|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
28 نومبر کے روز راولاکوٹ میں پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیراہتمام میں لال سلام پبلیکشنز کی نئی شائع ہونے والی کتاب ”کشمیر کی آزادی۔۔ ایک سوشلسٹ حل“ کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف تعلیمی اداروں سے آئے طلبہ، قوم پرست و ترقی پسند تنظیموں کے رہنماو کارکنان اور صحافی حضرات نے شرکت کی۔تقریب کے مہمان خصوصی آدم پال تھے جبکہ تقریب کی صدارت کتاب کے مصنف یاسر ارشاد نے کی اور سٹیج سیکرٹری کے فرائض خالد بابر نے ادا کیے۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود بڑی تعداد میں طلبہ اور سیاسی کارکنان نے تقریب میں شرکت کی۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی چئیرمیں عمر ریاض نے اپنی گفتگو سے کیا۔ عمر نے کہا کہ 5اگست کے مودی حکومت کا جابرانہ اقدام نے کشمیر اور دیگر خطوں کے اندر نوجوانوں اور سیاسی حلقوں کے اندر نئی بحث کا آغاز کیا ہے۔مودی حکومت کے اس ظلم و جبر کے خلاف دنیا کے بیشتر خطوں کے اندر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ایک نئی نظریاتی اور سیاسی بحث کا آغاز اور ماضی کے نظریات اور جدوجہد کے طریقہ کار کا از سرنو جائزہ لینے اور موجودہ عہد میں نئے نظریات سے ہم آہنگی کی اہمیت کے حوالے سے اس کتاب میں مفصل مواد موجود ہے جس پر غورو فکر کرنے اور مستقبل میں درست نظریات پر استوار جدوجہد کو اپنانے کے لیے تمام نوجوانوں،طلبہ اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے احباب کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کے چیئرمین عبید ذوالفقار نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ذوالفقار عادل نے اپنی انقلابی نظم پیش کی۔ اس کے بعد PYO کی طرف سے سے ببرک شریف، JKLFکے چیئر مین صابر کشمیری اورصحافیوں کی طرف سے ریاض شاہدنے اس عظیم کاوش پر مصنف کو مبارک باد پیش کی اور کتاب کے مندرجات کی روشنی میں تنقیدی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا۔
گلگت بلتستان سے تشریف لائے بائیں بازو کے معروف رہنما احسان علی ایڈووکیٹ نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب آزادی کشمیر کے حل کا ایک بہترین سائنسی راستہ فراہم کرتی ہے۔ جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے عوام کی سامراجی ممالک کے قبضے سے حقیقی آزادی ہندوستان اور پاکستان کے محنت کش طبقے کی آزادی سے جڑی ہے۔ ترقی پذیر سرمایہ دارانہ ریاستوں کے حکمران طبقات سامراجی ممالک کی لوٹ مار میں سہولت کارکا کردار ادا کر رہے ہیں اور عوام کی وسیع اکثریت بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہے۔ آج عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے قومی سوال کو طبقاتی سوال کے ساتھ جوڑے بغیر حقیقی آزادی کی جدوجہد ممکن نہیں۔
تقریب کے مہمان خصوصی آدم پال نے تقریب کے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور کتاب کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ برصغیر کی آزادی کا جدید نظریات اور سیاسی جدوجہدکے ذریعے حل پیش کیا گیا ہے، جو قابل تعریف ہے۔ اس کے ذریعے کشمیر اور برصغیر کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کی نئی بحث کا آغاز ہوا ہے جو آنے والے عرصے میں نوجوانوں اور ترقی پسند حلقوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائے گی۔ 5اگست کو ہندوستانی ریاست کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کا فیصلہ کسی انفرادی مرضی و منشاء سے نہیں ہوا بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی دیوہیکل تبدیلیوں کا ہی ایک تسلسل تھا جس کاعالمی صورتحال کو سمجھے بغیر درست ادراک نہیں ہو سکتا۔
اس وقت پوری دنیا کے اندر بنیادی معاشی و سیاسی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران نے مستحکم معیشتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور اس بحران کا ملبہ دنیا بھر کے محنت کش طبقے پر گرایا جا رہا ہے جس کے خلاف مختلف ممالک میں انقلابی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور عام ہڑتالیں بھی ہوئی ہیں جن میں ہندوستان کی 20کروڑ عوام پر مشتمل عام ہڑتال قابل ذکر ہے۔ آج کے عہد کا ہم سے یہی تقاضہ ہے کہ اس عہد کے کردار کو سمجھا جائے اور تمام تر سیاست اور عملی جدوجہد کو اس عہد کے جدید سائنسی نظریات پر استوار کیا جائے جو مارکسزم کے نظریات ہیں اور ایک سوشلسٹ انقلاب ہی طبقاتی جبر کے خاتمے کے ساتھ تمام مظلوم و محکوم قوموں کے حق خود ارادیت اور آزادی کا حقیقی ضامن ہو سکتا ہے۔
آخر میں کتاب کے مصنف اور تقریب کے صدر یاسر ارشاد نے اپنی تفصیلی گفتگو میں تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد سب سے پہلے موجودہ نظام کے کردار کو منظر عام پر لانا ہے۔ 5 اگست کے واقعے کے بعدایک نئی سیاسی ہلچل نے جنم لیا اور خاص کر قوم پرست تنظیموں اور قومی آزادی کی جدوجہد کرنے والے حلقوں میں ایک تحرک پیدا کر دیا۔ اس فیصلے نے نوجوانوں اور عوام کے اندر شدید غم و غصے کو جنم دیا جس کا اظہار ہمیں مختلف احتجاجوں میں نظر آیا لیکن تمام تر سیاسی قیادتیں ماضی کے نظریات اور طریقہ کار کے تحت ہی آزادی حاصل کرنے کی خواہاں ہیں اور اقوام متحدہ اور دیگرسامراجی طاقتوں سے آزادی کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ اس کتاب میں قومی آزادی کے ماضی کے نظریات اور طریقہ کار پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور آج کے عہد سے ہم آہنگ مارکسزم کے نظریات پر مبنی حل بھی پیش کیا ہے۔
تقریب کے اختتام پر سٹیج سیکرٹری خالد بابر نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے سٹال کے متعلق بتایا۔شرکاء نے بڑی تعداد میں سٹال وزٹ کیا اور کتاب خریدی۔