوابی حملہ کرنے کی ہمت کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کو اس سال کے آغاز میں امریکی حکومت نے 8 ارب ڈالر کے ایک عسکری امدادی پیکج سے نوازا ہے۔
در حقیقت ”اسرائیل کا حقِ دفاع“ کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی طریقہ کار کے ذریعے اپنی مرضی سے بغیر کسی پابندی کے مداخلت کر سکتا ہے، بمباری، گولی، ناکہ بندی اور سزا۔ جو اپنا دفاع کرنے کی ہمت کریں گے اور واپس جواب دیں گے ان کو دشمن اور دہشت گرد یا اس سے بھی زیادہ شدید الفاظ میں گردانا جائے گا۔ مشرق وسطیٰ کے مخصوص حالات میں یہ ”قوانین کے تحت نظام“ کا اطلاق ہے۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ یہ ”قوانین کے تحت نظام“ کیا ہے؟ یہ ”جمہوری“ حکومت اور ”مغربی اقدار“ کی دیو مالا کیا ہے؟ اس ”قوانین کے تحت نظام“ میں ایک ہی قانون ہے، جو کچھ امریکی سامراج کے مفاد میں ہے اس کے لیے کسی بھی حالت میں ہر ممکن قدم اٹھایا جائے۔ اگر امریکہ یا اس کے اتحادی برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کسی بھی ملک پر بمباری یا فوج کشی کا فیصلہ کریں تو وہ کر سکتے ہیں اور مظلوموں کو اس جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جو بھی سوال کرے گا وہ فوراً مغرب کا دشمن بن جائے گا اور اسے مذمت، پابندیوں اور حملوں کا سامنا کرنا ہو گا، جو امریکی سامراج کی مرضی کے مطابق ہو گا۔
امن کے خلاف کون ہے؟
ماضی کی ان گنت اشتعال انگیزیوں، پچھلے کئی مہینوں کی اشتعال انگیزی اور حملوں کے بعد 2 اکتوبر کو بالآخر ایران نے 180 میزائل داغے جن کا ہدف عسکری اور انٹیلی جنس انفراسٹرکچر تھے۔
توقعات کے مطابق برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے امریکی سامراج کے لیے اپنی مسلسل غلامی کا نیا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ میں ”شدید الفاظ میں معصوم اسرائیلیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ایرانی ریاست کی اس کوشش، اس خوفناک صورتحال کو بڑھاوا دینے اور خطے کو مسلسل (جنگ کے) دہانے پر دھکیلنے کی کوشش کی مذمت کرتا ہوں“۔ امریکی نائب صدر کمالہ ہیرس نے فوراً بیان دیا کہ ”میں بالکل واضح ہوں کہ ایران مشرق وسطیٰ میں ایک عدم استحکام پسند اور خطرناک قوت ہے“ اور ”میری ہمیشہ کوشش ہو گی کہ اسرائیل، ایران اور ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف اپنے دفاع کی صلاحیت کو برقرار رکھے۔“
اس طرح کے بیانات پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی عجیب و غریب دنیا میں زندہ ہیں۔ ایک اسرائیلی ریاست ہے جو ہزاروں افراد کو قتل کر رہی ہے اور کروڑوں زندگیاں برباد کر رہی ہے، ایک ایسی حکومت جس کا وزیراعظم پورے خطے کو جنگ میں دھکیلنے کے حوالے سے اپنے عزائم کا کھلا اعلان کر رہا ہے لیکن یہ ایران ہے جو ایک سیاہ شیطانی قوت ہے اور جو پورے خطے کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہے!
در حقیقت پچھلے پورے ایک سال میں ایران نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ تہران میں اسماعیل ہانیہ کے قتل کے دو مہینوں بعد تک کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔ حماس نے بھی مغرب کا تجویز کردہ امن معاہدہ تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن یہ بینیامین نتن یاہو ہے جو مسلسل جنگ بندی کی ہر کوشش کو سابوتاژ کر رہا ہے۔ لبنانی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اپنی موت سے چند گھنٹوں پہلے حسن نصراللہ خود اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر متفق تھا۔
پھر ایرانی صدر پیزیشکیاں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ ایران امن مذاکرات کے لیے تیار ہے اور مغرب اور اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے خطے کو مستحکم کرنے کو تیار ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ اور مغرب نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ایران ردعمل سے گریز کرتا ہے تو غزہ میں جنگ بندی ہو گی اور ایرانی جوہری معاہدہ ایک مرتبہ پھر فعال ہو جائے گا۔ وہ بائیڈن کے وعدوں پر اعتبار کرنے والا بیوقوف نکلا۔ سب کو نظر آ رہا ہے کہ بنیامین نتن یاہو کی امن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
غزہ میں ایک سال جنگ کرنے کے بعد اسرائیل نے اپنا کوئی ایک سرکاری ہدف پورا نہیں کیا ہے، یعنی مغویوں کی بازیابی اور حماس کا خاتمہ۔ ایک مہینہ پہلے جب نتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر مکاری سے ایک جنگ بندی معاہدہ سبوتاژ کر دیا تھا تو اس کے بعد اس کی مقبولیت گٹر میں پڑی ہوئی تھی، اسے عوامی احتجاجوں یہاں تک کہ ایک عام ہڑتال کا بھی سامنا تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر اس کی وزارت ختم ہوتی ہے تو وہ کورٹ میں سنجیدہ فراڈ کیس بھگتے گا۔ وزارت کو قائم رکھنے کے لیے ہی اسے جنگ کی طوالت درکار ہے اور اگر امریکہ بھی جنگ میں براہ راست ملوث ہو جاتا ہے تو اس کے لیے معاملہ بہترین بن جائے گا۔ اس لیے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے وہ کسی بھی حد کو پار کرنے اور ہر قیمت کو ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی سامراجی اور یورپ میں اس کی کٹھ پتلیاں اپنے ہی غرور اور فخر میں جھوم رہی ہیں اور کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہیں جس سے ان کی کوئی کمزوری ظاہر ہو۔ اس لیے وہ نتن یاہو کے پیچھے اس تباہ کن راستے پر گامزن ہیں۔ وہ جنگ بندی اور استحکام کی ضرورت پر پرجوش تقریریں تو کرتے ہیں لیکن حتمی طور پر نتن یاہو کو معلوم ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے واحد قابل اعتماد اتحادی اسرائیل کا ہی ساتھ دیں گے۔
یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے مغربی قوتوں کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی پر ٹامک ٹوئیاں کرتے ہوئے نتن یاہو اقوام متحدہ کی مجلس عام میں اسٹیج پر دنیا کے لیے ایک پیغام لے کر آیا۔ ”ایران میں کوئی ایسی جگہ نہیں جو اسرائیل کے لمبے ہاتھوں سے دور ہو اور یہی پورے مشرق وسطیٰ کے لیے بھی حقیقت ہے“۔ یہاں ہمیں اسرائیل کے صیہونی حکمران طبقے کی حقیقی آواز سنائی دی۔ یہ مشرق وسطیٰ میں ہر اس فرد اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ تھا جو صیہونی ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کا سوچ بھی لے۔ خطے میں اسرائیل کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کہیں بھی وسعت، مداخلت اور بمباری کا حق رکھے۔
اس حوالے سے ایران اور اس کے حامیوں کا بڑھتا اثر و رسوخ اسرائیلی حکمران طبقے کے لیے ایک رکاوٹ بن چکا ہے۔ اس لیے ایران، حزب اللہ اور کسی بھی اتحادی کو فوری طور پر سزا اور بمباری کے ذریعے سر نگوں کرانا لازمی ہے، چاہے اس عمل میں کتنی ہی جانیں ضائع ہو جائیں یا کتنی ہی نسلوں کو قیمت ادا کرنی پڑے۔
ایران کے ساتھ ایک جنگ کے خطے کے علاوہ پوری دنیا میں تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں تمام ممالک کو ملوث کرنے کے ساتھ ایسی صورتحال امریکہ کو بھی اندر کھینچ لے گی۔ یہی وہ ہدف ہے جس کے لیے نتن یاہو دن رات ایک کر رہا ہے۔ لیکن یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے کہ اس طرح وہ فاتح ہو سکتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت امریکہ اسرائیل کی حمایت میں براہ راست مداخلت کر رہا ہے اور اس کے انتہائی سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ روس تہران کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رہا ہے اور یقینا وہ ایران کی مدد کے لیے ایسے انداز اختیار کر سکتا ہے جن کی فی الحال باریکی سے شناخت نہیں ہو سکتی لیکن یقینا ان کے واقعات پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ جنگ کے موجودہ مرحلے میں روس کی مداخلت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ ایرانی میزائل حملہ، جو اسرائیلی اور مغربی میڈیا کے تمام جھوٹ کے باوجود انتہائی خوفناک تھا، روسی انٹیلی جنس کی مدد سے کیا گیا تھا جس میں خاص طور پر ایرانی سیٹلائیٹوں سے کہیں زیادہ جدید روسی سیٹلائیٹوں کا کردار تھا۔ اگر ایسا ہے تو یہ اسرائیلی حکمران ٹولے اور واشنگٹن میں جنگ پسندوں کے لیے سنجیدہ وارننگ ہے۔
واشنگٹن کی تمام تر بیان بازی کہ امریکہ ”امن کے لیے“ کوشاں ہے، یہ حقیقت نتن یاہو کو ایران کے خلاف کھلی جنگ شروع کرنے سے باز رکھ سکتی ہے۔
دیگر اور عوامل بھی اس وقت سامراجیوں کے ذہن میں ہیں۔ جنگ توقعات سے بڑھ کر کوئی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے اور یکے بعد دیگرے ممالک میں انتشار پھیلا سکتی ہے۔ پھر ایران کو اپنے جوہری تحقیقی پروگرام اور جوہری ہتھیار بنانے کو تیز کرنے کی طاقتور شہہ بھی مل گئی ہے۔ ایرانی قائدین کو اب واضح ہو چکا ہے کہ ایران پر مغربی یا اسرائیلی حملے کے خلاف یہ واحد دیوار ہے۔
عالمی معیشت فوراً ایسی جنگ کے بوجھ تلے دب جائے گی۔ جمعہ کے دن چند لمحوں میں تیل کی قیمتوں میں 5 فیصد اضافہ ہوا، جب یہ خبر آئی کہ بائیڈن حکومت اسرائیلی حکومت کے ساتھ ایران پر ممکنہ جوابی حملے کے حوالے سے ”مذاکرات“ کر رہی ہے۔ اگر خلیج فارس سے تیل کی رسائی انتشار کا شکار ہوتی ہے تو یہ اضافہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اسرائیل ابھی سے ایران میں تیل یا جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی باتیں کر رہا ہے۔ جواب میں ایرانیوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ خلیج میں موجود تیل تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔
اگر خطرات مزید بڑھتے ہیں تو ایران کے پاس صلاحیت موجود ہے کہ آبنائے ہرمرز (Strait of Hormuz)کو بند کر دیا جائے جہاں سے روزانہ دنیا کے 20 فیصد تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ یمن میں حوثی آبنائے باب المندب (Bab-el-Mandeb Strait) بند کر سکتے ہیں جہاں سے روزانہ دنیا کے 30 فیصد تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔
ان اقدامات کے عالمی معیشت پر ہولناک اثرات مرتب ہوں گے جو پہلے ہی بحران کے دہانے پر جھول رہی ہے۔ فوراً سے پہلے عالمی معیشت خوفناک بحران کا شکار ہو جائے گی، افراط زر کا جن بے قابو ہو جائے گا، سپلائی چینز ہوا میں معلق ہو جائیں گی، فیکٹریاں بند اور بیروزگاری تباہ کن ہو جائے گی۔ الام و مصائب مشرق وسطیٰ کی سرحدوں سے نکل کر پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔ پوری دنیا کے محنت کشوں اور غرباء کو سامراجیوں کی خونی مہم جوئی کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
کروڑوں انسانوں کو ممکنہ طور پر درپیش موت اور تباہی سے نتن یاہو یا پاگل اسرائیلی حکمران طبقے کو کوئی غرض نہیں ہے، جو اس وقت اس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ یہی مغربی سامراجیوں کے حوالے سے بھی درست ہے جو مسلسل اسرائیلی افواج کو پیسے، ہتھیاروں اور براہ راست عسکری امداد سے نواز رہے ہیں۔
سرمایہ دار طبقے کا ”جمہوری“ نقاب اتر چکا ہے اور ان کا حقیقی مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے ننگا ہے، یعنی اپنے تنگ نظر مفادات کے دفاع میں ایک طبقہ انسانیت کو بربریت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کو تیار ہے۔ اس حوالے سے کمیونسٹوں کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ انسانیت کے سامنے دو ہی راستے ہیں؛ سوشلزم یا بربریت۔
سامراجیت کے خلاف جدوجہد کرو، سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کرو
کسی بھی شخص کو صیہونی شعلہ بیانی میں پوشیدہ نسلی بالادستی نظریات کو بے نقاب کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی غلیظ نسل پرستی ہے جس کا مغربی میڈیا آئینہ دار بنا ہوا ہے۔ اس نظریے کے مطابق مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی فطرت ہی پسماندہ، پچھڑی ہوئی اور رجعتی ہے۔
لیکن آج کے واقعات ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت آشکار کر رہے ہیں کہ یہ سامراجیت ہی ہے جو پورے خطے میں رجعتی فساد کی جڑ ہے، دہائیوں سے مداخلت، جنگیں اور فرقہ وارانہ فسادات کر رہی ہے، خطے کی معاشی خوشحالی کو روکے ہوئے ہے، پسماندگی اور غربت جبری طور پر مسلط کر رکھی ہے، جبکہ اسرائیل کو تمام سرمایہ کاری اور امداد فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ خطے میں اسے ایک طاقتور سرمایہ دارانہ قوت کے طور پر برقرار رکھا جائے۔
صیہونی اپنے اقدامات کے دفاع میں دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل میں یہودیوں کی سیکیورٹی کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ در حقیقت وہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی زمین پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور مسلسل حالت جنگ میں رہنا ان کا مقصد ہے۔ اس طرح وہ اسرائیلی یہودیوں کے لیے کوئی محفوظ جنت نہیں بنا رہے ہیں۔ اس کے برعکس وہ ان کے لیے ایک جال بُن رہے ہیں، ایک ایسا جال جس کے ذریعے وہ اپنی حکمرانی، مراعات اور منافعوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جب تک اسرائیلی حکمران طبقہ اقتدار میں رہے گا اس وقت تک مشرق وسطیٰ کی عوام کے لیے امن اور بھائی چارہ ناممکن ہے۔ صیہونی ریاست محض مغربی سامراج کی سرحدی چوکی ہے۔ اس کی مکمل مالیاتی، سفارتی اور عسکری پشت پناہی کے بغیر اسرائیلی فوج زیادہ عرصہ تک اپنا وجود نہیں رکھ سکتی۔
وہی لوگ جو مغرب میں محنت کش طبقے کا استحصال اور ان پر جابرانہ تسلط قائم رکھتے ہیں، مشرق وسطیٰ میں نہ ختم ہونے والی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے پیچھے ہیں۔ عراق (1990-91ء اور 2003-11ء) اور افغانستان (2001-21ء)، 2011ء میں شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی جو آج تک جاری ہے، 2014ء میں یمن میں شروع ہونے والی بربریت زدہ خانہ جنگی، لبنان میں ماضی کی جنگیں اور ان سب میں شامل دہائیوں سے فلسطینیوں پر مسلط کردہ جنگ اور بربریت۔
ان سب میں ہمیں ایک یا دوسری شکل میں مغربی قوتوں کی مداخلت نظر آتی ہے۔ بالآخر یہ سب ان تمام جنگوں اور تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں۔
سامراجی جنگ کو طبقاتی جنگ بنا دو!
جو لوگ ہمیں یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ صحت، تعلیم، پینشنوں اور دیگر فلاحی سماجی اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہیں، وہی مشرق وسطیٰ اور یوکرین میں سامراجی جنگیں لڑنے کے لیے اچانک اربوں ڈالر پیدا کر دیتے ہیں۔ فلسطینیوں کو در پیش اسرائیلی جبر اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنگیں مغرب میں محنت کش طبقے کی جدوجہد سے براہ راست جڑی ہوئی ہیں۔
جتنی مرضی پٹیشنیں یا شعلہ بیان لفاظی کر لی جائے، صیہونی جنگی مشین کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ طاقت کا مقابلہ صرف طاقت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کرہ ارض پر سب سے طاقتور قوت محنت کش طبقہ ہے، جو ایک مرتبہ متحرک ہو جائے تو اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو بہا لے جاتا ہے۔ فلسطینی اور لبنانی عوام کی مزاحمت کی حمایت کرنے کا بہترین طریقہ کار اپنے گھر پر موجود دشمن سے جنگ کرنا ہے، یعنی سامراجی ممالک میں حکمران طبقہ اور ان کی حکومتیں۔
ہم اسرائیل کی تمام تر حمایت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں تمام اسلحہ فراہمی کی بندش ہے! لیکن ہمیں کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ سرمایہ دار طبقہ یہ کام کرے گا۔ یہ محنت کش طبقہ اور اس کی تنظیمیں ہیں جنہیں یہ جنگ لڑنی ہے۔ اس لیے ان تمام ٹریڈ یونینز میں قرار دادیں منظور ہونی چاہییں، جو اسلحہ سازی اور تجارت کی جگہوں پر محنت کشوں کو منظم کرتی ہیں تاکہ محنت کشوں کی ہڑتال اور اسلحہ کی ترسیل کی ناکہ بندی کے ذریعے محنت کشوں کا ایک بائیکاٹ منظم کیا جائے۔
اس دوران تمام اسلحہ ساز کمپنیوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں قومیانے کی مہم منظم کرنی چاہیے۔ ذرائع برباد کے بجائے ان جدید صنعتوں کو از سر نو منظم کر کے پورے سماج کی بہتری کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔ ٹینکوں کی جگہ ہم ٹریکٹر اور ایمبولینس بنا سکتے ہیں۔ جنگی ہوائی جہازوں کی جگہ ہم مؤثر عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام بنا سکتے ہیں۔
ہم اسرائیل اور یوکرین کو جاری تمام عسکری امداد کی فوری بندش کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس پیسے کو صحت، تعلیم اور دیگر فلاحی سماجی کاموں کے لیے استعمال ہونا چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کی داد رسی ہو۔
لیکن ہمیں کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اس طرح کا کوئی ایک قدم بھی اٹھائے گا۔ ان کے مفادات محنت کش طبقے کے مفادات کے بالکل متضاد ہیں، چاہے اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک۔
جنگ سرمایہ داری کا جینیاتی جزو ہے۔ بڑھتی جنگیں اور عمومی عدم استحکام نظام کے بحرانوں کا محض اظہار ہے۔ یہ سوچنا یوٹوپیائی ہو گا کہ جنگوں کو ان کی بنیادوں کو ختم کیے بغیر ختم کیا جا سکتا ہے، یعنی خود سرمایہ دارانہ نظام۔
اس لیے اہم ہے کہ ایک عوامی تحریک کے ذریعے ان جنگ پسندوں کو اقتدار سے بے دخل کر دیا جائے جو پوری دنیا کی سیکیورٹی اور امن کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں! انہیں پورے محنت کش طبقے کی متحد جدوجہد کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ یہی وہ واحد طبقہ ہے جس کا امن قائم کرنے میں آفاقی مفاد ہے۔
اسرائیلی جنگی مشین مردہ باد!
مغربی جنگ پسند مردہ باد!
اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی اور لبنانی عوام کی جدوجہد زندہ باد!
بم نہیں کتابیں!
جنگ نہیں صحت!
کوئی جنگ نہیں بس طبقاتی جنگ!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!