|تحریر: مارکسزم کے دفاع میں، ترجمہ: عرفان منصور|
دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اتوار کے روز اس وقت شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہو گئے جب اسرائیلی ڈیفینس فورسز کے ایک فضائی حملے نے رفاہ میں بے گھر شہریوں کے لیے بنائے گئے ایک خیمہ کیمپ کو تباہ کر دیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 45 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ سوشل میڈیا مردوں، عورتوں اور بچوں کی جلی ہوئی لاشوں کی تصاویر سے بھرا ہوا ہے جن کو سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ لینن نے ایک بار لکھا تھا کہ سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والی وحشت ہے؛ غزہ میں یہ الفاظ آگ اور خون کی زبان میں دنیا کے سامنے بیان کیے جا رہے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جیسا کہ ہم نے پچھلے ہفتوں میں رپورٹ کیا ہے، جنوبی شہر رفاہ کو ان فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہ ہونا چاہیے تھا جو اسرائیل کی غزہ پٹی پر مسلسل جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں، جس نے پہلے ہی غزہ شہر کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے اور کم از کم 1 لاکھ لوگوں کو ہلاک یا زخمی کر دیا ہے۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے طویل عرصے سے جنوبی شہر پر حملے کی دھمکی دی تھی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اسرائیلی مقصد یعنی کہ حماس کو تباہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔
ہفتوں تک التواء کے بعد، اور مغرب میں اسرائیل کے اتحادیوں کے دباؤ میں آنے کے بعد کہ وہ اس آپریشن کو آگے نہ بڑھائے (ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ یہ فلسطینیوں کی فکر سے نہیں بلکہ اس خوف سے تھا کہ صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی)، یہ آپریشن تین ہفتے پہلے اسرائیل کے مصر کے ساتھ سرحدی راستے پر قبضے کے ساتھ شروع ہوا۔ تب سے شہر شدید فضائی بمباری کا شکار ہے، اور اب ٹینک اس کے مرکز میں داخل ہو چکے ہیں۔
پچھلے تین ہفتوں میں دس لاکھ فلسطینی در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کیلئے رفاہ کو پہنچے ہیں، یاد رہے کہ یہ لوگ پچھلے سات مہینوں میں متعدد بار ایک مقام سے دوسرے مقام پر در بدر ہو رہے ہیں۔ اور اب یہ بے بس لوگ کہاں جائیں؟ جو کچھ شمال میں موجود ہے وہ صرف تباہ شدہ ملبہ، نہ پھٹے ہوئے بم، اور صفائی، پانی اور طبی سہولیات جیسے بنیادی ڈھانچے کی مکمل غیرموجودگی۔ امداد بہت کم ہو چکی ہے، اور بھوک عام ہے۔
جو لوگ رفاہ میں رہ گئے ہیں وہ مصر میں داخل نہیں ہو سکتے، کیونکہ اسرائیل سرحدی راستے کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے اتوار کے المناک واقعات میں دیکھا، شہر کے ’محفوظ‘ علاقوں میں بھی، ان کے سروں پر رات کے وقت گرائے جانے والے 2000 پاؤنڈ کے بموں سے وہ چیتھڑوں میں بدل سکتے ہیں یا زندہ جل سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں؛ ان کے پاس آپشن ہے کہ یا تو وہ وہیں رہیں اور موت کا خطرہ مول لیں، یا فرار ہو جائیں اور موت کا خطرہ مول لیں۔
اسرائیلی ڈیفینس فورسز (IDF) نے بمباری کے بارے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے ”انٹیلی جنس کی بنیاد پر حملہ“ کیا جس کا ہدف حماس کے دو کمانڈر تھے۔ اسرائیلی حکومت کے ترجمان اوی ہیمن کے مطابق، تل ال سلطان کے علاقے میں اقوام متحدہ کی فیسیلیٹی کے قریب بے گھر افراد کے خیموں کے قریب ”کسی طرح ایک آگ بھڑک اٹھی“۔
عینی شاہدین کے بیانات کے برعکس، اسرائیل نے اس بات کی تردید کی ہے کہ حملہ انسانی آبادی کے علاقے الماواسی میں ہوا، جہاں شہریوں کو انخلاء کی ترغیب دی گئی تھی۔ آئی ڈی ایف کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”نقصان کو کم کرنے کے لئے اقدامات کیے گئے تھے اور یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ غیر متعلقہ شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا“، اور مزید کہا گیا کہ ”لڑائی کے دوران غیر متعلقہ شہریوں کو ہونے والے کسی بھی نقصان پر ہمیں افسوس ہے“۔
یہ مکروہ جھوٹ اسرائیل کے جنگ کے دوران کیے گئے طرز عمل کے بالکل برخلاف ہیں۔ کتنی بار غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپ، ہسپتال، شہری اپارٹمنٹ بلاک، مساجد اور اقوام متحدہ کی فیسیلیٹیز کو حماس کے فلاں فلاں کمانڈر کو مارنے کے نام پر بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے؟ اتوار کے واقعات اسی ہی طرزِ عمل کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ رفاہ میں مقیم ایک UNRWA کے نمائندے نے بی بی سی کو بتایا: ”غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، امدادی کارکنان بھی نہیں۔“ سوشل میڈیا ان خوفناک جرائم کے خلاف یکجہتی اور غصے کے پیغامات سے بھرا ہوا تھا، جن میں ”رفاہ آن فائر“ اور ”رفاہ جل رہا ہے“ دونوں ٹرینڈ کر رہے تھے۔
معمول کے مطابق، آئی ڈی ایف نے اپنے منافقانہ ”افسوس“ کے اظہار کے ساتھ ساتھ ”تحقیقات“ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ ہم نے یہ الفاظ پہلے بھی سنے ہیں؛ ہر بار جب ایک جنگی جرم کیا جاتا ہے، آئی ڈی ایف وعدہ شدہ تحقیقات کو طویل عرصے کے لئے معطل کر دیتا ہے، اور آخر میں یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ ایسا ہی ہوا تھا جب آئی ڈی ایف کے ایک سنائیپر نے مشہور فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو قتل کیا تھا؛ اور اپریل میں شمالی غزہ میں چیک پوائنٹ کی طرف جانے والے 15 شہریوں پر گولی چلائی گئی تھی۔ اس معمول کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور اس بار بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا کے لیے زندگیوں کا سودا کر رہا ہے
ایک غیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے نیتن یاہو نے اسرائیل کی پارلیمنٹ سے ایک ذاتی بیان جاری کیا، جس میں اس نے بمباری کو ”ایک افسوسناک غلطی“ قرار دیتے ہوئے فوج کی جانب سے ’واقعے کی تحقیقات‘ کے وعدے کی بازگشت کی۔ نیتن یاہو، جو بالعموم فلسطینیوں کی اموات پر نادم نہیں ہوتا، کا یہ مؤقف عوامی رائے کے دباؤ کی عکاسی ہے۔ ایسے وقت میں جب اندرون و بیرون ملک اسرائیلی جرائم کا دباؤ بڑھ رہا ہے، یہ اس تازہ بربریت کے خلاف جنم لینے والے انتہائی غم و غصے کی گواہی ہے۔
جیسا کہ ہم نے رفاہ میں آئی ڈی ایف کے آپریشنز کے آغاز میں لکھا تھا، نیتن یاہو کی توجہ بنیادی طور پر داخلی سیاست پر مرکوز ہے۔ وہ جنگ کی پیشرفت سے بڑھتی ہوئی مایوسی کا سامنا کر رہا ہے، جو حماس کو تباہ کرنے اور اس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی میں کسی پیشرفت میں واضح طور پر ناکام رہی ہے۔ سرویز میں کمزور ہوتی اپنی پوزیشن اور بینی گانٹز کے گرد موجود اپوزیشن کے دھڑے کی جانب سے جنگ کے خاتمے کے بعد جلد انتخابات کی دھمکیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے نیتن یاہو جانتا ہے اس کا مستقبل اس تنازعے کو طول دینے پر منحصر ہے۔
اسی وقت اس کی مخلوط حکومت کا انحصار اتمار بن گویر اور بیزلیل سموتریچ جیسے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند صیہونیوں کی حمایت پر ہے، جو اپنے عزائم کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں۔ وہ عزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے فلسطینیوں کے مکمل خاتمے یا بیدخلی پر مبنی ایک نیا نکبہ چاہتے ہیں۔ یہ انتہا درجے کے قدامت پسند دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر کسی مستقل جنگ بندی کی طرف کوئی پیشرفت ہوئی تو وہ نیتن یاہو کی حکومت کو گرا کر نئے انتخابات کا مطالبہ کریں گے۔
مزید برآں، نیتن یاہو کئی بدعنوانی کے مقدمات کی نوک پر ہے، جنہیں وہ اس وقت تک مؤخر کر سکتا ہے جب تک وہ عہدے پر فائز ہے۔ لہٰذا، وہ رفاہ پر مکمل حملہ کرنے اور جنگ کو جتنا ممکن ہو سکے جاری رکھنے پر بضد ہے، جس کے نتیجے میں بے پناہ جانی نقصان اور تباہی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں، نیتن یاہو اپنے سیاسی کیریئر اور ذاتی آزادی کی قیمت ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے ادا کر رہا ہے۔
اس ضد کے نتائج اسرائیل کی سرحدوں سے بہت دور تک پہنچتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں عرب عوام فلسطینیوں کے ساتھ گہری ہمدردی اور یکجہتی محسوس کرتے ہیں۔ غزہ میں آئی ڈی ایف کی طرف سے ہر نیا خوفناک عمل اردن، مصر، کویت، سعودی عرب وغیرہ جیسی آمرانہ حکومتوں کے خلاف غصے کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔
ان ممالک کے سرمایہ دارانہ آمروں کو غزہ کی جنگ نے بے نقاب کر دیا ہے۔ آج اپنے ’مسلم بھائیوں‘ کی حالت زار پر زبانی ہمدردی ظاہر کرنے والے یہ وہی منافق ہیں جو اس تنازعہ سے قبل اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ’معمول پر لانے‘ کے عمل سے گزر رہے تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے فلسطینیوں کی مدد کے لئے اپنے تئیں بہتر کچھ نہیں کیا، اور بدترین صورت میں صیہونی حکومت کی براہ راست مدد کی۔
مصر کی فوجی حکومت اور اردنی شاہی خاندان فلسطینیوں کو محدود کرنے کے لیے اسرائیلی سرحدی محافظوں کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ سعودی حکمران حوثی افواج کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام کے جواب میں داغے گئے راکٹوں سے اسرائیل کو بچانے میں مدد کر رہے ہیں۔
جہاں ان ممالک میں فلسطینیوں کے تحفظ کے مطالبے کے لئے احتجاج پھوٹ پڑے ہیں، وہیں ریاستی قوتیں انہیں کچلنے کے لئے بھیجی گئی ہیں، جس سے بڑھتی ہوئے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر نیتن یاہو مزید اقدامات کرتا رہے، تو سماج کے اندر بڑھتے ہوئے دباؤ پر ان حکومتوں کے لئے قابو پانا مشکل ہوتا جائے گا۔ اس کے پھٹنے کا خطرہ ہے، جس سے جنگ غزہ سے باہر پھیل سکتی ہے، یا 2011ء کے بعد اس سے بلند تر پیمانے پر مشرق وسطیٰ میں ایک نئی انقلابی لہر جنم لے سکتی ہے۔
پیچیدہ ہوتی صورتحال پر عالمی سامراجی حکمران تشویش میں ہیں
یہ امکان مغربی سامراجیوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا ہے، جو اس جنگ میں اسرائیل کے بے رحمانہ سلوک کے اثرات سے بے حد فکرمند ہیں۔ انہیں ایک وسیع پیمانے کی جنگ یا انقلابی دھماکے کا خوف ہے، جو اس خطے میں ان کے مفادات کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں، یا پہلے سے ڈاما ڈول عالمی معیشت کو ایک مکمل بحران میں جھونک سکتے ہیں۔
وہ اپنے ملکوں کے داخلی حالات سے بھی پریشان ہیں۔ پچھلے سات ماہ سے مسلسل غزہ سے یکجہتی کے لیے احتجاجوں اور مارچوں کا سلسلہ ایک کے بعد دوسرے ملک میں جاری ہے۔ اس تحریک کو طلبہ کے احتجاجوں اور یونیورسٹیوں پر قبضوں نے مزید تقویت دی ہے۔ اس وقت دنیا میں سو سے زائد یونیورسٹیوں میں طلبہ سراپا احتجاج ہیں اور دھرنے دیے ہوئے ہیں۔ طلبہ کی جدوجہد کو پولیس کے بے رحمانہ جبر، صحافتی گھٹیا تنقید اور بے بنیاد قانونی حملوں کا سامنا رہا، جبکہ اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کا کھل کا مذاق اڑایا ہے۔
اس سب نے نوجوانوں اور محنت کشوں میں پنپتے غم و غصے کو مزید بڑھاوا دیا ہے اور نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت کے فریب کا پردہ چاک کیا ہے، جس کے تحت احتجاج اور بولنے کی آزادی صرف تب تک موجود ہے جب تک وہ سامراجیوں اور ان کے اتحادیوں کے مفادات کے لیے خطرہ نہیں بنتے۔
رفاہ سے آنے والے قیامت خیز نظارے آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرسکتے ہیں۔ ان واقعات نے مغربی حکمران طبقے اور اسرائیل کی مکمل حمایت کرنے والے سیاستدانوں (بشمول فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون) کو خوفزدہ کر دیا ہے، اور وہ ہڑبڑاہٹ میں IDF پر تنقید کر رہے ہیں اور جنگ بندی کے مطالبات پر مبنی بیانات دے رہے ہیں۔ یہ سب انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کی جانب سے استغاثہ کرنے والوں کو نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گالنٹ کے خلاف جنگی جرائم کے تحت وارنٹ گرفتاری کے حصول کی اجازت اور رفاہ میں اسرائیل کو اپنے آپریشنز روکنے کے احکامات کے بعد ہوا ہے۔
اسرائیلی رہنماوں نے معمول کے مطابق حقارت سے جواب دیتے ہوئے دنیا کی اعلیٰ عدالت پر اینٹی سیمیٹک (یہود مخالف) ہونے کا الزام لگایا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین کی جانب سے فلسطینی حکومت کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو بھی تل ابیب کی جانب سے اسی طرح کے واویلے کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ اقدامات دہشت گری کی حمایت کرنے کے مترادف ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (ICC) کی مذمت اور سپین اور آئرلینڈ کے خلاف بات کرکے اسرائیل کی حمایت کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکی سامراج کی مشرق وسطیٰ میں اپنے اہم اتحادی کے حوالے سے بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ نیتن یاہو کو اس کے موجودہ راستے سے ہٹانے کے لیے کوئی تنبیہ مؤثر ثابت نہیں ہو رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صرف سخت الفاظ ہی وہ سب کچھ ہیں جو امریکہ اسرائیل کے خلاف استعمال کرنے کو تیار ہے۔ واقعی، اب رفاہ میں جلتی ہوئی لاشوں پر بہائے جانے والے مگرمچھ کے آنسوؤں کے باوجود، مغربی حکومتوں، بشمول آئرلینڈ اور سپین، غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کررہے ہیں۔ قاتلانہ صیہونی حکومت سمیت کوئی بھی فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔
حالیہ دنوں میں جو غمزدہ بیانات سننے کو ملے ہیں، وہ عوام کو تسلی دینے کے لئے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ سمیت کئی ممالک میں فلسطین کا مسئلہ انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے، اسی لیے ان ممالک میں موجود بڑی پارٹیاں مجبوراً مسئلہ فلسطین پر زبانی کلامی بات کر رہی ہیں۔
بائیڈن کو نظر آرہا ہے کہ اگر مسلمانوں اور نوجوانوں کا ووٹ اس کے خلاف جاتا ہے تو وہ اہم فیصلہ ساز ریاستوں میں الیکشن ہار سکتا ہے۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر پارٹی (جنہوں نے جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیل کی مکمل حمایت کی) نے غزہ کی صورتحال پر اپنی ’تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔ لیبر پارٹی کے کئی ایم پیز، جن کی اگر کوئی معجزہ نہ ہو تو 4 جولائی کے عام انتخابات میں زبردست فتح حاصل کرنا یقینی نظر آتا ہے، نے سوشل میڈیا پر ملے جلے بیانات جاری کیے، جن میں رفاہ میں ہونے والی اموات پر غم کا اظہار، جنگ بندی کا مطالبہ، دو ریاستی حل، اور ایک ”محفوظ اسرائیل“ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
لیبر پارٹی کے لیڈر کیئر سٹارمر کے اس بیان کے بعد کہ اسرائیل کو غزہ کا محاصرہ کرنے کا ”حق“ ہے، اور ہر موڑ پر اسرائیل کے ”اپنا دفاع کرنے“ کے حق کی حمایت کی گئی ہے، جبکہ وہ نسل کشی کر رہا ہے، اس لفاظی کو کوئی بھی سنجیدہ نہیں لیتا ہے۔
ان گھناؤنے منافقوں کو نیست و نابود کر ڈالو!
سرمایہ دارانہ پریس نے بھی اسی طرح اپنا لہجہ بدلنا شروع کر دیا ہے۔ پیئرس مورگن جیسے رجعتی تجزیہ کار اچانک سے دریافت کرنے لگے ہیں ہیں کہ ”ایک پناہ گزین کیمپ میں موجود بے گناہ لوگوں کا قتل ناقابل دفاع ہے۔“ ہم حیران ہیں کہ مورگن کی یہ اخلاقی بصیرت کہاں تھی جب اسرائیل نے نوسیرات پناہ گزین کیمپ، یا المغازی پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی یا دیگر اوقات میں شہری اہداف کو تباہ کیا۔
اس گھناؤنی منافقت کے پیچھے یہ حقیقت موجود ہے کہ فلسطین کا سوال دنیا بھر میں ہر ملک میں طبقاتی جدوجہد میں ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔ سرمایہ داری کے عمومی بحران میں، یہ مسلسل جنگ، غربت، عدم استحکام اور ناانصافی پر سب کے غصے اور بے چینی کے لیے ایک مشعل بن چکا ہے۔
اس کے علاوہ، لاکھوں لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایسے نظام کے دوہرے معیارات کو دیکھ رہے ہیں جو جمہوریت اور قوانین پر مبنی نظام کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن جہاں اس کے مفادات کا تعلق ہے، وہاں دونوں کو ترک کر دیتا ہے۔ اگر رفاہ میں ہونے والی بمباری ایک یوکرینی پناہ گزین کیمپ، سکول یا ایک ہسپتال میں ہوئی ہوتی، تو مغربی پریس اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ پھر یہ نہ کہتے کہ ’ہم ایک اور روسی جنگی جرم کی مذمت کرتے ہیں‘، بلکہ فوری طور پر پابندیوں کا مطالبہ کیا جاتا۔ جبکہ اسرائیل کو صرف ایک برائے نام معافی کا بیان جاری کرنا ہوتا ہے، اور وہ پھر معمول کے مطابق اپنی وحشت جاری رکھتا ہے؛ اور عالمی سامراجی ممالک کی جانب سے اس ’مشکل‘ کے لیے مسلسل رقم اور گولہ بارود کی ایک ناختم ہونے والی رسد سے اسے نواز دیا جاتا ہے۔
مغربی پریس نے 7 اکتوبر کے واقعات کو استعمال کیا، جن میں سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے، اور حماس کی بربریت کے بارے میں ایسی ہیجان انگیز تفصیلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ جن میں سے کچھ ثابت ہی نہیں ہوپائیں اور کچھ اب جھوٹ ثابت ہوچکی ہیں۔ اس کا مقصد غزہ کی پوری آبادی کو ”انسانی شکل میں موجود جانور“ دکھا کر اسرائیل کے انتقام کو جواز مہیا کرنا تھا تاکہ وہ فلسطینیوں پر اجتماعی طور پر قہر برسا سکے۔ ایک جعلی دعویٰ، جو درجنوں اخباروں میں چھپا تھا، وہ یہ تھا کہ حماس نے 7 اکتوبر کو بچوں کے سر قلم کر دیے۔ اب، اسرائیلی دفاعی فورسز کے بموں سے قلم کیے گئے فلسطینی بچوں کی تصاویر پوری دنیا کے سامنے موجود ہیں۔
اور جبکہ پریس میں کچھ افسوس کا اظہار ہورہا ہے، مگر یہ 7 اکتوبر کے بعد ہونے والی پروپیگنڈے کی بھرمار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی اسکے کوئی اہم نتائج ہوں گے، کیونکہ اسرائیل خاموشی سے اس ناخوشگوار ’واقعہ‘ کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ سات مہینوں کے واقعات سے ہمیں یہ بھی سیکھ لینا چاہییے کہ چاہے جتنا بھی فلسطینیوں کا خون بہہ جائے وہ اتنا ارزاں ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کسی قسم کی سنجیدہ کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ صیہونی حکومت کی اخلاقی پستی کی ایسی کوئی حد ہے ہی نہیں کہ جو سامراجیوں کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات توڑنے پر مجبور کرے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مدد کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ محنت کش اور نوجوان ہر ملک میں اپنے سامراجی حکمران طبقات کے خلاف جدوجہد کریں۔ اہم صنعتوں میں ہڑتالوں کی ایک منظم لہر، جو خون آشام درندوں کے خلاف عام سیاسی ہڑتال تک پہنچے، وہی اسرائیلی جنگی مشین کو بانجھ کر سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں انقلابی جدوجہد ضروری ہے، تاکہ فلسطینیوں کو ان کے ڈراؤنے خواب سے آزاد کیا جا سکے، اور ان کی مشکلات کی اصل وجہ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جا سکے۔ مزید وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا!