|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان بھر میں حالیہ بارشوں سے اب تک بچوں سمیت 30 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں جانور، کچے مکان اور بچے سیلابی ریلوں میں بہہ گئے جن کی تلاش تاحال جاری ہے۔ صوبائی حکومت نے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کردی مگر عوام بے یار و مددگار اپنی مدد آپ کے تحت اس آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں تین روز کے دوران طوفانی بارش اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 30 ہو چکی ہے اور حکام کے مطابق مرنے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق تین روز کے دوران یہ ہلاکتیں کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، کیچ، مستونگ اور دیگر علاقوں میں ہوئیں ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اس کرہ ارض پر ناسور بن چُکا ہے۔ ایک طرف منافعوں کی ہوس نے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے تو دوسری طرف اس متروک نظام میں بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی صلاحیت نہیں بچی۔ یہ نظام اس حد تک متروک ہو چکا ہے کہ ایک گھنٹے کی بارش نے پورے نظام کو ہی مفلوج کر کے رکھ دیا۔ پاکستان کے حکمران تو تکنیکی لحاظ سے اتنے پسماندہ ہیں کہ انہوں نے 70 سالوں میں بنیادی انفراسٹرکچر (سماجی و مادی) کا کوئی حصہ بھی تعمیر نہیں کیا۔
خشک سالی اور بیماریوں سے تنگ آئے کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کے عوام بارش کی آس لگائے بیٹھے تھے کہ بارش ان پر رحمت نہیں بلکہ آفت بن کر آئی۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے برساتی نالے کئی سالوں قبل ہی حکومتی سرپرستی میں لینڈ مافیا نے قبضہ کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے پانی نالوں کے بجائے آبادیوں میں داخل ہوا جس نے ہزاروں خاندانوں کو متاثر کیا۔ سڑکوں کا نظام درہم برہم ہے اور بارش کے دوران کئی افراد کھلے مین ہول اور گڑھوں میں گر کر زخمی ہوئے۔ اندرون شہر کے علاوہ کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب، قمبرانی، غبرگ، ہزار گنجی، مشرقی اور مغربی بائی پاس پر متعدد ہلاکتیں اور تباہی ہوئی۔ کوئٹہ شہر اس وقت کچرے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ شہر کے کئی علاقوں میں آج تیسرے دن بھی بجلی غائب ہے۔
اگر بلوچستان کے دیگر علاقوں کی بات کی جائے تو وہاں بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور پورے گاؤں سیلاب میں ڈوب گئے ہیں۔ ضلع کلا سیف اللہ کے علاقے خشنوب، جس کی آبادی 25 ہزار ہے، اس وقت سیلاب کی زد میں ہے اور بچوں سمیت کئی افراد سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ کلا سیف اللہ کے ہی ایک اور علاقے پتاو باتیزئی میں بھی سیلابی ریلے سے سینکڑوں مکانات کو نقصان پہنچا اور کئی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ ایسی ہی تباہی ضلع لورالائی میں ہوئی جہاں سیلابی ریلوں نے آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ لورالائی کے علاقے پٹھان کوٹ میں چار بچے اور ایک خاتون سیلابی ریلے میں بہہ گئے جن میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق دو بچوں کی لاشیں ملی ہیں جبکہ لورالائی میں ہی ایک اور واقعے میں دو بچیاں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں جنہیں تاحال نہیں نکالا جاسکا۔ ضلع مچھ میں کوئلے کی کان میں پانی بھر جانے سے چار کان کن ہلاک ہوئے اور سیلاب نے آبادیوں کو شدید متاثر کیا۔
قمر الدین کاریز کا ڈیم ٹوٹنے سے مکانات سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور سینکڑوں افراد نکل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضلع پشین کے علاقے خانی بابا کو جانے والا پُل بھی سیلابی ریلے سے متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے خانی بابا سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ ژوب اور ہرنائی میں بھی بارشوں نے تباہی مچائی جس سے کچے مکانات منہدم ہوئے اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔
کارپوریٹ اور سرکاری میڈیا حکمرانوں کی طرح خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور یہ تمام تر اطلاعات سوشل میڈیا کے ذریعے اکھٹی کی گئی ہیں۔ اس وقت بارش اور سیلاب سے متاثرہ افراد سوشل میڈیا پر حکومتی مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں مگر صوبائی حکومت اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کہیں نظر نہیں آرہی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس تباہی کے ذمہ دار ریاست اور اس پر براجمان حکمران طبقہ، اور یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو عوام کے لئے بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہی سرمایہ دار ماحولیات کی تباہی کے بھی ذمہ دار ہیں چاہے وہ خشک سالی ہو یا طوفانی بارشوں کا سلسلہ۔
سرمایہ دارانہ نظام ہماری زمین اور زندگیوں کو تباہ کر رہا ہے۔ ہمیں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا ورنہ اس نظام کے رکھوالے اپنے منافعوں کی ہوس میں اس سیارے کو جینے کے لائق نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارے سامنے آج دو ہی راستے رہ گئے ہیں ’سوشلزم کی تعمیر یا بربریت‘۔